بیوروکریسی کی سرزنش ، نتائج کیا نکلیں گے؟

پاکستان میں سیاستدانوں اور بیوروکریسی کی دوستی ٹام اینڈ جیری کی طرح ہوتی ہے، اگر دوستی ہے تو ”پکی“ والی دوستی اور اگر دشمنی ہو تو ایک دوسرے کے جانی دشمن !اس لیے اکثر کہتے سنا گیا ہے کہ ملک اس لیے ترقی نہیں کر رہا، کیوں کہ بیوکریسی تعاون نہیں کر رہی یا بیوروکریسی کرپٹ ہے۔ یا دوسری طرف سے یہ بھی سنا گیا ہے کہ حکومت نالائق ہے اس لیے معاملات کو صحیح انداز میں سمجھ نہیں پا رہی، یا اکثر بیورو کریسی یہ کہتی ہے کہ پاکستان میں سیاسی جماعتیں منشور تو لیکر آتی ہیں لیکن ایکشن پلان نہیں لے کر آتیں۔ یعنی یہ کشمکش ہر دور حکومت میں جاری و ساری رہتی ہے۔ موجودہ حکومت بھی جب سے اقتدار میں آئی ہے، تب سے بیوروکریسی میں انقلابی تبدیلیوں کی خواہاں ہیں لیکن کیا کریں، معاملات سلجھنے کی بجائے مزید بگڑ جاتے ہیں۔ اس حوالے سے بیوروکریسی سے متعلق چند ماہ قبل نئے قوانین بھی پاس کیے گئے جن کے بارے میں بعد میں ذکر کریں گے لیکن ابھی گزشتہ دنوں انہیں رولز کے پیش نظر وزیر اعظم نے عمران خان نے بیوروکریسی کے رویے کا سخت نوٹس لیتے ہوئے اطلاعات، زراعت، ایکسائز اور آبپاشی کے سیکرٹریوں،لاہور سمیت پنجاب بھر کے 20 ڈپٹی کمشنرز کو عوام کو سہولیات کی فراہمی کیلئے کارکردگی بہتر بنانے کی ہدایت کی جبکہ 43 اسسٹنٹ کمشنرز کو شوکاز نوٹس جاری کئے گئے ہیں۔وزیراعظم کی ہدایت پر چیف سیکریٹری پنجاب نے ماتحت 1586 افسران کے ڈیش بورڈ کی جانچ پڑتال مکمل کرکے وزیراعظم کو پرفارمنس ڈیلیوری رپورٹ پیش کردی ہے، 263 افسران کو کارکردگی کی بنیاد پر وارننگ،7 سرکاری افسران کو شوکاز نوٹس جاری کردیا گیا، 833 افسران کو محتاط رہنے کی ہدایت جبکہ 111 افسران سے وضاحت طلب کرلی گئی ہے۔ اسے مضحکہ خیز کہہ لیں یا اوور ری ایکٹ کہہ لیں کہ یہ نوٹسز ”نامعلوم“ شکایات پر لیے گئے، یعنی سٹیزن پورٹل پر عوامی شکایات موصول ہوئیں جن پر یہ کارروائی کی گئی۔ اس حوالے سے نہ تو ای اینڈڈی رولز کو فالو کیا گیا اور نہ ہی کسی کی نیک شہرت کا خیال رکھا گیا، بلکہ” مقدس سٹیزن پورٹل “ پر جیسے ہی شکایات موصول ہوئیں ویسے ہی فوری کارروائی کے ذریعے سخت اقدامات کیے گئے۔ اگر ہم عوامی شکایات کی سنجیدگی کو پرکھیں، تو ہمیں 1925کے ایک جج کے ریمارکس ضرور یاد رکھنے چاہیےں ۔ 1925ءمیں لاہور ہائیکورٹ کے ایک انگریز جج نے اپنے ایک فیصلے میں یہ ریمارکس لکھے تھے کہ یہاں کے لوگوں کے نزعی بیان پر بھی یقین نہ کیا جائے کہ یہ مرتے ہوئے بھی جھوٹ بولنے سے باز نہیں آتے۔ یہ ایسا خطہ ہے جہاں نزعی بیان میں بھی دشمنی کا حساب کتاب برابر کیا جاتا ہے اور مخالفین کے پورے پورے خاندانوں کو مقدمات میں نامزد کردیا جاتا ہے۔ ان ریمارکس کا پس منظر بھی جان لیجیے کہ ایک گاﺅں میں ایک لاچار شخص چارپائی پر زندگی کے آخری دن گزار رہا تھا، جس کے بعد اُس کے لیے صرف موت کا انتظار کرنا ہی باقی رہ گیا تھا۔ ایک روز اُس نے اپنے بچوں کو اپنے پاس بلایا اور اُن سے کہا کہ اب میری زندگی کی کوئی اُمید تو باقی رہی نہیں، تم بندوق اُٹھاﺅ اور مجھے گولی مار کر اِس کا الزام اپنے مخالفین پر دھر دو۔ بچوں نے پہلے تو کچھ رد و قدح سے کام لیا لیکن بالآخر اپنے باپ کے کہے پر عمل کرتے ہوئے باپ کو مار کر اس کی لاش مخالفین کی زمینوں میں پھینک دی۔ پولیس آئی مخالفین گرفتار ہو کر سلاخوں کے پیچھے پہنچ گئے۔ ہوتے ہوتے یہ معاملہ لاہور ہائیکورٹ میں جا پہنچا۔ عدالت کے حکم پر معاملے کی نئے سرے سے تحقیقات ہوئیں تو معلوم ہوا کہ اُس روز تو ملزمان گاﺅں میں موجود ہی نہیں تھے۔ اِسی تحقیقات کے نتیجے میں انگریز جج نے ملزمان کی رہائی کا حکم دینے کے ساتھ یہ ریمارکس بھی دیے کہ اب کسی کے نزعی بیان پر بھی اعتبار نہ کیا جائے۔ جس خطے میں شکایا ت کرنے کا یہ عالم ہو، وہاں پھر حکمرانوں کو ذرا احتیاط سے کام چلانا چاہیے، کیوں کہ یہاں 80فیصد شکایت کرنے والے تو گھر سے ہی نہیں نکلتے اور 20فیصد شکایت کرنے والوں میں بھی کہیں نہ کہیں تعصب یا ”بدلہ“ چھپا ہوتا ہے۔ لہٰذاہماری بیوروکریسی اور حکومت کے ٹام اینڈ جیری کھیل میں کہیں نہ کہیں پسند نہ پسند کا عنصر بھی چھپا ہوتا ہے۔ اور ویسے بھی اس میں کوئی شک نہیں پاکستان کو فلاحی ریاست بنانا وزیراعظم عمران خان کا مشن اور عزم ہے لیکن تاحال بیل منڈھے چڑھتی نظر نہیں آرہی جس کی بنیادی وجہ دونوں فریقین کا رویہ ہے۔ اور چونکہ عوام و خواص کو براہ راست افسر شاہی اور حکومت سے ہی واسطہ پڑتا ہے۔ اس لیے دونوں کی کارکردگی کو دیکھتے ہوئے یہ عمل”گونگلوﺅںسے مٹی جھاڑنے“ کے ہی مترادف ہے۔ درحقیقت سول بیورو کریسی میں اصلاحات کے نام پر مختلف حکومتیں مختلف اقدامات عمل میں لاتی رہی ہیںلیکن پولیٹیکل وِل نہ ہونے کی بناءپر پہلے سے چلتا ہوا بیوروکریٹک نظام ٹھیک ہونے کے بجائے ا±لٹا خراب ہوتا چلا جاتا ہے۔ حکومتیں آتی ہیں اور چلی جاتی ہیں لیکن مختلف شعبوں میں کی جانے والی اصلاحات کبھی پروان نہیں چڑھ سکیں۔ اس کی ایک وجہ تو عمومی طور پر یہ ہوتی ہے کہ ہر نئی آنے والی حکومت گزشتہ حکومتوں کے دور میں شروع ہونے والی ریفارمز کو تسلسل دینے کے بجائے اُس میں سے کیڑے نکال کر واویلا مچائے رکھتے ہیں اور اس طرح پولیٹیکل ویکٹامائزیشن کے سہارے اپنا اپنا وقت گزار کر چلے جاتے ہیں اور عوام آئندہ آنے والی حکومتوں سے آس لگا لیتے ہیں۔ اور اب جبکہ تحریک انصاف کے دور میں بھی اصلاحات ہونے کے بجائے اُن کے خلاف انکوائریاں کرنے کے لیے نئے قوانین بنائے گئے ، حکومت نے گزشتہ سال دسمبر میں ”سول سرونٹس ایفی شنسی اینڈ ڈسپلن رولز 2020“ لاگو کیے ن رولز کی رو سے جائیداد اور آمدن میں مطابقت نہ رکھنے والا حکومتی ادارے کا عہدیدار کرپٹ تصور کیا جائے گا اور خورد برد ثابت ہونے پر ریکوری،عہدے سے تنزلی یاجبری ریٹائرمنٹ میں سے کوئی بھی سزا دی جاسکتی ہے۔ الزام علیہ (ملزم) جواب نہ دے سکے تو اتھارٹی 30 دن کے اندر فیصلہ کرے گی۔اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کی جانب سے جاری کردہ 13 صفحات پر مشتمل ایس آر اومیں مس کنڈکٹ کی تشریح کی گئی ہے۔ مس کنڈکٹ سے مراد یہ ہے کہ تقرری، پروموشن ،ٹرانسفر، ر یٹائرمنٹ یا سروس کے دیگر معاملات میں سیاسی طور پر اثر ور سوخ استعمال کرنا۔ کرپشن کے بعد کسی ایجنسی سے پلی بارگین کرنا بھی مس کنڈکٹ تصور ہوگا۔ سول سرونٹ کے خلاف انضباطی کارر وائی جن بنیادوں پر کی جاسکے گی ان میں کسی افسرکی اپنی یا اس پر انحصار کرنے والے اہل خانہ کی جائیداد یں ان کے ظاہری ذرائع آمدن سے مطابقت نہ رکھتی ہوں یا ان کا طرزِ زندگی ذرائع آمدن سے مطابقت نہ رکھتا ہو یا وہ تخریب کاری یا مشکوک سر گرمیوں میں ملوث ہوں یا وہ سر کاری راز کسی غیر مجاز شخص کو بتانے کا مرتکب ہو۔ ایسی صورت میں اس افسر کے خلاف انضباطی کارروائی ہو گی وغیرہ ۔ الغرض مختلف ادوار میں ایک مضبوط سسٹم بنانے کے بجائے اوٹ پٹانگ اقدامات کی وجہ سے سول بیوروکریسی کا حلیہ بگاڑ دیاگیا، اور اب حکومت کے حالیہ اقدامات کی وجہ سے بیوروکریسی کا مورال مزید ڈاﺅن ہو گیا ہے۔ حالانکہ بیوروکریسی ہی وہ واحد شعبہ ہے جو کسی بھی قسم کی حکومت کو فنکشنل رکھنے میں ممد و معاون ثابت ہوتا ہے۔ جن اَدوار میں لوگ گورننس کے نام سے بھی واقف نہیں ہوتے اُن ادوار میں بھی بیوروکریسی کے طفیل کچھ نہ کچھ معاملات چلتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔بیوروکریسی میں لاکھ برائیاں صحیح مگر انہیں ایک سسٹم میں لاکر ٹھیک کیا جا ئے، سیاست کا اس میں قطعاََ عمل دخل نہ ہو، ہمیں اس حوالے سے انڈیا کے ماڈل کو بھی دیکھنے کی ضرورت ہے جہاں کسی بھی ٹھیکے میں سیاسی اثرورسوخ ثابت ہو جائے تو دوبارہ اُس بیوروکریٹ کو کسی بھی بڑے پراجیکٹ کا حصہ نہیں بننے دیا جاتا اس لیے تمام بیوروکریسی ایک سسٹم کے اندر رہ کر کام کرتی ہے۔ اس لیے وہاں ایک بات بہر کیف طے ہے جب بھی معاملات بیوروکریسی کے ہاتھ میں ہوں یا اُنہیں اُن کی مروجہ آئینی حدود میں کام کرنے دیاجائے ملک میں میرٹ اور شفافیت دکھائی دیتی ہے۔ اور کرپشن کا تناسب بھی کم ہوگا، کیوں کہ بھارت میں پراجیکٹس میں کرپشن کا تناسب11فیصد اور ہمارے ہاں 57فیصد ہے۔ میرے خیال میں کام ہمیشہ اُس وقت خراب ہوتا ہے، جب کسی افسر کا کسی خاص شعبے کا رجحان ہی نہیں ہوتا اورذاتی مفاد حاصل کرنے کے لیے اُسے وہاں تعینات کردیا جاتا ہے تو وہ بنابنایا نظام تباہ کرکے رکھ دیتا ہے۔۔اس لیے میری رائے میں بیوروکریسی کے مزاج کو سمجھاجائے اور انہیں اُن پر مسلط ہونے کے بجائے اُن سے ایسا سسٹم بنوایا جائے جس میں وہ خود کو آزاد اور ذمہ دار محسوس کریں، تو یہی بیوروکریسی آپ کو 100فیصد دے گی ، ورنہ ہم مزید نقصان کی طرف بڑھیں گے!