عمران خان : ”فیکٹس چیک اتھارٹی“ قائم کریں!

آج کل پاکستان میں ”پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی“کے نام سے خاصا شور شرابہ ہو رہا ہے، حکومت بضد ہے کہ اسے بل کو پاس کروا کے رہیں گے جبکہ صحافی برادری اور اپوزیشن جماعتیں بضد ہیں کہ ایسا کچھ نہیں ہونے دیں گے، معروف انگلش مصنف نے کہا تھا کہ ”میڈیا اس کرئہ ارض کی سب سے بڑی طاقت ہے کیونکہ اس کے پاس ایسے اختیارات ہیں، جن کی بدولت یہ معصوم کو گنہگار اور گنہگار کو معصوم بنا سکتا ہے اور یہی اصل قوت ہے کیونکہ یہ عوام الناس کے اذہان پر دسترس رکھتا ہے“ دور جدید میں مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ کے بعد مملکت کا چوتھا ستون میڈیا ہے۔ جسے معاشرے کا آئینہ کہا جاتا ہے۔ لیکن موجودہ حکومت کے آتے ہیں اس آئینے کی شکل بگاڑنے کی جو کوششیں کی گئیں اُس سے کون واقف نہیں، کئی چینل و اخبارات سخت مالی دباﺅ کا شکار ہوکر بند ہوگئے، کئی صحافی بے روز گار ہوگئے اور کئی ادارے مقروض ہوگئے۔ جبکہ پاکستان صحافت کے حوالے سے عالمی رینکنگ میں 138ویں پوزیشن سے 145ویں پوزیشن پر چلا گیا۔ لہٰذااگر اس قسم کا بل آگیا تو حکومت مزید دباﺅ کا شکار ہوجائے گی،اس لیے اس کے متبادل اگر امریکی طرز پر ”فیکٹ چیک اتھارٹی “ بنا دی جائے تو زیادہ بہتر ہوگا۔ خیر اس پر بعد میں آتے ہیں کہ لیکن سب سے پہلے ملک بھر میں آزادی اظہار رائے پر اگر بات کی جائے تو آج اتنے برے حالات کے باوجود حکومت اس شعبہ میں مزید قدغن لگانے کی کوششوں میں مصروف ہے تو مزید پابندیاں لگنے کے بعد دنیا بھر میں ہماری جو جگ ہنسائی ہوگی اُس کا اللہ ہی مالک ہوگا۔ صورتحال یہ ہے کہ آج کل پاکستان میں حکومت نے ملک میں ذرائع ابلاغ کے لیے پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی (پی ایم ڈی اے) کے نام سے ایک ریگولٹر بنانے کی تجویز دی ہے ۔ پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے تحت پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی، پریس کونسل آرڈیننس اور موشن پکچرز آرڈیننس کومنسوخ کرنے اور ملک میں کام کرنے والے اخبارات، ٹی وی چینلز اور ڈیجیٹل میڈیا پلیٹ فارمز کو”پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی“ کے ماتحت کام کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔حد تو یہ ہے کہ حکومت کی جانب سے تجویز کردہ اس اتھارٹی میں سب سے زیادہ متنازع سمجھی جانے والی شق غلط خبر کے نشر ہونے پر جرمانے اور سزا کی تجویز ہے۔ حکومت کی جانب سے غلط خبر نشر ہونے پر صحافتی ادارے پر 25 کروڑ جبکہ صحافی پر ڈھائی کروڑ روپے تک جرمانے اور تین سال قید تک سزا دینے کی تجویز سامنے آئی ہے۔ اس اتھارٹی پر وجہ تنقید بننے والی دوسری بڑی شق ڈیجیٹل میڈیا کو ریگولیٹ کرنے کے حوالے سے ہے، جس میں ڈیجیٹل میڈیا کو رجسٹر کرنے یا این او سی حاصل کرنا ضروری قرار دینے کی تجویز ہے۔ بادی النظر میں حکومت کا ایسے وقت میں اس قسم کے بل لانا جب ہر طرف مہنگائی کا دور دورہ ہو، حکومت کو ہر طرف سے تنقید کا سامنا ہو، ہر محکمے میں بدانتظامی کی عام شکایات ہوں اور حکومت گڈگورننس قائم کرنے کے لیے درجنوں آئی جی اور سیکرٹری تبدیل کر چکی ہوتو ایسے حالات کی شاعر درست انداز میں نشاندہی کر رہا ہے کہ آ جائیں رعب غیر میں ہم وہ بشر نہیں کچھ آپ کی طر ح ہمیں لوگوں کا ڈر نہیں یعنی حکومت کو خوف ہی نہیں کہ عوام میں اُس کی مقبولیت کا گراف کہاں جا رہا ہے؟ ابھی اسی ہفتے ملک بھر میں 41کنٹونمنٹ بورڈز کے 218 وارڈز میں بلدیاتی انتخابات کے نتائج دیکھ لیں، جس نے پی ٹی آئی کو الرٹ کرنے کی گھنٹی بجا دی ہے۔اور پھر یہی نہیں بلکہ بلدیاتی الیکشن بھی سر پر ہیں، اُس کے بعد جنرل الیکشن بھی دور نہیں ہیں تو ایسے میں اس قسم کے بل؟ توبہ استغفار پڑھنے کو ہی جی چاہتا ہے! معذرت کے ساتھ یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ خان صاحب آپ کو ایسے مشورے کون دیتا ہے؟ کون کہتا ہے کہ عوام کے اصل مسائل سے ہٹ کر ایسے مسائل کو چھیڑا جائے جس سے اُن کی جگ ہنسائی ہو؟ پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ بل لانا ہی سرے سے غلط ہے، دوسری بات اگر آپ بل لے بھی آئیں تو کیا آپ کسی صحافی یا صحافتی ادارے کو سزا دے پائیں گے؟ کیا حکومت اتنی مضبوط ہے؟ اور پھر پیمرا نے آج تک جتنے بھی جرمانے کیے ہیں، کیا وہ ادا ہوئے ہیں؟ ہر گز نہیں۔ اور پھر اس ملک میں آپ یہ پتہ کیسے لگائیں گے کہ فیک نیوز کونسی ہے؟ کیا فیک نیوز وہ ہوگی کہ جس خبر کو حکومت کہہ دے کہ فیک ہے، وہ فیک ہے، جسے سچ قرار دے، وہ سچ ہے۔آپ فیک نیوز کی نشاندہی کیسے کریںگے ؟ اس کا بھی کوئی میکانیزم بنایا یا نہیں؟ کیوں کہ سب کو علم ہے کہ ہمارے ہاں سیکیورٹی اداروں کے خلاف اگر کہیں سے فیک نیوز آئی ہے تو وہ بھارت ہوگا، اگر کہیں سے حکومت کے خلاف فیک نیوز آئی ہے تو وہ اپوزیشن کی طرف سے ہوگی اور پھر جو حکومتی سرپرستی میں میڈیا ہاﺅسز کام کر رہے ہیں وہ اپوزیشن کے خلاف ”فیک نیوز“دیں گے تو کیا اُن کو بھی سزا دی جائے گی؟ لہٰذااس جدید دور میں فیک نیوز یا ”ییلو جنرلزم “ جہاں سے شروع ہوتی ہے اُسے پکڑا جانا چاہیے! کیوں کہ ہر غلط خبر کے پیچھے کوئی نہ کوئی مائنڈ سیٹ ہوتا ہے، جس کا کام ہی آپ کو گندا کرنا ہوتا ہے۔لہٰذااُن انفرادی لوگوں یا اداروں کو پکڑا جائے اور عوام کے سامنے لایا جائے جو خرابی پیدا کرتے ہیں۔ جیسے حکومت نے پچھلے دنوں سو سے زائد انڈین بیسڈ ویب سائیٹس کو پاکستان میں بند کروایا جو پاکستان میں محض پراپیگنڈہ کا کام کر رہی تھیں۔ وہ ایک احسن کام تھا، اسی طرح اگر کوئی بیرون ملک سے فنڈز لے کر غلط خبریں چلا رہا ہے تو اُسے سامنے لانے اور سزا دینے کی ضرورت ہے، جس کے لیے پہلے سے قانون موجود ہیں۔ اور بل لانے کے بعد اگر کوئی خبر بین الاقوامی میڈیا سے بریک ہوتی ہے اور ہمارے چینلز اُس خبر کو حوالے سے ساتھ شائع کرتے یا آن ائیر کرتے ہیں تو ایسی صورت میں کیا کیا جائے گا؟ کسی کو کچھ علم نہیں! تو ایسی صورتحال میں مجھے یہ بتایا جائے کہ کون عمران خان صاحب کا محسن خاص ہے جو اس قسم کے مشورے دیتا ہے کہ کروڑوں روپے جرمانے کے نام سے معاشرے کے چوتھے ستون کو ڈرایا جائے ۔یقینا یہ کون اُن کا کوئی دوست نہیں کروا سکتا بلکہ دوست کے نام پر اُن کا کوئی دشمن ضرور کروا سکتا ہے۔ اور پھر جب آپ کو علم بھی ہو کہ اس پر عمل درآمد ممکن نہیں تو پھر یہ سراسر زیادتی ہے۔ کیوں کہ اگر اس بل کے لانے کا مقصد یہ ہے کہ آپ اپنے مخالفین صحافیوں یا ن لیگ یا پیپلزپارٹی کے حامی صحافیوں کا کچھ بگاڑ سکیں گے تو میرے بھائی آپ تو اُن کے سیاسی قائدین و کارکنوں کا کچھ نہیں بگاڑ سکے تو صحافیوں کا کس طرح سے کچھ بگاڑ سکیں گے۔ عوام کو بتایا جائے کہ نیب آج تک کس سیاستدان کو سزا دے سکا ہے؟ آپ نے ایڑھی چوٹی کا زور لگا دیا ہے، مگر مجال ہے کسی ایک کو بھی آپ سزا دے سکے ہوں۔ نہ آپ زرداری سے کچھ نکلوا سکے ہیں، نہ شریف فیملی سے کچھ نہیں نکلوا سکے، نہ آپ رانا ثناءاللہ کا کچھ بگاڑ سکے، نہ سعد رفیق کا، نہ خواجہ آصف اور نہ ہی کسی ادنیٰ سے کارکن سے کچھ نکلوا سکے ہیں ۔ محض چند پرائیویٹ پارٹیوں سے نیب نے ریکوری کر کے انہی کے متاثرین کو بانٹ دی ہے۔ جبکہ عوام کے ہاتھ میں کیا آیا ہے؟ اور ویسے بھی جتنے چینل اور اخبار بند ہو چکے ہیں، یا جتنے صحافی بے روز گار ہو چکے ہیں میڈیا پہلے ہی موجودہ حکومت سے نالاں ہے تو مذکورہ بل میرے خیال میں اپنے پاﺅں پر کلہاڑی مارنے کے سوا کچھ نہیں ہوگا، اور نہ ہی اس میں کوئی Implementationکا عنصر موجود ہوگا۔ اس لیے ہمیں آپ سے ہمدردی ہے کہ آپ سے ایسے کام کرواتا کون ہے؟ کیوں کہ جو بھی آپ سے کام کرواتا ہے وہ آپ کا ہمدرد نہیں دشمن ہے۔ یقین مانیں عوام آپ کو کامیاب کرنا چاہتی ہے، مگر آپ ناکام ہونے پر تلے ہوئے ہیں، کیوں کہ ایسے بل نہ تو بھارت میں لائے جاتے ہیں، نہ بنگلہ دیش، نہ امریکا اور نہ برطانیہ جیسے ملکوں میں۔ وہاں صحافی کا کام تحقیقاتی خبریں دینا ہوتا ہے جنکی 95فیصد خبریں درست ہوتی ہیں، اور اگر کسی بڑے صحافی کی یا ادارے کی خبر غلط بھی ہو گئی ہے تو حکومت اُسے سراہتی ہے نہ کہ اُس کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرتی ہے۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے ڈارون نے نظریہ ارتقاءکو غلط پیش کیا لیکن آج بھی اُس کا نظریہ ارتقاءہماری کتابوں میں موجود ہے، یہ اسی وجہ سے ہے کہ ایک شخص نے ایسا سوچا تو صحیح! کیوں کہ جب تک آپ کسی مسئلے کو اُٹھائیں گے نہیں، اُس مسئلے کو اُجاگر نہیں کریں گے، تب تک آپ کسی مسئلے کو حل کرنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے۔ بہرکیف عمران خان کا اگر کوئی حامی ہے تو وہ انہیں سمجھائے کہ آنے والے دنوں میں میڈیا کی اُنہیں سخت ضرورت پڑنے والی ہے، اور میڈیا پر اس قدر پابندیاں تو شاید ڈکٹیٹر شپ کے دور میں بھی نہیں لگی تھیں جتنی آج لگائی جا رہی ہیں ، اور اتنی پابندیاں تو شاید مودی کے دور حکومت میں بھی نہیں لگیں جتنی آج پاکستان میں لگائی جا رہی ہیں۔ اور پھر اگرمیڈیا میں فیک نیوز پر کنٹرول کرنا ہی ہے تو جیسا میں نے پہلے ذکر کیا کہ فیکٹ چیک اتھارٹی بنائی جائے جس میں سابق جج، سینئر صحافی اور سابق بیوروکریٹ شامل ہوں جو روزانہ کی بنیاد پر فیکٹس چیک کریں، اگر خبر غلط ہو تو صحافی کو وارننگ دیں، اُس کی کریڈیبلٹی خود بخو خراب ہو جائے گی اور حکومتی عزت بھی بچی رہے گی!!! #Media Problems in Pakistan #Ali Ahmed Dhillon #Talkhiyan