اور کتنے سانحہ بلدیہ ٹاﺅن ہوں گے!

”میراچھوٹا بھائی محمد کاشف میرے ساتھ نواب شاہ اپنے آبائی گاﺅں جانا چاہتا تھا، ہوا کچھ یوں کہ صبح کے وقت میں اور کاشف ساتھ ساتھ نکلے تھے۔ اس نے فیکٹری جانا تھا جبکہ میں نے گاو¿ں۔ میرے ساتھ میرے والد بھی تھے۔ اس نے جب ہم لوگوں کو دیکھا تو کہنے لگا کہ اگر ہم دس منٹ انتظار کریں تو وہ فیکٹری سے چھٹی لے کر آتا ہے اور ہمارے ساتھ ہی گاو¿ں جانا چاہتا ہے۔میں نے اس سے کہا کہ چلو ٹھیک ہے ہم تمھارا انتظار کرتے ہیں۔ تم جاو¿ اور واپس آو¿ اچھا ہے ہم سب ساتھ جائیں گے۔ جس کے بعد وہ فیکٹری چلا گیا۔ میرا خیال تھا کہ اس کو چھٹی وغیرہ لینے میں آدھا گھنٹہ لگ جائے گا۔ مگر اس کے جانے کے کوئی پندرہ، بیس منٹ بعد شور شرابہ شروع ہو گیا۔میں نے باہر جا کر دیکھا تو فیکٹری کے باہر لوگ اکھٹے تھے۔ فیکٹری میں سے دھواں نکل رہا تھا۔ میرا بھائی اندر تھا۔ میں نے نہ آو¿ دیکھا نہ تاو¿ ایک کھڑکی توڑ کر فیکٹری کے دوسرے فلور پر پہنچ گیا۔ میرا خیال تھا کہ میرا بھائی فیکٹری کے تیسرے فلور پر ہوگا۔میں نے تیسرے فلور پر جانے کی کوشش کی مگر وہاں پر اتنا دھواں تھا کہ مجھے کچھ نظر نہیں آرہا تھا کئی منٹ تک کوشش کرتا رہا جب محسوس ہوا کہ اب میں بے ہوش ہونے والا ہوں تو بمشکل اسی کھڑکی سے کود کر نیچے اترا تھا۔“ یہ الفاظ کراچی کے محمد زاہد کے ہیں، جس کا چھوٹا بھائی کاشف اس حادثے میں جاں بحق ہوگیا تھا، اسی طرح کی دلخراش کہانیاں مزید 17خاندانوں کی بھی ہوںگی جن کے پیارے گزشتہ دنوں پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کے مہران ٹاﺅن کی ایک فیکٹر ی میں آگ لگنے کے پراسرار حادثے میں مارے گئے تھے، ان مزدوروں میں سے اکثریت پاکستان کے دوسرے شہروں سے محنت مزدوری کے لیے کراچی پہنچنے والوں کی تھی۔ جب ان مزدوروں کی جلی ہوئی لاشیں ان کے آبائی گھروں میں پہنچائی گئیں تو ان گھروں میں قیامت برپا ہو گئی۔افسوس تو اس بات کا ہے کہ یہ حادثہ ریگولر میڈیا سے لے کر سوشل میڈیا تک اور حکومتی ایوانوں سے لے کر کاروباری اداروں تک کسی فکر انگیز بحث کا موضوع نہیں بنا ، اور چونکہ مین اسٹریم میڈیا سمیت تمام سوشل میڈیا ”ریپ کیسز“ عائشہ کیسز، اور دیگر اسی قسم کے کیسز یا حکومت کی تین سالہ کارکردگی کو دکھانے میں مصروف ہے اس لیے اُنہیں مزدور نما انسانوں کی موت نظر نہیں آئی۔بقول حبیب جالب اس درد کی دنیا سے گزر کیوں نہیں جاتے یہ لوگ بھی کیا لوگ ہیں مر کیوں نہیں جاتے اور پھر ابھی حال ہی میں نور مقدم کیس ہوا، اُس کیس کو لے کر پورا میڈیا دن رات کوریج کرتا رہا،وہ بھی اس قوم کی بیٹی تھی، اُسے بھی کوریج ملنی چاہیے تھی تبھی اُس کیس کی بھی پیش رفت ہو سکی، ورنہ وہ کیس بھی طاقت اور پیسے کے نیچے دب جانا تھا، پھر سانحہ ماڈل ٹاﺅن میں بھی اتنے ہی لوگ شہید ہوئے تھے، لیکن اُس کے پیچھے چونکہ ایک سیاسی پارٹی تھی اس لیے اُسے بھی کافی Hipeملی ، پھر سانحہ مینار پاکستان سمیت دیگر کئی کیسز ہمارے سامنے ہیں جنہیں میڈیا پر شہرت ملتی ہے تو اُن کیسز کی شنوائی بھی جلدی ہوجاتی ہے ، پھر سوشل میڈیا بھی شاید پیسے والی پارٹیاں دیکھتا ہے کہ نور مقدم کیس، سانحہ مینار پاکستان شاید ایلیٹ کلاس کی نمائندگی کر رہے تھے اس لیے اُسے ہائی لائیٹ کیا گیا، یعنی مجھے تو لگتا ہے کہ سوشل میڈیا کی ایپس بھی صرف اُسی چیز کو وائرل کرتی ہیں جس میں اُن کا مفاد ہوتا ہے۔ خیر یہ ایک الگ بحث ہے مگر کیا مزدوروں کی کسی انسانی لاپروائی یا جرائم کی شکل میں ہلاکت کوئی معنی نہیں رکھتی؟ کیا یہ حیوانوں کا ملک ہے؟ کیا یہاں جنگل کا قانون ہے؟ یہاں تو یہ حال ہے کہ ابھی کچھ دن پہلے لاہور میں ایک مزدور فیکٹری میں کام کرتے ہوئے لوہا پگھلانے والے ڈرم میں گر کر ہلاک ہوگیا۔گاﺅں سے آنے والے غمزدہ باپ کو اس کے جوان سال بیٹے کی میت کی جگہ جلی ہوئی ہڈیوں کی ایک چھوٹی سی گھٹری پکڑادی دی گئی۔ دوسرے ہاتھ میں اس کی جان کی قیمت دو لاکھ دے کر باپ سے کہلوا دیا گیا وہ فیکٹری مالکان کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کروانا چاہتا۔ پھر ایک اور جگہ فیکٹری مالکان نے ظلم کی انتہا کر دی اور ایک ملازم کو کسی غفلت پر اُسی فیکٹری کے ملازمین کے ذریعے پاخانے کی جگہ پر ہوا بھر دی جس سے جواں سال ملازم کے پیٹ کی انتڑیاں پھٹ گئیں، اور وہ نیم مردہ حالت میں ہسپتال میں زندگی و موت کی کشمکش میں مبتلا ہے جبکہ اُس کے باپ کو فیکٹری مالکان نے 10ہزار روپے تھما دیے کہ خرچہ پانی رکھ لو! کیا ہم انسانوں کی دنیا میں رہتے ہیں؟ نہیں ناں! کیوں کہ اگر رہتے ہوتے تو ہم بھی اس ظلم کے خلاف آواز بلند کرتے کہ جہاں 20کروڑ روپے بھتہ نہ ملنے کی صورت میں 264مزدوروں کو موت کی نیند سلا دیا گیا۔ تصور کریں کہ حالیہ سانحہ مہران ٹاﺅن میں17مزدور یا سانحہ بلدیہ ٹاﺅن میں سینکڑوں مزدور یا اس طرح کے واقعات میں جاں بحق ہونے والے مزدور جب اس طرح کے واقعات کا شکار ہوتے ہوں گے تو اُن پر کیا گزرتی ہوگی؟ پل بھر کو سوچیں کہ وہ تو لمحاتی تکلیف سے گزر گئے، اللہ اُن کی اگلی منزلیں آسان کرے، مگر اُن کے خاندان کس اذیت سے گزرتے ہوںگے؟ کیا کبھی کسی نے یہ بات سوچی؟ کیا کسی نے اس طرف توجہ نہیں دلائی کہ حالیہ سانحہ بھی سانحہ بلدیہ ٹاﺅن سے ملتا جلتا ہے، جہاں حادثے کے وقت تمام دروازے بند کر دیے گئے تھے۔ اور حیرت تو اس بات پر ہے کہ ریاست بھی اس سانحہ کے بعد حرکت میں نہیں آئی! پھر لوگ صحیح کہتے ہیں کہ اس ملک میں کونسی ریاست؟ کونسے ہیومن رائیٹس؟ کونسے بلڈنگ بائے لاز، کونسے لیبر قوانین؟ الغرض یہ معاملہ سنگین تشویش کا ہے کہ وطن عزیز میں مزدور کی جان کی کوئی وقعت نہیں ہے۔مزدوروں کی زندگی اتنی ارزاں ہے کہ درجنوں کی تعداد میں رک پلیس پر لگنے والی آگ میں جل کر خاکستر ہو جائیں تو بھی ذمہ داروں ملک کے کرتا دھرتاﺅں طویل اور مختصر پالیسیاں بنانے والے اعلی حکومتی عہدیداروں کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ مزدور شب و روز اپنی جان مشقت میں ہلکان کرکے کنبے کے لئے دو وقت کی روٹی کا سامان کرتا ہے، وہ اس سے زیادہ کا طلبگار نہیں ہوتا کہ بس نوکری رہے اور زندگی کا پہیہ چلتا رہے۔ حالات یہ ہیں کہ ابھی تک مذکورہ واقعہ میں جہاں اتنی پراسرار انداز میں آگ لگی کہ ابھی تک اس کی ابتدائی رپورٹ تیار نہیں ہو سکی کہ آگ لگنے کی وجہ کیا تھی، ابھی تک تو آخری اطلاعات آنے تک فیکٹری مالکان کو بھی گرفتار نہیں کیا جاسکا۔ بلکہ اُن کے لیے یہ کر دیا گیا ہے کہ اُن کا نام 4دن بعد ای سی ایل میں ڈال دیا گیا ہے۔حالانکہ مجھے اس سسٹم پر پورا ”بھروسہ“ ہے کہ وہ یقینا اس ملک سے فرار ہو چکے ہوں گے! اور رہی بات ریاست کی تو مزدوروں کی موت کے ذمہ دار وہ ریاستی ادارے بھی ہیں جن کے نمائندے لیبر انسپکٹر کی صورت میں جاکر وزٹ کرتے ہیں تو دیانت داری سے ان فیکٹریوںکو لیبر لاز نہ لاگو کرنے پر بھاری جرمانہ کرنے اور ایسی خطرناک ورک پلیس کی تالا بندی کرنے کی بجائے ان سے رشوت لے کر اپنی جیب گرم اور منہ بند کر لیتے ہیں۔اور ایک دن ایسی خطرناک جگہوں پر یہ غریب مزدور کام کرتے جل کر راکھ ہو جاتے ہیں۔اس طرح ان مزدوروں کی موت کی ذمہ دار دار ریاست خود ہے ریاست ان کی زندگی کی حفاظت کرنے میں ناکام ہوئی ہے۔ جل کر راکھ ہو جانے والے یہ مزدور بھی پاکستان کے شہری تھے، یہ خاک بسر لوگ بھی اتنی ہی عزت اور احترام کے لائق تھے جتنا اس ملک کے اندر ہر کوئی پیسے والا شخص ہے۔یا تو آئین میں ترمیم کردی جائے کہ پاکستان کے غریب مزدور ریاست پاکستان کے آئین کی رو سے بنیادی انسانی حقوق کے دائرے سے خارج کردیے گئے ہیں۔وہ سماج کے عدم مساوات پر مبنی نظام کے ہاتھوں ذلیل و خوار ہوں یا ورک پلیس پر آگ میں جل کر خاکستر ہو جائیں ریاست پر ان کی کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی۔یہ تلخ حقیقت ہے لیکن سچ یہ ہے کہ پاکستان کے کم وسیلہ لوگوں کے ساتھ یہ ظلم برسوں سے ہو رہا ہے۔ بہرکیف یہاں یہ چیز عام ہو چکی ہے کہ جو چیز زبان زد عام ہو جائے تو اُس کیس کا ہر کوئی فالو اپ کرتا ہے، مگر جس کیس کو کوئی فالو اپ نہیں کرے، یا میڈیا اُسے نا ہائی لائیٹ کرے تو وہ کیس بھی دب جاتا ہے، جیسے حالیہ آتشزدگی کیس۔ لہٰذاسوال یہ ہے کہ پھر ریاست کہاں ہے؟ ریاستی ادارے کہاں ہیں؟ حکومتی قائدین کہاں ہیں؟ کہاں ہیں صاحب اختیار لوگ؟ کیا یہ با اختیار لوگ کسی نئے سانحہ بلدیہ ٹاﺅن کے انتظار میں ہیں؟ یا پھر اُنہیں اس مبینہ بھتے میں سے حصہ ملتا ہے، جس کے ناملنے سے پوری فیکٹری مزدوروں سمیت جلا دی جاتی ہے؟ ایک لمحے کو سوچیں کہ اگر یہ خوفناک حادثے خدانخوستہ پاکستان کے امیر طبقہ کے لوگوں کے ساتھ ہوئے ہوتے، کسی کارپوریٹ دفتر میں لوگ حادثاتی طور ایسے مر جاتے۔طبقہ اشرافیہ کے کسی بھی شعبے سے تعلق رکھنے والے 17 افراد اس طرح آگ میں جل کر مر جاتے جیسے کورنگی کراچی کی فیکٹری کی ہوا تو کیا ہوتا؟کیا اس روز میڈیا پر چلنے والے پرائم ٹائم پروگراموں کا موضوع یہ حادثہ نہ ہوتا؟ہماری صحافتی اشرافیہ کے سپر سٹار صحافی تازہ ترین سیاسی ڈویلپمنٹس کو بھول کر اپنے تجزیوں اور تبصروں میں اس حادثے کا ذکر نہ کر رہے ہوتے؟ لہٰذاقصور ہمارا بھی ہے کہ ہمارا مزاج ایسا بن چکا ہے کہ ہم کسی بھی سانحے کے بعد آنکھیں بند کرلیتے ہیںاور پھر کسی بڑے سانحے کے انتظار میں اُس کبوتر کی طرح آنکھیں بند رکھتے ہیں کہ جب تک وہ خود شکار نہ ہوجائے! اس لیے دیر نہ کریں اور ان سانحات پر بھی اُتنا ہی شور مچائیں جتنا دوسرے سانحات پر ڈالا جاتا ہے، کیوں کہ یہ بھی ہماری ہی اولاد میں سے ہیں! #Mehran Town saniha #Ali Ahmed Dhillon #Talkhiyan #LeaderNews