الیکشن کی تاریخ دینے میں مسئلہ کیا ہے؟

”جب تک الیکشن کی تاریخ نہیں دی جاتی، احتجاج جاری رہے گا“ یہ ہے ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت تحریک انصاف کا سب سے بڑا مطالبہ۔ اسی مطالبے پر لاہور سے اسلام آباد لانگ مارچ کا آغاز بھی کیاگیا، جلسے، جلوس بھی منعقد کیے گئے اور کبھی کبھار سکیورٹی اداروں سے مدبھیڑ بھی ہوئی۔ جبکہ اسی لانگ مارچ کے دوران عمران خان پر قاتلانہ حملے نے ملک میں جاری سیاسی بحران کو اور بھی شدید کر دیا ۔لیکن مجال ہے کہ پی ٹی آئی اپنے اس مطالبے سے ایک قدم بھی پیچھے ہٹی ہو۔ جبکہ مسئلہ یہ ہے کہ ہر گزرتے دن اس احتجاج میں شدت آتی جا رہی ہے۔ اور حیرانگی اس بات پر ہے کہ افراتفری کے اس عالم میں کسی کو پرواہ نہیں کہ مجموعی طور پر ملک کس قدر پیچھے جا رہا ہے۔ یعنی ایسی صورتحال میں سب سے بڑا مسئلہ جو سامنے آتا ہے وہ یہ ہے کہ ملک عدم استحکام کا شکار ہو جاتا ہے، ایسے میں ٹکراﺅ سے بچنے کے لیے ہمیشہ حکومت بڑے دل کا مظاہرہ کرتے ہوئے درمیانی راستہ نکالتی ہے،یہاں بھی میرے خیال میں اگر حکومت الیکشن کی تاریخ دے دے تو اس میں آخر مسئلہ کیا ہے؟ اور پھر اگر الیکشن کی تاریخ دینے سے ووٹر گھروں سے نکلتا ہے تو یہ ملک کے لیے خوش آئند بات ہے؟ لیکن اس کے برعکس یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ یہاں ہر بندہ اپنی اپنی سیٹ پر چپکنا کیوں چاہتا ہے؟یورپ یا کسی دوسرے ترقی یافتہ ملک میں ایسی صورتحال ہو تو فوراََ عوام سے رجوع کیا جاتا ہے،اور وسیع تر ملکی مفاد میں فیصلے کیے جاتے ہیں۔ تبھی تو دو ماہ میں برطانیہ کے 3وزرائے اعظم تبدیل ہو چکے ہیں، سبھی وزیر اعظم نے جاتے ہوئے ایک ہی بات کہی کہ اگر میرے جانے برطانیہ میں سیاسی استحکام آسکتا ہے تو وہ جانے کے لیے فوری تیار ہیں۔ جبکہ یہاں نہ تو ملکی مفاد کی خاطر استعفیٰ دینے کا رواج ہے نا ہی عوام کے پاس جانے کا۔ ستم ظریفی دیکھئے کہ خان صاحب کے ”الیکشن مطالبے “کی سب سے زیادہ مخالفت اُن حضرات کی طرف سے کی جا رہی ہے جو 2018ءکے عام انتخابات کے اگلے روز سے ہی اس کے نتائج کو ماننے سے انکاری تھے اور نیا الیکشن چاہتے تھے۔ 2018ءکے انتخابات میں ناکام ہونے والی یا کم سیٹوں پر کامیاب ہونے والی جماعتوں کی قیادت کی کوئی بھی پریس کانفرنس، کسی بھی عوامی اجتماع میں کیا جانے والا خطاب یا کوئی معمول کا بیان اُٹھا کر دیکھ لیں، وہ آپ کو ایک ہی مطالبہ کرتے نظر آئیں گے کہ ملک میں اگلے عام انتخابات کے جلد انعقاد کا اعلان کیا جائے۔ 2018ءکے الیکشن کے بعد کی ان کی کوئی میڈیا بریفنگ اٹھا کر دیکھ لیں وہ آپ کو یہی باتیں دہراتے نظر آئیں گے کہ یہ الیکشن جعلی تھے، یہ اسمبلی جعلی ہے اور یہ کہ ہم اس جعلی اسمبلی کو نہیں مانتے۔ ان کی طرف سے بار بار، تکرار کے ساتھ الیکشن کے روز آر ٹی ایس کے بیٹھ جانے کے حوالے دیے جاتے رہے۔ اور اب ان کی سوچ اور اخلاقی معیار کا اندازہ کیجئے کہ جس اسمبلی کو وہ جعلی کہتے نہیں تھکتے تھے اب اُسی اسمبلی میں بیٹھ کر اقتدار کے مزے لوٹ رہے ہیں۔ اُسی اسمبلی میں بیٹھ کر وہ اپنے خلاف دائر مقدمات ختم کروا چکے ہیں، اُسی اسمبلی میں بیٹھ کر وہ نیب کا حلیہ بگاڑ چکے ہیں۔ اب اُس اسمبلی اور اُن انتخابات کی شان اور افادیت پر ایسی ایسی بیان بازی کی جاتی ہےں کہ خدا کی پناہ۔بقول شاعر حیدر علی آتش نہ مڑ کر بھی بے درد قاتل نے دیکھا تڑپتے رہے نیم جاں کیسے کیسے حد تو یہ ہے کہ پی ڈی ایم میں بھی مسائل چل رہے ہیں، وہ بھی اندرونی طور پر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے، پی ڈی ایم یا تو مرکز میں نظر آرہی ہے یا سندھ میں ۔ جبکہ تحریک انصاف 2صوبوں میں بھی ہے۔اور مرکز میں بھی 150سے زائد سیٹیں رکھتی ہے۔ اور حالات یہ ہیں کہ تحریک انصاف، ن لیگ اور پیپلزپارٹی تینوں بڑی پارٹیاں ایک دوسرے کی جان کی دشمن بن چکی ہیں۔ تبھی ملک کی معاشی حالت دیکھ لیں، ڈالر ریٹ دیکھ لیں، مہنگائی دیکھ لیں،دنیا بھر میں ہماری ریٹنگ دیکھ لیں اور تو اور جب آپ کا ملک ڈونیشن پرچل رہا ہو تو ایسے میں سنبھل کر چلنے کے بجائے ہر کوئی دراڑیں ڈالنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اور خدشہ رہتا ہے کہ ایک ادارے کی باہمی لڑائی سے اس وقت ملک ٹوٹ رہا ہے، معاشی طور پر مفلوج ہو رہا ہے ۔اس کے ساتھ ساتھ سیلاب نے بھی موجودہ معاشی مشکلات میں شدید اضافہ کر دیا ہے۔ایسے میں بیرونی سرمایہ کاری بھی ختم ہو کر رہ گئی ہے۔ جبکہ بیرونی سرمایہ کاری کے حوالے سے تو پھر مشرف کا دور بہتر تھا، نہ تو پیپلزپارٹی کے دور میں حالات ساز گار تھے، نہ اُس کے بعد آنے والے ادوار میں کبھی حالات سازگار ہوئے۔ جبکہ تحریک انصاف کے دور میں حالات ساز گار ہوئے بھی تھے تو اُنہیں چلنے نہیں دیا گیا۔لہٰذا میرے خیال میں اس بحران سے بچنے کے لیے فوری طور پر الیکشن کی تاریخ دے دی جائے اور پھر جو نتیجہ سامنے آئے سب اُسی پر عمل کریں۔ لیکن اس کے لیے شرط یہ ہے کہ الیکشن شفاف ہوں! مجھے یاد ہے کہ صدر ضیاءالحق سے جب بھی کسی بھی پلیٹ فارم پر پوچھا جاتا کہ ملک میں انتخابات کب ہوں گے تو وہ جواب میں یہی کہتے تھے کہ جب تک مجھے انتخابات کے مثبت نتائج کا یقین نہیں ہو جاتا، انتخابات کا انعقاد نہیں ہو گا۔صدر ضیاءالحق کی سیاست اور طرزِ حکومت سے اختلاف کیا جا سکتا ہے، ان کی چند غلطیوں کو موضوع بحث اور شدید تنقید کا نشانہ بھی بنایا جا سکتا ہے لیکن اب اُن کے اس بیان کی منطق کافی حد تک سمجھ آ رہی ہے۔یعنی آپ 1976ءکے دھاندلی زدہ انتخابات میں کامیابی کی صورت میں ایک بار پھر وزیراعظم کا عہدہ سنبھالنے والے پیپلز پارٹی کے سربراہ ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف شروع ہونے والی تحریک کے نتیجے میں مارشل لاءلگنے کے بعد، قومی اتحاد کی نشستوں اور عہدوں کے لیے ہونے والی واضح سر پٹھول کے بعد عوامی اور سرکاری سروے یہ بتا رہے تھے کہ اگر حسب وعدہ نوے دن یا ا س کے بعد بھی عام انتخابات کرا دیے گئے تو پیپلز پارٹی کی کامیابی کے امکانات سب سے زیا دہ ہوں گے۔ اس لیے بار بار کے مطالبات اور بیرونی میڈیا کے دباﺅ اور سوالات کا صدر ضیاءالحق کی طرف سے یہی جواب دیا جاتا تھا کہ جب تک انہیں مثبت نتائج کی یقین دہانی نہیں ہو جاتی، انتخابات نہیں کرائے جا سکتے۔ آج تمام عمران خان مخالف جماعتوں کو یقین ہو چکا ہے کہ اگر اس وقت انہوں نے عام انتخابات میں حصہ لیا تو اس کے نتائج ان کی خواہشات کے مطا بق مثبت نہیں مل سکتے۔ شاید اسی لیے جمہوریت کی سربلندی کی دعویدار سیاسی جماعتیں اب نئے انتخابات کے انعقاد سے گریزاں ہیں۔جولائی اور اکتوبر میں صوبائی اور قومی اسمبلی کی نشستوں پر ہونے والے ضمنی انتخابات کے نتائج نے بھی ان جماعتوں کے ہوش اڑائے ہوئے ہیں۔ایک بہت بڑی اکثریت ایسی ہے جو عمران خان کے جلسوں میں تو نہیں آتی لیکن سوشل میڈیا پر ان کے حق میں اپنا حصہ ضرور ڈالتی ہے، اور اب پہلی دفعہ یہ دیکھنے میں آرہا ہے کہ عام انتخابات کے دوران یہ خاموش اکثریت نہ چاہتے ہوئے بھی لمبی لمبی قطاروں میں لگ کر عمران خان کے حق میں اپنا ووٹ کاسٹ کرے گی۔ بہرکیف اگرایسی صورتحال میں الیکشن سے جان چھڑائی جا رہی ہے تو پھر اس ملک کا اللہ ہی حافظ ہے۔ اور ویسے بھی اس صورتحال کو مزید نہ سنبھالا گیا تو آنے والے دنوں میں حالات مزید بگڑتے جائیں گے، حکومت کے لیے تو ویسے بھی یہ سفر مشکل ترین نظر آرہا ہے، کیوں کہ پی ڈی ایم جیسی گیارہ جماعتوں کا یہ اتحاد صرف ایک شخص کے سامنے زمین بوس ہو چکا ہے؟ 2018ءکے عام انتخابات میں اُن نشستوں پر جہاں سے پی ڈی ایم میںشامل جماعتوں کے امیدواروں نے بھاری مارجن سے تحریک انصاف کے امیدواروں کو شکست دی تھی، ایسی تمام نشستوں کو الیکشن کمیشن کے ذریعے خالی کروا کر ضمنی انتخابات کا اعلان کرا دیا گیا، اس کے باوجود سامنے آنے والے نتائج نے پی ڈی ایم کو دھول چٹا دی۔ مانسہرہ میں صوبائی اسمبلی کی ایک نشست پر اتحادی جماعتوں کی مشترکہ کاوش سے جب تحریک انصاف کا امیدوار ناکام ہوا تو مریم نواز صاحبہ نے عمران خان صاحب کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا لیکن اچھا ہوا کہ نہ ہی عمران خان اور نہ ہی تحریک انصاف کے کسی ادنیٰ سے لیڈر نے بھی پنجاب کی صوبائی نشستوں اور ملک بھر میں قومی اسمبلی کے ضمنی انتخابات میں نواز لیگ اور پی ڈی ایم کی عبرتناک شکست پر سخت الفاظ استعمال کیے۔ کرم ایجنسی سے قومی اسمبلی کے ضمنی انتخاب میں پی ڈی ایم کی دگنے مارجن سے شکست نے سب کو پیغام دے دیا ہے کہ اس ملک کے عوام کس کے ساتھ کھڑے ہو چکے ہیں۔ کیا ان نتائج کے باوجود مطلوبہ مثبت نتائج کے حصول کے لیے ملک کو ایک بار پھر تباہی اور بربادی کے عمیق گڑھے میں پھینکنے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں؟ لہٰذاضرورت اس امرکی ہے کہ فیصلہ کرنے والی قوتیں اگر نیوٹرل ہیں تو سیاسی بحران کو ختم کرنے میں اہم کردار ادا کریں، اور حکومت کے ساتھ مل کر الیکشن کی تاریخ دے دیں۔ اگر ایک دفعہ الیکشن کی تاریخ دے دی جائے، خواہ عیدالفطر سے پہلے یا بعد کی دے دی جائے، یعنی اپریل کی تاریخ دے دی جائے ۔ تو اس سے کیا فرق پڑنا ہے؟ کیا قومی مفاد کے لیے 2,4مہینوں کی قربانی نہیں دی جاسکتی؟ اور ویسے بھی پی ڈی ایم نے ان چار مہینوں میں کیا کر لینا ہے؟ اگر گزشتہ 30سال میں ان کا پیٹ نہیں بھرا تو اگلے چند ماہ میں کیسے بھر سکتا ہے؟ اس لیے ہوش کے ناخن لیں اور الیکشن کی تاریخ اناﺅنس کر دیں تاکہ سیاسی بحران کا خاتمہ ممکن ہو سکے!