پاک بھارت تجارت کیوں ضروری ہے؟

پاک بھارت تعلقات کی بحالی کی خبریں گزشتہ ماہ 23مارچ سے ہی گردش کر رہی ہیں جب بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے یوم پاکستان کے موقع پر پاکستان کے نام تہنیتی پیغام بھیجا، جواب میں وزیر اعظم عمران خان اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی مثبت پیغامات دیے، پھر نئے وزیر خزانہ حماد اظہر نے ہمیں پاک بھارت تجارت کھولنے کی خوشخبری بھی سنا ڈالی تو ایسے لگا جیسے دونوں حریف ممالک کے درمیان برف پگھل رہی ہے۔ لیکن وفاقی کابینہ کی طرف سے اقتصادی رابطہ کمیٹی کی بھارت سے چینی اور کپاس درآمد کرنے کی تجویز مسترد ہونے سے وزیراعظم ،آرمی چیف اور وزیر خزانہ کی طرف سے ہمسایہ ممالک کیساتھ تعلقات میں بہتری لانے کے خیالات بے معنی ہوگئے اور ایک مرتبہ پھر ہم اپنی پالیسیوں کے باعث وہاں کھڑے ہوگئے جسے کشیدگی کے ماحول کی صورتحال قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہ بات دنیا جانتی ہے کہ پاکستان بھارت کے تعلقات کبھی معمول پر نہیں رہے، دونوں ممالک کے درمیان کشمیر سمیت کئی معاملات حل طلب ہیں، اسی لیے ان دونوں ممالک کے درمیان تجارت کئی بار تعطل کا شکار ہوئی ہے، اور شاید یہ دنیا کے واحد ممالک بھی ہیں جن کی آپسی دشمنی اتنی سخت ہے کہ جب یہ لڑتے ہیں تو تجارت بھی ترک کر دیتے ہیں ورنہ دنیا میں بہت سی ایسی مثالیں ہیں کہ جو ممالک آپس میں لڑتے بھی ہیں مگر تجارت کو معطل نہیں ہونے دیتے زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں حال ہی میں دیکھ لیں لداخ میں چین اور بھارت میں خوفناک جھڑپ بھی ہو چکی ہے 1962،میں مکمل جنگ بھی ہو چکی اس کے باوجود دونوں ممالک تجارت میں شراکت دار ہیں بہت بڑے حلیف ہیں۔چین اور امریکہ عالمی سیاست کے میدان میں کھلے حریف ہیں امریکہ چین کے عالمی افق کی طرف اٹھتے قدموں کو روکنا چاہتا ہے اس کی عالمی برتری کی راہیں کھوٹی کرنا چاہتا ہے لیکن اپنے مفادات کو دیکھتے ہوئے اسکا بہت بڑا تجارتی پارٹنر بھی ہے بڑی بڑی امریکی کمپنیاں چین میں قائم ہیں امریکہ نے کھربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے چین نے کھربوں ڈالر بطور قرض امریکہ کو دے رکھے ہیں مفادات بھی چل رہے ہیں اور دشمنی بھی نبھائی جا رہی ہے ۔ پھر امریکا میکسیکو کے تعلقات بھی کبھی نارمل نہیں رہے لیکن اُن کے درمیان تجارت کبھی معطل نہیں ہوئی، پھر جرمنی اور فرانس میں نوک جھونک چلتی رہتی ہے، اور یہ نوک جھونک 200سال پرانی ہے، لیکن حالیہ دہائیوں میں کبھی کسی نے نہیں سنا کہ ان دونوں ممالک کی تجارت کبھی معطل ہوئی ہو۔ الغرض سوسو سال تک آپس میں جنگیں لڑنے والے گوروں کو عقل آ گئی تو کیا اس خطہ کے لوگ اتنے ہی گئے گزرے ہیں کہ صدیوں ساتھ رہنے کے باوجود اپنے تنازعات مکالمہ سے طے کرکے ترقی پر فوکس نہ کر سکیں۔دونوں طرف غربت، جہالت، بیروزگاری عروج پر ہے تو کیا ان کروڑہا بدقسمت انسانوں کے نصیب میں یہی کچھ لکھا ہے ؟جدید دنیا کی کوئی جنگ ایسی نہیں جو میدان و آسمان سے نکل کر مذاکرات کی میز اور مکالمہ تک نہ آئی ہو اور یوں بھی محاورتاً نہیں حقیقتاً دنیا بارود کے ڈھیر پر بیٹھی ہے۔دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان محاذ آرائی کسی کے بھی وارے میں نہیں اس لئے اس طرح کے فیصلوں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہئے۔کتنی احمقانہ بات ہے کہ واہگہ بارڈر کےساتھ پیدا ہونے والی اشیاءوہاں سے ممبئی جائیں،ممبئی سے یو اے ای پہنچیں تو قیمت میں اس خاطر خواہ اضافہ کے بعد ہم انہیں یو اے ای سے امپورٹ کریں۔ہاں ایسا ہی ہو رہا ہے۔ ہم بھارتی اشیاءامپورٹ کر رہے ہیں، لیکن وہ براستہ دبئی ہمارے پاس آرہی ہیں۔ اس سے پہلے اگر ہم بھارت کے ساتھ تجارت کی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو یہ زیادہ خوش بخت نہیں رہی، آزاد ہونے کے بعد ہماری پہلی جنگ ہی 1948ءمیں ہو ئی ، لیکن ہماری تجارت نہ رکی اور 1948-49میں ہماری 56فیصد ایکسپورٹ انڈیا ہی کو ہوتی تھی ۔ پھر اگلے کئی سال تک پاکستان اور بھارت تجارت کے حوالے سے بڑے پارٹنر کے طور پر جانے جاتے تھے، اور ان 17سالوں(1948-1965) میں پاکستان اور بھارت کے درمیان 14تجارتی معاہدے ہوئے ۔ اس دوران انڈیا کے بینکوں کی 6برانچیں پاکستان میں کھل چکی تھیں۔ پھر 1965ءمیں ہماری دوبارہ جنگ ہوگئی جس کے بعد 10جنوری 1966ءکو ایوب خان اور لال بہادر شاستری کے درمیان تاشقند (ازبکستان) میں جو اس وقت سوویت یونین کا حصہ تھا،مذاکرات ہوئے۔ طے پایا کہ دونوں اطراف کی فوجیں اگست سے پہلے والی پوزیشن پر چلی جائیں گی اور سفارتی، تجارتی تعلقات بحال ہو جائیں گے۔ اس معاہدے پر عمل درآمد ہوا، اور دوبارہ تجارت بحال ہوگئی، اُس وقت تجارت کا یہ حجم 6کروڑ روپے تک پہنچا ہی تھا، کہ عوامی سطح پر احتجاج اور 1971ءکی پاک بھارت جنگ کے بعد دونوں ممالک کے درمیان تجارت محدود ہوگئی اور انڈین بینکوں نے اپنی برانچیں بند کر دیں۔ پھر بھٹو نے پاک بھارت تجارت کا آغا ز کرنا چاہا لیکن وہ مذہبی جماعتوں کے دباﺅ میں آگئے اور ایسا نہ کر سکے، پھر جنرل ضیاءالحق کا دور شروع ہوتا ہے۔ 1980ءکی دہائی سے دونوں ممالک کے تعلقات کے درمیان تاریخ ساز بگاڑ محسوس کیا گیا ہے۔ اس بگاڑ کا سبب سیاچن کا تنازع تھا، اس دوران بھی جنرل ضیاءالحق نے 1983ءمیں بھارت کے ساتھ تجارت کھولی ، تب تجارت کا حجم 50کروڑ تک جا پہنچا تھا، لیکن 1989ءمیں کشمیر میں بڑھتی کشیدہ صورت حال کے پیش نظر ایک بار پھر بند کر دی گئی ۔ مختصراََ یہ کہ بات پہنچتے پہنچتے 2003ءتک مشرف دور میں آگئی اور تاریخ کی بہترین تجارت دونوں ممالک کے درمیان دیکھنے میں آئی جس کا حجم 35ارب روپے دیکھا گیا اور پھر اگلے 15سال تک پاک بھارت تجارت میں اتار چڑھاﺅ رہا لیکن نواز شریف کے سابقہ دور میں یہ تجارت مثالی ہوگئی ۔ اُن کے دور میں پاکستان ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ کے مطابق پاکستان بھارت کو 383 ملین ڈالر کی اشیا برآمد کرتا تھا جس میں کھجور کی برآمد 92 ملین ڈالر، سیمنٹ کی 63 ملین ڈالر اور چمڑے کی بنی اشیا 13.7 ملین ڈالر ہے، جبکہ دوسری جانب پاکستان بھارت سے 1.9 بلین ڈالر کی اشیاءدرآمد کرتا تھا، جس میں پاکستان، بھارت سے 344 ملین ڈالر کی کاٹن درآمد کرتا تھا جو ہماری ٹیکسٹائل انڈسٹری میں خام مال کے طور پر استعمال ہوتی تھی۔لیکن نوازشریف پر الزامات لگے کہ انہوں نے بھارتی خفیہ ایجنسی کے لوگوں کو اپنی ملوں میںکام کرنے کیاجازت دے رکھی ہے اور دوسری طرف سنجن جندال کی نوازشریف سے خفیہ ملاقاتوں اور موصوف کے بھارت میں ذاتی کاروبار کو فروغ دینے کی خبروں نے پاک بھارت تجارت کو کافی نقصان پہنچایا۔ لہٰذااگست2019ءمیں پلوامہ حملے کے بعد اب تک یہ تجارت مکمل طور پر معطل ہو چکی ہے، لیکن سنا ہے کہ آج بھی 800/900اشیاءبھارت سے سمگل ہو کر پاکستان پہنچ رہی ہیں، جس سے پاکستان کو شاید کوئی فائدہ نہ ہو مگر مافیا اس سے فائدہ ضرور اُٹھا رہا ہے۔ خیر موجودہ حالات میں اگر حکومت نے چینی اور کپاس درآمد کرنے کی منظوری دی ہی تھی تو اس پر ”یوٹرن“ کیوں لیا گیا؟ اور ظاہر ہے حماد اظہر نے اسٹیبشلمنٹ اور وزیر اعظم کی منظوری کے بغیر تو اسے نہیں تیار کیا ہوگا۔ لہٰذاپھر انہیں کون سا ایسا فون آگیا کہ انہیں اس تجارت کو ترک کرنا پڑا، اور دوسری بات یہ کہ عوام دباﺅ کو موجودہ حکومت تو ویسے بھی کسی کھاتے میں نہیں لکھتی تو پھر کہاں سے دباﺅ آ سکتا ہے؟ یہ سوچنے کی بات ہے!اور اگر فون نہیں بھی آیا تو کیا موجودہ حکومت اپنے فیصلوں پر ڈٹے رہنے کے قابل بھی نہیں ہے؟ اور رہی بات کشمیر کی تو مجھے یہ بات افسوس سے کہنا پڑتی ہے کہ ہماری تو کشمیر پالیسی واضح نہیں، کہ ہم نے کشمیر لینا کیسے ہے؟ ہم وہاں کشمیر ی لوگوں کو سپورٹ بھی نہیں کرسکتے، پھر آپ کا حق دنیا تسلیم نہیں کرتی کہ آپ کشمیری مجاہد ین کی مدد کرےں، پھر FATFکی سب سے بڑی شرط بھی یہی ہے کہ پاکستان مجاہدین کی سپورٹ بند کرے۔ اور پھر سب سے اہم بات یہ کہ کیا آپ کی خارجہ پالیسی اتنی مضبوط ہے کہ آپ انڈیا سے کہیں کہ کشمیر چھوڑ دے، تو وہ چھوڑ دے گا؟ اور پھر کیا60، 70لاکھ کشمیری کیا سوا ارب کے انڈیا سے آزادی لے سکتے ہیں؟اگر نہیں تو پھر کشمیر کیسے آزاد ہوسکتا ہے؟ میرے خیال میں یہ بہترین خارجہ پالیسی سے آزاد ہوسکتا ہے، بہترین حکمت عملی سے آزاد ہو سکتا ہے، مذاکرات کرنے سے بحال ہو سکتا ہے۔ بہرکیف سوال یہ ہے کہ آپ اپنے سوا ارب کے ہمسائے کے ساتھ اگر تجارت نہیں کرنا چاہتے تو پھر کس سے کرنا چاہتے ہیں؟ کیا افغانستان سے ؟ کیا وہاں کی چند کروڑ آبادی کے لیے ؟ جس کی اکانومی امریکا کے ایماءپر ہے ، کیا چین سے تجارت کریں گے؟ میرے خیال چین کی اپنی بہت بڑی مارکیٹ ہے، جو پہلے ہی آپ کی مقامی انڈسٹری کو تباہ کر رہی ہے۔ کیا ایران سے تجارت کے خواہاں ہیں ؟ ایران پر تو پہلے ہی ہزارہا پابندیاں عائد ہیں ۔ اس لیے ہمارے پاس پھر سوا ارب کی مارکیٹ ہی رہ جاتی ہے، جہاں ہم کئی منفرد اشیاءبنا کر سیل کر سکتے ہیں، اس کے لیے ہمیں ایسی پالیسی بنانی چاہیے جو اگلے 25،30سالوں کے لیے ہو،ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ اگر عمران خان نے کہا کہ تجارت نہیں ہونی چاہیے تو ڈھائی سال بعد کوئی اور آجائے تو وہ کہہ دے کہ ہم تجارت کریں گے۔ لہٰذا ہماری پالیسیاں کسی بھی طرح متاثر نہیں ہونی چاہیے ایسے معاہدے کرنے چاہیےں جو عالمی معیار کے ہوں ایسا کرنے سے یقینا دونوں ملکوں کے عوام خوشحال بھی ہوں گے اور آگے بھی بڑھیں گے!