ایک نہیں ”دو پاکستان“

کہتے ہیں ترازو کے پلڑوں میں قانون کو تولنے کی نوبت آ جائے تو نظام کو اعتماد کی سند لینا ہی پڑتی ہے اور قانون کے اطلاق میں رنگ، نسل، مذہب، زبان اور عہدے آڑے آ جائیں تو ادارے برباد ہو جاتے ہیں۔یہی حال آج کل پاکستان کا ہے، جہاں غریب کے لیے نظام اور ہے، اورامیر (طاقتور)کے لیے الگ نظام قائم ہے، گزشتہ ہفتے نواز شریف و شہباز شریف کی والدہ محترمہ کا انتقال ہوا، اللہ تعالیٰ اُن کے درجات بلند فرمائے اور اُن کی اگلی منزلیں آسان فرمائے(آمین)۔ یہ خبر سننے کی دیر تھی کہ مجھ سمیت کئی ناقدین کی نظریں حکومت پر لگ گئیں کہ اب حکمران طبقہ اُن قیدیوں(شہباز شریف و حمزہ شہباز) کے ساتھ کیا سلوک کرے گا جنہیں حکومت نے کرپشن کیسز میں قید کر رکھا ہے۔ وہی ہوا جس کی اُمید کی جا رہی تھی کہ اس خبر کے گھنٹے دو گھنٹے بعد ہی حکومتی وزراءکے بیان آنا شروع ہوگئے کہ ہم مذکورہ قیدیوں کو 3دن کے لیے پیرول پر رہائی دے سکتے ہیں، پھر اپوزیشن نے کہا کہ نہیں کم از کم 15دن کے پیرول پر رہا کیا جائے۔حکومتی وزراءسارے کام چھوڑ کر سر جوڑ کر بیٹھ گئے اور لے دے کر 5دن پر مک مکا ہوگیا۔ اب ہر کوئی حکومتی فیصلے پر رشک کرتا دکھائی دیا، کہ دیکھا! ہم سے زیادہ سخی تو دنیا میں آپ ڈھونڈنے سے بھی نہیں ڈھونڈ سکتے! کیوں کہ انہوں نے انسانی ہمدردی کی اعلیٰ مثال قائم کر دی ہے۔ میں آفس میں بیٹھا ایک دو میٹنگز لے کر بیزار ہو چکا تھا، لیکن حکومت کی اس ”دریا دلی“ نے میری آنکھیں کھول کر رکھ دیں، اور مجھے دوبارہ متحرک کر دیا ، پھر ادھر اُدھر یار دوستوں کوفون گھمائے کہ پتہ چلے کہ کتنے قیدیوں کے رشتے دار فوت ہوئے ہیں اور انہیں پیرول پر رہائی دی گئی ہو، یقین مانیں مجھے ایک بھی مثال نہیں ملی۔ خیر آگے بڑھنے سے پہلے ہم اس بات روشنی ڈالتے ہیں کہ پیرول کا قانون کیا ہے؟ کن شرائط پر رہائی ملتی ہے؟ اور پیرول کی مدت زیادہ سے زیادہ کتنی ہو سکتی ہے؟قارئین ! عام طور پر پیرول پر رہائی کسی قریبی رشتہ دار کی وفات پر ہوتی ہے۔ کسی مجرم نے پہلی بار جرم کا ارتکاب کیا ہو یا پھر جیل میں رویہ اچھا ہو تو اسے بھی پیرول پر رہائی مل جاتی ہے لیکن عادی مجرم کو پیرول پر رہائی نہیں دی جاتی۔ پیرول پر رہائی کے لیے مجرم کی جانب سے درخواست دی جاتی ہے۔ صوبائی محکمہ داخلہ، پولیس اور جیل حکام پر مشتمل کمیٹی درخواست کا جائزہ لے کر کیس صوبائی سیکرٹری داخلہ کو ارسال کرتی ہے۔ہوم سیکرٹری درخواست کا جائزہ لے کر مجرم کو نمازِ جنازہ اور تدفین میں شرکت کے لیے صرف بارہ گھنٹے کی اجازت دیتا ہے۔ لیکن اس لمبے پروسیجر کی تکمیل کبھی کبھی ہی ممکن ہوتی ہے، یعنی آپ صرف ایک جیل کے ریکارڈ کو چیک کر لیںکہ اڈیالہ جیل میں گزشتہ ایک سال میں ڈیڑھ سو قیدیوں کی قریبی رشتہ دار فوت ہوئے لیکن درخواست کے باجود انہیں بروقت رہائی کی اجازت نہیں ملی،ہاں اُن میں ایسے اکا دکا لوگوں کو پیرول پر رہائی مل گئی جنہوں نے بھاری رشوت ادا کی تھی۔ بقول انشاءجی آنکھیں موند کنارے بیٹھو من کے رکھو بند کواڑ انشاءجی لو دھاگا لو اور لب سی لو خاموش رہو الغرض ہمیں خوشی ہے کہ شہباز شریف کو والدہ کی مذہبی رسومات کے لےے پیرول پر رہائی دی جار ہی ہے ، لیکن یہ ”سہولت“ تمام قیدیوں کو کیوں میسر نہیں ہے، اور پھر ہمارا ماضی ایسے ”شاہکارکیسز“ سے بھرا پڑا ہے، جس میں ہمیشہ طاقتور کے لیے قانون بھی نرم کر دیا جاتا ہے، جیسے گزشتہ سال انہی دنوں ملک کے سابق وزیر اعظم کو بیرون ملک علاج کے لیے جانے کی اجازت دی گئی، اجازت دینے کے لئے کابینہ کا خصوصی اجلاس ہوا جو دو گھنٹے تک صرف اور صرف نواز شریف کو بیرون ملک اجازت دینے کے لئے طریقے ڈھونڈتا رہا۔ کیوں کہ یہاں ایک نہیں دو پاکستان ہیں، غریبوں کے لئے ایک آدھ منٹ ہی کابینہ کا اجلاس میں مختص ہوتا ہے اور امیر کے لئے دو گھنٹے کا اجلاس۔ بالآخر فروغ وسیم کی سربراہی میں ایک ذیلی کمیٹی نے قانونی طریقہ ڈھونڈنے کے لئے اوپر تلے کارروائیاں کیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ انہیں چار ہفتوں کے لئے بیرون ملک علاج کے لئے اجازت دی جا سکتی ہے۔تاہم، نواز شریف یا ان کے بھائی شہباز شریف کو انڈمنٹی بانڈ جمع کرانا ہوگا جس کی مالیت سات ارب کے لگ بھگ بنتی تھی۔ اس تجویز کو شریف خاندان نے مسترد کر دیا اور عدالت سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا۔ عدالت نے ہفتے کے روز چھٹی والے دن سماعت رکھی کیوں کہ ایک امیر اور بااثر شخص کو چھوٹ دینا تھی۔ لہٰذا دے دی گئی اور موصوف کو روانہ کر دیا گیا! بالکل اسی طرح سابق صدر مشرف کے لیے بھی قانونی راستہ نکالا گیا اور انہیں 2016ءمیں علاج کے لیے بیرون ملک روانہ کر دیا گیا، جو ابھی تک بیرون ملک ہی ہیں۔ الغرض غریب آج بھی سڑکوں پر ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر جاتا ہے اور طاقتور چاہے عدالتی پابندیوں سے آزاد بیرون ملک علاج کرانے چلا جاتا ہے۔ غریب وکیل کی فیس نہ بھر پانے کی وجہ سے سالہا سال جیل میں ہی سڑتا ہے، امیر اور بااثر کے لئے پورا نظام حرکت میں آ جاتا ہے۔ ہسپتال ہوں یا تھانے یا پھر عدالتیں، وہاں غریب پستا ہوا نظر آئے گا۔ان کے لیے عدالتیں رات کو بھی کھل جاتی ہیں، حالانکہ ملزم تو ملزم ہی ہوتا ہے، بلکہ یہ معلوم کرنے کی ضرورت ہے، کہ کس ملک میں ایسے ہوتا ہے؟ یقین اس دھرتی پر ہمارا واحد ملک ہے جہاں دو نظام قائم ہیں، ورنہ دنیا بھر کی تاریخ کھنگال لیں کہ کسی طاقتور کو اتنی رعایتیں نہیں ملتی جتنی یہاں پر ملتی ہیں۔ اور پھر دوہرا معیار ہمارے دیگر اداروں میں بھی ہے، گزشتہ دنوں ایک بینک منیجر کی نازیبا حرکات والی ویڈیو سامنے آئی تھی، اُسے نوکری سے نکال دیا گیا، جبکہ باقی جن بڑے لوگوں، بڑے سیاستدانوں، یا بڑے افسروں کی ویڈیوز سامنے آئی ہیں کیا انہیں بھی اپنے عہدوں کو چھوڑنا پڑا ہے؟ کیا انہیں بھی اُن کے اداروں نے فارغ کیا؟ کیا انہوں نے بھی عوامی دباﺅ پر اپنے عہدے چھوڑنے کی جسارت کی؟ انہیں تو کچھ نہیں کہا گیا! تو پھر کیا یہ سارا غصہ غریبوں کے لیے ہے؟طاقتوروں کے کیسز کی روزانہ کی بنیادوں پر شنوائی کی جاتی ہے جبکہ غریبوں کی ساری زندگی کسی ایک مقدمے کی سماعت میں گزر جاتی ہے، آپ یہ جان کر حیران ہوں گے کہ اس وقت عدالتوں میں 10لاکھ سے زیادہ کیسز زیر التواءہیں اور ان میں سے 99فیصد غریبوں کے یا مڈل طبقے کے ہیں، یقین مانیں میرا ایک ذاتی کیس قصور سول کورٹ میں 2002ءسے زیر التواءہے، ان 18سالوں میں 20سے زائد ججز تبدیل ہو چکے ہیں، کوئی پرسان حال نہیں ہے، تاریخ پر تاریخ دی جارہی ہے، اس کیس کو دیکھ کر ایسے ہی لگتا ہے کہ پاکستان میں وہ شخص خوش قسمت ہوگا جسے انصاف ملتا ہوگا ۔ قصہ مختصر آج پاکستان میں دو ریاستیں قائم ہیں، ایک غریب کے لیے اور دوسری امراءکے لیے۔ حد تو یہ ہے کہ غریب آدمی نے اگر بینک سے 2لاکھ روپے کا قرض لے کر واپس نہیں کیا تو بینک والے اُسے گھر سے اُٹھا کر لے جاتے ہیں، لیکن یہاں امراءکے لیے کھربوں روپے کے قرضے لے کر معاف کروائے جاتے رہے، اگر ایسے لوگوں نے بھی قرض معاف کروائے تو پھر ان کے ادوار میں باقیوں کی گرفت کیسے ہو سکتی تھی! سپریم کورٹ کے سامنے یہ معاملہ سال 2007ءسے زیر التواءہے۔ کئی متعلقہ ادارے قرضوں کی معافی کے حوالے سے سپریم کورٹ کو تفصیلات فراہم کرنے سے گریز کر رہے ہیں کیونکہ قومی وسائل کی چوری کرنیوالوں نے قومی اداروں کو مفلوج‘ اپاہج اور غیرفعال بنا دیا ہے سپریم کورٹ نے فارن اکاو¿نٹس اور ٹرانزیکشنز اور بیرون ملک پاکستانیوں کی طرف سے خریدی گئی جائیدادوں کا ریکارڈ بھی طلب کر رکھا ہے، جو امید ہے فراہم نہیں کیا جائے گا،بیرون ممالک قانونی طورپرکھلوائے گئے اکاو¿نٹس جائیدادوں اور ٹرانزیکشنز پر پابندی نہیں مگر ماورائے قانون جس کسی نے بھی پاکستان کے مالیاتی قوانین کی خلاف ورزی کی ہے انہیں جواب دینا پڑے گا اور جواب دینا چاہئے۔ آپ یوکرین کی مثال لے لیں وہاں آﺅٹ آف دی وے جا کر عدالتوں نے اسی طرح کے کیس میں چند سیاستدانوں کو قرضہ معافی کی رعایت دی تھی، جس پر عوام کے جم غفیر نے عدالتوں کا گھیراﺅ کر دیا تھا، اور مجبوراََ عدالتوں کو اس فیصلے پر نظر ثانی کرنا پڑی تھی۔ لہٰذااداروں کو خصوصاََ سیاستدانوں کو اپنی کارکردگی کا احتساب کرنا چاہئے کہ کس طرح ذاتی مفادات کیلئے انہوں نے پاکستان کے جمہوری نظام کو دنیا بھر میں بدنام کیا اور کس طرح عوام ان کی وجہ سے ایک مسلسل عذاب سے گزر رہے ہیںکہ انہوں نے ایک نہیں بلکہ 2پاکستانوں کی بنیاد رکھی۔ بہرکیف آج وزیر اعظم عمران خان جب عدالتوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ بااثر اور امیر لوگ عدالتوں سے اپنے حق میں فیصلے کر کے مقدمات سے جان چھڑا لیتے ہیں، تو راقم کا سادہ سا سوال یہ بنتا ہے کہ کیا باعمل اور سب کے لئے بنا تفریق ایک قانون کس نے بنانا ہے؟ کیا قانون سازی عدلیہ کا کام ہے؟ کیا وزیر اعظم کو نہیں پتہ کہ قانون سازی پارلیمان کرتی ہے، جہاں لڑائیوں اور گالم گلوچ کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔ کیا انہیں نہیں پتہ کہ مجرم نیب کے بنائے مقدمات میں کمزوریوں کا فائدہ اٹھا ر چھوٹ رہے ہیں؟ کیا موجودہ وزراءعدلیہ کے فیصلوں سے فائدہ حاصل نہیں کر رہے؟ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمیں دو نہیں ایک پاکستان چاہیے، جہاں بھیڑیا اور بکری ایک گھاٹ میں پانی پئیں، جہاں عالمی استعمار کے ایجنٹ بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے قرض کی لعنت سے قوم کو نجات دلائی جائے، اپنے پاﺅں پر کھڑا ہونے، خودکفالت کی منزل تک ملک کو لے جانے، کسی بدعنوان، ڈاکو، چور اور قومی خزانہ لوٹنے والے کوحقیقت میں کیفر کردار تک پہنچایا جائے ورنہ نعرے یہ نظام ہمیں یوں ہی منہ چڑھاتا رہے گا!