کرپشن کا مرض کیسے ختم ہوگا؟

کیا کریں! سب کچھ کر کے دیکھ لیا مگر کرپشن ہے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی بلکہ آج ہم دوبارہ 15سال پہلے کی جگہ پر آگئے ہیںیعنی 2008ءمیں ہم 144ویں نمبر پر تھے، پھر درمیان میں 119ویں نمبر پر آگئے اور اب پھر ہم 140پر چلے گئے ہیں۔کرپشن کے خاتمے کے لیے قائم ہونے والی عمران خان صاحب کی حکومت اس حوالے سے کچھ بھی کہے مگر بادی النظر میں یہ حقائق درست معلوم ہوتے ہیں کیوں کہ حالیہ سالوں میں سرکاری دفاتر کا تجربہ رکھنے والے افراد جانتے ہیں کہ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کا ادارہ درست فرما رہا ہے۔ اس ادارے کی حالیہ رپورٹ کے حوالے سے اگر ہم اس کا طائرانہ جائزہ لیں توسال 2021میں پاکستان 180ممالک میں 140ویں درجے پر پہنچ چکا ہے۔جبکہ اس سے پہلے 2020میں پاکستان سی پی آئی رینکنگ میں 124ویں نمبر پر تھا۔ رپورٹ میں سی پی آئی اسکور میں 16درجے کی نمایاں تنزلی کی وجہ قانون کی حکمرانی اور ریاستی گرفت کی عدم موجودگی بتائی گئی ہے۔جبکہ اسی فہرست کے بہترین ممالک کا اگر نام لیا جائے تو ڈنمارک، فن لینڈ اور نیوزی لینڈ کو 88اسکور کےساتھ بہترین قرار دیا گیا ہے۔یہ ممالک کیسے ترقی اور ایمانداری کی معراج پر پہنچے اس حوالے سے ایک واقعہ بیان کرتا چلوں جو گزشتہ دنوں پوری دنیا کے میڈیا پر چھایا رہا۔ یہ واقعہ ٹینس سٹار نوواک جوکو وِچ کے بارے میں ہے ۔ سپورٹس سے لگاﺅ رکھنے والے سبھی لوگ انہیں جانتے ہیں، جوکووچ کا باپ سربیا کا اور ماں کروشیا کی تھی۔ سربیا اور کروشیا دونوں یوگو سلاویہ مرحوم کے حصے تھے۔ یوگو سلاویہ کیسے ٹوٹا اور کیسے نصف درجن سے زیادہ ریاستوں میں بٹا، یہ ایک الگ کہانی ہے۔ جوکووچ نے چار سال کی عمر میں ٹینس کھیلنا شروع کر دیا۔بارہ سال کاہوا تو جرمنی کی ایک معروف ٹینس اکیڈمی میں بھیج دیا گیا جہاں چار سال تک اسے ٹینس کھیلنے کی تربیت دی گئی۔چودہ سال کی عمر میں بین الاقوامی مقابلوں میں حصہ لینا شروع کر دیا اور یورپ کے سنگل، ڈبل اور ٹیم مقابلے جیتنے لگا۔ اس کے بعد اس نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔آج وہ ٹینس کی دنیا کا بے تاج بادشاہ ہے اور نمبر ون کھلاڑی۔ کوئی ایسا مقابلہ نہیں جو اس نے جیتا نہ ہو۔ جن لوگوں کو اس کھیل میں دلچسپی ہے وہ سمجھتے ہیں کہ فرینچ اوپن، آسٹریلیا اوپن اور یو ایس اے اوپن کتنے عالی شان مقابلے ہیں جو جوکو وچ مسلسل جیتتا چلا آیا ہے۔اب ہم اصل قصے کی طرف آتے ہیں۔ جنوری 2022 ءیعنی رواں ماہ میں،آسٹریلیا کے شہر میلبورن میں ٹینس کے عالمی مقابلے ”آسٹریلین اوپن“ ہو رہے ہیں۔ دنیا بھر کے ٹینس کے شائقین کی نظریں اس شہر کی طرف ہیں۔ میلبورن آسٹریلیا کی ریاست وکٹوریا کا دارالحکومت ہے۔ وکٹوریا کی ریاستی ( یعنی صوبائی) حکومت نے جوکو وچ اور مٹھی بھر دوسرے کھلاڑیوں اور سٹاف کو کورونا کی لازمی ویکسی نیشن سے مستثنیٰ قرار دیا تھا۔ یہ استثنیٰ ” میڈیکل استثنیٰ“ کہلاتا ہے؛ تاہم پانچ جنوری کو جب جوکووچ میلبورن کے ہوائی اڈے پر اترا تو آسٹریلیا بارڈر فورس نے ( جو ایک وفاقی محکمہ ہے) اسے ایئر پورٹ سے باہر جانے کی اجازت نہیں دی۔ وجہ یہ بتائی کہ جوکووچ استثنیٰ کے معیار پر پورا نہیں اترتا۔ اصل میں کچھ ہفتے پہلے، سولہ دسمبر کو، اس کا کورونا ٹیسٹ مثبت آیا تھا۔ اس کے بعد وہ قرنطینہ میں بھی نہیں گیا۔بہر طور اس کا ویزا کینسل کر دیا گیا اور اسے اس ہوٹل میں نظر بند کر دیا گیا جہاں اس قسم کے دوسرے مسافروں کو رکھا گیا تھا۔ جوکو وچ کے وکیل عدالت میں چلے گئے۔ دس جنوری کو آسٹریلوی عدالت نے تکنیکی بنیادوں پر حکومت کے خلاف فیصلہ دیتے ہوئے لکھا کہ جوکو وچ کو ہوٹل سے باہر جانے دیا جائے، مگر اس کے بعد جوکو وچ نے اعتراف کیا کہ ویزا کی درخواست میں اس نے غلط بیانی کی تھی۔ یہ اور بات کہ اس غلط بیانی کا ذمہ دار اس نے اپنے منیجر کو قرار دیا جس نے ویزا فارم بھرا تھا۔ چودہ جنوری کو وفاقی وزیر برائے امیگریشن نے اپنے قانونی اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے جوکو وچ کا ویزا حتمی طور پر منسوخ کر دیا، اس لیے کہ ایسا کرنا عوامی مفاد میں تھا۔ جوکو وچ کے وکلا نے نظر ثانی اپیل کی مگر تین ججوں کے بنچ نے سولہ جنوری کو ان کی درخواست نا منظور کر دی۔ اسی رات جوکووچ آسٹریلیا سے چلا گیا۔ اس اثنا میں آسٹریلیا کی حکومت پر بے پناہ دباﺅ پڑا۔ سربیا کی حکومت نے پرزور احتجاج کیا۔ کھیلوں کی بین الاقوامی تنظیمیں بھی کھلاڑی کی حمایت میں نکل آئیں۔ آسٹریلیا میں رہنے والے سربیا نژاد افراد نے بھی زور لگایا مگر آسٹریلیا کے وزیر اعظم اور متعلقہ وفاقی وزیر کا ایک ہی جواب تھا کہ قانون، قانون ہے۔ کسی فردِ واحد کو قانون سے مستثنیٰ قرار نہیں دیا جا سکتا! یہ ہوتے ہیں ملک، یہ ہوتی ہیں ریاستیں، یہ ہوتے ہیں ریاستی قوانین ۔ پھر تبھی یہ قومیں کرپٹ نہیں ہوتیں، کیوں کہ اُنہیں ڈر ہوتا ہے کہ اُن کی ریاست میں قانون سب کے لیے برابر ہے۔ جبکہ اس کے برعکس ہمارے ہاں کرپشن کیوں نہ بڑھے؟ ہمارے ہاں تو طاقتور افراد کوئی جرم کرکے پورے پورے ہسپتال کرائے پر حاصل کر لیتے ہیں، طاقتور افراد کے لیے خصوصی پروٹوکولز کا اہتمام کیا جاتا ہے، ان کے لیے رات کو بھی عدالتیں لگتی ہیں، اتوار کو بھی لگتی ہیں اور روزانہ کی بنیاد پر کیسز سنے جاتے ہیں جبکہ غریب اور کمزورافراد کے کیسز کی باریاں 3,3سال بعد بھی نہیں آتیں! اگر حالات ایسے ہوں گے تو کون کہتا ہے کہ کرپشن نہیں ہوگی۔ پھر جس کا جہاں داﺅ لگتا ہے وہ لگاتا ہے اور خوب لگاتا ہے۔ ہاں! اب اگر یہاں یہ سوال ہوتا ہے کہ کرپشن کم کیوں ہوتی ہے اور زیادہ کب ہوتی ہے تو اس کا تعلق براہ راست مہنگائی سے ہے۔ اور یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ مہنگائی پہلے سے زیادہ ہوچکی ہے اور جب مہنگائی زیادہ ہوگی تو ہر سرکاری افسر و ادارہ یا ہر شخص اپنا ریٹ دوگنا کردے گا اور پھر جو بندہ کرپشن نہیں بھی کرتا وہ بھی کرنا شروع کردے گا۔ میں اکثر یہ بات کہتا ہوں کہ ایک سی ایس پی آفیسر کی تنخواہ اگر ایک لاکھ روپے رکھی جائے اور اُس کے اخراجات 4لاکھ روپے کے ہوں تو وہ باقی اخراجات کہاں سے پورے کرے گا؟ اور ایسے حالات میں تو یہ بات اور بھی پختہ ہو جاتی ہے کہ اُس کے پاس کروڑوں روپے کے اختیارات بھی ہوتے ہیںتو پھر وہ کرپشن نہ کرے تو اور کیا کرے۔ اور پھر سب سے اہم بات یہاں یہ ہے کہ یہاںہماری خلاقی تربیت نہیں ہوتی، ”رزق حلال“ اور” رزق حرام“ میں فرق ختم ہو چکاہے۔ اور اس چیز کے ذمہ دار کوئی اور نہیں بلکہ تعلیمی ادارے اور ہمارے علمائے کرام ہیں، کیوں کہ نہ تو ہمارے نصاب میں اخلاقیات کا درس دیا جاتا ہے ، نہ اساتذہ طلبہ کی اس جانب توجہ دلاتے ہیں اور نہ ہی ہمارے علماءکرام کسی اجتماع میں یا جمعہ کی نماز کے دوران کرپشن ، بے ایمانی یا بددیانتی کے حوالے سے عوام کی اصلاح کرتے ہیں۔ بلکہ یہ تک نہیں بتایا جاتا کہ حرام کا ایک لقمہ کھانے سے انسان پر کیا اثر پڑ سکتا ہے۔ حالانکہ اس حوالے سے احادیث نبوی موجود ہیں کہ (حدیث شریف کا مفہوم ہے) بندہ جب حرام لقمہ پیٹ میں ڈال لیتا ہے تو چالیس دن تک اُس کا کوئی عمل قبول نہیں ہوتا ۔اور تو اور حکومتی سطح پر بھی کوئی ایسا پروگرام شروع نہیں کیا جاتا کہ آپ کرپشن سے دور رہیں، یا کرپشن سے دور رہنے کے کیا طریقے ہیں یا اُن سے کیسے دور رہا جا سکتا ہے، اس حوالے سے نہ تو کوئی سیمینار کروایا جاتا ہے نہ ہی اس حوالے سے حکومت کا کوئی ادارہ جاتی پروگرام موجود ہے۔ بہرکیف مسئلہ یہ نہیں ہے کہ ہم 124سے 140پر کیسے آگئے، مسئلہ یہ ہے کہ یہ ہو کیوں رہی ہے، کیوں یہ بات تو طے ہے کہ جب عوام کو حکومت پر سے اعتماد اُٹھ جائے، چیک اینڈ بیلنس ختم ہو جائے، سسٹم کمزور ہو جائے ، انصاف کا شعبہ کام کرنا بند کردے، اشیائے ضروریہ انسان کی پہنچ سے دور ہو جائیں اور حکمران ذاتی جائیدادیں بنانے میں اپنی توانائیاں صرف کرنا شروع کردیں تو یقینا کرپشن بڑھ جائے گی۔اور پھر جتنے مرضی نیب جیسے ادارے بنا لیں کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ بلکہ میں تو یہاں یہ کہوں گا کہ اس وقت پاکستان میں کرپشن کی سب سے بڑی وجہ خود نیب ہے، کیوں کہ نیب ابھی تک کسی بڑی مچھلی کو سزا نہیں دے سکی، کسی سیاستدان سے ریکوری نہیں کر سکی، اربوں روپے کے بے نامی اکاﺅنٹس پکڑے گئے مگر مجال ہے کہ کسی پر انکوائری لگی ہو کہ یہ کس کے پیسے تھے، اور کون کون جمع کروا کر منی لانڈرنگ کرتا رہا، حالانکہ یہ اتنے سادہ کیسز ہیں کہ عام آدمی کو بھی سمجھ آجائے کہ جب اکاﺅنٹ کھلا، اُس وقت کے برانچ منیجر کو پکڑا جائے، کیوں کہ اُس کی مرضی کے بغیر کروڑوں روپے کی ٹرانزیکشن ہو ہی نہیں سکتیں، اور پھر جب اتنی بڑی بڑی ٹرانزیکشنز ہوتی رہیں، اُس وقت کے آفیسرز کو پکڑا جائے یا افسران کو پکڑا جائے تو دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہو جائے گا۔ لیکن اگر ادارے ہی کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر لیں اور حکمرانوں و سیاستدانوں کے دست راست بن جائیں تو پھر سب لوگ اپنا اپنا مال بٹورنے میں لگ جاتے ہیں اور ادارے خود کرپٹ ہو کر آپ کو راستہ دکھاتے ہیں کہ پلی بارگین کر لو یا اداروں سے بالا بالا مک مکا کر لو یا بیرون ملک بھاگ جاﺅ۔ اور پھر اسی وجہ سے عوام، سرکاری افسران اور سیاستدانوں کے اندر سے خوف ختم ہو گیا ہے، کہ اگر وہ کرپشن کریں گے تو اُنہیں کوئی چیک کرنے والا بھی موجود ہوگا۔ الغرض جب کسی ریاست میں اداروں کا ڈر ختم ہو جائے، ملک کی رٹ مضبوط نہ رہے، اخراجات اور آمدن کا توازن قائم نہ رہ سکے تو پھر کرپشن ہوتی ہے، لہٰذااگر حکومت چاہتی ہے کہ کرپشن کا خاتمہ ہوتو سب سے پہلے وہ اپنی رٹ مضبوط کرے، طاقتوروں کو سزا دے، چیک اینڈ بیلنس کا نیا سسٹم متعارف کروائے، اور لوگ کا انصاف کے حوالے سے اعتماد بحال کروائے، اور اس سے بھی بڑھ کر عوام کا مورال بلند رکھے تاکہ یہ ملک ترقی کر سکے۔ تاکہ سات عشروں میں ہر شعبے میں سرایت کرجانے والے کرپشن کی ہلاکت خیزی سے بچاﺅ کے لئے پورے سسٹم کی اوورہالنگ ہوسکے۔ اس کے لئے وسیع مشاورت اور جامع منصوبہ بندی سے ایک طویل مدتی لائحہ عمل کا متفقہ میثاق بھی ضروری ہے جس کے لئے تمام سیاسی و سماجی مکاتب فکر کے صاحبان دانش کو مل کر کام کرنا اور سازگار فضا بنانا ہوگی تاکہ یہ ملک مزید پیچھے نہ چلا جائے اور ہم منہ پھر بھی ہاتھ ملتے رہ جائیں! #Talkhiyan #Ali Ahmed Dhillon