تمام اسٹیک ہولڈرز ہو ش کے ناخن لیں!

ماہ رمضان میں چونکہ سیاسی سرگرمیاں کم ہو جاتی ہیں اس لیے خبریں بھی روٹین سے ہٹ کر کم ہی ملتی ہیں، لیکن اس بار جب سے رمضان المبارک کا مہینہ آیا ہے، خبروں نے تو پاکستان کا گھر ہی دیکھ لیا ہے۔ اور پھر حکومت ایک مسئلے کو سلجھانے میں اپنی تمام توانائیاں صرف کرنے ہی لگتی ہے کہ ایک نیا مسئلہ اور نیا تنازعہ شروع ہوجاتا ہے، اس کی قصور وار بھی شاید حکومت خود ہی ہے کہ وہ اکثر اوقات آ بیل مجھے مار کے مترادف اقدام اُٹھاتی ہے جو اکثر اُس کے گلے پڑ جاتے ہیں، حالیہ دنوں میں بھی یہی کچھ ہوا کہ حکومت نے حفظ ماتقدم کے طور پر کالعدم ٹی ایل پی کے سربراہ کو گرفتار کر لیا، جس سے حالات کشیدہ ہوئے، اور 4پولیس اہلکار شہید ہوگئے۔پھرحکومتی موقف کے مطابق اتوار کو تھانہ نواں کوٹ پر مظاہرین کی جانب سے دھاوا بولا گیا اور ڈی ایس پی سمیت گیارہ پولیس اہلکاروں کو اغوا کر لیا گیا۔ پھر جواب میں حکومت نے اتوار ہی کے روز احتجاج کرنے والوں کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا اور حالات مزید کشیدہ ہوگئے۔ اس ساری صورتحال کے بعد نتیجہ یہ نکلا کہ ملک بھر میں پہیہ جام ہڑتال کی کال دے دی گئی اور جگہ جگہ احتجاج دوبارہ شرو ع ہوگئے اور معیشت کا پہیہ رک گیا۔ اب صورتحال یہ ہے کہ حکومت چاہتے اور نہ چاہتے ہوئے بھی مذاکرات کی میز پر آنا چاہتی ہے مگر حالات قابو میں آنے کا نام ہی نہیں لے رہے۔ اسی اثنا میں وزیر اعظم عمران خان نے گزشتہ روز قوم سے خطاب کیا اور یہ بات سمجھانے کی کوشش کی کہ توہین رسالت کے حوالے سے جتنا درد ٹی ایل پی کو ہے اُس سے زیادہ حکومت کو ہے، مگر دونوں کے طریقہ کار میں فرق ہے۔ مزید کہا کہ جیسے ہی پاکستان میں ان واقعات نے سر اُٹھایا، دشمن ملک کی ایجنسیاں بھی متحرک ہو گئیں، اور انٹیلی جنس رپورٹس کے مطابق سوشل میڈیا پر دشمن ممالک نے پروپیگنڈا شروع کردیا۔اور 380 بھارت کے جعلی واٹس ایپ گروپس پاکستان مخالف مہم چلا رہے تھے۔اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے بتایا کہ ہزاروں جعلی فیس بک اکاﺅنٹس سوشل میڈیا کے ذریعے تشدد کو ہوا دے رہے تھے۔ اس بات میں حقیقت ہے کہ دنیا بھر کے مسلمانوں کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے بالکل درست طور پر اس حقیقت کی نشان دہی بھی کی کہ حضور اکرم مسلمانوں کے دلوں میں بستے ہیں لیکن انتہا پسند مغربی سیاستدان آزادی اظہار کے نام پر پیغمبر اسلام کی شان میں گستاخی کے اقدامات کی حمایت کرکے مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچاتے ہیں۔ لیکن وزیر اعظم ہو یا عام آدمی کسی کے کہنے سے کیا فرق پڑتا ہے!! کیوں کہ ہم جس جنگ میں جھونک دیے گئے ہیں، اگر اپنا بچاﺅ نہ کیا تو وہاں صرف تباہی ہی تباہی ہے۔ اور حالیہ واقعات کے بعد اور انٹیلی جنس رپورٹس کے بعد ایک بات کا یقین تو ہو گیا کہ ہم نے ہر جنگ کی تیاری کی لیکن ”ففتھ جنریشن وار“ میں ہم بہت پیچھے رہ گئے، یا یوں کہہ لیں کہ دنیا کے 56اسلامی ممالک میں بھی سب سے پیچھے۔ کیوں کہ دنیا اس وار کو سمجھ چکی ہے لیکن ہم دلدل میں دھنستے چلے جا رہے ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ آگے چلنے سے پہلے ہم جنریشن وارز پر نظر ڈالیں تو ہمیں اکثر یہ سننے کو ملتا ہے کہ پاکستان ففتھ جنریشن وار کا حصہ بن چکا ہے۔ ففتھ جنریشن وار کو جاننے سے پہلے ہمیں پچھلی جنریشن وارز کو جانا ضروری ہے۔ ماہرین کے مطابق جب جنگوں میں دونوں طرف کے انسان آمنے سامنے رہ کر تلواروں سے لڑا کرتے تھے تو اس کو فرسٹ جنریشن وار کا نام دیا گیا۔ انگلش سول وار (1642-1651) ، امریکہ کی جنگ آزادی (1775-1783) اوراُس دور کی ایشیا کی متعدد جنگیں اس کی نمایاں مثالیں ہیں۔ پھر جب بندوق اور توپیں کی ایجاد ہوئی اور اس کے ذریعے جنگیں لڑی جانے لگیں تو ان جنگوں کو سیکنڈ جنریشن وار کہا جاتا ہے۔ سیکنڈ جنریشن وار کی سب سے بڑی مثال پہلی جنگ عظیم (1914-1919) ہیں۔جب جنگوں میں فضائیہ اور نیوی وغیرہ کو بنیادی حیثیت حاصل ہوئی یا میزائلوں کے ذریعے دور سے دشمن پر وار کرنے کا راستہ نکلا اور ٹیکنالوجی کا استعمال فیصلہ کن کردار ادا کرنے لگا سو اس طرح کی جنگوں کو تھرڈ جنریشن وار کا نام دیا جاتا ہے۔ تھرڈ جنریشن وار کی سب سے بڑی مثالیں دوسری جنگ عظیم (1939-1945) اور کوریا وار(1950-1953) ہے۔ تھرڈ جنریشن تک جنگیں صرف افواج کے درمیان لڑی جاتی تھیں۔ ایک ملک کی فوج کو دوسرے ملک کی افواج کا معلوم ہوتا تھا۔ لیکن جوں جوں وقت گزرا جنگی محاذ پر بھی نت نئے تجربات کیے گئے جو کامیاب رہے۔ جنگ لڑنے کے لیے ملکی افواج کے ساتھ ساتھ نان اسٹیٹ ایکٹرز کا کردار بھی اہم ہو گیا۔ مقامی شرپسند عنصراور پراکسیز کا کردار بھی اہم بن گیا۔ نان اسٹیٹ ایکٹرز کے ساتھ ساتھ سفارت کاری، معیشت اور پروپیگنڈے کے ہتھیار بھی شامل ہوگئے۔ اس طرح کی جنگ کو فورتھ جنریشن وار کا نام دیا گیا۔ فورتھ جنریشن وار کی مثال سرد جنگ کی ہے جس طرح سوویت یونین نے کئی ممالک میں یہ جنگیں اپنی فوجیں بھیجنے کی بجائے مقامی طاقتوں کے ذریعے لڑیں۔ ماہرین نے ففتھ جنریشن وار کی سادہ الفاظ میں تعریف کی کہ اس میں پوری قوم شریک ہوتی ہے۔ اس جنریشن کی وار میں جنگ یعنی ایک دوسرے کے سامنے لڑنے کی نوبت نہیں آتی، بلکہ اس میں دشمن اپنے ”ہارڈ پاور“ کی بجائے ”سافٹ پاورز “کو استعمال کرتا ہے۔ ففتھ جنریشن وار کے بنیادی ہتھیار جہاز، ٹینک اور میزائل نہیں بلکہ سوشل میڈیا، ٹی وی، ریڈیو، سفارت کاری، پراکسیز، اخبار، فلم اور معیشت ہیں۔ یہ زمین پر نہیں بلکہ ذہنوں میں لڑی جاتی ہے۔ انسانوں کو نہیں بلکہ ان کے ذہنوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ فوجیں بھیجنے کی بجائے زیرنشانہ ملک کے شہریوں کو اپنی ریاست اور فوج کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے۔ ففتھ جنریشن وار کے متعلق ایک کہاوت بہت مشہور ہے ”یہ وہ جنگ ہے جسے جیتنے کے لیے ضروری ہے کہ اسے لڑا ہی نہ جائے“۔ اب دیکھیں ! کہ کیا ہم ففتھ جنریش کا شکار نہیں ہیں؟ ہم اپنے ہی ملک میں توڑ پھوڑ کر رہے ہیں، پرامن احتجاج کے بجائے راستوں میں رکاوٹیں کھڑی کرکے، پولیس اور فوج کو نشانہ بنا کر، اپنے ہی لوگوں پر تشدد کرکے اور کسی دوسرے ملک کے مسائل کو اپنے ملک میں لاکر کون سا نیک کام کر رہے ہیں۔ اور پھر آپ سب کچھ چھوڑیں یہ دیکھیں کہ مظاہرین کی جانب سے جب ملک کو بند کیا گیا، تو قوم حکومت کو گالیاں دے رہی تھی کہ انہیں ملک میں حکومت کی رٹ کہاں ہے؟ لوگ خوار ہو رہے ہیں اور حکومت سو رہی ہے وغیرہ، میں نے بذات خود آفس سے گھر تک کا سفر 30منٹ کے بجائے 3گھنٹے میں کیا۔ اور پھر جب ریاست حرکت میں آئی تو سب کچھ اُلٹا چلنا شروع ہوگیا ہے، پھر یہی لوگ حکومت کو آڑے ہاتھوں لے رہے ہیں۔ سب یوٹرن لیتے ہوئے حکومت کو برا بھلا کہہ رہے ہیں، سڑکوں پر آرہے ہیں، تاجر دکانیں بند کر رہے ہیں۔ مطلب ہم سب یوٹرن کے عادی ہو چکے ہیں۔ لہٰذاہمیں پرامن ہو کر اور اجتماعی طور پر سوچنا چاہیے کہ کسی بھی مسئلے کا حل کس طرح نکالا جائے، مغرب اگر آپ کی شان میں گستاخی کرتا ہے تو شاید ہی پاکستان میں کوئی ایسا مسلمان ہو جسے اس پر اعتراض نہ ہو، لیکن اس سلسلے میں او آئی سی کے خلاف ہمیں احتجاج کرنا چاہیے، کہ وہ مسلمانوں کے خلاف زہر پھیلانے والوں کے خلاف کوئی مشترکہ لائحہ عمل ترتیب کیوں نہیں دیتا؟دوسری جانب اس معاملے میں حکومت سے بھی غلطیاں سرزد ہوئی ہیں، حکومت کو ایسا کوئی معاہدہ ہی نہیں کرنا چاہیے تھاجسے وہ پورا نہ کر سکتی۔ اور اگر کر لیا تھا تو افہام و تفہیم سے اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کرتی۔ لہٰذا حکومت اور تمام اسٹیک ہولڈرز حالات کی نزاکت کو سمجھیں اور ففتھ جنریشن وار کا حصہ بننے کے بجائے عالمی فورمز کے خلاف پرامن احتجاج کریں تاکہ ہماری آوازحکومت کے ساتھ ملکر اقوام عالم تک پہنچے ، جبکہ اس کے ساتھ ساتھ حکومت اپوزیشن پر تنقید کرنے کے بجائے اس شریف سی اپوزیشن کو ساتھ لے اور مسائل کے حل کے لیے ایک ایسا لائحہ عمل بنائیں، تاکہ آئندہ عوام کو مشکلات کا سامنا نہ اُٹھانا پڑے ۔