مذاکرات ملک کی خوشحالی کیلئے ضروری؟

مذاکرات مطلب بات چیت، صلح صفائی یا کسی مسئلے کو حل کرنے کے لیے ایک میز پر اکٹھے ہونا۔ مذاکرات نے ہمیشہ انسانی تاریخ میں Safe Handکا کام کیا۔ ماہرین کے مطابق جب جانور سے ”انسان“ بننے کا عمل جاری تھا تو انسان نے اپنی بقاءاور سلامتی کے لیے اور اپنے ”جھنڈ “(گروہ) کو بچانے کے لیے دوسرے جھنڈ سے مذاکرات ہی کیے تھے۔ تبھی انسان کی آبادی میں اضافہ ہوسکا اور اُس نے ایک کمیونٹی کے طور پر رہنا سیکھا۔اگر اُس وقت کے ”مذاکرات“ کامیاب نہ ہوتے تو انسان آج بھی چنیدہ چنیدہ ہوتے اور جنگلوں تک ہی محدود رہتے ۔اب جبکہ جدید دنیا میں بھی تیسری جنگ عظیم کو روکنے کے لیے ہر ممکن طور پر مذاکرات کی راہ ہی اپنائی جاتی ہے تبھی ماضی کی نسبت اقوام اور گروہوں کے درمیان امن ہے۔ ورنہ خدانخواستہ ہر ملک ایک دوسرے کے ساتھ نبرد آزما رہتا جو نوع انسانی کی بقاءکے لیے خطرہ رہتا۔ خیر”مذاکرات “ کا لفظ آج کل پاکستان میں بھی کافی زبان زد عام ہے، یعنی پاکستان نے تحریک لبیک پاکستان اور تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات کیے ہیں جو فی الوقت کامیاب بھی دکھائی دے رہے ہیں۔ اگر چہ ٹی ٹی پی کے ساتھ پاکستانی حکومتوں کے مذاکرات ہمیشہ ہی ناکام رہے ہیں لیکن اس بار خوش آئند بات یہ ہے کہ ان مذاکرات میں افغان طالبان خصوصی طور پر حصہ لے رہے ہیں۔ کیوں کہ وہ بھی یہی سمجھ چکے ہیں کہ ہر جنگ کے اختتام پر مذاکرات ہوتے ہیں۔ جو قومیں دانشمند ہوتی ہیں وہ جنگ کی وجہ بننے والے معاملات کو مذاکرات سے طے کرنے میں تاخیر نہیں کرتیں۔ کون سا فریق کس حیثیت میں مذاکرات کر رہا ہے یہ اہم ہوتا ہے۔ پاکستان نے بیس سال تک دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑی ہے۔ اس جنگ نے 75 ہزار پاکستانیوں کی جان لی۔ معصوم بچوں سے لے کر سکیورٹی اہلکاروں تک نے شہادتیں پیش کیں۔ اس جنگ کا مقصد پاکستانی سرزمین پر صرف آئین پاکستان کی بالادستی برقرار رکھنا تھا۔ اور تاریخ گواہ ہے کہ دنیا میں جتنی بھی جنگیں ہوئیں تمام اپنے آئین کی بقاءکے لیے ہوئیں، جن کا خاتمہ ہمیشہ ”مذاکرات“ پر ہی ہوا۔ اور اگر ہم لکھی پڑھی تاریخ کے مطابق بات کریں تو سب سے پہلا معاہدہ 7500قبل مسیح میں سکاٹ لینڈ میں دو قبائل کے درمیان ہوا۔ جب انسان نے پتھروں کے گھروں میں رہنا سیکھ لیا تھا۔ جی ہاں یہ وہی سکاٹ لینڈ ہے جو کبھی فرانس کے زیرنگیں رہا، تو کبھی برطانیہ کے اور کبھی رومیوں کے۔ اُس کے بعد جدید تاریخ پر نظر ڈالیں تو دنیا کی جتنی بھی بڑی جنگیں ہوئیں وہ مذاکرات کے ذریعے ہی ختم ہوئیں۔ جیسے فرانس اور امریکا کے درمیان جنگ بندی کا تاریخی معاہدہ 1783ءمیں ہوا یہ معاہدہ آج بھی قائم ہے اور سوا دو سو سال گزرنے کے بعد بھی کوئی جنگ نہیں ہوسکی۔ پھر ملائشیا سنگا پور کے درمیان1990ءمیں معاہدہ ہوا، جس سے دونوں ممالک کے درمیان جنگ کے منڈلاتے خطرات ختم ہوگئے، پھر پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے تمام معاہدے اُٹھالیں کہ کس طرح یہ جنگیں ختم ہوئیں۔ پھر 22 ستمبر 1938 کو جرمن آمر اڈولف ہٹلر نے برطانوی وزیراعظم چیمبرلین سے جرمنی میں بون کے قریب گوڈسبرگ میں ہوٹل ڈریسن میں مصافحہ کیا تھا۔دونوں کی ملاقات کا مقصد اس وقت کے چیکوسلواکیہ کے علاقے سڈیٹنلینڈ میں جرمن قبضے کے حوالے سے مذاکرات کرنا تھا۔ چیمبرلین پراعتماد برطانیہ واپس لوٹے تھے کہ انھوں نے امن قائم کر دیا ہے۔ ایک سال کے بعد ہی دوسری عالمی جنگ چھڑ گئی تھی۔ پھر 23 جولائی 1945 کو امریکی صدر ہیری ٹرومین (درمیان میں) نے برطانوی وزیراعظم ونسٹن چرچل (بائیں) اور سوویت رہنما جوزف سٹالین (دائیں) کے درمیان مذاکرات ہوئے۔ یہ تینوں رہنما یہ فیصلہ کرنے کے لیے اکٹھے ہوئے تھے کہ دوسری جنگ عظیم کے اختتام پر یورپ اور بالخصوص جرمنی کا کیا ہوگا۔ پھر دو جولائی 1964 کو وائٹ ہاو¿س، واشنگٹن ڈی سی میں سول رائیٹس ایکٹ پر دستخط کرنے کے موقع پر امریکہ صدر لینڈن بی جانسن نے ڈاکٹر مارٹن لوتھر کنگ جونیئر سے مذاکرات کیے اور ایک لمبی لڑائی کا خاتمہ ہوا۔ اس ایکٹ کے تحت عوامی مقامات اور ملامتوں میں رنگ، نسل، مذہب، جنس اور قومیت کی بنیاد پر امتیازی سلوک کا خاتمہ ہوا۔پھر 21فروری 1972ءکو پاکستان کے تعاون سے امریکی صدر نکسن کے دورہ چین کو اس کی بڑی سفارتی کامیابی قرار دیا جاتا ہے، ان دوملکوں کے درمیان تاریخی مذاکرات ہوئے ۔ اسی کی بدولت دونوں ممالک کے درمیان 23 سال سے سرد تعلقات کے بعد نکسن کے دورہ چین کے موقع پر ہوا جس سے ایک نئے تعلق کا آغاز ہوا جس سے برسوں سے جاری عدم اعتماد کی فضا کا خاتمہ ہوا، اور نئی تجارتی راہیں کھلیں۔پھر نومبر 1985 میں سویت رہنما میخائل گورباچوف اور امریکی صدر رونلڈ ریگن سوئٹرزرلینڈ کے شہر جنیوا میں پہلی بار آمنے سامنے آئے۔یہ وہ دور تھا جب ”مذاکرات “ ہی کے ذریعے سرد جنگ کا خاتمہ ہو رہا تھا۔پھر چار جولائی 1990 کو برطانوی وزیراعظم مارگریٹ تھیچر نے اے این سی رہنما نیلسن منڈیلا سے لندن میں 10 ڈاو¿ننگ سٹریٹ کی دہلیز پرمذاکرات ہوئے۔ تھیچر نے ایک بار منڈیلا کی اے این سی کو ایک ”دہشت گرد تنظیم“ قرار دیا تھا۔ پھر 13 ستمبر 1993 کو فلسطینی رہنما یاسر عرفات اور اسرائیلی وزیراعظم رابن نے واشنگٹن ڈی سی میں مذاکرات کیے تھے ۔دونوں رہنماو¿ں نے امریکی صدر بل کلنٹن کی میزبانی میں اسرائیل اور پی ایل او کے درمیان مشرق وسطی میں قیام امن کا معاہدہ اوسلو اکورڈز پر دستخط کیے تھے۔ پھر 21 مارچ 2016 کو امریکی صدر براک اوباما اور کیوبن صدر راو¿ل کاسترو نے ہوانا، کیوبا میں ریولوشن پیلس میں مذاکرات ہوئے۔براک اوباما تقریبا ایک صدی کے بعد کیوبا کا دورہ کرنے والے پہلے امریکی صدر تھے۔ یہ ملاقات گرم جوشی سے ہوئی لیکن صدر کاسترو نے کیوبا کے خلاف امرکہ کی طویل تجارتی پابندیوں پر زور دیا تھا کہ تعلقات مکمل طور پر معمول پر لانے کے لیے ان کا خاتمہ ضروری ہے۔ پھرگزشتہ سال سوڈان اور جنگجوﺅں کے درمیان تاریخی معاہدہ طے پایا جو آج بھی قائم ہے۔ اور اس معاہدے سے 50سالہ لڑائی کا خاتمہ ہوا اس لڑائی میں لاکھوں افراد قتل ہوچکے تھے۔ پھر کولمبیا میں بھی 2016میں شدت پسند وں اور حکومت کے درمیان 57سالہ لڑائی کے بعد تاریخی امن معاہدہ طے پایا جو آج بھی قائم ہے، اور ابھی حالیہ 20سالہ لڑائی کے بعد طالبان اور امریکا میں جنگ بندی ہوئی ۔ آپ پاکستان کو دیکھ لیں 65کی جنگ کے بعد بھی معاہدہ تاشقند ہوا، 71کی جنگ کے بعد بھی معاہدہ شملہ ہوا، پھر پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں بلوچستان کے شورش پسندوں کو عام معافی دی گئی جو موثر ثابت ہوئی‘ 1971ءمیں مشرقی پاکستانی باغیوں کے لئے عام معافی کا اعلان بھارت کی مداخلت کے باعث علیحدگی پسندوں کی حوصلہ افزائی کا باعث بنا۔1977ءمیں جنرل ضیاءالحق نے کالعدم نیپ کے لیڈروں کو معافی دی جس کے نتیجے میں بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں استحکام آیا۔ چند سال پیشتر بلوچستان میں مشروط معافی کی پیشکش سے فائدہ اٹھا کر کئی فراریوں نے ہتھیار ڈالے اور علیحدگی پسند تنظیموںکی حوصلہ شکنی ہوئی۔ آپ اسلام میں دیکھ لیں صلح حدیبیہ میں بھی دشمن کو معاف کر دیا گیا، فتح مکہ کے موقع پر بھی سب کو معاف کر دیا گیا ۔ الغرض یہ حوصلہ ان لوگوںمیں ہوتا ہے جو جنگ اور امن میں اللہ تعالیٰ کی خوشنودی‘اعلیٰ ترین مقصد حیات اور عوام کے وسیع تر مفاد کو ذاتی خواہشات‘تعصبات اور مفاد پر ترجیح دیتے اور اپنے رنج و الم بھول جاتے ہیں۔ہتھیار ڈالنے والوں کو معاف کرنا عالمی روائت ہے اور بدترین دشمنوں سے عفوو درگزر رحمت للعالمین کی عظیم سنّت۔اس لیے معاف کرنے کی پالیسی اس وقت سب سے بہترین نسخہ ہے۔ اور یہ پہلی بار نہیں ہو رہا کہ ہم جنگجوﺅں سے کوئی معاہدہ کر رہے ہیں اس سے پہلے اپریل 2004 میں شکئی امن معاہدہ کیا گیا۔ یہ پاکستان مخالف شدت پسندوں اور حکومت کے درمیان اپنی طرز کا پہلا معاہدہ تھا۔پھر ”سراروغہ امن معاہدہ“ ہوا جو فروری 2005 میں جنوبی وزیرستان میں امن معاہدہ ہوا۔ چھ شقوں پر مشتمل یہ معاہدہ بیت اللہ محسود کے ساتھ کیا گیا جو دو سال بعد تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ بنے۔پھر تیسرا بڑا اور اہم امن معاہدہ ”سوات امن معاہدہ“ ہوا جو مئی 2008 میں کیا گیا۔ بہرکیف مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ ریاست سے بڑا کوئی طاقتور نہیں ہوتا۔ ریاست پاکستان چاہے تو آپریشن کر کے اس کا مکمل خاتمہ کیا جا سکتا ہے لیکن تشدد اور لڑائی ہمیشہ نئے تنازعات کو جنم دیتی ہے اس لیے طاقتور فریق ہونے کے باوجود ریاست پاکستان کسی مناسب ضمانت پر تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ امن معاہدہ کرتی ہے تو اس پر اعتراض ٹھیک نہیں۔افغانستان میں طویل جنگ اور بدامنی کی وجہ سے پاکستان میں بہت سی ایسی تنظیمیں سرگرم رہی ہیں جو مذہبی ،نسلی اور علاقائی بنیاد پر قومی یکجہتی پر وار کرتی آئی ہیں۔ہر قوم کی زندگی میں ایک وقت آتا ہے جب اسے اپنی غلطیوں کو سدھارنے کا موقع ملتا ہے۔ امریکی انخلا کے بعد پاکستان نے ازسرنو داخلی امن پر توجہ دی ہے۔ تحریک طالبان کے جو عناصر بیرونی فنڈز پر سرگرم تھے وہ اپنی موت مر چکے‘ دوسرے وہ افراد تھے جو افغانستان میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف مزاحمت کر رہے تھے‘ ان مزاحمت کاروں کے لیے اب لڑنے کا جواز نہیں رہا۔اس لیے پاکستان کے بہترین مفاد میں امن معاہدے وقت کی ضرورت ہیں، تاکہ ہم اپنی تمام تر توانائیاں ملک کومسائل کی دلدل سے نکالنے کے لیے استعمال کر سکیں! #TTP and Pakistan #Ali Ahmed Dhillon #Talkhiyan