فلسطین اور اسرائیل لڑائی : مذاکرات ہی آخری حل ہوگا!

فلسطین اور اسرائیل کی تازہ اور تاریخ کی بدترین جھڑپوںکے حوالے سے جو خبریں اس وقت موصول ہو رہی ہیں، وہ انتہائی بھیانک منظر پیش کر رہی ہیں، آخری خبریں آنے تک ایک ہزار سے زائد اسرائیلی و غیر ملکی ہلاک اور اتنے ہی بلکہ اس سے زیادہ فلسطینی شہید ہوئے ہیں۔ اوراس وقت بھی غزہ کے بارڈر پر شدید جھڑپیں جاری ہیں جس میں سینکڑوں جانیں ضائع ہونے کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے۔ اور پھراسی پر بس نہیں بلکہ امریکی بحری بیڑہ جلد ہی اسرائیلی فوج کے ساتھ شامل ہوگا، اور پھر مزید تباہی کے مناظر سامنے آئیں گے۔پھر بھارتی وزیراعظم مودی بھی اسرائیل کو تعاون کی یقین دہانی کرا چکے ہیں جس سے لگتا ہے کہ یہ جنگ طویل ہونے والی ہے۔ جبکہ دوسری جانب ایران، لبنانی تنظیم حزب اللہ اور دیگر تنظیمیں بھی کھلم کھلا اعلان کر چکی ہیں کہ وہ فلسطین (حماس) کا ساتھ دیں گی۔ چین نے فلسطین اور اسرائیل کی کشیدگی پر آزاد فلسطین ریاست کے قیام کو تنازع کا حل قرار دیا ہے اور چین اس مقصد کے لیے سعودی عرب‘ امریکہ اور یورپی ممالک سے رابطے کرکے عملی طور پر میدان میں ہے‘ تاہم اس موقع پر سلامتی کونسل کے اہم اجلاس کا بے نتیجہ ختم ہونا افسوسناک ہے۔ امریکہ کی خواہش تھی کہ رکن ممالک حماس کے حملوں کی مذمت کریں مگر روس نے دیگر ملکوں سے اتفاق نہیں کیا بلکہ روسی سفیر نے مطالبہ کیا کہ سلامتی کونسل فلسطین سے متعلق دہائیوں پہلے معاہدے پر عمل کرے۔ اور پاکستان جیسے ممالک ڈھکے چھپے الفاظ میں اسرائیل کی مذمت بھی کر رہے ہیں کہ وہ ”بس“ کرے اور کسی امن معاہدے کی طرف جائے۔ خیر! مشرق وسطی کے اس طویل اور خونی تنازعے کو دہایاں گزر چکی ہیں جس کا مستقبل قریب میں بھی کوئی مستقل حل ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ اگر ہم اس کی تاریخ میں جائیں تو یہ تنازع اُس وقت شروع ہوا جب یورپ میں یہودیوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک کی وجہ سے صیہونی تحریک زور پکڑنے لگی جس کا مقصد یہودیوں کے لیے الگ ریاست کا قیام تھا۔ اس وقت فلسطین کا علاقہ سلطنت عثمانیہ کے کنٹرول میں تھا۔ تاہم پہلی جنگ عظیم کے بعد یہ خطہ برطانیہ کے زیرتسلط آیا جہاں یہودی بڑی تعداد میں منتقل ہونے لگے اور یوں مقامی عرب آبادی کے ساتھ تناو¿ کا آغاز ہوا۔ برطانیہ اور فرانس نے مشرق وسطی کو تقسیم کیا اور مختلف ریاستیں قیام میں آئیں تاہم فلسطین برطانیہ کے زیرتسلط ہی رہا جہاں عرب قوم پرستوں اور صیہونی تنظیموں کے درمیان کشیدگی بڑھنے لگی۔ صیہونی تنظیموں نے عسکری گروہ قائم کر لیے جنھوں نے دوسری جنگ عظیم کے بعد الگ ریاست کے لیے دباو¿ بڑھانا شروع کر دیا۔ 1947 میں اقوام متحدہ نے ووٹنگ کے ذریعے فیصلہ کیا گیاکہ فلسطین کو دو ٹکڑوں میں تقسیم کیا جائے جن میں ایک یہودی ریاست ہو اور ایک عرب ریاست ۔جبکہ یروشلم (بیت المقدس) ایک بین الاقوامی شہر ہو گا۔ تاہم 14 مئی 1948 کو اسرائیل کا قیام ہوا تو اگلے ہی دن اردن، مصر، شام اور عراق نے حملہ کر دیا۔یہ پہلی عرب اسرائیلی جنگ تھی جس کے نتیجے میں اقوام متحدہ کے منصوبے کے مطابق جہاں عرب ریاست بننا تھی، وہ علاقہ مختلف ممالک کے قبضے میں آ گیا اور یوں فلسطینیوں کے لیے ایک سانحے نے جنم لیا۔ جس کے بعد ساڑھے سات لاکھ فلسطینی ہمسایہ ممالک خود فرار ہوئے یا انھیں اسرائیلی فوجیوں نے بے دخل کر دیا۔1967 کی عرب اسرائیل جنگ نے اس تنازعے کو مزید پیچیدہ بنا دیا جب اسرائیل نے عرب اتحاد کو شکست دے کر مصر سے غزہ کی پٹی، شام سے گولان اور اردن سے مشرقی یروشلم سمیت ویسٹ بینک یعنی غرب اردن چھین لیا۔ مصر کو سینائی سے بھی ہاتھ دھونا پڑا۔پھر 1973 میں مصر اور شام نے اسرائیل پر اپنے علاقے چھڑانے کے لیے حملہ کیا جسے ’یوم کپور‘ جنگ کہا جاتا ہے۔ چھ سال بعد اسرائیل اور مصر نے امن کا معاہدہ کر لیا اور سینائی مصر کو واپس لوٹا دیا گیا۔ اردن نے بھی کچھ عرصہ بعد اسرائیل کو تسلیم کرتے ہوئے مصر کی تقلید کی۔ اسرائیل آج بھی غربِ اردن پر قابض ہے تاہم اس نے 2005 میں غزہ کی پٹی سے فوجیں نکال لیں تھیں۔ اقوام متحدہ آج بھی اس علاقے کو مقبوضہ مانتا ہے۔ اسرائیل پورے بیت المقدس کو اپنا دارالخلافہ مانتا ہے جبکہ فلسطینی مشرقی بیت المقدس کو مستقبل کی فلسطینی ریاست کا دارالحکومت مانتے ہیں۔ اس وقت دو فلسطینی علاقے ہیں جن میں سے ایک غرب اردن اور ایک غزہ کی پٹی ہے۔ ان دونوں علاقوں کے درمیان 45 کلومیٹر کا فاصلہ ہے۔ غرب اردن کا رقبہ 5970 سکوائر کلومیٹر جبکہ غزہ کی پٹی صرف 365 سکوائر کلومیٹر پر محیط ہے۔ غرب اردن یروشلم اور اردن کے درمیان موجود ہے جبکہ غزہ کی پٹی 41 کلومیٹر طویل اور 10 کلومیٹرچوڑی ہے۔ غزہ کی پٹی کی سرحد کا سات کلومیٹر حصہ مصر سے ملتا ہے اور ایک جانب بحیرہ روم واقع ہے۔ غزہ میںحماس برسراقتدار ہے جس نے اسرائیل سے کئی مرتبہ جنگ کی ہے۔ اسرائیل اور مصر سختی سے غزہ کی سرحدوں کی نگرانی کرتے ہیں تاکہ حماس تک ہتھیار نہ پہنچیں۔ دوسری جانب غرب اردن میں بین الاقوامی طور پر مانی جانے والی فلسطینی حکومت ہے جس میں فتح تنظیم کا اہم کردار ہے۔ تاہم غرب اردن غربِ اردن کہلانے والے اس چھوٹے سے علاقے میں 86 فیصد فلسطینی ہیں جبکہ 14 فیصد لوگ اسرائیلی آباد کار ہیں جو ایسی بستیوں میں رہتے ہیں جو ایک دوسرے سے عموماً فاصلے پر موجود ہوتی ہیں۔زیادہ تر اسرائیلی بستیاں 70، 80 اور 90 کی دہائی میں تعمیر ہوئی تھیں مگر گزشتہ 20 برسوں میں ان کی آبادیوں میں دوگنا اضافہ ہوا۔ اسرائیل ان بستیوں کو پانی اور بجلی جیسی سہولیات فراہم کرتا ہے اور ان کی حفاظت اسرائیل کی فوج کرتی ہے۔اس وقت جن علاقوں میں جھڑپیں جاری ہیں وہ بھی یہی علاقے ہیں اور انہی علاقوں سے حماس نے 100سے زائد ”جنگی قیدیوں“ کو بھی اُٹھایا ہے، جن میں اسرائیلی فوج کے سینیئر افسران بھی شامل ہیں اور ان میں سے بہت سوں کو ان سرنگوں میں رکھا گیا ہے جنھیں ماضی میں اسرائیل نشانہ بناتا رہا ہے۔ الغرض اس وقت دونوں طرف حالات خراب ہیں، ظاہر ہے حماس نے بھی حملہ سوچ سمجھ کر کیا ہے، اور اُس کے پیچھے بھی دنیا کی چند ایک قوتیں کھڑی ہیں، جنہوں نے اسرائیل سمیت دنیا کی کسی خفیہ انٹیلی جنس ایجنسی کو اطلاع تک نہ ہونے دی کہ وہ کیا کرنے جار ہے ہیں، لیکن اس وقت سب سے زیادہ تشویشناک امر یہ ہے کہ اسرائیل سمیت دنیا کی بڑی طاقتیں کسی بڑے معاہدے یا نتیجے تک خاموش نہیں بیٹھیں گی۔ اور میرے خیال میں یہ جنگ اتنی طویل ہوگی کہ لوگ تمام پرانی جنگوں کو بھول جائیںگے۔ لہٰذااس وقت دنیا کی بڑی طاقتوں اور خصوصاََ اقوام متحدہ کو یہ سوچنا چاہیے کہ امن کیسے قائم ہوگا! مسئلہ یہ ہے کہ اس وقت اسرائیل میں چھ سیاسی پارٹیوں کی کولیشن حکومت ہے۔ ان میں لیکویڈ پارٹی‘ متحدہ صہیونی پارٹی‘ شاس اور مذہبی صہیونی پارٹی نمایاں ہیں۔ ساری حکومتی پارٹیاں انتہا پسند اور فاشسٹ ہیں۔ وہ فلسطینیوں کو ان کی اپنی سرزمین پر جینے کا حق دینے کو بھی تیار نہیں۔ اوسلو معاہدے کی ناکامی کے بعد 2002ءمیں سعودی فرمانروا شاہ عبداللہ نے ''لینڈ فار پیس“ کا فارمولا پیش کیا تھا۔ اس فارمولے کو امریکہ نے بھی پسند کیا تھا مگر اسرائیل نے اسے تسلیم نہیں کیا۔ اسرائیل کو یہ خیال دل سے نکال دینا چاہیے کہ جارحیت سے وہ فلسطینیوں کو دبا لے گا اور خطے میں امن قائم کر لے گا۔ اور معذرت کے ساتھ حماس کو بھی یہ بات نہیں سوچنی چاہیے کہ وہ ایران یا کسی دوسری طاقت کے ساتھ مل کر اسرائیل و امریکا کو ہرا دے گا۔ کچھ زمینی حقائق بھی ہیں جن کی وجہ سے ہم یہ تسلیم کر ہی نہیں سکتے کہ حماس اسرائیل سے مضبو ط ہے۔ اس حوالے سے حماس خود بھی اشارہ دے چکی ہے کہ ان کا مقصود اسرائیلی جیلوں میں قیدیوں کا تبادلہ ہے‘ شاید یہی وجہ ہے کہ حماس نے جنگی حکمت عملی کے تحت اسرائیلی فوجیوں کو یرغمال بنانے پر توجہ مرکوز رکھی۔ اب جبکہ صورتحال نہایت تشویشناک ہو چکی ہے تو عالمی برادری کو فوری مداخلت کرنی چاہیے۔ حماس کے حملوں کا مقصد کیا تھا‘ یہ راز تو سامنے نہیں آ سکا ہے‘ البتہ مستقبل قریب میں سعودی عرب اور اسرائیل کے جو مذاکرات ہونے والے تھے‘ موجودہ حالات میں ان مذاکرات کا دروازہ بند ہوتا نظر آ رہا ہے۔ دنیا جنگوں کو ترک کرکے آگے بڑھنے کا راستہ تلاش کر رہی ہے‘ اس دوران نئے جنگی محاذ سے پوری دنیا متاثر ہو سکتی ہے۔اس لیے اس لڑائی کو ختم کرنے کے لیے تمام قوتوں کو میدان میں آنا چاہیے۔ اس میں سعودی عرب، ترکی، امریکا، چین وغیرہ جیسے اثرو رسوخ والے ممالک کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اقوامِ متحدہ اور او آئی سی کے پلیٹ فارم سے بھی ٹھوس اقدامات سامنے آنے چاہئیں۔ بہرکیف تشدد کسی مسئلے کا حل نہیں ہوتا، حتیٰ کہ عارضی فائدہ بھی بہت کم ہوتا ہے، اور اگر ہو بھی جائے تو اس کا مستقبل میں آپ کو زیادہ شدت سے نقصان ہوتا ہے، حالانکہ اس سے پہلے اسرائیل کی طرف سے یہ اعلانات ہوتے رہے ہیں کہ اگر ایک اسرائیلی مرے گا تو ہم ہزار فلسطینی ماریں گے، اور وہ پھر مارتے بھی رہے۔ تو کیا ہوا اس سے جنگ ختم ہوئی؟لہٰذااسرائیل اور فلسطینیوں کو چاہیے کہ ٹیبل ٹاک کریں، آپ کسی بھی گروہ کو تشدد سے ختم نہیں کرسکتے! جاپانیوں پر ایٹم بم گرے تھے، تو اُس وقت بھی جاپانی ختم نہیں ہو گئے تھے، چنگیز خان کے قتل عام نے بھی دنیا کو ختم نہیں کر دیا تھا، نادر شاہ اور تیمور کے دہلی میں قتل عام سے دہلی ختم نہیں ہوگیا تھا،تشدد اور پابندیاں ہر مسئلے کا مستقل حل نہیں ہوتیں، بلکہ عارضی حل بھی نہیں ہوتیں۔ یہی بات پاکستان کو بھی سوچنی چاہیے کہ تشدد کے ذریعے کسی کو وقتی طور پر تو دبا سکتے ہیں، مگر اُسے دیرپا ختم نہیں کر سکتے۔ نہیں یقین تو آپ بھٹو کو دیکھ لیں، اُن کا 1979ءمیں تختہ اُلٹا گیا تو آج تک ہم مستحکم نہیں ہوسکے۔ مستحکم ہونے کے لیے ڈائیلاگ کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔