کیا واقعی ہم ذہنی غلام قوم ہیں؟

سنا ہے کہ سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف ایک ایک کرکے تمام مقدمات سے بری ہو رہے ہیں، مثلاََ گزشتہ روز احتساب عدالت لاہور نے اُنہیں غیر قانونی پلاٹ الاٹمنٹ ریفرنس سے بریت کا فیصلہ جاری کردیا۔ فیصلے میں کہا گیا کہ ریکارڈ بتاتا ہے کہ نواز شریف کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا گیا، اس وقت کی حکومت نے نیب حکام کو نوازشریف کا سیاسی کیریئر تباہ کرنے پر مجبور کیا، ملک کے تین بار کے وزیراعظم نواز شریف کی ساکھ کو تباہ کیا گیا۔ عدالت نے نوازشریف اور ان کی جائیدادوں کے27 شیئرہولڈرز کی منجمد جائیدادیں بحال کرنےکا حکم دیتے ہوئے کہا کہ نیب کیس پراپرٹی اپیل کا وقت ختم ہونے کے بعد ریلیز کر دے۔ فیصلے میں مزید کہا گیا کہ عدالت خاموش تماشائی نہیں بن سکتی، نواز شریف کو اشتہاری قرار دینے کا فیصلہ واپس لیا جاتا ہے، تعمیل کنندہ کا بیان ریکارڈ نہ کرنے پر اشتہاری قرار دینے کی کارروائی کی قانونی حیثیت نہیں ہے.... خیر اچھی بات ہے، سیاسی لوگوں پر اگر جھوٹے مقدمات ہیں تو فوری ختم ہونے چاہیے....لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ان جھوٹے مقدمات کے ختم ہونے کے ساتھ ساتھ اصل مقدمات بھی جب ختم ہوجاتے ہیں تو یہی سیاستدان ”شیر“ بن کر واپس آجاتے ہیں۔ اور پھر دوبارہ ہم غلام قوم پر حکمرانی کرتے ہیں۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے آج کل ڈیڑھ سو سے زائد ”خطرناک ترین “مقدمات چیئرمین تحریک انصاف پر قائم کیے گئے ہیں۔ اور وہ روزانہ ان مقدمات میں پیش بھی ہو رہے ہیں اور اُنہیں جان بوجھ کر خوار بھی کیا جا رہا ہے۔ یہی حال چند سال پہلے نواز شریف کا تھا، پانامہ لیکس کے بعد روزانہ کی بنیاد پر نیا مقدمہ درج کیا جاتا تھا، اور پھر وہ جیل میں بھی رہے اور پھر اُنہیں علاج و معالجے کے لیے بیرون ملک بھیج دیا گیا۔ یہی حال اسحاق ڈار صاحب کا تھا۔ وہ بھی بہت سے مقدمات میں بیرون ملک مفرور تھے، لیکن جب اُنہیں ملک میں لانا مقصود تھا تو سب مقدمات ایک ایک کرکے ختم کر دیے گئے۔ قصہ مختصر کہ ہم ایک غلام قوم ہیں، ہمیں جیسے کہا جاتا ہے کہ ہم مان جاتے ہیں، ہمیں کہا جاتا ہے کہ نواز شریف ، شہباز شریف اور زرداری جیسا کرپٹ سیاستدان اس دنیا میں ہی نہیں ہم مان جاتے ہیں، بی بی محترمہ بے نظیر کے لیے ہیلی کاپٹر سے پمفلٹ پھنکوائے جاتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ محترمہ کرپٹ ترین اور فحش ترین خاتون ہیں، یہ ملک میں ہمارے بچوں کو خراب کرے گی، ہم تب بھی مان گئے۔ بلکہ اس سے پہلے 80ءکی دہائی میں ہمیں یہ بتایا گیا کہ ملک کے مفاد میں یہ ضروری ہے کہ میاں محمد نواز شریف نامی ایک نوجوان کو سیاست میں متعارف کرایا جائے۔ یہ ملک میں کاروبار کو فروغ دے گا اور روایتی سیاستدانوں سے ہٹ کر ملک کی تقدیر سنوارنے کے ساتھ ساتھ بھٹو خاندان کے بڑھتے ہوئے سیاسی اثر و رسوخ کو کم کرے گا ، تاکہ ملک میں کاروباری طبقہ بھی آگے آکر ملک کی خدمت کرے.... ہم مقتدرہ کی یہ بات بھی اسی لیے مان گئے کہ شاید ملک کو قرضوں سے چھٹکارہ حاصل ہو۔ پھر اس سے پہلے چلے جائیں تو سب کو علم ہے کہ بھٹو کو ایک پالیسی ساز نے متعارف کرایا اور دوسرے پالیسی ساز نے پھانسی چڑھا دیا۔لطیفہ یہ ہے کہ دونوں پالیسی ساز حق پر تھے۔ اس کے ردِ عمل میں پیداہونے والے حالات میں بے نظیر بھٹو سیاست میں اتریں۔ اگر وہ سکیورٹی تھریٹ تھیں تو دو دفعہ وزیرِ اعظم رہنے کے دوران پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی تفصیلات مغرب تک کیوں نہ پہنچ سکیں۔ بعد ازاں بے نظیر کے معاملات پالیسی سازوں کے ساتھ طے پا گئے۔انہیں این آر او دیا گیا۔ زرداری کے خلاف کتنے ہی کیسز بنے۔بتایا گیا کہ جعلی اکاﺅنٹس سے پیسہ بیرونِ ملک منتقل کیا گیا۔ بے شمار ثبوت موجود تھے۔سندھ کابینہ دبئی میںکتنی ہی جائیدادوں کی مالک تھی۔ شرجیل میمن جیسے پیپلزپارٹی کے کتنے ہی لیڈر جان بچانے کیلئے بھاگتے پھر رہے تھے۔ منی لانڈرنگ کے ناقابلِ تردید ثبوت شریف خاندان کے خلاف بھی موجود تھے۔ لندن فلیٹس کو کہاں وہ مانتے تھے۔چشمِ فلک نے پھر وہ منظر بھی دیکھا کہ نواز شریف اور بھٹو خاندان کو اکٹھا بٹھا دیا گیا۔ حالانکہ نواز شریف کو تخلیق ہی اس لیے کیا گیا تھا کہ بھٹو خاندان کی مزاحمت کریں۔ ہے کو ئی ایسا جادوگر جو سانپ اور نیولے کی دوستی کرادے؟عمران خان کو یہ کہا گیا کہ شریفوں اور زرداریوں کو نہیں چھوڑنا۔ عمران خان اسی پہ فوکس کر کے روز تقریریں کرتے رہے۔ روز اٹھ کے اعلان کرتے کہ این آر او نہیں دوں گا۔دوسری طرف فیصلہ سازوں نے بسا ط ہی الٹ دی۔الغرض ! کبھی الطاف حسین تخلیق کیے گئے تھے۔ پھر انہیں ختم کیا گیا۔پھر مصطفی کمال تخلیق ہوئے مگر پنپ نہ سکے۔ کبھی نون لیگ تخلیق کی گئی تھی۔ کبھی ذوالفقار علی بھٹو تخلیق کیے گئے۔کبھی نون لیگ کو چیر پھاڑ کر قاف لیگ تخلیق کی گئی۔ عمران خان کو تخلیق تو نہ کیا گیا تھا لیکن ا ن کے سر پہ ہاتھ ضرور رکھا گیا۔وہی عمران خان جو 2018ءمیں اس ملک کی ترقی و خوش حالی کیلئے لازم و ملزوم تھا ، آج وہ غدار ہے۔اور ہم اب آہستہ آہستہ مان بھی رہے ہیں کہ شاید ایسا ہی ہو! اور پھر یہی نہیں اس وقت بھی ن لیگ اور پیپلزپارٹی میں اقتدار کے لیے معاملات طے پا رہے ہیں، اور سنا ہے کہ وزارت عظمیٰ کے لیے دونوں پارٹیوں میں ڈیڈ لاک برقرار ہے۔ کیوں کہ پیپلزپارٹی بلاول کو وزیرا عظم بنانا چاہتی ہے جبکہ نواز شریف یہ کیسے برداشت کر سکتے ہیں؟ خیر بننا تو انہی خاندانوں میں سے ہے اور ہم نے انہیں قبول بھی کرنا ہے۔ یعنی فی الوقت فیملی لمیٹڈ کمپنیوں کے حصار سے ہم نہیں نکل پا رہے۔ جہاں ایسی کمپنیاں ہوں وہاں سیاست کے دستور بھی الگ ہوتے ہیں۔ حاضریاں دینا پڑتی ہیں اور خوشامد کے کچھ نہ کچھ گُر سیکھنے کی ضرورت پڑتی ہے۔ ایسے ہُنر ہر ایک کی دسترس میں نہیں ہوتے۔جب ہم پیپلزپارٹی میں ہوا کرتے تھے اوراُمیدیں بینظیر بھٹو پہ لگائی ہوئی تھیں، تو اکثر پیپلز پارٹی کے دوست رہنما بے نظیر جہاں ہوتیں وہیں ڈیر ے لگا لیتے تھے، اُس زمانے میں پارٹی میں بینظیر بھٹو کو بی بی صاحبہ کہا جاتا تھا۔ یہ الفاظ ہم کبھی ادا نہ کر سکے ۔ نون لیگ میں بھی نواز شریف کو قائدِ محترم کے لقب سے پکارا جاتاہے ، یعنی آپ کارکن ہونے کی حیثیت سے نوازشریف کا نام بھی نہیں لے سکتے، اسے بھی بسا اوقات گستاخی تصور کیا جا تاہے اور پھر طاہر القادری صاحب کو دیکھ لیں اُن کے ورکرز بھی اُن کا نام نہیں لیتے بلکہ ”قبلہ محترم“ کہتے ہیں۔ میرے خیال میں یہ سب تعلیم کی کمی کی وجہ سے ہے۔ کیوں کہ آپ دیکھ لیں موروثی اُمیدوار ہمیشہ پسماندہ علاقوں میں ہی کامیاب ہوتا ہے، کیوں کہ وہاں تعلیم کی کمی کی وجہ سے غلامی کا شکار افراد انہیں کو ووٹ دیتے ہیں جنہیں وہ اپنے آقا سمجھتے ہیں ۔ مسئلہ یہ نہیں ہے کہ ان شخصیات کو احتراماََ کیوں پکارا جاتا ہے، یا ہمیں جو کہا جاتا ہے ہم مان جاتے ہیں، نہ ہم کامن سینس سے کام لیتے ہیں اور نہ ہی ہم میںاتنا شعور ہے کہ ہم خود سے سوچ سکیں۔ بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ ہم کب اس ذہنی غلامی اور شخصیت پرستی سے آزاد ہوں گے؟ یا یہ سب ایسے ہی چلتا رہے گا جیسے 2ہزار سال سے چلتا آرہا ہے؟یعنی 2ہزار سالوں میں ہم پر افغانوں نے حکومت کی، کبھی ہم پر ترکوں نے حکومت کی، کبھی ہم پر ایرانی حکومت کرتے رہے ہیں ، کبھی ہم پر انگریز حکومت کرتے رہے ہیں، کبھی عرب حکومت کرتے رہے ہیں تو کبھی منگول حکومت کر تے رہے ہیں،بلکہ سب نے یہی بتایا کہ وہ ان سب سے بہترین ہیں۔ اس عرصے میں ہم بمشکل رنجیت سنگھ کے دور میں آزاد رہے ہیں ، وہ بھی صرف مختصر عرصے کے لیے۔ الغرض سکندر اعظم کے بعد شاید ہی کوئی دور رہا ہو جب ہم آزاد رہے ہوں گے۔ اور پھر جب ہم یہ نعرہ لگاتے ہیں کہ پاکستان بننے کے بعد ہم ”آزاد“ ہوگئے تو معذرت کے ساتھ یہ خام خیالی کے سوا کچھ نہیں ہے کیوں کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد پاکستان جیسے ممالک میں غلامی کے ایک نئے دور کا آغاز شروع کر دیا اس غلامی کو ذہنی یا نفسیاتی غلامی کہتے ہیں۔ غلامی کے اس دور میں عام انسان کو یہ سمجھ نہیں آتا کہ آ یا وہ آزاد ہے یا غلام ؟ بظاہر وہ انگریز کے تسلط سے آزاد دکھائی دیتے ہیں لیکن حقیقت میں وہ ذہنی غلام ہوتے ہیں۔ ان ممالک میں ملکی نظام سامراج کا ہی چلتا ہے۔اسی حوالے سے آلڈس ہکسلے نے اپنی کتاب ”بریونیو ورلڈ “ میں لکھا ہے کہ”اب حکومتیں عوام کو جبر کے ذریعے نہیں بلکہ ان کی اپنی رضامندی کے ذریعے کنٹرول کریں گی “ کیونکہ وہ ذہنی لحاظ سے اتنے پسماندہ ہونگے کہ ان کے لیے آزادی اور غلامی میں تمیز کرنا مشکل ہوجائے گا۔ بہرکیف میرے نزدیک غلامی کی بدترین شکل وہ ہے ”جب غلاموں کو اپنی زنجیروں سے پیار ہو جائے“ ۔ ہمیں ان زنجیروں سے پیار نہیں کرنا بلکہ ان کو توڑ کر آزادی حاصل کرنا ہے۔اگر کوئی کہتا ہے کہ فلاں غلط ہے اور فلاں صحیح تو ہمیں خود سے سوچ کر صحیح کے ساتھ کھڑا ہونا ہوگا۔ اس کے لیے اگر جان بھی دینی پڑے تو گریز نہ کریں۔ اور پھر غلامی ایسی چیز نہیں ہے جسے ختم نہیں کیا جا سکتا۔ ہمارے سامنے جاپان، چین کی مثالیں ہیں جنہوں نے غلامی کے حصار کو توڑا۔ تبھی وہ آج دنیا کی سپر پاور ہےں۔ ہم بھی اپنے ملک میں ذہنی غلامی کو ختم کرنے کے لیے جدوجہد کریں، اس کے لیے سب سے پہلے تعلیم کو فروغ دیں، کیوں کہ معاشرہ ایجوکیٹ ہوگا تو سب ہی اپنا اچھا برا سوچنا شروع کر دیں گے۔ لیکن یہاں بھی مسئلہ یہی ہے کہ ہمارے حکمران کبھی تعلیم کو فروغ نہیں دینے دیں گے کیوں کہ اس سے اُن کی ”دوکانداری“ پر خاصا اثر پڑے گا جو ہماری اشرافیہ کو کسی صورت قبول نہیں ہو سکتا۔