5جولائی1977ء: سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد سیاہ ترین دن!

پانچ جولائی 1977 کو 44سال بیت گئے۔ یہ وہ دن ہے جب پاکستان میں جنرل ضیا نے مارشل لا نافذ کیا تھا۔ ہم ہر سال پانچ جولائی کو ”یوم سیاہ“ کے طور پر مناتے ہیں لیکن اس بات پر غور نہیں کرتے کہ پانچ جولائی 1977 ہماری زندگیوں میں کیوں آیا تھا ، بعد میں اس کے کیا کیا نقصانات ہوئے اور یہ اب تک ختم کیوں نہیں ہوا؟ان سوالوں کے جوابات بہت پیچیدہ ہیں، میرے خیال میں اگرجنرل ضیاءالحق (مرحوم)بھی زندہ ہوتے تو وہ بھی نہ دے سکتے، کیوں کہ انہوں نے تو ایک ناپسندیدہ اور نامناسب اقدام اُٹھایا ہی لیکن بعد میں آنے والوں نے بھی اسی روایت کو اپنایا۔ذوالفقار علی بھٹو بھی نڈر، بے باک اور کچھ کر گزرنے والے سیاستدان ضرور تھے مگر اقتدار کا طول اور شخصی آمریت اُنہیں بھی لے ڈوبی تھی۔ یہ اُنہی دنوں کی بات ہے جب بھٹو اقتدار میں تھے، ہم بھی زمانہ طالب علمی میں تھے، سرگودھا گول باغ میں قومی اتحاد کا جلسہ ہوا تو طالب علم بھی اس میں کشاں کشاں گئے۔ بھٹو کا انتخابی جلسہ سرگودھا سٹیڈیم میں ہوا اپنے اندر کے سیاسی کیڑے کی وجہ سے میں بھی دیکھنے گیا۔ سٹیج پر صرف ایک کرسی تھی جس پر بھٹو صاحب بیٹھے تھے، گورنر، وزیراعلیٰ اور آفسر ہاتھ باندھے کھڑے تھے بھٹو نے چن چن کر اپنے مخالفوں کو نشانہ بنایا کہا یہ مفتی ، یہ نورانی ، یہ مزاری ،یہ سب حلوہ خور اور نااہل ہیں۔انتخابی بخار بڑھا تو میں بھی ہر انتخابی جلوس میں موجود ہوتا، کبھی بسوں کی چھتوں پر سوار ہوتا تو کبھی میلوں پیدل چلتا۔تبھی ایک وقت آیا کہ میں بھی ایک طالب علم سے پیپلزپارٹی کا مکمل جیالہ ورکر بن گیااور مارشل لاءکے دور میں قید وبند کی صعوبتیں بھی کاٹیں۔ خیر اگر یہ کہا جائے کہ وہ کیا وجوہات تھیں جن کی بنا پر جنرل ضیاءالحق نے جمہوریت کی بساط لپیٹی تو یہ 1976 کے اوائل کی بات ہے جب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو ایک اہم فیصلہ کرنا تھا۔ آرمی چیف جنرل ٹکا خان کی مدت ملازمت پوری ہو رہی تھی اور انہیں اب اس منصب پر نیا فرد مقرر کرنا تھا۔ وزارت دفاع 5 سینئیر ترین جنرلز کے نام ایک سمری کی صورت میں وزیر اعظم آفس بھیج دیتی ہے۔ وزیر اعظم اس سمری کے برعکس ایک فیصلہ کرتے ہیں اور وہ فیصلہ جو شاید کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا اور وہ یہ تھا کہ وہ اس لسٹ میں آٹھویں نمبر پر ہونے والے شخص کو آرمی چیف مقرر کر دیتے ہیں اور جس شخص کو وہ اس منصب پر فائز کرتے ہیں وہ تھے اس وقت کے لیفٹیننٹ جنرل ضیاءالحق۔ سارے ٹاپ آفیشلز حیران تھے کہ یہ کس قسم کا فیصلہ ہے اور یہ کیوں گیا ہے مگر اس کی ایک بنیادی وجہ یہ تھی کہ بھٹو صاحب ایسا شخص اپنے ماتحت طاقتور عہدہ پر رکھنا چاہتے تھے جو ان کا تابع دار ہو اور نا ہی ان کی حکومت کو اور ان کو اس شخص سے نا کوئی خطرہ ہو۔ اور جنرل ضیاءبھٹو صاحب کے اس معیار پر پورا اترے اور انہوں نے بھی بھٹو صاحب کی قربت لینے کا کوئی موقع ہاتھ سے نا چھوڑا۔ بھٹو صاحب عوامی لیڈر تھے، درجنوں متنازعہ اقدامات کے باوجود عوام میں اُن کی مقبولیت میں کمی نہیں ہو رہی تھی۔ اسی عوامی مقبولیت کی بنیاد پر انہوں نے قبل از وقت انتخابات کا اعلان کیا، 1977 میں اور تمام اپوزیشن جماعتیں پاکستان قومی اتحاد کے نام سے انتخابی اتحاد بنا کر پیپلز پارٹی کے خلاف انتخابات لڑتی ہے۔ پہلی قومی اسمبلی کی 200 نشستوں پر پہلے انتخاب ہوتے ہیں جس کے نتائج کے مطابق پیپلز پارٹی کو 155 نشستیں ملتی ہیں۔ دھاندلی کا شور اٹھتا ہے اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے بائیکاٹ کے اعلان کے بعد پی این اے احتجاجی تحریک چلاتی ہے اور وزیر اعظم سے استعفی کا مطالبہ کرتی ہے۔ بد ترین سنسرشپ کے باوجود تحریک چلتی ہے اور وہ تحریک اچانک تحریک نظام مصطفی بن جاتی ہے اور اور شدت اختیار کرنے لگتی ہے۔ ملک کے ہر گلی کوچے میں احتجاج ہو رہا ہوتا ہے اور اس دوران 200 افراد مارے جاتے ہیں۔اس تحریک کا فائدہ جنرل ضیاءنے بھی اُٹھایاجو پہلے ہی بھٹو کے خلاف ہو چکے تھے۔ اور مناسب وقت کے انتظار میں تھے۔انہوں نے اپوزیشن کی سپورٹ کی۔ لیکن دوسری جانب حکومت اور اپوزیشن مذاکرات کے بعد ایک معاہدہ پر پہنچ ہی گئے تھے اور دستخط بھی ہونے کے نہایت قریب تھے۔ لیکن جنرل ضیاءکو خبر ملی تو انہوں نے فوری کارروائی کا فیصلہ کیا۔ 4 جولائی 1977 کی شب جنرل ضیاءنے امریکی سفارتخانے میں امریکہ کے یوم آزادی کی تقریب میں شرکت کی۔ اس کے بعد 111 بریگیڈ نے اپنے پلان پر آغاز کیا۔ اس آپریشن کا نام ”آپریشن فیئر پلے“ رکھا گیا۔ 4 اور 5 جولائی کی شب 1۔ 2 بجے آپریشن مکمل ہو چکا تھا۔ دارالحکومت اور تمام اہم شہروں کی سرکاری عمارتوں کا کنٹرول فوجی دستے سنبھال چکے تھے اور پی ٹی وی اور ریڈیو پاکستان کی عمارت پر قبضہ ہو چکا تھا۔ جب وزیر اعظم ہاﺅس میں وزیر اعظم کو گرفتار کیا گیا تو انہوں نے جنرل ضیاءکو فون کیا تو انہوں نے بتایا کہ سر آپ کو کچھ دنوں کے لئے حفاظتی تحویل میں لے رہے ہیں۔ آپ کے تحفظ کے لئے۔ ملک میں نقص امن حد سے بڑھ گیا ہے۔ یہ تھوڑے دنوں کی بات ہے۔ حالات نارمل کر کے آپ کو چھوڑ دیا جائے گا جس پر معزول وزیر اعظم نے اطمینان کا اظہار کر کے فون بند کر دیا مگر انہیں کیا معلوم تھا کہ یہ مکالمہ ان کو پھانسی کے پھندے تک لے کر جائے گا۔ اس کے بعد جنرل صاحب تقریر کر کے بتاتے ہیں کہ آئین تیسری دفعہ معطل کر دیا گیا ہے اور اسمبلیاں تحلیل کردی گئی ہیں اور 90 روز میں نئے انتخابات کروائے جائیں گے۔ مگر تاریخ گواہ ہے کہ شروع کے چند دن تو لگا کہ مارشل لا کے بعد 90 دن بعد الیکشن ہو جائیں گے اور جمہوریت پھر سے چل پڑے گی مگر اس سیاہ دن مکمل جمہوری اقتدار کا جو سورج غروب ہوا وہ 44 سال گزرنے کے باوجود ابھی تک گہنایا ہوا ہے۔ جمہوری چکا چوند کے بعد آمریت کی لمبی رات اور پھر آدھا تیتر آدھا بٹیر نظام نے ماضی کے رومانس میں اضافہ کر دیا۔ جوں جوں وقت گزرتا گیا 90 روز سالوں اور پھر پوری دہائی تک پھیل گئے ضیا آمریت سے طالب علموں، عورتوں، وکیلوں اور سیاستدانوں کے اختلاف بڑھتے گئے۔ ہمارا یونیورسٹی کا زمانہ گھٹن اور دباﺅ میں گزر گیا”یہ نہیں کرنا اس کی اجازت نہیں ہے۔وغیرہ “ضیا آمریت کا آسیب معاشرے پر اس قدر غالب آگیا کہ اقدار ہی بدل گئیں۔ مصنوعیت، منافقت اور جارحیت عام ہو گئی۔ توازن، اعتدال اور برداشت کی خوبیاں غائب ہو گئیں۔ اب ضیا دور کو گئے کئی دہائیاں گزر گئیں مگر اس کا آسیب آکاس بیل کی طرح معاشرے کو ایسا چمٹا ہے کہ اسے ریزہ ریزہ کرنے کے درپے ہے۔ فرقہ بندی، ذاتیں، خانہ جنگی ، کلاشنکوف اور ہیروئین کلچر وہ تحفے ہیں جو پانچ جولائی کا آپریشن فیئر پلے پاکستان کو سونپ دیا گیا۔ لاکھ کوششوں کے باوجود ہم پانچ جولائی 1977سے پہلے والا پر سکون معاشرہ واپس لانے میں ناکام ہیں۔دوسری طرف جنرل ضیا الحق نے افغانستان میں روسی مداخلت کے خلاف امریکہ کی مدد سے عملی مزاحمت اور خفیہ امداد کا سلسلہ شروع کر دیا۔ پڑوس میں تیسری عالمی جنگ کے شعلے بلند ہوتے رہے پاکستان میں بھی اس آگ سے بہت کچھ بدل گیا۔ تخریب کاری، بم دھماکے، افغان مہاجرین اور ہیروئین اور کلاشنکوف جیسی وبائیں اسی جنگ کا نتیجہ تھیں۔ عالمی سامریت کا ساتھ دیتے دیتے جنرل ضیا الحق نے اپنے توسیعی عزائم کے خواب دیکھنے شروع کر دیے۔ افغانستان تو آخر تک ان کا میدان عمل رہا۔ ساتھ ہی ساتھ روس اور چین کے مسلم شدت پسندوں کو بھی پاکستان لا بٹھایا۔ انڈیا کے سکھوں میں آزادی کی تحریک کے حوالے سے بھی امداد شروع کی۔ اپنی ذات سے بڑے اور اپنی ریاست سے کہیں عظیم تر منصوبے با لآخر ناکام ہو گئے اور ان کا خواب میں بنایا ہوا تاج محل ان کی زندگی کے ساتھ ہی گر پڑا۔ ان کی توسیع پسندانہ اور شدت پسندانہ پالیسیاں آج بھی پاکستان کے گلے پڑی ہوئی ہیں۔ اسامہ بن لادن پر حملہ اور پھر دنیا بھر میں دہشت گردی کے نشانات کا ہمارے ملک تک پہنچنا دراصل جنرل ضیا الحق کی بوئی ہوئی وہ فصل ہے جسے ہم آج تک کاٹ رہے ہیں۔پھرجنرل ضیا الحق نے سیاست کو تباہ کر کے رکھ دیا۔ 1985 کے غیر جماعتی انتخابات میں انہوں نے ایک ایسی پود تیار کی جو ترقیاتی فنڈز کے کمیشن سے اپنی سیاسی راجد ھانی مضبوط بناتی رہے۔سیاست میں کرپشن، کمیشن اور اجارہ داری جنرل ضیا الحق کے دور میں عام ہوئی۔ سیاسی جماعتیں کمزور اور انتخابی گھوڑے مضبوط ہو گئے۔اور پھر یہ ”گھوڑے“ سیاست کے ساتھ ایسے جڑے کہ جس کے اثرات آج بھی دیکھے جا سکتے ہیں خود ریاستی ادارے تسلیم کرتے ہیں کہ 1985کی سیاسی نسل نے بہت نقصان پہنچایا۔ بہرکیف پانچ جولائی 1977کو گزرے 44 سال ہو گئے مگر اس کے اثرات کی اندھیری رات لمبی سے لمبی ہوتی جارہی ہے۔ آزادی ، مساوات اور بھائی چارہ جاتا رہا۔جمہوریت کا گلا گھونٹا گیا، فرد واحد کے فیصلے مسلط کیے گئے، شدت پسندی کو فروغ ملا، امریکا نے ہم سے ایسی گیم کھیلی، جس میں ہم آج تک پھنسے ہوئے ہیں، اور جب بھی امریکا کو اپنے مفادات کی ضرورت ہوتی ہے، وہ ہم پر 5جولائی مسلط کر دیتا ہے، وہ ہم پر ایک ڈکٹیٹر بٹھا دیتا ہے، اور پھر وہی شخص فیصلے کرتا ہے، اُس کے پاس اختیارات کی بھرمار ہوتی ہے، اُسے عالمی طاقتیں اپنی منشاءکے مطابق استعمال کرتی ہیں،چونکہ چیزیں جب پارلیمنٹ میں ڈسکس ہوتی ہیں تو اُس سے امریکیوں کو نقصان ہوتا ہے، اس لیے ہماری جمہوریت امریکا کو پسند نہیں ہے۔ میں پانچ جولائی کو 1971ءکی جنگ کے بعد تاریخ کا سب سے سیاہ ترین دن سمجھتا ہوں، جب سیاست کا رُخ ہی موڑ دیا گیا۔ان سالوں میں ایک تبدیلی البتہ صاف نظر آتی ہے کہ کوئی سیاسی جماعت یا کوئی بھی ادارہ، جنرل ضیا الحق کی پالیسیوں کا مداح نہیں رہا ایک عمومی اتفاق رائے ہے کہ پانچ جولائی 1977 اور اس کے بعد 11سال تک جنرل ضیا الحق نے جو کیا وہ ملکی مفاد میں نہیں تھا۔ ان پالیسیوں سے ملک کمزور ہوا، عوام تقسیم ہوئے اور ہم سب غیر محفوظ ہوگئے۔لیکن اس بات کو آج تک سدھارنا تو دور کی بات کسی نے تسلیم بھی نہیں کیا۔ اور غلطی سدھارنے کی پہلی شرط بھی یہی ہے کہ سب سے پہلے کی گئی غلطی کو دل سے تسلیم کر لیا جائے!! #Talkhiyan #Ali Ahmed Dhillon #5 July 1977 #East Pakistan #General Zia #martial law #Pakistan #Black Day