باپ کی دوجوان بیٹیوں کےساتھ خودکشی!ہمسایوں کی بے حسی یا....؟

کرایہ ادا نہ کر سکنا بڑا جرم بن گیا ، بیٹیوں کو زندگی سے محروم کر کے خودکشی کر دینے والے باپ کے خط اور ”وائس نوٹ “نے ہر درد دل رکھنے والے شخص کو اندر سے ختم کر دیا ہے، کہ ہم اس قدر بے حس بھی ہو سکتے ہیں کہ ہمیں علم ہی نہیں کہ ہمارے ہمسائے کہ حالات کیسے ہیں؟ یقینا اس دور میں لوگوں کے درمیان رہ کر بھی تنہا رہ جانا معاشرے کی بے حسی کا ایک ثبوت ہے جس کا سامنا فیصل آباد کے ایک رہائشی عتیق الرحمن کو کرنا پڑا، معاشرے کی بے حسی کے شکار شخص نے خود کشی سے قبل ایک خط اور ”وائس نوٹ“ اپنے دوست شاہد کو بھیجا تھا، جس میں اس نے اقرار کیا تھا کہ اس نے اپنی دونوں بیٹیوں جن کی عمریں بالترتیب 11سال اور17سال تھی چھری سے ذبح کر دیا ہے اور اس کے بعد وہ خود بھی خودکشی کر رہا ہے۔ خودکشی کرنے کی وجہ اس نے مالک مکان کو کرایہ نہ ادا کر سکنا بتائی جس کے ایک لاکھ چھیالیس ہزار روپے اس کے ذمے واجب الادا تھے اور اس کے بار بار تقاضا کرنے کے باوجود بے روزگاری کے سبب یہ رقم ادا کرنے سے قاصر رہا۔ جس کے بعد اس نے صرف خود ہی مرنے کا فیصلہ نہیں کیا بلکہ اس نے اپنی دونوں بیٹیوں کو بھی ذبح کر دیا اس کے ساتھ ساتھ اس نے یہ وصیت بھی کی کہ ان کی میتیں ایدھی والوں کے حوالے کر دی جائیں جہاں ان کو اجتماعی طور پر دفن کیا جائے اور اس کے گھر کا سارا سامان بھی ایدھی والوں کے حوالے کر دیا جائے عتیق الرحمن کی اس موت اور اس کے بیٹیوں کو ذبح کر دینے کے عمل نے لوگوں کی آنکھوں کو نم کر دیا۔ سوال یہ ہے کہ اس کی موت کا ذمہ دار کون ہے ؟ کیا وہ بیوی کی موت اور بے روزگاری کے سبب نفسیاتی مسائل کا شکار تھا ؟ اس کی مدد کر کے بچایا جا سکتا تھا ؟ اس کے مالک مکان کے رویہ نے اس کو یہ سب کرنے پر مجبور کیا ؟حالات کو دیکھ کر یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ عتیق الرحمن ارد گرد کے لوگوں کی بے حسی کے سبب شدید تنہائی کا شکار تھا۔ وہ اکیلے خودکشی بھی کر سکتا تھا مگر وہ اپنے بعد اپنی بیٹیوں کو معاشرے کے رحم و کرم پر چھوڑنے کا حوصلہ نہیں رکھتا تھا اسی وجہ سے اس نے اپنی موت سے قبل اپنی بیٹیوں کو ذبح کیا۔ یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ ایک باپ کے لیے بیٹیوں کو ذبح کرنا آسان کام نہیں ہوتا ہے۔ ایک عام نارمل انسان ایسا کرنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا ہے عتیق الرحمن کی نفسیاتی حالت ایک دو دن میں تو نہیں ہو گی تو کیا اس کے ارد گرد کے لوگوں نے اس کی طرف سے اس حد تک آنکھیں بند کر رکھی تھیں کہ اس کو اس کی اس بدلتی ہوئی کیفیت کا پتہ تک نہ چل سکا۔ عتیق الرحمن کی موت پر آنسو بہانے والے تمام لوگوں کے لیے یہ ایک لمحہ فکریہ ہے ایسے بہت سارے کردار ہمارے اردگرد بکھرے پڑے ہیں جو اپنی خوداری اور سفید پوشی کے سبب کسی کے سامنے دست فریاد نہیں پھیلا سکتے ہیں۔ یقین مانیں کہ یہ ایک المیہ بن چکا ہے کہ ہمارے اندر احساس ختم ہو چکا ہے، معذرت کے ساتھ ہم حقوق العباد سے زیادہ حقوق اللہ پر فوکس کرتے ہیں، حالانکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ سب سے پہلے سوال حقوق العباد کا کیا جائے گا۔ اور ویسے بھی عبادات ہمارے اندر عاجزی کو پروان چڑھاتی ہیں۔ ایک دفعہ میں گورنمنٹ کالج لاہور میں فرسٹ ائیر کا طالب علم تھاتو مولانا مودودی کے پاس کسی کام سے گیا، وہاں پر ایک شخص آیا اور اُس نے کہا کہ مولانا صاحب میں عمرے کی ادائیگی کرکے واپس آیا ہوں تو یہ کیسے پتہ چلا سکتا ہوں کہ میرا عمرہ قبول بھی ہوا ہے یا نہیں؟ مولانا نے فرمایا کہ اگر آپ پہلے سے زیادہ نرم مزاج ہو گئے ہوتو آپ کا عمرہ قبول ہوگیا۔ اُس شخص نے کہا اس کی وضاحت کردیں تو مولانا صاحب نے فرمایا کہ اگر آپ اپنے ہمسائے کے ساتھ پہلے سے زیادہ اچھے ہوگئے ہویا اپنی بیوی کے ساتھ پہلے سے زیادہ اچھے ہو گئے ہو یا اولاد اور والدین کے حقوق پہلے سے زیادہ اچھے انداز سے پورے کر رہے ہو تو آپ کا عمرہ قبول ہے۔ اور پھر ہم نے اپنے بڑوں سے سنا ہے کہ” ہمسایہ تے ماں جایا “ہوتا ہے، ہمارے زمانے یا ہمارے بزرگ ہم سے کہیں زیادہ خوش قسمت تھے، سب سے پہلے تو رشتوں کے حوالے سے کہ ایک ہی محلّے اور ایک ہی گھر میں کئی کئی نسلیں جوان ہوجاتی تھیں۔ محلّے والے رشتے داروں سے بڑھ کر حق ہمسائیگی نبھاتے تھے ”ہمسایہ ماں جایا“ ایک زندہ حقیقت تھی۔لیکن اب ایسا کچھ نہیں ہے، آج جو فیصل آباد میں واقعہ ہوا ہے، وہاں تو اتنی پوش آبادی بھی نہیں ہے، چھوٹے چھوٹے گھر ہیں جو میل جول کے ساتھ رہتے ہیں، لیکن پھر بھی اتنی بے حسی؟ اور پھرمذکورہ واقعہ تو محض ایک Demoہے، آپ یقین مانیں وطن عزیز میں 2021ءمیں 360خاندانوں نے اجتماعی، 3200افراد نے انفرادی طور پر غربت کے ہاتھوں تنگ آکر خودکشی کی۔ اور پھر یہی نہیں کہا جاتا ہے کہ اگر اسلام آڑے نہ آئے یعنی ہمارے مذہب میں اگر اس کی سخت ممانت نہ ہوتو یہ تعداد کئی سو گنا بڑھ سکتی تھی۔ لہٰذاہمیں ایک دوسرے کا خیال بالکل اسی طرح رکھنا چاہیے جس طرح پرانے وقتوں میں رکھا جاتا تھا، اُس وقت تو غیر مذاہب کے لوگ بھی ایک دوسرے کا خیال رکھتے تھے، ہماری ایک دوست لکھاری رضا ہمدانی کی والدہ پاکستان بننے کے بعد کے حالات کا قصہ سناتی ہیں کہ کس طرح ہندو ہمسایوں نے اُن کی حفاظت کی۔ وہ کہتی ہیں کہ ”میں فیروز پور میں 1936 میں پیدا ہوئی۔ ہم پانچ بہنیں اور ایک بھائی تھا اور میں سب سے چھوٹی ہوں اور میں ہی اب خاندان میں حیات ہوں۔میرے والد سید بشیر ہمدانی وکیل تھے۔ پاکستان بننے کے بعد ہم کوچہ قادر بخش میں تھے جہاں ہمارا پورا مسلمان خاندان رہتا تھا، یعنی کوچہ قادر بخش میں تقریباً سب ہی مسلمان رہتے تھے اور زیادہ تر مسلمان قصور سے تھے اور عید سے دو یا تین دن پہلے سب نے اپنے خاندان قصور بھیج دیے تھے۔عید گزری اور اس کے دوسرے روز سب کہنے لگے کہ آج رات کو بہت خطرہ ہے کہ سکھ حملہ کریں گے اس محلے پر۔ اسی رات ہم کھانا کھا کر لیٹے ہی تھے کہ ہمیں آوازیں آئیں ”ست سری کال جو ملے سو نہال“۔ اس آواز کے ساتھ ہی ہمارے محلے میں مسلمانوں نے نعرہ حیدری اور نعرہ تکبیر کے نعرے لگائے۔ اتنا زیادہ شور ہو گیا کہ ہم بچے چیخیں مارنے لگے۔ ہمارے ہمسائے میں ہندو اکثریت بھی تھی، جن کے مالی حالات اچھے تھے، وہ ہمارے پورے مسلمان گھروں کے سامنے دیوار بن کر کھڑے ہوگئے۔ اور اس طرح ہمیں وہاں سے نکالنے میں بھی ہندو خاندانوں سے جو ہوا، اُنہوں نے کیا اور ہم بحفاظت پاکستان پہنچے۔ آپ سب کو چھوڑیں صرف اسلام کو لے لیں، اسلام میں بھی ہمسایوں کے حقوق کا جگہ جگہ ذکر کیا ہے، قرآن پاک میں ارشاد پاک ہے کہ اس دنیامیںعزت اور کامیابی انہی لوگوں کونصیب ہوتی ہے جوخلق خداکی خدمت اوراس کو فائدہ پہنچاتے ہیں۔ آپنے ارشاد فرمایا ”خیرالناس من ینفع الناس“لوگوں میں اچھاوہ ہے جولوگوں کونفع دیتا ہے۔حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم نے ارشاد فرمایا ”اللہ کی قسم!وہ شخص مومن نہیں ہوسکتا“،جس کا پڑوسی اس کے شر سے محفوظ نہ ہو۔پھر اس حوالے سے ایک اہم واقعہ آپ کی گوش گزار کردوں کہ حضرت احمد بن اسکاف دمشقی رحم اللہ علیہ نے حجِ بیت اللہ کے ارادے سے کئی سال میں ایک خطیر رقم جمع کی۔ حج سے چند دن پہلے انہوں نے ہمسایہ کے گھر میں اپنے بیٹے کو کسی کام سے بھیجا۔ تھوڑی دیر بعد وہ منہ بسورتا ہوا واپس آیا۔ ابنِ اسکافؒ نے پوچھا، بیٹے خیر تو ہے، تم روتے کیوں ہو؟ اس نے کہا، ہمارے پڑوسی گوشت روٹی کھا رہے تھے، میں منہ دیکھتا رہا اور انہوں نے مجھے پوچھا تک نہیں۔ ابنِ اسکاف رنجیدہ ہو کر ہمسائے کے گھر گئے اور کہا سبحان اللہ، ہمسایوں کا یہی حق ہوتا ہے جو تم نے ادا کیا۔ میرا کمسن بچہ منہ تکتا رہا اور تم گوشت روٹی کھاتے رہے، اس معصوم کو ایک لقمہ ہی دے دیا ہوتا۔یہ سن کر پڑوسی زار زار رونے لگا اور کہنے لگا، ہائے افسوس اب ہمارا راز فاش ہوگیا۔ گویم مشکل وگرنہ گویم مشکل۔ خدا کی قسم، پانچ دن تک میرے گھر والوں کے منہ میں ایک دانہ تک نہیں گیا، لیکن میری غیرت کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے روکتی تھی، جب نوبت ہلاکت تک پہنچی تو ناچار جنگل گیا، ایک جگہ مردہ بکری پڑی تھی، اس کا تھوڑا سا گوشت لے لیا اور اسی کو ابال کر ہم کھا رہے تھے، یہی سبب تھا کہ ہم نے آپ کے بچّے کو کچھ نہ دیا، ورنہ یہ کب ہوسکتا تھا کہ ہم گوشت روٹی کھائیں اور آپ کا بچّہ منہ تکتا رہے۔یہ سن کر احمد بن اسکاف پر رقّت طاری ہوگئی۔ بار بار کہتے کہ اے احمد تجھ پر افسوس ہے کہ تیرے گھر میں تو ہزاروں درہم و دینار پڑے ہوں اور تیرے ہمسایوں پر فاقے گزررہے ہوں۔ قیامت کے دن تو اللہ کو کیا منہ دکھائے گا اور تیرا حج کیسے قبول ہوگا؟ پھر وہ گھر گئے اور سب درہم و دینار جو حج کی نیت سے جمع کیے تھے، چپکے سے لا کر با اصرار ہمسائے کو دے دیے اور خود اپنے گھر میں بیٹھ کر یادِ الٰہی میں مشغول ہوگئے۔ لہٰذاقیامت کے دن ہم سے ہمارے پڑوسی کے حوالے سے سوال اٹھایا جائے گا۔ اپنے گھروں کی دیواریں اتنی بلند نہ کریں کہ آپ تک آپ کے پڑوسی کی صدا بھی نہ پہنچ سکے۔خدا کے لیے اپنے ارد گرد میں ایسے لوگوں کو دیکھیں جو سفید پوش ہیں، مانگ نہیں سکتے، مگر وہ حقیقت میں ضرورت مند ہوتے ہیں، ایسے افراد کی خدمت ہی اصل خدمت ہے، ورنہ ہم عتیق الرحمن جیسے واقعات سے کبھی چھٹکار ا نہیں پاسکیں گے، کہ جس میں اُس نے اپنی جوان بیٹیوں کے گلے اس لیے کاٹ دیے کہ وہ اُنہیں کچھ کھلا نہیں سکتا تھا، وہ ان بیٹیوں کو کسی کے ہاتھ میں چھوڑ نہیں سکتا تھا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو محفوظ رکھے (آمین)