نمبر ون عثمان بزدار .... مگر !

سردار عثمان بزدار جب سے پنجاب کے وزیراعلیٰ بنے ہیں تب سے وہ میڈیا کے نشانے پر رہتے ہیں،شروع شروع میں تو مجھے لگا کہ شاید ایک عرصے بعد پنجاب کو ”عام آدمی“ ملا ہے اس لیے اشرافیہ اور شاید عوام کو بھی یہ بات ہضم نہیں ہورہی تھی ، لیکن آہستہ آہستہ اس بات کا بھی ادراک ہونے لگا کہ شاید یہاں لمبے لمبے بوٹ پہننے والا، لگژری لائف گزارنے والا اور پانچ پانچ کیمپ آفسز رکھنے والا ہی عوام کا نمائندہ ہو سکتا ہے۔ کسی عام بندے کے بس کی بات نہیں۔ اس کی وجہ شاید یہی تھی کہ ہمارے دل و دماغ پر غلامی کے اثرات چھائے رہتے ہیں، جو ہماری سوچ پر پردہ ڈالے رکھتے ہیں کہ ہم عام عوام کسی بڑے عہدے کے مستحق ہی نہیں ہیں۔ حد تو یہ رہی کہ جب سے موصوف پنجاب کے وزیر اعلیٰ بنے تب سے ہی ہر روز ٹی وی چینلز، کامیڈی شوز، سوشل میڈیا پر ان پر تنقید کے نشتر چلائے جاتے ہیں، ان کی ڈمی بنائی جاتی ہیں، ان سے ایسی ایسی باتیں منسوب کی جاتیں کہ خود حیرانی ہونا شروع ہو جاتی کہ کیا واقعی بزدار صاحب نے یہ عہدہ سنبھال کر غلطی کی! خیر وزیر اعظم عمران خان بھی اس حوالے سے بضد رہے کہ اگر پنجاب کا کوئی وزیر اعلیٰ رہے گا تو وہ صرف عثمان بزدار ہی ہوگا اور اسی ضد میں انہوں نے ساڑھے تین سال کا عرصہ بھی گزار لیا۔ اور اب جبکہ بزدار صاحب کو بھی یقین ہو چلا ہے کہ وہ کسی نہ کسی طرح اپنی مدت پوری کریں گے تو یقینا اُن کی کارکردگی میں استحکام بھی آیا ہے ، لیکن اس کے ساتھ اُن کے لیے ابھی بہت سے کرنے والے کام موجود ہیں۔ تبھی لاہور کے ایک ادارے انسٹیٹیوٹ فار پبلک اوپینین ریسرچر ( IPOR ) نے چاروں وزرائے اعلیٰ کی کارکردگی کے حوالے سے ایک نیا سروے جاری کیا ہے جس کے مطابق وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار 3 سالہ کارکردگی کے لحاظ سے تمام وزرائے اعلیٰ سے آگے ہیں۔سروے کے مطابق پنجاب کے 45 فیصد رائے دہندگان نے کارکردگی کے لحاظ سے عثمان بزدار کو سب سے بہترین وزیراعلیٰ قرار دیا ، خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ محمود خان دوسرے ، سندھ کے وزیراعلیٰ مراد علی شاہ تیسرے اور بلوچستان کے وزیراعلیٰ میر عبدالقدوس بزنجو چوتھے نمبر پر رہے۔حیرت تو اس بات پر ہے کہ سروے میں وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے تعلیم ، صحت کی سہولتوں کی فراہمی اور ڈویلپمنٹ کے لحاظ سے بھی دیگر وزراءاعلیٰ کو پیچھے چھوڑ دیا ہے، رائے دہندگان کی اکثریت نے وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار کے حق میں رائے دی اور 86 فیصد رائے دہندگان وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار کی قیادت میں حکومت کے تعلیم کی سہولتوں کے اقدامات پر مطمئن ہیں جبکہ اسی حوالے سے خیبر پختونخوا حکومت 80 فیصد ، بلوچستان حکومت 62 فیصد اور سندھ حکومت 58 فیصد رائے دہندگان کا اعتماد حاصل کر سکیں۔اور پھر صحت کے حوالے سے بھی سن لیں کہ وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار کی قیادت میں پنجاب حکومت صحت کی بنیادی سہولتوں کی فراہمی میں بھی بازی لے گئی ، سروے رپورٹ کے مطابق پنجاب کے 72 فیصد رائے دہندگان صحت کی بنیادی سہولتوں کی فراہمی کے حوالے سے بزدار حکومت سے مطمئن ہیں ، صحت کی سہولتوں کی فراہمی کے حوالے سے 67 فیصد کے ساتھ خیبرپختونخوا حکومت دوسرے ، 56 فیصد کے ساتھ بلوچستان حکومت تیسرے اور 53 فیصد کے ساتھ سندھ حکومت چوتھے نمبر پر رہی۔ ویسے پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ یہاں کیے جانے والے سروے ہمیشہ مشکوک ثابت ہوتے رہے ہیں، اور اگر اسی اثناءمیں حالیہ سروے کی بات کی جائے تو IPORکے سروے کی تصدیق اور کارگر ہونے کے لیے 2تین مہینے انتظار کر لیں سب کچھ سامنے آجائے گا کیوں کہ پنجاب حکومت ہی نے بلدیاتی انتخابات 15مئی کو کرانے کا اعلان کر دیا ہے جو عمران خان سے زیادہ عثمان بزدار کے لئے چیلنج ہے، اور ویسے بھی پاکستانی ووٹروں کا لندن کے موسم کی طرح کوئی اعتبار نہیں،یہ نعرے کسی کے لگاتے ہیں،کھانا ایک انتخابی دفتر میں بیٹھ کر کھاتے اور ووٹ کہیں اور دے آتے ہیں۔ خدانخواستہ مئی جون کے بلدیاتی انتخابات میں نتائج تحریک انصاف کے حق میں نہ نکلے تو عثمان بزدار کے ساتھ ساتھ انسٹی ٹیوٹ آف پبلک اوپینئن ریسرچ کی ساکھ بھی مجروح ہو گی، بلکہ مجروح کیا داغدارہوگی۔کیوں کہ بادی النظر میں حالات اتنے اچھے نہیں جتنے اچھے سروے میں دکھائے جا رہے ہیں۔ بلکہ یہ تو محض ایک موازنہ ہے اور موازنہ بھی چار صوبوں کے درمیان ہے اور جن تین ہزار افراد پر یہ سروے کیا گیا ہے، اُن کا بھی علم نہیں کہ اُنہیں کس صوبے سے لیا گیا ہے۔ ویسے بہتر ہوتا کہ موجودہ حکومت کو پچھلی حکومت کے ساتھ جوڑ کر بات کی جاتی تو شاید نتائج مختلف ہوتے ۔ کیوں کہ پنجاب میں ابھی بہت سے کام کرنے والے ہیں، ترقیاتی کاموں کو ایک طرف رکھیں، اور صرف تعلیم، صحت اور بیوروکریسی ہی کو دیکھ لیں تو حالات زیادہ اچھے نہیں ہیں۔ بیڈ گورننس انتہا کو پہنچ چکی ہے، ہر طرف ناجائز منافع خوری کی جا رہی ہے، گندم کی سمگلنگ سے لے کر یوریا کھاد کی بوریاں غائب کرنے اور کسان کے عدم تحفظ تک ابھی بہت سے معاملات حل طلب ہیں، اور بزدار صاحب کے لیے یہ اہم سال ہے اور ان کے ساتھ ساتھ عوام کیلئے بھی، کیونکہ عوام نے پچھلے ساڑھے 3 برسوں میں حکومت کی ترجیحات کا موازنہ کیا ہے، ان کے وعدوں کی تکمیل کے چشم دید گواہ عوام خود ہیں، اور اس آخری ڈیڑھ برس میں یہ حکومت عوام کیلئے اگلے 5 سال کے وژن کی منظر کشی کریگی۔چلیں یہ بھی مان لیا کہ پنجاب میں بھرپور جوش و خروش سے قومی صحت کارڈ پر کام ہورہا ہے۔ یکم جنوری سے لاہور میں تو آغاز ہوچکا ہے، 20جنوری کو راولپنڈی، 9 فروری کو فیصل آباد، 22فروری کو ملتان، 2مارچ کو بہاولپور، 22مارچ کو گوجرانوالہ اور 31مارچ کو سرگودھا ڈویژن میں ان کارڈز کی تقسیم کا عمل شروع کردیا جائے گا۔ جبکہ ڈی جی خان اور ساہیوال میں پہلے ہی صحت کارڈ کی تقسیم جاری ہے، اس طرح پنجاب کے 3کروڑ خاندان 10لاکھ روپے تک کا علاج منظور شدہ سرکاری اور نجی اسپتالوں میں کروا سکیں گے۔لیکن دوسری جانب شہریوں کی شکایات بھی سن لیں کہ کوئی ہسپتال بھی صحت کارڈ رکھنے والوں کو اس کے طریقہ استعمال کا نہیں بتاتا۔ نا ہی اس حوالے سے حکومت Awairness مہم چلا سکی ہے۔ اور پھر سب سے اہم ”سویلین شہدائ“ کا معاملہ ہے ، جس کے بارے میں بزدار حکومت نے فنڈز بھی رکھے تھے مگر پنجاب کی بجٹ دستاویزات کے مطابق ابھی تک خراج الشہداءفنڈ کا ذکر نہیں مل رہا۔ یہ بھی نہیں علم کہ پرانے بجٹ کو واپس کر دیا جائے گا یا اس حوالے سے کوئی وزارت یا ڈیپارٹمنٹ بنانے پر کام کیا جارہا ہے۔حالانکہ میں یہ کئی بار کہہ چکا ہوں کہ ان شہداءکے خاندانوں کا آسرا بننے سے ایک تو دنیا بھر میں ہمارا مثبت امیج قائم رہے اور دوسرا ہمارا بھرم بن جائے اور تیسرا شہید ہونے والے ورثا عدم تحفظ کا شکار نہیں ہوں گے۔ اس سے یہ بھی ہو گا کہ سویلین شہدا سے خراج الشہدا ءتک کا جو سفر موجودہ حکومت نے شروع کیا تھا، وہ بھی چلتا رہے گااور جس طرح حکومت صحت کارڈ، احساس کارڈ، بے نظیر کارڈ وغیرہ شروع کر رہی ہے، اسی طرح حکومت ”شہید ورثا کارڈ“ کیوں نہیں جاری کر دیتی تاکہ معاشرے میں ہر کوئی اُس خاندان کو عزت کی نگاہ سے دیکھے۔ اورپھر یہی نہیں کہ ان کے مسائل جو نظر آتے ہیں وہی ہوں، عثمان بزدار صاحب آپ اُن شہداءکے خاندانوں سے ملیں، اُن کی بیواﺅں سے ملیں وہ ایسی ایسی داستانیں آپ کو سنائیں گی کہ آپ کے رونگٹے کھڑے ہوجائیںگے۔ آپ اُن سے پوچھ ہی نہیں سکتے کہ اُن کے گھر کی خواتین مہنگائی کے اس دور میں کس طرح گزر بسر کر رہی ہوں گی،اور اب تو ویسے بھی کورونا نے جینے کو تصور بھی چھین لیا ہے تو یہ ضرور دیکھیں کہ اُن کے بچے کہاں اور کس حال میں ہوں گے؟ اُن کے بچوں کے سکول کی فیسیں کون دیتا ہوگا؟ ماﺅں کا علاج کون کرواتا ہوگا؟ باپ کی آنکھیں کون پونچھتا ہوگا؟ اُن کے چہروں پر مسکراہٹیں کون لاتا ہوگا؟ ذرا ایک منٹ کے لیے یہ بھی تصور کر لیجیے کہ اگر وہ کرائے کے مکان میں رہتے ہوں گے تو اب اُن کا پرسان حال کون ہوگا؟یہ تصور بھی کرنا چاہیے کہ کہیں اُن کے بچے جرائم پیشہ تو نہیں بن گئے؟ یہ تصور بھی کر لینا چاہیے کہ مذکورہ خاندان کے افراد فاقہ کشی کا شکار تو نہیں؟ خیر یہ ایک لمبی بحث ہے جس پر پھر دوبارہ کسی دن روشنی ڈالوں گا۔ لیکن فی الوقت بزدار حکومت کے کرنے والے کاموں میں سے ایک کام نوجوانوں کے لیے بھی ہے۔یعنی ہمارے درمیان موجود 60فیصد نوجوانوں کے مستقبل کے بارے میں حکومت کو فکر نہیں ہے، حکومت نے ان جوانوں کے لیے جو یوتھ پروگرام شروع کیے ہیں اس سے نوجوانوں کا ایک فیصد حصہ بھی مستفید نہیں ہو رہا۔ بلکہ سننے میں تو یہ بھی آرہا ہے کہ روزگار نہ ہونے کے باعث اب پڑھے لکھے نوجوان آن لائن فراڈ، یا گیمبلنگ کی طرف متوجہ ہو رہے ہیں جو یقینا اس معاشرے، ملک اور خود حکومت کے لیے بھی نقصان دہ ہے جو انہی نوجوان کے کندھوں پر بیٹھ کر منصب پر آئی ہے۔ لہٰذاسرویز میں تو ایسا لگ رہا ہے کہ جیسے بزدار صاحب موجودہ سپیڈ برقرار رکھتے ہوئے چند مہینوں میں عمران خان بلکہ پاکستان سے بھی آگے نہ نکل جائیں گے ۔ لیکن میری ذاتی رائے میں ہمیں سروے وغیرہ کو چھوڑ کر حقیقت کی دنیا میں سفر کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اگلے پانچ سال بھی بزدار صاحب حکومت کر سکیں! #Pakistan #CM Punjab Usman Buzdar #Ali Ahmed Dhillon #Takhiyan