دلیپ کمار.... ایک عہد تمام ہوا!

دلیپ کمار ایک عہد کا نام تھا، جو 7جولائی 2021ءکو ختم ہوگیا، وہ مجھ سمیت بہت سوں کے بچپن ہی سے آئیڈیل سٹار تھے۔وہ تھے تو بالی ووڈ سٹار مگر ہمیں کئی دہائیوں تک ان باتوں پر فخر تھا کہ انڈیا کا ”نمبر ون سٹار“دلیپ کمار ایک تو مسلمان ہے اور دوسرا وہ پاکستان کا رہائشی ہے، اور تیسرا اُس کے اندر سے پاکستان کے لیے محبت کبھی ختم نہیں ہوئی۔ کیوں دلیپ کمار کا بھی پاکستان سے دل کا رشتہ رہا،جس کا اظہار وہ اکثر کیا کرتے تھے،اور پشاور سے تعلق اور اس سے جڑی یادیں ہمیشہ تازہ کرتے تھے۔ وہ پشاور کے محلہ خدا داد میں 1922ءمیں پیدا ہوئے، اُن کا نام یوسف خان تھا،جو بعد میں فلم انڈسٹری میں قدم رکھتے ہی دلیپ کمار رکھ دیا گیا۔ اُن کے والد کا نام سرور خان تھاجبکہ اُن کے بڑے بھائی کا نام ناصر خان تھا، وہ بھی فلم پروڈیوسر رہے اور دلیپ کمار کے معاون بھی۔ اہل خانہ کے ساتھ 1935 میں کاروبار کے سلسلے میں ممبئی منتقل ہوئے، بعد میں وہ کئی بار پاکستان آئے اور اپنے پسندیدہ مقامات پر گئے۔دلیپ کمار عمران خان کے کرکٹ کیریئر اور خیراتی کاموں کے بھی معترف رہے،کرکٹ ہی کی وجہ سے اُن کے عمران خان سے اچھے تعلقات کے ساتھ ساتھ وہ خان صاحب کے مداح بھی تھے، بلکہ اُنہیں اپنے دور کے تمام کرکٹرز سے والہانہ محبت ہوا کرتی تھی۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اُنہیں کرکٹ سے کس قدر لگاﺅ تھا۔ دلیپ کمار 1988ءمیں جب پاکستان آئے تو راقم نے اداکار محمد علی کے گھر پر اُن سے ملاقات کی۔ ملاقات کیا تھی، بس ایک سرسری سی سلام دعا اور چند جملوں کا تبادلہ تھا، اُس وقت بالی ووڈ کے نمبر ون اداکار سے اتنی سی ملاقات بھی ”باعث شرف “ سمجھی جاتی تھی۔ اگر اُن کی نجی زندگی کے حوالے سے بات کی جائے تو جس طرح تمام سیلیبرٹیز کی زندگی معاشقوں سے بھری ہوتی ہے اُسی طرح دلیپ کمار کی زندگی بھی معاشقوں سے بھری تھی، ایک وقت میں تو وہ اُس وقت کی صف اول کی اداکارہ مدہو بالا کے عشق میں گرفتار ہوگئے۔ دونوں کی شادی قریب ہی تھی کہ مدہو بالا کے والد کی دلیپ کمار سے کسی کیس کو لے کر ان بن ہوگئی جس کی وجہ سے یہ رشتہ بغیر کسی نتیجہ کے ختم ہوگیا۔پھر پری چہرہ خاتون سائرہ بانو ملیں جن سے 1966ءمیں اُن سے شادی ہوئی ، سائرہ بانو اُن سے عمر میں 30سال چھوٹی تھیں۔ دلیپ کمار اور اُن کی بیوی کی رفاقت 50برس سے زیادہ رہی۔ اُن سے اُن کی کوئی اولاد نہیں تھی۔ اولاد ہی کے لیے انہوں نے سائرہ بانو سے شادی کے 14سال بعد اسما رحمان نامی خاتون سے چھپ کر شادی کی، تاہم یہ شادی زیادہ دیر تک نہ چل سکی اور دو سال بعد ہی ختم ہوگئی۔ اُس کے بعد اولاد کے حوالے سے انہوں نے اللہ کی رضا پر سب کچھ چھوڑ دیا۔ لیکن وہ کبھی سائرہ بانو سے اولاد نہ ہونے کا شکوہ نہیں کرتے تھے، 2012ءمیں ایک بھارتی میڈیا ادارے کو انٹریو دیتے ہوئے دلیپ کمار نے کہا تھا کہ وہ اپنی اہلیہ کی خوشی کے لیے زندہ رہنا چاہتے ہیں، کیونکہ میری ماں کے بعد سائرہ بانو سے زیادہ کسی نے مجھ سے محبت نہیں کی۔وہ کہتے تھے کہ میری تمنا ہے کہ میں زندہ رہوں سائرہ کی محبت اور وفاداری کے لیے، وہ بہت اچھا منظر ہوتا ہے جب میں سوکر اٹھتا ہوں تو وہ روز مرہ کی تیاریاں کروارہی ہوتی ہیں، اور حقیقتاً میں یہ کہوں کہ ہم دونوں کی خواہش ہے کہ ہم دونوں ایک دوسرے کا خیال رکھیں اور خوش رکھیں، اور میں یہ بھی کہوں گا کہ آپ خوش نصیب ہوتے اگر میری جگہ پر ہوتے ہیں۔اس لیے سائرہ بانو آپی کو دونوں ہاتھوں سے سلیوٹ کرنے کو دل چاہتا ہے کہ انہوں نے اپنے مجازی خدا کی خدمت کرکے زندگی میں ہی جنت کما لی۔حالانکہ اُن کا تعلق بھی شوبز سے تھا مگر وہ لاجواب گھریلو خاتون ثابت ہوئیں۔ خیر دلیپ کمار کی اگر خدمات کا ذکر کیا جائے تو کئی کتابیں لکھنا پڑیں گی۔ اُن کے بارے میں اگر مختصراََ بیان کریںتو دلیپ کمار کو حکومتِ ہند نے اپنے سب سے بڑے فلمی ”دادا صاحب پھالکے ایوارڈ“ سے نوازا تو حکومتِ پاکستان نے اپنا سب سے بڑا سویلین ایوارڈ ”نشانِ پاکستان“ ان کی نذر کیا لیکن سچ تو یہ ہے کہ اس آفتابِ فن کی روشنی میں تمام تر ایوارڈز کی چمک ماند پڑتی دکھائی دیتی ہے، شاید دلیپ کمار کی زندگی کا سب سے بڑا ایوارڈ کروڑوں انسانوں کی ان کے ساتھ وہ والہانہ محبت ہے جو کئی نسلوں پر محیط ہے جو مذہبی، نسلی، لسانی یا جغرافیائی سرحدوں سے ماورا ہے۔ بلاشبہ موت برحق ہے جس سے کسی کو بھی مفر نہیں، جو پیدا ہوا ہے اسے ایک دن جانا ہے۔ دلیپ کمار سے بڑھ کر کیا مثال دی جا سکتی ہے۔ اتنی محبت بھری طویل اور بھرپور زندگی کس کو نصیب ہوئی ہو گی مجھے ان کی موت کا افسوس نہیں ہے، نہ یہ کہوں گا کہ ان کے جانے سے انڈین فلم انڈسٹری میں کوئی ایسا خلا پیدا ہو گیا جو کبھی پر نہیں ہو سکے گا، سب خلا پُر ہو جاتے ہیں، قدرت نئے سے نئے اَن گنت پھول اگاتی ہے جو اپنی مدت گزارتے ہیں اور پھر نئے پھول آ جاتے ہیں۔ اصل چیز یہ ہے کہ آپ کو دنیا کے اس اسٹیج پر کارکردگی دکھانےکا جو محدود دورانیہ ملا ہے، آپ نے اس میں کون سے انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔ دلیپ کمار نے اہلِ فن کو ہمیشہ کیلئے مسحور کئے رکھا، پرتھوی راج کپور اور دادا سے لیکر نئی نسلوں کے محبوب اداکار شاہ رخ خاں تک سب کو اپنا گرویدہ بنائے رکھا۔ حالانکہ کپور خاندان سے اُن کی خاصی مخالفت رہی، لیکن کپور خاندان بھی اُن کی صلاحیتوںکا ہمیشہ معترف رہا۔ دلیپ کمار کی فلموں کے تقابلی جائزے یا فنی محاسن کی بحث چھیڑی جائے تو دلیپ کمار کی شہرت کے حوالے سے اتنا ہی کہوں گا کہ پاکستان میں جب بھٹو کے دور میں انڈین فلمیں دیکھنے کا رواج پیدا ہوا تو پہلی فلم جو انڈین چینل ”کاشوانی“ سے نشر کی گئی اُس کا نام ”کوہ نور“ تھا، جس میں دلیپ کمار بطور ہیرو اور میناکماری اُن کی ہیروئین تھیں۔ جس دن یہ خبر آئی کہ دلیپ کمار کی فلم ٹی وی پر لگ رہی ہے، اُ س وقت پورے لاہور میں کرفیو کا سما تھا، اُس کے بعد مغل اعظم آئی تو وہ بھی سب سے پہلے ٹی وی پر آئی اُس کے بعد ہم یہ فلمیں اپنے آبائی شہر ”کھڈیاں“ میں ”کچی ٹاکی“ پر دیکھا کرتے تھے۔ مطلب آپ جوار بھاٹا اور جگنو سے شروع ہو جائیں مغلِ اعظم، دیدار، انداز، جوگن، میلہ، ملن، سنگ دل، داغ، آن، نیا دور، ترانہ، مدھومتی رام اور شیام، دل دیا درد لیا، مشعل، مزدور، لیڈر، آزاد، یہودی، کوہ نور، گنگا جمنا، مسافر، گوپی، امر، داغ، اڑن کھٹولا، داستان، ودہاتا کس کس کی بات کریں ”آدمی“ جو بطور ہیرو ان کی آخری فلم تھی کیا بات ہے ہر فلم گویا ایک شاہکار تھی۔ بہرحال دلیپ کمار جیسے لوگ واقعی صدیوں بعد پیدا ہوتے ہیں، وہ سیاسی ، تعلیمی اور فلاحی کاموں میں بھی پیش پیش رہے۔ انہوں نے اپنی سوانح عمری میں اپنی آپ بیتی بیان کرتے ہوئے پہلے وزیراعظم جواہر لعل نہرو کے ساتھ ساتھ لال بہادر شاستری، اندرا گاندھی، اٹل بہاری واجپئی، این سی پی رہنما شرد پوار اور شیوسینا سربراہ بال ٹھاکرے اور ان کے اہل خانہ کے درمیان تعلقات کے ساتھ ہی اپنی سیاسی تعلیمی اور فلاحی سرگرمیوں کو ”نیا کردار نیک مقصد کی تئیں “کے عنوان سے پیش کیا ہے۔ اس کے علاوہ اُن کے پاکستانی سیاستدانوں کے ساتھ بھی اچھے مراسم تھے، ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر نواز شریف تک سبھی کے ساتھ اُن کے تعلقات بہترین رہے۔ اُن کے سیاست سے گہرے تعلق کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 1999 میں پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف کے اے ڈی سی نے انھیں بتایا کہ انڈیا کے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی کا فون آیا ہے۔وہ آپ سے فورا بات کرنا چاہتے ہیں۔ نواز شریف فون پر آئے تو واجپئی نے ان سے کہا: ”ایک طرف تو آپ لاہور میں گرم جوشی سے استقبال کر رہے تھے لیکن دوسری طرف آپ کی فوج کارگل میں ہماری سرزمین پر قبضہ کر رہی تھی۔“نواز شریف نے جواب دیا کہ آپ جو کہہ رہے ہیں اس کا مجھے کوئی علم نہیں۔ مجھے کچھ وقت دیں، میں اپنے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل پرویز مشرف سے بات کر کے آپ کو فورا بتاتا ہوں۔پاکستان کے سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری نے اپنی سوانح عمری ”نیدر اے ہاک نور اے ڈو“ میں لکھا ہے کہ ’ٹیلیفون پر گفتگو ختم ہونے سے پہلے واجپئی نے نواز شریف سے کہا میں چاہتا ہوں کہ آپ اس شخص سے بات کریں جو میرے پاس بیٹھے ہیں اور میری اور آپ کی گفتگو سن رہے ہیں۔ نواز شریف نے فون پر جو آواز سنی اسے نہ صرف وہ بلکہ پورا برصغیر پہچانتا تھا۔ یہ آواز نسل در نسل انڈین اور پاکستانی فلمی شائقین کے دلوں پر راج کرنے والے دلیپ کمار کی آواز تھی۔ دلیپ کمار نے کہا: ’میاں صاحب، ہمیں آپ سے یہ امید نہیں تھی۔ آپ کو شاید معلوم نہیں ہے کہ جب بھی ہندوستان اور پاکستان کے درمیان تناو¿ پیدا ہوتا ہے تو ہندوستانی مسلمانوں کی صورتحال بہت پیچیدہ ہو جاتی ہے اور انھیں اپنے گھروں سے باہر جانے میں مشکل پیش آتی ہے۔ صورتحال پر قابو پانے کے لیے کچھ کریں۔“ بہرکیف آج ہمارے لیجنڈ ہیرو دلیپ کمار ہندو جا اسپتال سے جوہو قبرستان میں منوں مٹی تلے جا چکے ہیں، میں پھر کہوں گا کہ میرا فیورٹ ہیرو آخر کار چلا گیا، آج بھی ان کے تمام کردار آج دماغ کی اسکرین پر تیزی سے چل رہے ہیں، وہ اپنے جاندار کرداروں میں ہمیشہ زندہ رہیں گے، لیکن دنیا فانی ہے سب نے چلے جانا ہے، لیکن بقول شاعر نا م صرف اللہ کا رہ جانا ہے۔ بس نام رہے گا اللہ کا جو غائب بھی ہے حاضر بھی #Talkhiyan #Ali Ahmed Dhillon #leader.com.pk #dilip kumar