8فروری الیکشن :نوجوانوں کو اکیلا چھوڑ دیاگیا!

یہ زمینی حقائق ہیں کہ ملک کے 90فیصد نوجوانوں کی جماعت تحریک انصاف کو اس بار شاید اُس طرح سے الیکشن نہ لڑنے دیا جائے، جس طرح اُسے آزادی سے 2013اور 2018ءمیں لڑنے دیا گیا، چلیں ٹھیک ہے یہ بات مان لی جائے کہ صدا کے دن ایک جیسے نہیں ہوتے،،، اور سیاست میں تو ویسے ہی مستقل مزاجی نام کی چیز کم ہی ملتی ہے،،، کبھی حالات سازگار نہیں ملتے تو کبھی ”رہبر“،،، لیکن یہ ساری چیزیں ایک طرف مگر اُن 90فیصد نوجوانوں کا کیا قصور جنہوں نے تبدیلی کے نام پر 2018ءمیں ووٹ دیا تھا۔ کیا اداروں کو اس چیز کا احساس نہیں ہے؟ کیا اس چیز کا احساس بھی نہیں ہے کہ جس قوم میں نوجوان مایوس ہو جائے، وہ بیسیوں سال پیچھے چلی جاتی ہے۔ نہ وہاں کوئی لیڈر جنم لیتے ہیں، نہ سائنسدان اور نہ ہی قابل بیوروکریٹس۔ وہاں صرف مفاد پرستوں کا ٹولہ ہی جنم لیتا ہے۔ اگر نہیں یقین تو آپ اس خبر کو خود دیکھ لیں کہ بیورو آف امیگریشن کے اعداد وشمار کے مطابق 2022ءمیں بہتر مستقبل کے لئے ملک چھوڑ کر جانے والوں کی تعداد میں حیران کن اور افسوسناک حد تک اضافہ ہوا ہے،یعنی گزشتہ سال 7 لاکھ 65 ہزار پڑھے لکھے نوجوانوں نے پاکستان چھوڑ دیا ہے، ان میں ڈاکٹرز، انجینئرز،آئی ٹی ایکسپرٹس اور دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے نوجوان شامل ہیں، کچھ بڑے شعبوں کی بات کریں تو اس سال پاکستان 7 ہزار سے زائد انجینئرز، اڑھائی ہزار ڈاکٹروں ، 1600 نرسوں، 2 ہزار آئی ٹی ماہرین، 6500 اکاﺅنٹنٹس، 2600 زرعی ماہرین اور 900 اساتذہ سے محروم ہوگیا۔اور پھر یہی نہیں رواں سال میں بھی اب تک 8لاکھ افراد کا برین ڈرین ہوا ہے۔ (برین ڈرین کا مطلب ہے ایسے افراد جو اعلیٰ تعلیم یافتہ ہوں دوسرے ممالک کو جا رہے ہیں۔)ان میں 2لاکھ وہ نوجوان ہیں جن کا تعلق اہم شعبوں سے ہے۔ ان میں اکا¶نٹنٹ، ڈاکٹر، نرسز، انجینئر اور یہاں تک کہ تکنیکی ماہرین، اساتذہ اور سیلز پرسن شامل ہیں۔جبکہ ایک سروے کے مطابق اس وقت ملک کے 62فیصد نوجوان ملک چھوڑنا چاہتے ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے، کہ آنے والے الیکشن یعنی 8فروری 2024ءکے لیے نوجوانوں کی قیادت کرنے والا کون ہے؟ اگر آپ اس حوالے سے تحریک انصاف کی بچی کھچی قیادت کا نام لیتے ہیں تو اُسے آپ رہنے ہی دیں، کیوں کہ جب بھی مذکورہ جماعت کی سیاسی سرگرمی کیلئے نوجوان اکٹھے ہوتے ہیں تو پولیس اُس پر ہلا بول دیتی ہے، اور گرفتار کرلیتی ہے۔ تو ایسے میں نوجوان کیا کریں؟ کیا وہ مایوسی کا لبادہ اوڑھے رکھیں اور خاموش ہو جائیں؟ ہاں ! ان کی قیادت ن لیگ اور پیپلزپارٹی میں موجود نوجوان قیادت ہی کر سکتی ہے مگر وہاں نوجوان ہیں کون؟ ن لیگ میں اگر مریم نواز ہیں تو فی الوقت اُنہیں سائیڈ لائن کر دیا گیا ہے، اور رہی بات پیپلزپارٹی کی تو وہاں بلاول آخری اُمید کے طور پر بچتے ہیں۔ لیکن وہ بھی اس وقت اپنے ابا جان کے ساتھ سینگ پھنسا بیٹھے ہیں۔ اور ابا جان کے بقول پارٹی ٹکٹ دینے کا اختیار بلاول کے پاس نہیں ہے۔۔۔۔ مطلب اس معاملے میں بھی لگتا ہے کہ زرداری اپنے بیٹے کے ساتھ بھی ہاتھ کر گئے ہیں۔ یعنی بلاول پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین ضرور ہیں مگر پاکستان پیپلزپارٹی پارلیمنٹیئرین کے چیئرمین زرداری ہیں اور یہی پارٹی تیر کے نشان پر الیکشن لڑتی آئی ہے۔ یعنی بقول سابق چیئرمین الیکشن کمیشن کنور دلشاد کے بلاول بھٹو زرداری تو پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین ہیں اور الیکشن کمیشن نے ان کی پارٹی کو انتخابی نشان تلوار الاٹ کیا ہوا ہے‘ جبکہ آصف علی زرداری صاحب پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین کے چیئرمین ہیں جس کا انتخابی نشان تیر ہے اور 2002ءسے اب تک پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین ہی پارلیمنٹ کا حصہ رہی ہے جبکہ اس دوران پاکستان پیپلز پارٹی کی پارلیمنٹ میں کسی قسم کی کوئی نمائندگی نہیں ہوئی۔ مئی2013ءاور جولائی 2018ءکے عام انتخابات میں پر پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین اور پاکستان پیپلز پارٹی نے انتخابی اتحاد کرکے ایک ہی انتخابی نشان تیر حاصل کر لیا تھا جبکہ بادی النظر میں یہ اتحاد الیکشن ایکٹ 2017ءکی دفعہ 215 اور الیکشن رولز سے مطابقت نہیں رکھتا تھا‘ لیکن اُس وقت کے چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمیشن کے ممبران نے اس بے ضابطگی کو نظر انداز کر دیا تھا۔پاکستان پیپلز پارٹی‘ بلاول بھٹو زرداری جس کے چیئرمین ہیں‘ کی بنیاد 30نومبر 1967ءکو رکھی گئی تھی‘ لیکن پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین کی تشکیل جون 2002ءمیں ہوئی کیونکہ اُس وقت صدر پرویز مشرف نے سیاسی جماعتوں پر گرفت مضبوط کرنے کے لیے پولیٹکل پارٹیز ایکٹ 1962ءکے متبادل پولیٹکل پارٹیز آرڈر 2002ءجاری کر دیا تھاجس کے تحت ہر سیاسی جماعت کی الیکشن کمیشن میں رجسٹریشن لازمی قرار دی گئی تھی۔ یعنی بلاول کو اندر کھاتے پارٹی میں ہی اتنا کھپا دیا گیا ہے تو وہ کیسے نوجوانوں کو لیڈ کریں گے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ اُنہیں اقتدار ملنا چاہیے، بلکہ یہ ضرور کہوں گا کہ وہ نوجوانوں کی قیادت کے لیے اب تک کا سب سے اہم ”دستیاب“ لیڈ رہے۔ جو ان نوجوانوں کی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر ملک کے بحرانوں سے نکال سکتا ہے۔ بہرحال میرے خیال میں دنیا کو پاگل تصور کیا جانا چاہیے جو نوجوانوں کو آج کے دور میں Facilitateکر رہی ہے، انہیں سہولیات دے رہی ہے، انہیں ڈگری مکمل کرنے کے بعد ہر قسم کا مالی و معاشرتی تعاون فراہم کیا جاتا ہے تاکہ وہ اپنے ملک کے سود مند شہری بن سکیں۔ جبکہ یہاں ان نوجوانوں کا استحصال کیا جاتا ہے۔ تبھی ہمارے نوجوان یہاں کام کرنے کے بجائے بیرون ملک رہ کر روشن مستقبل کے خوابوں کو پورا کرنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ بات سمجھنے کے لئے ایک مثال دینا چاہوں گا، سوچیں کہ آپ اپنی حق حلال کی کمائی سے ایک ریسٹورنٹ میں کھانا کھانے جاتے ہیں لیکن وہاں اچھی خاصی قیمت ادا کرنے کے بعد بھی ریسٹورنٹ والے کہتے ہیں کہ ہمارے پاس کچھ دن پرانا باسی اور بدبودار کھانا موجود ہے یا پھر صبح ہی ہم نے مردہ بکرے کا بہترین قورمہ بنایا ہے۔ تو آپ ان دونوں سے کوئی ایک پکوان کھائیں گے؟ میری رائے میں اگر اچھے خاصے پیسے ادا کرنے کے بعد بھی آپکو بہتر کھانا نہیں مل رہا تو آپ وہ کھانا نہیں کھائیں گے اور کوشش کریں گے کہ کیوں نہ خود ہی کچھ پکا کر کھالیا جائے۔ایسے ہی جب آپ ہر خریدی جانے والی چیز پر سیلز ٹیکس دیتے ہیں، پٹرولیم پر لیوی ادا کرتے ہیں ، انکم اور پراپرٹی ٹیکس بھی ادا کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود بھی آپ کو ایک بوسیدہ نظام دیا جاتا ہے جس میں کسی بھی سیاسی جماعت کی حکومت آئے وہ اشرافیہ کی حکومت صرف اشرافیہ کے لیے ہو اور آپ کو ہمیشہ یہی کہا جاتا رہے کہ جو ہے یہی ہے، اسی میں سے منتخب کرو، تو عقل و شعور کاتقاضا یہ نہیں کہ آپ ان آپشنز کو دھتکار کر خود ایک ”آپشن“ بنیں؟۔ قصہ مختصر کہ اگرہمارے نوجوانوں کے اندر عمران خان کے لیے کچھ نرم گوشہ پایا جاتا ہے، تو اس میں قصور ان نوجوانوں کا نہیں ہے، بلکہ اس سسٹم کا ہے، جس نے اُنہیں متبادل لیڈر شپ مہیا نہیں کی۔ آپ یقین مانیں! میرے دونوں بیٹے اس وقت بیرون ملک ایڈجسٹ ہونے کے چکر میں ہیں،بلکہ ہو چکے ہیں، ایک امریکا میں تعلیم مکمل کرنے کے بعد جاب کر رہا ہے اور دوسرا فرانس میں۔ یقین مانیں اُن کا پاکستان کے حالات دیکھ کر یہاں آنے کا جی ہی نہیں چاہتا۔ وہ اس سسٹم سے ہی خاصے مایوس ہو چکے ہیں، وہ مجھ سے مزاحاََ پوچھتے ہیں کہ ن لیگ اور نواز شہباز جو ماضی میں آصف علی زرداری کی کرپشن پر کیا کچھ نہیں کہتے تھے اور یہ اعلان کرتے تھے کہ جب حکومت ملی تو زرداری کو سڑکوں پر گھسیٹیں گے اور اُن کا پیٹ چیر کر کرپشن کا پیسہ وصول کریں گے، انہی دونوں پارٹیوں نے اکٹھے 16ماہ حکومت بھی کی اور ملک کا ایک مرتبہ پھر بیڑہ غرق بھی کردیا۔ بہرکیف نوجوانوں کا ”آپشن“ بننے کا واحد طریقہ ہے کہ یہ سیاست کے میدان کو استعمال کرتے ہوئے ملک و ملت کارخ بدلنے کی کوشش کریں۔ جمہوریت کو مضبوط کرنے کے لیے نوجوان فعال کردار ادا کریں۔ اگر آپ سیاست میں سرگرم نہیں ہونا چاہتے تو اس سے لا تعلق بھی نہ رہیں ووٹ کی اہمیت کو جانیں انتخابات میں حق رائے دہی کا سوچ سمجھ کر استعمال کریں۔نیلسن منڈیلا نے کہا تھا کہ سسٹم کو برا کہنے سے سسٹم نہیں بدلے گا بلکہ سسٹم کا حصہ بننے سے یہ بدل سکتا ہے۔ “ نوجوان اس قول پر غور کریں اور سیاست کاحصہ ضرور بنیں لیکن نعرے لگانے اور جھنڈے ا±ٹھانے کی حد تک نہیں بلکہ اپنا وژن بنائیں، مسائل اور حقوق کی بات کریں، ملک میں تبدیلی لانے کے لیے آگے بڑھیں۔ اپنے سامنے ایک واضح خاکہ اور منصوبہ رکھیں۔ ملک و قوم کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کریں۔ کوشش کریں کہ ملک میں ایسے سیاسی کلچر کو فروغ دیں، اس کے لیے سیاست کی الف ب کو سمجھنا ضروری ہے۔ آگے بڑھنے کے راستے ہموار ہوں۔ سیاسی اکھاڑ پچھاڑ، الزام تراشیوں، لڑائی جھگڑوں سے لطف اندوز نہ ہوں بلکہ کچھ ایسا کریں کہ نفرتیں، لڑائیاں اور عدم برداشت ختم ہوں۔تاکہ یہ ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکے!