ایران سعودیہ تعلقات بہتر بنا سکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں؟

ملکی سیاست کو دیکھیں اور عالمی سیاست کو دیکھیں تو دونوں ایک دوسرے کے اُلٹ نظر آرہے ہیں، دنیا مفاہمت کی طرف جا رہی ہے اور ہم مزاحمت کی طرف۔ دنیا معاشی معاہدے کر رہی ہے اور ہم قرض لینے کے ۔ دنیا نئے نئے مینوفیکچرنگ یونٹ بنا رہی ہے اور ہم نئے نئے ٹیکس لگا کر کمائی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ نہیں یقین تو دیکھ لیں، گزشتہ تین سالوں میں بھارت بنگلہ دیش کے درمیان 64معاہدے ہوئے۔ جاپان چین کے درمیان 36نئے معاہدے ہوئے اور چین سری لنکا کے درمیان 72معاہدے ہوئے۔ جبکہ امریکا یورپ کی تو بات ہی چھوڑ دیں، وہاں تو معاشی ڈویلپمنٹ اتنی ہی معمول کی بات ہے جتنی پاکستان میں قرض لینے کی۔ اور تو اور گزشتہ مہینے عالمی سیاسی منظر نامے پر ایک تہلکہ خیز پیش رفت ہوئی جب چین کی ثالثی کے نتیجے میں ایران اور سعودی عرب نے اپنے سفارتی تعلقات کی بحالی کا اعلان کیا۔کئی ماہ پر محیط ”خفیہ سفارتکاری“ کے بعد 6 مارچ کو ایرانی سپریم نیشنل سیکورٹی کونسل کے سیکرٹری اور سعودی قومی سلامتی کے مشیر کے درمیان بیجنگ میں حتمی مذاکرات شروع ہوئے۔ 4 روز تک جاری رہنے والے ان مذاکرات کے بعد 10 مارچ کو دونوں ممالک نے معاہدے کا اعلان کیا جس کے مطابق اگلے 2 ماہ میں دونوں ممالک اپنے مکمل سفارتی عملے کے ساتھ سفارتخانے کھول لیں گے۔ مشرق وسطیٰ کے ان 2 حریف ممالک کے درمیان ہونے والی اس ڈیل کا عمومی طور پر خیر مقدم کیا گیا ہے ، اگر ہم ان دونوں ممالک کے تعلقات کی تاریخ کا سرسری جائزہ لیں تو ایران اور سعودی عرب کے مابین سفارتی تعلقات 1929ءمیں قائم ہوئے لیکن 1944ءمیں یہ تعلقات ایک ایرانی باشندے کو سعودی عرب میں سزائے موت دینے کے معاملے پر منقطع ہوگئے تھے۔ 1946ءمیں دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی بحالی کی کوششیں شروع ہوئیں مگر 1960ءتک مختلف وجوہات کی بنا پر یہ معاملہ تکمیل تک نہ پہنچ سکا۔بعد ازاں ان دونوں ممالک کے تعلقات میں وقت کے ساتھ ساتھ اتار چڑھاو¿ آتے رہے جن میں 1979ءکا انقلابِ ایران، 1987ءمیں حج کے دوران بھگدڑ مچنا اور اس میں ایرانی عازمین کی ہلاکت، 2011ءکی عرب بہار کے بعد بحرین میں ہونے والے حکومت مخالف مظاہرے اور سعودی عرب کے شیعہ اکثریتی علاقے میں ہونے والے حکومت مخالف مظاہرے بھی وجہ بنے۔ ان دونوں ممالک کے تعلقات میں حالیہ تعطل 2016ءمیں آیا جب سعودی عرب نے شیعہ عالم دین شیخ نمر کی سزائے موت پر عمل درآمد کیا اور اس کے نتیجے میں دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی عروج پر پہنچ گئی۔ تہران میں واقع سعودی سفارتخانے پر مظاہرین نے دھاوا بول دیا اور عمارت کے ایک حصے کو آگ لگادی جبکہ مشہد میں واقع سعودی قونصلیٹ پر بھی حملہ ہوا۔ جس کے نتیجے میں سعودی عرب نے ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات ختم کرنے کا اعلان کردیا۔اس کشیدگی کے نتیجے میں ایران اور سعودی عرب کے درمیان حج کے موقعے پر عازمین حج کی آمد و رفت اور ان کی حفاظت کے حوالے سے جاری مذاکرات بھی تعطل کا شکار ہوئے اور 2016ءمیں کوئی ایرانی شہری حج کرنے نہیں پہنچا۔ پھر اس لڑائی میں امریکا بھی پیش پیش رہا اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اقتدار کے دوران سعودی عرب اور ایران کے تعلقات بہت زیادہ کشیدہ رہے۔ اور ڈونلڈ ٹرمپ نے دورہ سعودی عرب میں 110 ارب ڈالر کا ہتھیاروں کا معاہدہ کیا اور ایران کے خلاف سعودی عرب کی بھرپور حمایت کااعلان کیا۔ جواباً ایران کی جانب سے سعودی پالیسی کی مذمت کی گئی۔ پھر اس سے پہلے 2014ءمیں حوثی باغیوں نے یمن کے دارالحکومت پر قبضہ کرلیا جس پر سعودی عرب نے الزام عائد کیا کہ حوثی باغیوں کو ایران کی طرف سے بھرپور امداد فراہم کی جارہی ہے۔ 9 برسوں سے جاری اس تنازع میں اب تک لاکھوں افراد، جنگی حملوں، بھوک اور بیماریوں کے باعث اپنی جانیں گنوا چکے ہیں۔ سعودی عرب نے اتحادی ممالک کے ساتھ مل کر یمن کے خلاف فوجی محاذ کھولا اور معاشی طور پر یمن کو تنہا کردیا۔ تمام تر حربے آزمانے کے باوجود سعودی عرب یمن میں مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں ناکام رہا۔یمن عملی طور پر ایران اور سعودی عرب کی پراکسی جنگ کا میدان بن گیا اور اس کا نتیجہ ایک عظیم انسانی المیے کی صورت میں سامنے آیا جہاں لاکھوں افراد بھوک، افلاس اور بیماریوں کے سبب جان کی بازی ہار گئے۔ لیکن اس تمام تر صورتحال کے بعد بالآخر ایک میز پر بیٹھے اور کسی نتیجے پر پہنچے ہیں۔ اب اس پیش رفت میں یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ یہ سب کچھ چین کے مفاد میں ہے، ظاہر ہے چین کے اپنے مفادات بھی ہوں گے، کیوں کہ وہ اس خطے میں ایک تجارتی ہب بنانا چاہ رہا ہے مگر جو کام اقوام متحدہ، او آئی سی سمیت دیگر ادارے کرنے میں ناکام رہے وہ چینی ”مفادات“ نے کر دکھایا۔ اور راقم تو پہلے ہی اس حوالے سے کئی بار لکھ چکا ہے کہ دنیا بھر میں کہیں مذہب کی جنگ نہیں، بلکہ ہر طرف مفادات کی جنگیں ہوتی ہیں۔ اور ویسے بھی دنیا بھر کے ممالک کا 70فیصد کاروبار ہمسایہ ممالک کے درمیان ہوتا ہے۔ جبکہ اس کے برعکس پاکستان کو دیکھ لیں۔ پاکستان شاید دنیا کا واحد ملک ہے جس کی ہمسایوں کے ساتھ براہ راست تجارت کم اور سمگلنگ کی مد میں زیادہ ہوتی ہے۔ خاص طور پر بھارت، ایران اور افغانستان کے بارڈرز سے روزانہ کروڑوں روپے کی سمگلنگ معمول کی بات ہے۔ جبکہ 2014ءسے 2021ءکے دوران سمگلنگ میں تین سے چار گنا اضافہ ہوا ہے اور غیر قانونی تجارت 3.8فیصد سے بڑھ کر 11.2فیصد تک پہنچ گئی ہے جس کے بعد حکومت نے یہ اندازہ لگایا ہے کہ پاکستان کو سمگلنگ کی وجہ سے 700ارب روپے کا ریونیو خسارہ برداشت کرنا پڑتا ہے۔ لیکن اب مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان اپنے ہمسایہ ممالک سے تجارت کرے بھی تو کس نہج پر کرے کیوں کہ پاک بھارت تجارت مسئلہ کشمیر اور دونوں ملکوں کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے رکی ہوئی ہے۔ویسے ایک بات تو کلیئر ہو چکی ہے کہ ہم جنگ کے ذریعے کشمیر نہیں لے سکتے۔ جب تک ہم یہ بات نہیں مانیں گے تب تک ہم مشکل میں رہیں گے۔ اور اگر ہمارے بھارت کے ساتھ تعلقات اچھے ہو جائیںتو میرے خیال میں کشمیریوں پر ظلم بھی کم ہو جائے گا۔ خیر یہ تو الگ موضوع ہے، مگر ایران کے ساتھ ہماری تجارت امریکی دباﺅ کی وجہ سے رکی ہوئی ہے حالانکہ ایران بھارت اور چائنہ کے ساتھ اربوں ڈالر کی تجارت کر رہا ہے لیکن ہماری کمزور خارجہ پالیسیوں کی وجہ سے پاکستان ایران تجارت پر پابندیاں لگا دی گئی ہیں۔ جبکہ پاک افغان تجارت کی بات کریں تو پاک افغان تجارت تو آسانی سے ہو رہی ہے مگر افغانستان کے پاس پاکستان کو ادائیگی کے لیے مناسب رقم نہیں ہے یعنی طالبان حکومت کے آنے کے بعد وہاں ڈالر کی ریل پیل رک گئی ہے یا محتاط ہوگئی ہے ۔ اور رہی بات چین کی تو چین پاکستان کی تجارت جاری و ساری ہے مگر اُس کا فائدہ براہ راست چین کو ہو رہا ہے۔ کیوں کہ ہم چین کو محض 10فیصد اشیاءفروخت کر پاتے ہیں جبکہ چین ہمیں 90فیصد اشیاءفروخت کرکے اُلٹا ہماری مقامی انڈسٹری کو تباہ کر رہا ہے۔ لہٰذاہمیں بھی اگر آگے بڑھنا ہے تو خطے میں موجود تمام ممالک سے کچھ لے اور کچھ دے کی پالیسی پر عمل پیرا ہونا ہوگا۔ اپنے مفادات کو مقدم جان کر آگے بڑھنا ہوگا۔ خاص طور پر بھارت سے تجارتی تعلقات کو Legalizeکرنا ہوگا۔ جو چیزیں ہم بھارت سے دبئی کے راستے خریدتے ہیں وہی ہمیں براہ راست خرید کر عوام کو فائدہ دینا ہوگا۔ گندم ہم آسٹریلیا سے امپورٹ کرتے ہیں جبکہ یہی گندم ہمیں بھارت بھی سستے داموں دے سکتا ہے۔ شرم کی بات تو یہ ہے کہ دنیا میں جب بھی دو ممالک کے درمیان تعلقات خراب ہوتے ہیں تو تجارت نہیں رکنے دی جاتی کیوں کہ اُس میں عوام کا مفاد ہوتا ہے لیکن ہم سب سے پہلے تجارت پر پابندی لگا دیتے ہیں، اور یہ کام ہمارے مفاد پرسیاستدان ذاتی فائدے کے لیے کرتے ہیں۔ لہٰذاسوال یہ ہے کہ آپ کے حالات جس مرضی نہج پر پہنچ جائیں، تجارت نہیں رکنی چاہیے ۔ حالانکہ اسی خطے کے دو بڑے ہمسایہ ممالک بھارت اور چین کے حالات کس قدر بھی کشید ہ ہوں مگر وہاں تجارت نہیں رکتی۔ بلکہ گزشتہ سال انڈیا اور چین کے درمیان دو طرفہ تجارت 100 ارب ڈالرز سے تجاوز کر چکی ہے لیکن دونوں طرف سے اس پر زیادہ بات نہیں کی جاتی ہے۔ اس کی وجہ واضح ہے، مشرقی لداخ میں سرحدی کشیدگی کے بعد سے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات انتہائی نازک دور سے گزر رہے ہیں۔حالانکہ یہ دوطرفہ تجارت جو 2001 میں 1.83 ارب امریکی ڈالرز تھی وہ گزشتہ سال کے 11 ماہ میں بڑھ کر 100 ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔ یہ دونوں ممالک کے کاروبار کے لیے ایک بڑا موقع ہے کیونکہ دونوں ممالک نے اپنی تجارت کے لیے تعلقات کو بہتر کیا ہے۔ بہرکیف اگر سعودی عرب ، ایران تعلقات کی بات کریں تو اس سے یقینا پاکستان کو بھی فائدہ ہے، یہ ڈیل نہ صرف خطے بلکہ پاکستان کے لیے بھی انتہائی خوش آئند ہے۔ اس ڈیل میں شامل تینوں ممالک پاکستان کی خارجہ پالیسی میں ہمیشہ سے اہم رہے ہیں۔ چین اور ایران پاکستان کے پڑوسی ہیں تو سعودی عرب ہر مشکل وقت کا ساتھی ہے۔ ایک ایسے وقت میں کہ جب پاکستان مشکل ترین معاشی صورتحال سے گزر رہا ہے اور آئی ایم ایف سخت شرائط عائد کر رہا ہے، خطے میں اس نئی پیش رفت کے دور رس اور مثبت اثرات پاکستان پر بھی پڑیں گے۔لیکن اس کے لیے پاکستان کو اپنی کل سیدھی رکھنا پڑے گی۔ شفاف قیادت لانا ہوگی، تبھی کوئی ہم سے بات چیت کر سکے گا۔ تبھی کوئی ہماری بات بھی سنے گا اور برابری کی سطح پر نہ صرف مذاکرات کرے گا۔ بلکہ معاہدے بھی کرے گا۔ لیکن فی الحال تو صورتحال یہ ہے کہ اگر ہم بھارت کے ساتھ بات چیت کے لیے ہاتھ بڑھاتے ہیں تو اُن کا وزارت خارجہ کا آفس ہی ہماری التجا کو آگے نہیں جانے دیتا اور کہہ دیتا ہے کہ پاکستان میں منتخب حکومت کی کوئی حیثیت نہیں اصل اختیارات جن کے پاس ہیں ہم اُن سے فی الوقت مذاکرات نہیں کر سکتے! لو کر لوگل!