پاک روس معاہدوں کی حقیقت اور سپرپاورامریکا !

آج کل ہمارے وزیر اعظم شہباز شریف اپنی بیشتر کابینہ کے ہمراہ ”ودیشی “ دورے پر پہلے ازبکستان کے تاریخی شہر ثمر قند، آج کل برطانیہ میں اور اگلا پڑاﺅ امریکا میں کریں گے جہاں وہ جنرل اسمبلی سے 23ستمبر کو خطاب کرنے والے ہیں ، اللہ کرے ہمارے حکمران اس خطاب میں عالمی حکمرانوں کو اس حوالے سے قائل کرنے میں کامیاب ہو جائیں کہ پاکستان واقعی مصیبت میں ہے اور ہمیں ری انفراسٹرکچر کے لیے اربوں ڈالر کی ضرورت ہے۔ کیوں کہ معذرت کے ساتھ اس ودیشی دوروں کے دوران ہمارے حکمرانوں کی غیر سنجیدہ باڈی لینگویج بتا رہی ہے کہ وہ شاید اس میں کامیاب نہ ہوسکیں۔ یعنی اس سے پہلے اگرہم ذکر کریں دورہ ازبکستان کا تو وہاں شنگھائی تعاون تنظیم کا سالانہ سربراہی اجلاس تھا جہاں پاکستان کو سیلاب زدگان کی بحالی کے حوالے سے اکٹھی ہونے والی امداد کے حوالے سے مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔ حالانکہ اس سربراہی اجلاس میں رکن ممالک روس، چین، قازقستان، کرغزستان، تاجکستان، پاکستان، بھارت اور ازبکستان جیسے بڑے ممالک کے سربراہان نے شرکت کی۔ لیکن ہماری تیاری ناقابل بیان حد تک غیر معیاری رہی۔اور پھر بسا اوقات ایسے مواقع ہوتے ہیں جب آپ کو دوسرے ممالک کے ساتھ غیر رسمی گفتگو کرنے کا موقع مل جاتا ہے جس سے بہت سے مسائل حل کرنے میں مدد ملتی ہیں لیکن ہمیں وہاں موجود بھارت (نریندر مودی) نے نہ ہمیں منہ لگایا اور نہ ہی ہم نے اُنہیں! ہاں! جس چیز کو عالمی میڈیا نے خوب اُچھالا وہ یہ تھا کہ پاکستان نے روس کے ساتھ گیس پائپ لائن سمیت کئی معاہدے کر لیے ہیں۔ حالانکہ اس کے برعکس روس جو آج کل ویسے ہی یوکرین جنگ کی وجہ سے سستے سستے معاہدے کرنے کے لیے کئی ممالک کو براہ راست اور بلاواسطہ بھی کہہ چکا ہے کہ وہ اُس کی حمایت کرنے والے ممالک کو ناصرف سستی گیس مہیا کرے گا، بلکہ تیل ، اور اشیائے خوردنی بھی سستے داموں فروخت کرے گا۔یعنی ایسے معاہدے کرنا روس کی بھی مجبوری بن چکا ہے ، لیکن یہ تمام چیزیں ایک طرف مگر کیا یہ بات امریکا سمیت یورپ اور اس کے اتحادیوں پر انتہائی ناگوار نہیں گزرے گی؟ اور حکومت کے لیے مزید ٹف ٹائم پیدا نہیںکرے گی؟لہٰذا جب یہ ساری چیزیں ہمارے علم میں ہیں تو سوال یہ ہے کہ ہم ابھی تک اس شش و پنج میں مبتلاکیوں ہیں؟ کہ روس کے ساتھ تعلقات بڑھائے جائیں یا نہیں! حالانکہ ہم اس حقیقت کو دل سے تسلیم کرتے ہیں اگلے 50سال تک امریکا ہی سپر پاوررہے گا۔ اور پھر دنیا جانتی ہے کہ پاکستان اور روس کے تعلقات کبھی بھی مثالی نہیں رہے۔اورپاکستانی معیشت کا زیادہ انحصار روس ، چین کے بجائے یورپ اور امریکہ پر رہا ہے۔پھر آپ دیکھیں کہ پاکستان کے کل قرضوں کا تقریباً 70 فیصد ورلڈ بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک اور آئی ایم ایف پر مشتمل ہے۔اگر یہ کہا جائے کہ پاکستانی معیشت ورلڈ بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک کے کندھوں پر کھڑی ہے تو غلط نہیں ہو گا۔اس وقت بھی ملک میں معاشی بحران کی وجہ ورلڈ بینک کی طرف سے ملنے والے ممکنہ قرض میں تاخیر بتائی جا رہی ہے۔اور پھر اگر پاکستان امریکی لابی کو چھوڑ کر روس کی لابی میں شامل ہو جاتا ہے تو روس سے تجارتی تعلقات بہتر بنانے میں 10 سے 15 سال لگ سکتے ہیں، جس کے بھیانک نتائج بھگتنا پڑیں گے۔ پاکستان ادھر کا رہے گا اور نہ ادھر کا۔ اور پھر آپ یہ بات کیسے کہہ سکتے ہیں کہ آئی ایم ایف آپ کو اپنے پینل سے نہیں نکالے گا؟ اور پھر اہم ترین بات کہ فیٹیف کی گرے لسٹ سے نکلنے کا فیصلہ اکتوبر میں ہونا ہے۔وہاں بھی پاکستان کے لیے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے قرض بھی انہی شرائط پر ملے ہیں کہ پاکستان آئی ایم ایف کے پروگرام میں رہے۔روس کے ساتھ پیٹرولیم مصنوعات کے معاہدے سے سعودی عرب بھی ناراض ہو سکتا ہے جو پاکستان کے لیے نئی مشکلات پیدا کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔ان حالات میں پاکستان کا معاشی بحران سے نکلنے کے لیے روس پر انحصار کرنا محض دیوانے کا خواب کے سوا کچھ نہیں لگتا۔ یا پھر میرے خیال میں پاک روس کے سربراہان کے درمیان معاہدے اپنے اپنے ملک کے عوام کو ”رام“ کرنے کے لیے کیے گئے ہیں، کیوں کہ یوکرین جنگ کی وجہ سے پیوٹن بھی معاشی طور پر خاصے دباﺅ میں ہیں اور شہبازشریف بھی مہنگائی اور ڈالر کے روپے پر دباﺅ کی وجہ سے خاصے مشکل میں دکھائی دے رہے ہیں اس لیے دونوں ملکوں نے سوچا کہ چلو کچھ اور نہیں تو اپنے اپنے عوام کو ایک آدھ لالی پاپ ہی دے دیں تاکہ اُن کے حواریوں کے لیے مخالفین کا مقابلہ کرنا قدرے آسان ہو جائے۔ ورنہ یہ سب کے علم میں ہے کہ نہ تو پاک روس گیس معاہدہ اتنا آسان ہے کہ چند مہینوں میں پایہ تکمیل کو پہنچ جائے گا بلکہ اس کے لیے 10ہزار کلومیٹر سے زائد کی گیس پائپ لائن درکار ہے جسے پورا کرنے میں کئی سال لگ سکتے ہیں، خیر یہی شعبدہ بازی زرداری نے بھی پاک ایران گیس پائپ لائن کا پتا کھیل کر لگائی تھی، جس کا زمینی حقائق سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ اور پھر آپ یقین مانیں کہ زمینی حقائق کو دیکھیں تو ایسے لگتا ہے جیسے ہمارے حکمران جان بوجھ کر عوام کی آنکھوں میں دھول جھونک رہے ہیں، یعنی روس میں پاکستانی بینک نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اس کے علاوہ روس پر عالمی پابندیوں کی وجہ سے انٹرنیشنل بینکنگ ٹرانزیکشنز تقریباً ناممکن ہو چکی ہیں۔روس کی سرحد پاکستان کے ساتھ نہیں ملتی۔ سخت موسم کے باعث راستوں کی بندش ایک بڑا مسئلہ ہے جس کی وجہ سے سارا سال تجارت ممکن نہیں ہو سکتی اور مطلوبہ مقامات تک سامان کی ترسیل کافی مہنگی پڑتی ہے۔اس کے علاوہ پاکستانی تاجر روسی زبانوں سے بھی ہم آہنگ نہیں۔ وہاں کا کلچر پاکستان کے کلچر سے بالکل مختلف ہے، جبکہ اس کے برعکس امریکی کلچر پاکستانیوں کے لیے خاصا شناسا ہے، لاکھوں پاکستانی طلباءامریکا میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں، لاکھوں پاکستانی امریکا میں روزگار کے لیے وہاں موجودہ ہیں۔ چلیں یہ سب بھی چھوڑ دیں، فرض کریں کہ روس اور امریکا دونوں نے بیک وقت پاکستانیوں کے ویزے کھول دیے ہیں، تو سب کے لیے امریکا ہی ترجیح ہوگا ناکہ روس ۔ ایسا اس لیے ہے کہ وہاں کے کلچر کے ساتھ پاکستانیوں کی ہم آہنگی ہے۔ پھر ہماری ساری اشرافیہ (سابق ججز، سابق فوجی افسران اور سابق بیوروکریٹ) امریکا و یورپ میں رہائش پذیر ہیں، ریٹائرمنٹ کے بعد کوئی بھی روس جانے کو ترجیح نہیں دیتا ۔ آپ یہی نہیں بلکہ روس کے ساتھ باہمی تجارت کی بات کرلیں، پاکستان بزنس کونسل کے مطابق سال 2020 میں روس کو پاکستانی برآمدات کا حجم صرف 144 ملین ڈالر تھا جبکہ درآمدات 613 ملین ڈالرز تھیں۔ اگر پاکستان روس کے ساتھ برآمدات نہیں بڑھا سکتا تو ایسی تجارت کا پاکستان کو فائدے سے زیادہ نقصان ہوگا۔جبکہ پاکستان کی امریکا و یورپ کے ساتھ تجارت کا حجم 20ارب ڈالر ہے، جوزیادہ تر ٹیکسٹائل کی شکل میں ہے۔ یعنی ٹیکسٹائل برآمدات کا 80 فیصد سے زائد یورپ امریکہ اور ان کے دوست ممالک کو جاتا ہے۔2020 میں پاکستانی ٹیکسٹائل برآمدات کے لیے پسندیدہ ممالک میں روس کو 25 ویں نمبر پر رکھا گیا تھا۔کیا پاکستان اس زرمبادلہ کو کھونے کا نقصان برداشت کر سکے گا؟ان ساری باتوں کے بعد میرے خیال میں روس کا پاکستانی معیشت کو سہارا دینا بیوقوفوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہے۔ قصہ مختصر کہ روس کی اپنی معیشت تباہ ہو رہی ہے۔ وہ پاکستان کو سہارا کیسے اور کیوں دے گا؟ وہ یوکرین کے ساتھ جنگ ہار رہا ہے۔یوکرین نے اپنے کئی علاقے روس سے آزاد کروا لیے ہیں۔ روس پر عالمی پابندیاں لگی ہوئی ہیں۔وہ خود کو بچانے کے لیے ہر طرح کے سستے معاہدے کر رہا ہے۔ایسی صورت حال میں پاکستان کو روس کے ساتھ تجارت بڑھانے کا کوئی فائدہ نہیں بلکہ عالمی برادری کی مخالفت مول لینا پڑے گی۔ جو ہاکستان کے لیے مناسب نہیں۔امریکہ اور یورپ نے یوکرائن کو تقریبا 40 ارب ڈالرز کی امداد دی ہے اور وہ مزید دینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں روس کے مسائل بڑھیں گے۔ جب سے پاکستان بنا ہے روس کے ساتھ تجارتی حجم ایک فیصد سے زیادہ نہیں بڑھا ہے۔ جبکہ امریکہ اور یورپ ہر مشکل وقت میں پاکستان کا ساتھ دیتے ہیں۔ہر ملک کے لیے اپنی معاشی صورتحال سب سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ موجودہ حالات میں کوئی ملک کسی کا دوست نہیں ہے۔ہر ملک پہلے اپنی ملکی مفادات دیکھتا ہے اس کے بعد فیصلے کرتا ہے۔ اگر پاکستان نے روس کے ساتھ تجارت یا گیس پائپ لائن پر کام شروع کرنے کی حامی بھری تو اس سے معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ پاکستان کو صرف پاکستان خود ہی معاشی بحران سے نکال سکتا ہے۔ کوئی باہر سے آ کر آپ کی مدد نہیں کرے گا۔اگر اہل اقتدار اس ملک کے ساتھ مخلص ہیں تو ملک میں سیاسی استحکام کا راستہ ہموار کریں۔یہ واحد حل ہے جو پاکستان کو معاشی بحران سے نکال سکتا ہے۔ چین اور گلف ممالک بھی پاکستان کی مدد کے لیے آگے بڑھنے سے گریزاں ہیں۔اور سب سے اہم بات یہ کہ ہمیں کسی ایک لابی میں رہنا چاہیے، اگر ہم نے امریکی لابی میں رہنا ہے تو پھر اُسی کے ساتھ وفاداری کرنی چاہیے، آپ خود دیکھ لیں جو ممالک امریکا کے ساتھ جڑے ہیں، اُن کی حالت بہتر ہی ہوئی ، آپ یورپ کو دیکھ لیں، اسرائیل کو دیکھ لیں، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کو بھی دیکھ لیں، سبھی خوشحال ہیں۔ لیکن دو کشتیوں میں سوار شخص کبھی منزل کو نہیں پہنچتا۔ ہاں ! اگر آپ کو روس حقیقت میں سستی گیس وغیرہ فراہم کرنے کے لیے تیار ہے تو اس کے لیے بھی امریکا کو قائل کرنے کی ضرورت ہے ۔لہٰذاشہباز شریف امریکیوں کو یہ ضرور باور کروا سکتے ہیں کہ وہ اُنہیں سستے توانائی کے ذرائع مہیا کرے ورنہ وہ روس سے تیل و گیس خریدنے پر مجبور ہو جائے گا۔ ہمیں ہر گز دنیا کو بھارت کی شکایت لگانی چاہیے کہ وہ بھی روس سے گیس وغیرہ خرید رہا ہے، ہمیں یہ علم ہونا چاہیے کہ بھارت ایک بڑی اکانومی بن چکا ہے، بلکہ دنیا کی پانچویں بڑی اکانومی بننے جا رہا ہے ، اس کے زر مبادلہ کے ذخائر 550ارب ڈالر اور ہمارے 8ارب ڈالر سے کم ہیں، جبکہ امریکا ویورپ اُس کے بڑے گاہک ہیں۔ اس لیے ہمیں اُس کے ساتھ مقابلہ نہیں کرنا چاہیے۔ بلکہ بتدریج سوچ سمجھ کر ایک ”سمت“ میں آگے بڑھنا چاہیے ، اسی میں ہم سب کی بھلائی ہے۔