پاکستان ہے تو ہم ہیں!

ایک عرصے سے پاکستان اچھی خبروں کا متلاشی ہے، خاص طور پر گزشتہ 3، 4سال سے تو بری خبروں نے ہمارا گھر ہی دیکھ لیا ہے، کبھی آئی ایم ایف کا شکنجہ کسنا، تو کبھی ورلڈ بنک کی طرف سے پابندیاں، کبھی امریکا کی جانب سے دوغلی پالیسی کے الزام لگا کر امداد بند کرنا تو کبھی یورپی یونین کی جانب سے پابندیوں کا سامنا کرنا، کبھی قرضے لینے کے لیے پی ٹی وی، ریڈیوپاکستان یا دیگر عمارتوں کو گروی رکھنا تو کبھی اسی قرض کو کرپشن کی نذر ہوتے دیکھنا، کبھی مہنگائی کے مارے عوام کا خودکشیاں کرنے پر مجبور ہونا تو کبھی حکومتی بدانتظامی عروج پر ہونا، کبھی وطن عزیز کی بین الاقوامی سطح پر جگ ہنسائی ہونا تو کبھی کسی بین الاقوامی لابی کا شکار ہوجانا اور کبھی بین الاقوامی عدالتوں سے منہ کی کھا کر لوٹنا تو کبھی ملکی عدالتوں سے بری خبریں آنا۔ یقین مانیں ایک وقت کے لیے تو ایسا لگتا تھا کہ پاکستان میں کچھ اچھا ہونا شاید خواب بن گیا ہے۔ لیکن اب سخت گرمی کے موسم میں کہیں کہیں سے ٹھنڈی ہوا کے جھونکے آرہے ہیں۔ جیسے برٹش ورجن آئی لینڈ کی ہائیکورٹ نے ٹیتھیان کاپر کمپنی کی جانب سے پاکستان کے اثاثے ضبط کرنے کے دعوے کو مسترد کر کے پاکستان کے حق میں فیصلہ دے دیا ہے۔ ریکوڈک کیس میں ٹیتھیان کمپنی نے ورلڈ بینک ٹربیونل کی جانب سے پاکستان پر عائد 5.9ارب ڈالر ہرجانے کی وصولی کے لیے نیویارک اور پیرس میں موجود پی آئی اے کے ہوٹلوں کی ضبطگی کے لیے دعویٰ دائر کر رکھا تھا۔یہ کیس ایسے ہی تھا جیسے ”کھایا نہ پیا گلاس توڑا بارہ آنے“یعنی اربوں ڈالر کا فائدہ دینے والا پراجیکٹ پاکستان کے گلے پڑ گیا تھا، اگر یہاں ہم ریکوڈک کے چیدہ چیدہ پہلوﺅں کو ڈسکس کریں تو آپ کو حیرت ہو گی کہ پاکستان کا سارا قرض اس منصوبے سے اُتر سکتا ہے۔ حقیقت میں ریکوڈک پاکستانی بلوچستان میں ضلع چاغی کے علاقے میں ایران و افغانستان کی سرحدوں سے نزدیک ایک علاقہ ہے جہاں دنیا کے عظیم ترین سونے اور تانبے کے ذخائر موجود ہیں۔ مقامی زبان میں رکودک کا مطلب ہے ریت سے بھری چوٹی۔ یہاں کسی زمانے میں آتش فشاں پہاڑ موجود تھے جو اب خاموش ہیں۔ اس ریت سے بھرے پہاڑ اور ٹیلوں کے 70 مربع کلومیٹر علاقے میں 12 ملین ٹن تانبے اور 21 ملین اونس سونے کے ذخائر موجود ہیں۔ تانبے کے یہ ذخائر چلی کے مشہور ذخائر سے بھی زیادہ ہیں۔ حال ہی میں پاکستانی بلوچستان میں غیر ملکی قوتوں کی مداخلت کی ایک وجہ یہ علاقہ بھی بتایا جاتا ہے۔ ایک اندازہ کے مطابق سونے کے ذخائر کی مالیت 200 ارب امریکی ڈالر سے زیادہ ہے۔اس کان کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں بیک وقت دنیا کی سب سے بڑی سونا نکالنے والی شراکت اور دنیا کی سب سے بڑی تانبا نکالنے کی شراکت دونوں کام کر رہی ہیں جس سے اس علاقے کی اہمیت کا اندازہ ہو سکتا ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ان عظیم ذخائر کو کوڑیوں کے بھاو¿ غیر ملکی شراکتوں کو بیچا گیا ہے۔اس میں کچھ کان کنی بھی ہو چکی ہے جس کے مطابق موجودہ کانوں کا جو ٹھیکہ دیا گیا ہے اس میں بلوچستان کی حکومت کا حصہ 25 فی صد، انتوفاگاستا (Antofagasta ) کا حصہ 37 اعشاریہ 5 فی صد اور بیرک گولڈ کا حصہ 37 اعشاریہ 5 فی صد ہے۔ لیکن حکومت بلوچستان کو یہ حصہ اس صورت میں ملے گا اگر وہ ان کانوں میں 25 فی صد سرمایہ کاری کرے۔ یعنی اصل میں بلوچستان کی زمین اور وسائل استعمال کرنے کے لیے بلوچستان یا حکومت پاکستان کو کوئی ادائیگی نہیں ہو رہی۔ بہرحال اس کی تفصیل خاصی لمبی ہے جسے پہلے بھی کئی بار بیان کیا جا چکا ہے لیکن اچھی بات یہ ہے کہ پاکستان آہستہ آہستہ ان مشکلات سے سرخرو ہو کر نکل رہا ہے، اور نکلنا بھی چاہیے کیوں کہ یہ وقت کا تقاضا ہے کہ پاکستان ہے تو ہم ہیں! اگر ہم اسی چند ماہ میں مزید اچھی خبروں پر نظر دوڑائیں تو ایک اور اچھی خبر یہ ہے کہ 73سال بعد سننے میں آرہا ہے کہ شعبہ زراعت میں بہتری ہو رہی ہے، اگر ہم اس شعبہ کو اعداد و شمار پر پرکھیں تو اس سال کے اعدادوشمار قدرے بہتر دکھائی دیتے ہیں۔ زرعی حجم میں 2.8فیصد اضافہ ہوا جو پچھلے سال کے برابر اور ہدف کے عین مطابق ہے۔ گندم، چاول، گنا اور مکئی کی پیداوار میں بالترتیب 8فیصد،13.4 فیصد،22اور ایک فیصد اضافہ ہوا ہے البتہ کپاس کی پیداوار میں 23فیصد کمی ہوئی ہے جبکہ کاٹن جننگ میں 15.6فیصد کمی ہوئی۔لہٰذایہ کہا جا سکتا ہے کہ ہمارے کسان کے حالات بہتر ہورہے ہیں، انہیں فصل کے اچھے دام دیے جانے لگے ہیں، بقول شوکت ترین مارکیٹ کا زیادہ فائدہ کسان کو دینے کی کوشش کی جارہی ہے، اُن کے مطابق کسان سے 3روپے میں پیاز خرید کر منڈی میں 30روپے میں فروخت کیا جاتا ہے، لہٰذامڈل مین کو درمیان سے نکالنے کے لیے کوششیں کی جا رہی ہیں، اس کے علاوہ کسان جو زمین 40ہزار روپے ایک سال کے ٹھیکے پر دیتا تھا، اب وہ 70ہزار سے زائد پر دے رہا ہے، یعنی جب کسان کی صورتحال ٹھیک ہو گی، تو آہستہ آہستہ سب چیزیں ٹھیک ہونا شروع ہو جائیںگی۔ پھر اچھی خبر یہ بھی ہے کہ این اے سی کے مطابق صنعت کے شعبے میں ریکارڈ بہتری آئی ہے۔ اس سال کا ہدف 0.1تھا جبکہ صنعت میں ترقی 3.8فیصد رہی۔ لارج مینوفیکچرنگ یونٹس میں 9.3فیصد اور سمال مینوفیکچرنگ یونٹس میں 8.3فیصد اضافہ ہوا۔سروسز (خدمات) کے شعبے میں حیران کن بہتری رپورٹ کی جا رہی ہے۔دو فیصد ہدف کے مقابلے میں چار اعشاریہ چھ فیصد ترقی ایک ریکارڈ ہے۔ یاد رہے کہ خدمات کے شعبے میں سب سے زیادہ اثر بینکنگ سیکٹر سے پڑتا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اس سال بینکنگ سیکٹر میں بھی بہت بہتری آئی ہے۔ اس کے علاوہ ہول سیل اور ریٹیل کا ہدف 1.1 فیصد تھا جبکہ اضافہ 8.4 فیصد رہا۔ پھر بقول حکومت شرح نمو میں بھی اضافہ ہوا ہے، ایکسپورٹ میں بھی بہتری آئی ہے، فیصل آباد کی انڈسٹری کی طرف سے بھی اچھی خبریں سامنے آرہی ہیں ، بے روزگاری میں بھی کمی دیکھنے میں آرہی ہے، پھر بظاہر کرپشن کی روک تھام میں بھی قدرے کمی دیکھنے میں آئی ہے، بقول وزیر اعظم نیب نے 486ارب روپے بھی ریکور کر لیے ہیں، جبکہ کوئٹہ کی احتساب عدالت نے سابق سیکرٹری خزانہ مشتاق رئیسانی کو دس سال قید کی سزا اور ان کی تمام جائیداد ضبط کرنیکا بھی حکم دیا ہے، اور اُن سے مزید کروڑوں روپے بھی برآمد کروائے ہیں۔جبکہ سیکرٹری خزانہ مشتاق رئیسانی مئی دو ہزار سولہ میں گرفتار ہوئے تھے ان کے گھر سے لگ بھگ چونسٹھ کروڑ نقدی اور زیورات ملے تھے۔ اسی کیس میں گرفتار ٹھیکیدار سہیل مجید اور اس کے بھائی کو پلی بارگین کے بعد رہا کردیا گیا تھا۔ ایک اور میگا کرپشن کیس میں سابق مشیر خزانہ خالد لانگو کو بھی دو سال دو ماہ قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ اس کے ساتھ ڈالر کے ریٹ میں نمایاں کمی دیکھنے میں آئی، جسے کسی سطح پر نہیں سراہا گیا۔ البتہ مزید کئی خبریں ایسی ہیں جو پاکستان کے لیے خوش بختی کا باعث بن سکتی ہیں، اور رہی بات حالیہ ریکو ڈک کیس میں پاکستان کو ریلیف ملنے کی تو اس کا کریڈٹ وزیر قانون فروغ نسیم اور اُن کی ٹیم کو جاتا ہے، جنہوں نے محنت کی اور اُس کا ثمر پایا، اُمید ہے کہ پاکستان براڈشیٹ کیس، اور دیگر بین الاقوامی کیسوں سے بھی کامیابی سے نکلنے میں کامیاب ہو جائے گا۔ لہٰذاکہنا صرف یہ ہے کہ چلیں یہ مان لیا کہ اس ملک میں بری چیزیں ہو رہی ہیں، مگر ہمیں جو اچھی چیزیں ہو رہی ہیں، انہیں بھی پھیلانا چاہیے، سراہنا چاہیے اور ایک دوسرے کے ساتھ شیئر کرنا چاہیے تاکہ اُمید نہ ٹوٹے،مایوسی نہ پھیلے، اُمید بندھی رہے۔ کیوں کہ ہم پاکستانی بری خبریں، سن سن کر تھک گئے ہیں، ہم بھی برا لکھ لکھ کر تھک چکے ہیں، ہم یہ بھی لکھ لکھ کر تھک چکے ہیں کہ یہاں ہر سیاستدان بے ایمان ہے، ہر شخص ،ادارہ اور بیوروکریٹ کرپٹ ہے ، سب کو اپنی اپنی پڑی ہے۔ لہٰذاہماری سوچ اجتماعی ترقی کی جانب ہونی چاہیے، ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ بہت کچھ ہونے کے بعد بھی کچھ نہیں ہوا، ہم ابھی بھی کھڑے ہوسکتے ہیں، ابھی بھی اُمید زندہ ہے، ابھی بھی ہمیں اُمید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے۔ اور آخری بات کہ پاکستان کے لیے کچھ اچھا کرنے کی ذمہ داری ہم سب پر ہے، عدلیہ پر ہے، فوج پر ہے، اسٹیبلشمنٹ پر ہے، سیاستدانوں پر ہے، اساتذہ پولیس پر ہے، بیوروکریسی پر ہے، الغرض سب کی ذمہ داری ہے کہ پاکستان کے لیے کچھ اچھا کریں، کچھ اچھا سوچیں اور پاکستان کی نیک نامی کے لیے کچھ کریں، کیوں کہ پاکستان ہے تو ہم ہیں! #Talkhiyan #پاکستان ہے تو ہم ہیں #Pakistan #Reko Diq