پی سی بی،،، عوام کو خوار کیوں کر رہا ہے؟

قطر میں اگلے ماہ نومبر میں دنیا کا سب سے بڑا ٹورنامنٹ فیفا فٹ بال ورلڈ کپ 2022ءمنعقد ہو رہا ہے، 2010ءمیں اس چھوٹے سے ملک کو جس کی آبادی 30لاکھ اور رقبہ صرف 11ہزار مربع کلومیٹر ہے، فیفا ورلڈ کپ کی میزبانی ملی تو دنیا حیران رہ گئی، کہ جو ملک ورلڈ کپ کے لیے کوالیفائی ہی نہیں کرتا اُسے امریکہ، آسٹریلیا، جنوبی کوریا اور جاپان (جو ورلڈ کپ کا انعقاد کروانے میں قطر کے مدمقابل تھے) جیسے ممالک کو پیچھے چھوڑ کر میزبانی حاصل کی تو بہت سے لوگوں کے لیے یہ کسی صدمے سے کم نہیں تھا۔حیرت اس بات پر ہوئی کہ ماسوائے ایک نسبتا غیر معیاری سٹیڈیم کے قطر میں کوئی فٹ بال سٹیڈیم ہی نہیں تھا۔ لیکن قطر کے پاس 12سال کا عرصہ تھا جس میں وہ دنیا کو دکھا سکتا تھا کہ محنت، لگن اور جذبہ اگر ہو تو دنیا کی کوئی طاقت آپ کو آگے بڑھنے سے روک نہیں سکتی۔ اُس نے ان 12سالوں میں 200ارب ڈالر کے مہنگے ترین 8سٹیڈیم، ہوٹلز اور سیاحتی مقامات تعمیر کیے تاکہ دنیا بھر سے متوقع طور پر آنے والے 15لاکھ افراد ورلڈ کپ سے محظوظ ہونے کے لیے اُن کے ملک کا وزٹ کریں۔ ورلڈ کپ شائقین کے لیے اسلامی ملک ہونے کے باوجود قطر نے کئی سیاحتی مقامات پر شراب کی اجازت دے دی، پہلی بار دنیا کے سامنے ائیر کنڈیشنز سٹیڈیم متعارف کروائے۔ اس کے علاوہ شائقین کے لیے 1لاکھ 76ہزار کمروں پر مشتمل دنیا کے 100سے زائد مہنگے ترین ہوٹلز بنائے۔ سکیورٹی کے لیے اپنے ہمسایہ ملک ترکی سمیت پاکستان سے بھی رابطہ کیا ، جس کے بعد رواں ماہ ستمبر میں پاک قطر معاہدے کے تحت پاکستان اپنے سکیورٹی اداروں کی خدمات مہیا کرے گا۔ جس کے عوض پاکستان کو 2ارب ڈالر دیے جائیں گے۔ پھر ہر سٹیڈیم کے ساتھ 3، 4سیون سٹارز ہوٹلز تعمیر کروائے، نئی سڑکیں بنائیں۔ مطلب پورے کا پورا قطر ”سپورٹس سٹی“ بنادیا گیا۔ اس ورلڈکپ سے اُمید کی جا رہی ہے کہ قطر کو اتنی ہی آمدنی ہو جتنا اُس نے خرچ کیا ہے مگر سوال یہ ہے کہ قطر نے ورلڈ کپ کےلئے اتنی زیادہ ”ایفی شنسی “کیوں دکھائی؟ قطر نے یہ سب کچھ صرف ورلڈ کپ 2022ءکے لیے نہیں کیا بلکہ یہ اُس کا اگلے 20سال کا منصوبہ ہے۔ اُس نے اپنے ملک میں سیاحت کو فروغ دینے کے لیے یہ سب کچھ کیا ہے، قطر کہتا ہے کہ اگر ہم ورلڈ کپ میں بہترین مہمان نوازی میں کامیاب ہو گئے تو یہ اگلے 20سال تک ہمیں لاکھوں نہیں کروڑوں سیاح دے گا۔ اور ملک کا ریونیو مزید بہتر ہوگا۔ یہ تھا فیفا ورلڈ کپ 2022ءاور قطر کا ریویو جبکہ ہمارا ملک قطر سے 65گنا بڑا اور آبادی کے لحاظ سے 80گنا بڑا ملک ہے۔ ہم نے کرکٹ ، ہاکی ، سکوائش، سنوکروغیرہ میں دنیا کو بڑے بڑے نام دیے ہیں، مگر مجال ہے کہ ہم نے کھیلوں کے فروغ کے لیے کچھ کیا ہو۔ تبھی ہم ہاکی، سکوائش یا سنوکر میں پیچھے رہ گئے ہیں اور رہی بات کرکٹ کی تو کرکٹ میں بھی دنیا وطن عزیز میں مجبوری کے تحت آتی ہے ورنہ یہاں حال کوئی نہیں ہے۔ آپ حالیہ پاک انگلینڈ ہوم سیریز کو دیکھ لیں انگلینڈ کی تقریباََ بی ٹیم یہاں کھیل رہی ہے کیوں کہ انگلش ٹیم کے کپتان بین سٹوک ، جوس بٹلرسمیت دیگر سینئر کھلاڑیوں نے پاکستان آنے سے معذرت کر لی تھی۔ یہاں نہ آنے کی وجوہات کچھ بھی ہوں مگر سوال یہ ہے کہ ان کھلاڑیوں کو ہم وہ سہولیات دے رہے ہیں جو کسی بین الاقوامی ٹیم کو دی جاتی ہوں۔ ماسوائے ہزاروں اہلکاروں کی سکیورٹی اور پروٹوکول کے ہم اُنہیں کئی ہفتے سکیورٹی حصار میں قید کیے رکھتے ہیں تاکہ وہ اللہ اللہ کرکے وقت پورا کریں اور کلمے پڑھتے پڑھتے اپنے ملکوں کو روانہ ہو جائیں۔ چلیں آپ یہ بھی چھوڑیں آپ پاکستانی عوام کو اس حوالے سے کیا سہولیات دے رہے ہیں؟ مکمل خواری؟ مطلب اگر کراچی، راولپنڈی، لاہور یا ملتان میں میچ ہو تو اُس دن اُس شہر میں خصوصاََ سٹیڈیم کے گرد 10کلومیٹر کے ایریا میں کرفیو کا سماں ہوتا ہے۔ آپ اُس کرفیو سے باہر ٹریفک میں پھنسے ہوئے کسی شخص سے بات کر کے دیکھ لیں پاکستان کرکٹ بورڈ اور سکیورٹی اداروں کو کھری کھری سنائے گا۔ کبھی یہ لوگ کرکٹ ٹیم کے پروٹوکول کے نام پر شہر کی بڑی شاہراہیں بند کر دیتے ہیں تو کبھی شائقین کی سیکورٹی کے نام پر وہاں کے رہائشیوں اور عام گزرنے والے افراد کو ذلیل کیا جاتا ہے۔ لیکن آپ سہولیات کے حوالے سے فیفا ورلڈ کپ کو چھوڑیں آپ دنیا کے 150ممالک میں دیکھ لیں، جہاں 50ہزار چھوٹے بڑے سٹیڈیم ہیں جن میں بین الاقوامی مقابلے منعقد کروائے جاتے ہیں، اور ان 50ہزار میں سے 48ہزار سٹیڈیم ایسے ہیں جن سے فائیو سٹار ہوٹلز کا فاصلہ واکنگ Distanceپر ہے۔ یعنی دنیا کے بیشتر ممالک ایسی جگہ سپورٹس کمپلیکس تعمیر کرتے ہیں جہاں فائیو سٹار ہوٹلز قریب ترین ہوں یا سپورٹس کمپلیکس کے اندر ہی بڑے بڑے ہوٹلز بنا دیے جاتے ہیں تاکہ کھیلیں اور عام زندگی ساتھ ساتھ چلتی رہے۔ لیکن یہاں ہر سال PSLکے میچز کروائے جا رہے ہیں جن میں انٹرنیشنل کرکٹرز بھی شوق اور پیسے کمانے کی غرض سے شرکت کر رہے ہیں مگر مجال ہے ہم نے کہیں سٹیڈیم کے ارد گرد فائیو سٹار ہوٹل بنانے کے لیے کوئی پیش رفت کی ہو۔ اور پھر یقین مانیں شہر بند کرنے کے حوالے سے یعنی ٹریفک جام کے حوالے سے اکیلا عام شہری ہی متاثر نہیں ہے بلکہ شہر کا ہر طبقہ متاثر ہو رہا ہے، اس حوالے سے پی سی بی سے پوچھیں تو وہ وزارت داخلہ پر ملبہ ڈالتی ہے جبکہ وزارت داخلہ پی سی بی کی غلط منصوبہ بندی کو آڑے ہاتھوں لیتی نظر آتی ہے۔ ہمارے ہاں غلط منصوبہ بندی کا یہ عالم ہے کہ ایک میچ کے لیے سٹیڈیم کے باہر کم و بیش 20لاکھ افراد متاثر ہو رہے ہوتے ہیں،جہاں ٹیمیں ٹھہرتی ہیں اُس کے اطراف میں بھی اتنی ہی تعداد متاثر ہونے والوں کی نظر آتی ہے۔ حالانکہ دنیا بھر میں کوئی پولیس افسر سڑک بند کرکے اپنی کارکردگی ثابت نہیں کرتا۔ کوئی افسر یہ نہیں کہتا کہ ہم دس سڑکیں بند کرکے دس لوگوں کو مرنے سے بچا سکتے ہیں۔ یہ ایسا ہی ہے کہ آپ ڈکیتی کے خوف سے دکان ہی بند کر دیں یا پھر ٹریفک حادثے کے خوف سے گاڑی چلانا ہی چھوڑ دیں۔ قارئین! حیرت ہوتی ہے کہ ہم جس چیز کی عادت بنا لیں اُسے اپنا حق سمجھنا شروع کر دیتے ہیں، جیسے پی سی بی کو یہ عادت پڑ گئی ہے کہ اُس نے جہاں بھی میچ کروانے ہیں وہاں کے سٹیڈیم سے ملحقہ تمام روڈز کو بلاک کر دیا جائے، اب اگر اگلے کئی سال کرکٹ ہونی ہے تو دیکھ لیجیے گا کہ یہی پریکٹس دہرائی جائے گی ! حالانکہ پاکستان میں دوبارہ کرکٹ بحال ہوئے8سال ہوگئے ہیں،اس عرصے میں پی سی بی نے پی ایس ایل سے ہی کروڑوںاربوں روپے کمائے ہیں، میرے خیال میں پی سی بی کو Manageکر لینا چاہیے۔کہ سٹیڈیم کے قریب فائیو سٹار ہوٹل بنا دیا جائے۔ بلکہ اب تو رمیز راجہ کی شکل میں قابل چیئرمین پی سی بی بھی اپنے جو ہر دکھا رہے ہیں ، اور شاید یہ اُنہی کی کاوشوں کا نتیجہ ہے کہ انگلینڈ کی ٹیم پاکستان آنے کے لیے تیار ہوئی۔ لہٰذاوہ عوام کے بارے میں ضرور سوچتے ہوئے سٹیڈیم بنانے کا اعلان کریں! تاکہ عوام کو اس مشکل سے نکالا جائے ۔ الغرض پاکستان میں اگر تفریح کا ماحول بن رہا ہے ، ٹیمیں پاکستان آنا شروع ہو گئی ہیں تو اُس میں اتنی زیادہ مس مینجمنٹ کیوں؟ کیا یہ تفریح ہے ؟ کیا کھیلوں کے بارے میں کسی حکومت نے سنجیدگی سے کبھی سوچا ہے؟ آپ مذکورہ بالا تینوں کرکٹ سٹیڈیم کے بارے میں سُن لیں کہ اُن کی معیاد بھی پوری ہو چکی ہے مگر ہم جدید سہولیات سے آراستہ نئے سٹیڈیم بنانے کے تیار نہیں ہیں۔ قذافی سٹیڈیم 1959ءیعنی آج سے 62 سال پہلے لاہور شہر سے باہر نہر کے قریب بنایا گیا تھا اس وقت اس کا نام لاہور سٹیڈیم تھا۔ 1974ئ میں اس کا نام بدل کر قذافی سٹیڈیم رکھا گیا کیونکہ دوسری اسلامی سربراہی کانفرنس منعقدہ لاہور میں لیبیا کے صدر معمر قذافی نے پاکستان کے نیو کلیئر ٹیکنالوجی کے حصول کے حق کی بھرپور حمایت کی تھی۔ گزشتہ 62 سال میں لاہور نے جتنی تیز رفتاری سے ترقی کی ہے وہ سب کے سامنے ہے، اور قبضہ مافیا کا کردار بھی کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا جس نے لاہور کے حقیقی حسن کو ہی برباد کر کے رکھ دیا اور تبھی آج ہم ٹریفک اور آلودگی کے مسائل میں گھرے ہوئے ہیں۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ جب قذافی سٹیڈیم میں کوئی میچ ہوتا ہے تو تماشائیوں کی پارکنگ کے لیے ایف سی کالج یونیورسٹی میں چھٹی کا اعلان کر دیا جاتا ہے ، پھر کراچی کے نیشنل سٹیڈیم کی بات کر لیں یہ بھی 66سال پرانا ہے، یہ سٹیڈیم 1955ءمیں کرکٹ کی عالمی ٹیموں کی میزبانی شروع کر چکا تھا، یہاں پہلا ٹیسٹ کھیلنے بھارت کی ٹیم آئی تھی۔ نیشنل سٹیڈیم شہر کی آبادی سے باہر بنایا گیا تھا لیکن گلشن اقبال اور گلستان جوہر آباد ہونے کے بعد جب یونیورسٹی روڈ اور اطراف کے علاقے ویران سے گنجان ہو گئے تو نیشنل سٹیڈیم خود بخود شہر کے مرکز میں آگیا۔ جبکہ راولپنڈی سٹیڈیم کی تاریخ زیادہ پرانی تو نہیں مگر زیادہ نئی بھی نہیں ہے، اسے بنے ہوئے 37سال ہوگئے ہیںیہ سٹیڈیم بھی آہستہ آہستہ آبادیوں کے درمیان میں آچکا ہے۔ بہرکیف اس مسئلے کا آسان حل ایک تو یہ ہے کہ سٹیڈیم کو شہری آبادی سے باہر لے جایا جائے ، اس کے قریب ہی غیر ملکی کھلاڑیوں کی رہائش کیلئے ہوٹل بھی تعمیر کیا جائے تاکہ کھلاڑیوں اورعوام کو کسی قسم کی دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے، یا اگر فوری حل درکار ہے تو سٹیڈیم کے اندر یا ملحقہ اطراف میں ہی چالیس پچاس کمروں پر مشتمل گیسٹ ہاﺅس بنا لیں یا سٹیڈیم کے اندر ہی ہوسٹل کو اپ گریڈ کریں، یا پھر ٹیموں کو بذریعہ ہیلی کاپٹر سٹیڈیم میں لے کر جائیں تاکہ عوام اس ایونٹ کو انجوائے کریںاور کسی قسم کی پریشانی سے نہ گزریں!