”مدرسہ اصلاحات“ وقت کی ضرورت !

ایسے موضوعات پر لکھنے کی ہمیشہ ممانعت ہی رہی ہے کہ یہ حساس موضوعات ہوتے ہیں اور ان پر ہمیشہ ”چپ“ ہی اختیار کی جانی چاہیے۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی بتائی جاتی رہی ہے کہ ایسی تحریریں معاشرے میں غلط تاثر چھوڑتی ہیں ۔ حالانکہ جب تک ہم کسی مسئلے کو موضوع بحث نہیں بنائیں گے، ڈسکس نہیں کریں گے، اپنی غلطیاں تسلیم نہیں کریں گے تب تک ہم کسی مسئلے کے حل کی طرف کیسے جائیں گے؟ اور پھر موجودہ دور سوشل میڈیا کا دور ہے، ہر چیز تک ہر کسی کو رسائی حاصل ہوچکی ہے۔ہم بطور مصنف جب کسی اہم موضوع پر ہاتھ صاف کر رہے ہوتے ہیں تو جدید سوشل میڈیا پر نہ صرف اُس کا ”آپریشن“ کیا جا چکا ہوتا ہے۔ بلکہ ہر کوئی مخصوص ”واقعہ“ کے سیاق وسباق کے بارے میں بھی جان چکا ہوتا ہے۔سوشل میڈیا کی آمد سے پہلے یہ سارا نظام ”نہ دیکھو، نہ کہو، نہ سنو“ کی بنیاد پر چلتا رہا۔ مگر اب ’می ٹو‘ جیسی تحریکوں اور موبائل کیمرے کی ایرے غیرے تک رسائی نے اس مشق ِناگفتنی و علتِ مشائخ کے چہرے سے نقاب کھینچنا شروع کر دیا ہے۔ لہٰذاحالیہ مخصوص واقعہ اب کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے، یہ وہی عزیز الرحمن (مفتی) کا اپنے طالب علم سے زیادتی کا واقعہ ہے جو آج کل زبان زد عام ہے ۔ خوشی اسی بات کی ہے کہ اس واقعے کو پہلے کی نسبت زیادہ موضوع بحث بنایا جا رہا ہے، اور طالب علم کے حق میں آوازیں بلند ہو رہی ہیں۔ہمارے ایک خاص طبقے کو بھی چاہیے کہ وہ آواز بلند کرے، ویسے معذرت کے ساتھ جیسے آجکل خاموشی ہے کیا ہم یہی روش ہم دیگر معاملات میں بھی اپناتے ہیں ؟ باقی معاملات میں تو ہم خود قانون ہاتھ میں لے کر بندے کو ’کیفر کردار ‘تک پہنچاتے ہیں ، شہر کا شہر مفلوج کر دیتے ہیں ، پولیس کے جوان شہید کر دیتے ہیں، اقلیتوں کی بستیوں کو آگ لگا دیتے ہیں ،اب کی بار بھی پراسرار خاموشی نہیں ہونی چاہیے، کم از کم ایک جلوس تو اُس طالب علم کے لیے نکلنا چاہیے جو تین سال تک زیادتی برداشت کرتا رہا؟ کیوں کہ دنیا یہ بات جان چکی ہے کہ اگر آج اس واقعہ پر آواز نہیں اُٹھائی گئی تو ہمارا حال بھی ”چرچ سکینڈل“ جیسا ہوگا۔ جی ہاں یہ وہی چرچ سکینڈل ہے جسے ہزاروں سال لگے یہ بات تسلیم کرنے میں کہ چرچ اور اس سے ملحقہ اداروں بالخصوص تعلیمی اداروں میں جنسی استحصال اور زیادتی ایک شرمناک اور کربناک حقیقت ہے اور یہ بھی کہ چرچ کے ذمہ داران ہمیشہ سے اس پر پردہ ڈالتے چلے آئے ہیں تاکہ مسیحیت پر حرف نہ آئے۔پھر آخر کار 2001 میں پوپ جان پال دوئم کا اس حوالے سے اقرار،اور پھر2009 میں پوپ بینیڈکٹ شانزدہم کی معافی اور پھر 2018 میں پوپ فرانسس کی عوامی شرمندگی اور پھر ان کے اظہار معذرت سے کلیسائی اصلاحات کا ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔ چرچ کو یہ اقرار بھی کرنا پڑا کہ ایسے واقعات کے ثبوت گیارہویں صدی سے ذمہ داران کلیسا کے پاس ہیں لیکن مسیحیت کے دفاع کے لیے ان کو چھپائے رکھنا ہی بہتر سمجھا گیا پر اب چرچ اس بات کا اقرار کرتا ہے کہ یہ حکمت عملی نہ صرف غلط تھی بلکہ یہ ان تمام لوگوں کے ساتھ بھی شدید ظلم تھا جو اس ایک ہزار سال میں پادریوں، ننز اور کلیسا کے عہدیداران کے ہاتھوں جنسی استحصال کا شکار ہوئے۔ جنسی استحصال کے ایسے ہی قصے ہندو مندروں اور بدھ خانقاہوں کے حوالے سے بھی منظر عام پر آئے۔ تحقیق کا در کھلا تو معلوم ہوا کہ چھوٹے بڑے اکثر مذاہب میں یہ کہانی عام ہے، سب اس سے واقف ہیں اور سب اس سے چشم پوشی برتتے ہیں۔ لیکن اگر بات کی جائے ہمارے مدرسوں کی تو تاریخ گواہ ہے کہ ان مدرسوں سے جہاں بڑے بڑے علماءنے دنیا پر اپنا اثر چھوڑا وہیں بڑے بڑے سائنسدان بھی پیدا کیے ۔ ان مدارس کی اہمیت کو اُجاگر کرنے کے لیے اور قرآن و سنت کے علوم و معارف سمجھانے کے لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دارارقم میں ایک درسگاہ قائم کی جس میں کلمہ پڑھنے والے لوگوں کی اخلاقی اور روحانی تربیت کی جاتی تھی۔ بیعت عقبہ ثانیہ کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت مصعب بن عمیر ؓ کو مدینہ بھیجا آپؓ نے بنی ظفر کے ایک وسیع مکان میں سیدھے سادھے مگر اسلامی دنیا کے بہترین مدرسے کا افتتاح کیا جو ہجرت مدینہ کے بعد ”مدرسہ اصحاب صفہ“ کی صورت میں پھلا پھولا جہاں ہر وقت طلبہ علوم دینیہ کی کثیر تعداد موجود رہتی۔وقت گزرتا گیااور بہت سے مدارس نے تاریخ میں اپنا نام بھی بنایا ۔ لیکن پھر ان مدرسوں کو نظر لگ گئی اور ہلکا پھلکا سیاست کا رنگ چڑھنے لگا۔ جیسے 1947 میں مغربی پاکستان کی کل آبادی تین کروڑ تیس لاکھ کے لگ بھگ تھی جس کے لیے 189 مدارس موجود تھے۔ یعنی ہر پونے دو لاکھ لوگوں کے لیے مذہبی تعلیم کا ایک مدرسہ کافی تھا۔ مگر اب 2021 میں جہاں ہماری آبادی 623 فی صد اضافے کے ساتھ 21 کروڑ کو پہنچ چکی ہے۔ اگر مدارس کی تعداد میں بھی ایسا ہی اضافہ ہوتا تو آج یہ تعداد کوئی بارہ سو مدارس تک محدود ہونی چاہیے تھی لیکن ایسا نہیں ہے، مدارس کی تعداد میں 16,000 فی صد، جی سولہ ہزار فی صد، اضافے کے بعد یہ تعداد آج 30ہزار سے زائد ہے، جہاں 30لاکھ طلبہ تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ ایک طرف اضافہ چھ گنا ہے اور دوسری طرف ایک سو ساٹھ گنا۔ اور اس کے باوجود ہمارے مذہبی اکابرین ہی کے مطابق ہماری اخلاقی حالت، روز بہ روز پست سے پست تر ہو رہی ہے۔ اب یا تو اعداد و شمار غلط ہیں، ان کا دعوی غلط ہے، اخلاقی گراوٹ مذہب کی بڑھتی ہوئی تعلیم کے سبب ہے یا پھر شماریاتی لحاظ سے اخلاقی زبوں حالی یا اعلی اخلاقی قدروں دونوں کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں۔ مشہور ادارے پیو نے کچھ سال پہلے ایک سروے کیا تھا جس کے مطابق اخلاقی لحاظ سے پست ترین ممالک وہ نکلے جہاں مذہب روزمرہ کے فیصلوں میں90 فی صد سے زیادہ دخیل تھا اور اخلاقی لحاظ سے بہترین ممالک وہ تھے جہاں قانونی فیصلوں میں مذہب کا عمل دخل کم تھایا نہ ہونے کے برابر تھا۔ سوال یہ بھی ہے کہ ایسا کیوں ہوا؟ تاریخ بتاتی ہے کہ ایسا اُس وقت ہواجب ہم نے ”سیاسی مدرے“ بنانا شروع کیے۔ مثلاََ 1980 کی دہائی میں سعودی عرب اور ایران کی پراکسی وار کے نتیجے میں بھی دونوں مخالف فقہی گروہوں کے ان گنت مدارس ملک کے طول و عرض میں غیر ملکی امداد سے وجود میں آئے۔ انہی مدارس کے ساتھ جڑے لوگ اس کے بعد ایک پر تشدد مسلکی جنگ میں الجھے رہے جس کے شعلے اب بھی سرد نہیں پڑے۔یعنی 1971 میں سقوط ڈھاکہ کے بعد اگلے اٹھارہ سال میں مدارس کی تعداد 900 سے بڑھ کر 25ہزار تک جا پہنچی لیکن معیار گرتا رہااورمعذرت کے ساتھ یہ وہ مدارس رہے ہی نہیں جو ہماری پہچان ہوا کرتے تھے۔ لہٰذاآگے بڑھنے سے پہلے ان مدارس کو سب سے پہلے قومی دھارے میں لاکر ”مدرسہ اصلاحات“ نافذ کرنے کی ضرورت ہے ، جس میں دین کے ساتھ ساتھ دنیاوی اور معاشرتی تعلیم بھی دی جائے۔ بہرکیف اگر بات کی جائے حالیہ واقعہ کی تو اس کی ایف آئی آر بھی کٹ چکی ہے اور ملزمان کو گرفتار بھی کرلیا گیا ہے، مگر ہمارے بڑوں کو، مدرسہ نظام کو سمجھنے اور سنبھالنے والوں کو اس حوالے سے میدان میں آنا چاہیے تھا، اور اعتراف کرنا چاہیے تھا کہ واقعی ہمارے مدارس میں یہ مسائل عام ہو چکے ہیں، اس پر قوم سے معافی مانگنی چاہیے تھی اور مدرسہ اصلاحات پر حکومت سے بات چیت کر کے اُسے نافذ کرنا چاہیے تھا تاکہ ہم بھی بہتری کی جانب سفر کر سکتے۔ اور پھر شعلہ بیان مقرر اور عالم دین مفتی عدنان کاکا خیل سے بھی امید ہے کہ وہ اِس معاملے پر ویسی ہی ٹویٹ کریں گے جیسی انہوں نے صبا قمر کے مسجد وزیر خان میں تصاویر کھنچوانے والے معاملے پر کی تھی۔ مجھے یہ بھی یقین ہے کہ وفاق المدارس اور دیگر جید علما بھی اِس واقعے پر خاموش نہیں بیٹھیں گے اور جلد ہی ایک پریس کانفرنس کے ذریعے ایسے کچھ ٹھوس اقدامات کا اعلان کریں گے جن کے ذریعے مستقبل میں اِس قسم کے واقعات کا تدارک کیا جا سکے گا۔ لیکن مجھے لگتا ہے کہ وہ نہیں کریں گے ، کیوں کہ مدرسہ اصلاحات کے حوالے سے بھی ایک طبقہ یہی چاہتا ہے کہ جیسے یہ نظام چل رہا ہے ، چلتا رہے۔ اور رہی بات مفتی عزیزالرحمن کی تو اُن پر مقدمہ اسپیشل کورٹ میں چلایا جانا چاہئے تاکہ فیصلہ جلد ہو، ایسے شخص کو سرِعام سزا دینی چاہئے تاکہ وہ دوسروں کے لئے مثال بنے۔ اس کی بدفعلی نے اگر ایک طرف ایک طبقہ کو علماء، مفتی حضرات اور مدرسوں کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے کا موقع دیا اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی جیسے ہر مولوی اور ہر مدرسے کا یہی حال ہے تو دوسری طرف یہی موقع ہے پاکستان کے مدارس کی مختلف تنظیمات اور بڑے بڑے علمائے کرام کے لئے کہ وہ اس واقعہ کے تناظر میں ایک ایسا میکانزم بنائیں اور ہر ممکن اقدامات کریں کہ مساجد و مدارس میں ایسا کوئی واقعہ دوبارہ رونما نہ ہو اور اسلام کا لبادہ اوڑھے کوئی مجرم، کوئی درندہ کسی معصوم طالب علم سے زیادتی کا مرتکب نہ ہو سکے۔ ماضی میں ایسے واقعات کی شکایات ملتی رہی ہیں لیکن ایک طبقہ یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہا ہے جیسے مدرسوں میں یہ معمول کا عمل ہے جو نہ صرف بہتان تراشی ہے بلکہ مدرسوں اور علماءکو بدنام کرنے کی کوشش ہے۔ ہمارے ہاں آج بھی ایسے بہت سے مدرسے ہیں جہاں کا سسٹم قابل تعریف ہے۔ مثلاََ ایک مدرسے میں دین اور دنیا دونوں کی اعلیٰ لیول تک تعلیم دی جاتی ہے۔ اُس مدرسہ کی بہت اچھی شہرت ہے۔ اُس مدرسے میں آئی ٹی ایکسپرٹس کے ذریعہ ایک سسٹم لاگو کیا ہے جس سے یہ معلوم ہو سکتا ہے کہ کون انٹرنٹ اور سوشل میڈیا کے ذریعے کس قسم کی سائٹس کو Visitکرتا ہے اور اِس بارے میں کڑی نگرانی کی جاتی ہے۔ مقصد یہ ہے کہ گندگی اور گندی سوچ کو پیدا کرنے والے ذرائع کو ممکنہ حد تک مدارس میں داخل ہونے سے روکا جا سکے۔ ویسے تو یہ ریاست کی ذمہ داری ہے لیکن علمائے کرام کی بھی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ مساجد و مدارس کے ذریعے معاشرے کی کردار سازی اور تربیت میں اہم کردار ادا کریں۔تاکہ ہمیں مذکورہ بالا جیسے مدرسے اور تعلیمی ادارے میسر آئیں جن کی دنیا تعریف کرے نا کہ ایسے واقعات کے بعد دنیا ہم سے مزید دور ہو جائے! #Ali Ahmed Dhillon #Talkhiyan #social media #madrissa islahat #mufti Aziz-ur-Rehman #Pope Francis