اداروں کی حدود اور ملکی سالمیت کا خطرہ !

کوئی بھی ملک عدم استحکام کا شکار اُس وقت ہوتا ہے جب وہاں کے اداروں میں ایک دوسرے کا احترام ختم ہوجائے۔ سیاسی استحکام والے ممالک کی فوج، عدلیہ، انتظامیہ یا میڈیا کبھی ایک دوسرے کے معاملات میں دخل اندازی نہیں دیتے۔ لیکن اس کے برعکس وطن عزیز میں اگر اپوزیشن کو حکومت سے مسئلہ ہو تو وہ عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹاتی ہے، حکومت نے اگر اپوزیشن سے کوئی پرانا حساب چکتا کرنا ہوتو وہ بھی عدالتوں کے ذریعے اُنہیں بلیک میل کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ پھر ہر سیاستدان خواہ وہ حکومت میں ہو یا اپوزیشن میں۔ اُس کو بار بار یہی بتانا پڑتا ہے کہ اُن کی جماعت اور پاک فوج ایک پیج پر ہیں۔ اور پھر یہیں بس نہیں ہوتا بلکہ من پسند بیوروکریسی کو من پسند جگہوں پر تعینات کرکے انتظامیہ کے درمیان پھوٹ ڈالنے میں بھی ہمارا کوئی ثانی نہیں ہے۔ اور پھر افسوسناک امر یہ ہے کہ ذاتی فائدے لینے کے لیے ہم عام عوام کو بھی اپنے پراپیگنڈوں کا حصہ بنانے سے نہیں ڈرتے۔ عوام کے ذریعے کسی کی بھی پگڑیاں اُچھالنے سے نہیں ڈرتے۔ اقتدار کے لیے ہم پاک فوج کے بارے میں اُلٹی سیدھی باتیں کہنے سے نہیں ڈرتے۔ تبھی تو پاک فوج کے ترجمان ڈی جی آئی ایس پی آر جنرل بابر افتخار کو ایک ماہ میں دوسری مرتبہ کہنا پڑا کہ قومی سلامتی کے اداروں کو سیاست میں نہ گھسیٹیں۔ ایسا شاید وہ اس لیے بھی کہہ رہے ہیں کہ جب موجودہ حکومت اقتدار میں آئی ہے اور سابقہ حکومت یعنی تحریک انصاف سے اقتدار چھڑوایا گیا ہے، تب سے سوشل میڈیا پر بھرپور اور منظم انداز سے ملکی سلامتی کے اداروں کے خلاف مہم چلائی جا رہی ہے۔ اور یہ اُسی بات کا پیش خیمہ ہے جس کا چند ماہ قبل راقم نے ذکر بھی کیا تھا کہ پاکستان پر ففتھ جنریشن وار مسلط کردی گئی ہے۔ جسے ”ہائبرڈ وارفیئر“ بھی کہا جاتا ہے۔ جس کے مطابق ففتھ جنریشن وار کا طریقہ کار یہ ہے کہ اس میں کسی قسم کا ہتھیار استعمال نہیں کیا جاتا بلکہ سوشل میڈیا، مین اسٹریم میڈیا اور دیگر ٹولز یعنی ایپس کے ذریعے کسی بھی ملک کے تمام سٹیک ہولڈرز کو ایک دوسرے کے خلاف کردیا جاتا ہے اور ملک آٹو میٹکلی عدم استحکام کی طرف چلا جاتا ہے۔ اب آپ اس کا ٹریلر ملاحظہ فرمائیں کہ وطن عزیز میں سیاستدان سیاستدانوں سے لڑ پڑے ہیں، سیاسی کارکن قومی سلامتی کے اداروں سے بھڑ پڑے ہیں، عوام حکومت کے ساتھ دست و گریباں ہے اور جبکہ انتظامی ادارے بیچ بچاﺅ کرانے میں خود بھی پسے جا رہے ہیں۔ اور میری ذاتی رائے میں کہیں نہ کہیں بیٹھ کر یہ پورا پلان ترتیب دیا جا رہا ہے اور اس کے لیے زبردست انویسٹمنٹ کی جا رہی ہے تاکہ پاکستان میں کبھی استحکام نہ آسکے۔ اس میں قصور کسی ایک سیاسی پارٹی ، ادارے یا عوام کا نہیں بلکہ ہم سب قصور وار ہیں۔ کیوں؟ اس کی مثال ہم دور سے نہیں بلکہ بھارت سے لیتے ہیں کہ وہاں پر ادارے ایک دوسرے پر کیوں نہیں چڑھ دوڑتے ۔ بھارت کے نویں وزیر اعظم کے طور پر نرسمہا راو¿ کی حکومت میں یعنی 1991 سے 1996 تک ایگزیکٹو کے اس اعلیٰ عہدہ کے وقار پر کئی سوالیہ نشان لگ گئے۔ بابری مسجد کی مسماری میں ان کی اعانت، اسٹاک ایکسچینج کے بروکروں سے رشوت اور حکومت بچانے کے لیے پارلیامان کے اراکین کی خرید و فروخت جیسے معاملوں نے ان کی شبیہ خاصی داغ دار کی۔بعد میں اراکین کی خرید و فروخت کے معاملے میں ان کے خالف قانونی چارہ جوئی کی گئی اور ان کو سزا بھی سنائی گئی۔مگر جب تک وہ آفس میں تھے، عدالتیں ان کے خلاف دائر رٹ پٹیشن خارج کرتی رہیں۔ سیکورٹی کے پیش نظر ان کے لیے خصوصی عدالت کی نشست وگیان بھون میں لگتی تھی، پھر کسی دن چیف جسٹس صاحبان سے پوچھا گیا کہ آخر انہوں نے نرسمہا راو¿ کو بے لگام کیوں چھوڑا تھا، جب کہ وہ ان پر قد غن لگا سکتے تھے؟ تو ان کا کہنا تھا ”وزیرا عظم جمہوری نظام کا ایک اہم ستون ہوتا ہے۔ حکومت دھونس، دباو¿سے زیادہ وزیرا عظم کے اعتماد و اقبال پر چلتی ہے۔اب اگر آئے دن اس کو کورٹ میں گھسیٹ کر قانونی تقاضوں کے نام پر اس کی بے عزتی کرانی مقصود ہو تو وہ حکومت کب کرےگا؟ اور کیا کوئی افسر، سیکرٹری یا دیگر ادارے، اس کو قابل اعتنا سمجھیں گے؟ کیا وہ اس کے احکامات بجا لائیںگے؟ دارصل بھارت میں مختلف اداروں جن میں عدالت یعنی چیف جسٹس، وزیراعظم، اسپیکر لوک سبھا، دفاعی سروسز یعنی فوجی سربراہ کے دفاتر کے درمیان ایک غیر تحریری معاہدہ ہے، جس کے تحت وہ ایک دوسرے کے عہدے کے وقار کا خیال رکھتے ہیں۔ اس میں اب الیکشن کمیشن کا دفتر اور میڈیا بھی شامل ہے۔ اسی طرح جولائی 2000کو اس وقت کے وزیر قانون رام جیٹھ مالنی نے بنگلور میں کسی تقریب میں چیف جسٹس کے خلاف سخت کلامی سے کام لیا، تو اسٹیج سے اترتے ہی ان کو وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی نے فون کیا اور استعفیٰ دینے کے لیے کہہ دیابھارتی وزیرا عظم کا کہنا تھا کہ شکایت بجا ہی سہی، لیکن حکومت چیف جسٹس کے ساتھ کوئی محا ذ کھولنے کی متحمل نہیں ہوسکتی ہے۔ حالانکہ وزیر قانون رام جیٹھ مالنی کا شمار خود بھی ملک کے جیدقانون دانوں میں کیا جاتا تھا، لیکن اُنہیں استعفیٰ دینا پڑا۔الغرض بھارت مذہب کے علاوہ ہمارا بھائی ہے، ہم صدیوں سے اکٹھے رہے ہیں، جتنے پسماندہ وہ ہیں ہم بھی اتنے ہی پسماندہ ہیں، ہمارے جینز ایک ہیں، لیکن وہاں کا سسٹم ہم سے مختلف کیوں ہے؟ جبکہ اس کے برعکس یہاں نہ تو اداروں کا احترام کیا جاتا ہے اور نہ ہی کوئی دوسرے کی حدو د و قیود کا خیال رکھتا ہے۔ چلیں مان لیا کہ سیاسی جماعتوں کے کارکنان، سیاسی لیڈرز اور عام عوام میں اتنا شعور نہیں ہوتا کہ وہ اقتدار کا پاس نہیں رکھتے۔ لیکن ”بڑا گھر“ تو ایک ڈسپلن ادارہ ہے، پھر وہاں سے کیوں سیاستدانوں، عوام، عدلیہ اور دیگر اداروں کے لیے ناپسندیدگی کی بو آتی ہے؟ کیوں یہ خود کو سیاست میں ملوث ہونے کا شائبہ دیتے ہیں؟ کیوں کہ پریس کانفرنسز میں کہا جاتا ہے کہ اُن کے پاس حکومت کی جانب سے تین پروپوزل دیے گئے تھے، کیوں یہ کہا جاتا ہے کہ فلاں ایم پی اے ہار رہا تھا تو اُس کی مدد کی گئی۔ کیوں ریٹائرڈ افسران اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد پرتعیش زندگی گزارنے کے لیے دوسرے ممالک کا رخ کرتے ہیں ؟پھر آپ اپنے ”سیاسی ونگ“ ختم کریں، کیوں کہ آپ کو جو بجٹ دیا جاتا ہے اُس میں یہ کہیں نہیں لکھا جاتا ہے کہ اتنا بجٹ سیاسی ونگ کے لیے رکھ دیا جائے۔ الغرض یہ سب کچھ دیکھ کر عوام اُن سے کیسے خوش ہو سکتی ہے؟ اور پھر یہ ہمارے جینز میں ہے کہ جب ہمیں تھوڑی سی پاور ملتی ہے تو ہم اپنے آپ سے باہر ہو جاتے ہیں، جیسے آپ جنرل ایوب سے لے کر جنرل مشرف تک سبھی جرنیلوں کو دیکھ لیں جب جب اُن کے پاس آرمی چیف کا عہدہ آیا ، طاقت کے نشے میں وہ اپنا آپ ہی بھول گئے۔ پھر آپ سابق جج صاحبان کو دیکھ لیں، عدالت عظمیٰ کا جج بننے سے پہلے وہ کئی مراحل طے کرتے ہیں، لیکن پھر جب وہ جج بن جاتے ہیں اور پھر چیف جسٹس بن جاتے ہیں تو طاقت کا نشہ اُن پر ایسا حاوی ہوتا ہے کہ پھر وہ کسی کی نہیں سنتے۔ قصہ مختصر کہ پتہ نہیں کہ پاکستان کی مٹی میں ایسا کیا کچھ ہے کہ جب بھی کسی ادارے، چاہے سویلین حکومت، صدر، عدلیہ، ملٹری و میڈیا کو طاقت ملتی ہے، تو وہ بے لگام ہو جاتا ہے۔وزیر اعظم کے پاس جب بھاری منڈیٹ ہوتا ہے تووہ بیک جنبش قلم آرمی چیف کو برطرف کرکے کسی اور کو متعین کرتا ہے اور جب اس نئے چیف کے ساتھ تعلقات کشیدہ ہوتے ہیں، تو اس کی بھی برطرفی کے احکامات جاری ہوتے ہیں، اور وہ بھی اس وقت جب وہ ایک غیر ملکی دورے سے واپس آرہا ہوتا ہے اور مسافروں سے بھری فالئٹ کو اترنے کی اجازت ہی نہیں دی جاتی ہے۔جب عدالت کا فیصلہ اس وزیراعظم کے خلاف آتا ہے تو اس کے حامی عدالت پر ہی چڑھ دوڑتے ہیں کہ چیف جسٹس کو اپنی جان بچانے کے لیے پناہ لینی پڑتی ہے۔ایک اور وزیرا عظم جب فوج کو اصرار کرتی ہے کہ اس کو نیوکلیر پروگرام سے متعلق بریفنگ دی جائے، جو کہ اس کا حق ہے۔ مگر جب یہ پاکستانی وزیر اعظم آرمی ہیڈ کوارٹر کے آپریشن روم میں پہنچتی ہے، تو امریکی سفیر کو بھی اپنے ہمراہ لے جاتی ہے۔ اسی طرح جب پاکستانی عدالت کے سربراہ کو لگتا ہے کہ بس وہی ملک کا نجات دہندہ ہے، تو وہ آئے دن وزیراعظم کو سمن کرنے اس کی تذلیل کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتا ہے۔ ایک نظام کو چلانے کے لیے جوڈیشل ایکٹوزم کی بھی ایک حد ہونی چاہیے۔ایک معزز جج نے جب فوجی آمر جنرل پرویز مشرف کے خلاف فیصلہ سنایا، تو ساتھ ہی یہ بھی لکھا کہ مشرف اگر زندہ ہاتھ نہ آئیں اور کہیں مردہ مل جائیں تو ان کی لاش اسلام آباد کے ڈی چوک میں لٹکائی جائے۔ یہ انصاف نہیں۔ انصاف اور انتقام میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ یہی حال فوج کا بھی ہے۔ پاکستان کی 74 سالہ تاریخ میں غالبًا32سال تک فوج نے اقتدار سنبھالا ہے۔بلکہ یہ کام 50کی دہائی میں ہی شروع ہوگیا تھا جب سکندر مرزا اور ایوب خان نے اداروں کو سیاست میں شامل کیا اور پھر آمریت کی شکل میں ہم نے اُن کو 1971ءتک بھگتا۔ 1971ءکے بعد ملک کے سب سے مقبول لیڈر کو ایک ادارے کے سربراہ نے ہی پھانسی دلوا دی۔ بہرکیف یہ سب شاید اس لیے ہے کہ ہمارے ہاں تعلیم کی کمی ہے اور جو تعلیم ہمیں دی جاتی ہے وہ بھی محض ڈگری کے ایک چھوٹے سے کاغذ کے لیے دی جاتی ہے۔ لہٰذاہم ذہنی طور پر اتنے میچور یا پختہ نہیں ہیں کہ اختیارات کو صحیح طرح سے استعمال نہیں کر پاتے، یعنی ہمیں عہدہ تو مل جاتا ہے مگر اُس کی تپش ہم سے نہیں سنبھلتی۔ اور یہ صرف اداروں کے سربراہوں پر ہی نہیں بلکہ ہمارے ہاں سیاستدانوں کا بھی یہی حال ہے، وہ چاہتے ہیں کہ جب ہم اقتدار میں آئیں تو کبھی واپس نہ جائیں۔ اور جب تک وہ اقتدار میں رہیں یا تو خود رہیں اور اُن کے جانے کے بعد یا تو اُن کا بیٹا اقتدار سنبھالے یا اُنہی کا خاندان ۔اور اس کے بعد بے نظیر اور نوازشریف کی حکومتیں جس طرح آتی جاتی رہیں۔وہ عوام کو اس قدر ازبر ہو چکا ہے کہ اب ہم سو دفعہ یہ کہیں کہ ہم نے نہیں کیا ہم نے نہیں کیا تو شک آپ پر ہی جائے گا۔ لہٰذااداروں کو اپنی حدود و قیود کا خیال رکھنا چاہیے تبھی ملک ترقی کر سکتا ہے ورنہ ہماری اہمیت راستے میں پڑے پتھرسے زیادہ نہیں ہوگی!