امریکا نے اپنے مفادات کیلئے یوکرین کو استعمال کیا!

ایک بار نہیں بار بار بلکہ سو بار لکھوں گاکہ دنیا میں کہیں کوئی مذہب کی لڑائی نہیں، کہیں کوئی کسی کے لیے نہیں مرتا، کہیں کوئی بغیر وجہ کسی ملک کی مدد نہیں کرتا، کہیں بغیر مفاد اقوام متحدہ کسی معاملے میں نہیںکودتا ۔ بلکہ ہر جگہ ہر ملک ہرریاست میں مفادات کا ٹکراﺅ ہوتا ہے۔ مفاد کا ٹکراﺅ پورے یورپ کو آپس میں لڑا دیتا ہے، مفادات کا ٹکراﺅ تمام عیسائی ریاستوں کو آپس میں گتھم گتھا کردیتا ہے، مفادات کا ٹکراﺅ اسلامی ریاستوں کو آپس میں بھڑنے پر مجبور کردیتا ہے، مفادات کے ٹکراﺅ نے عراق ایران جنگ کروائی، مفادات کے ٹکراﺅ نے شام میں خانہ جنگی کروائی، مفادات کے ٹکراﺅ نے آج تک سعودی عرب اور ایران کے درمیان صلح نہیں ہونے دی، مفادات کے ٹکراﺅنے آج تک چین امریکا میں بڑی جنگ نہیں ہونے دی۔ بلکہ ماضی کی سب باتوں کو بھول جائیں، روس یوکرین جنگ کو دیکھ لیں کہ یوکرین کے مسئلے میں کسی ملک نے بھی یوکرین کا کھل کر ساتھ نہیں دیا۔ کیوں نہیں دیا؟ اس لیے نہیں دیا کہ امریکا کے یوکرین کے ساتھ براہ راست مفادات نہیں تھے۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ یوکرین امریکہ کے پڑوس میں نہیں ہے۔ نہ اس کی کوئی سرحد امریکہ سے لگتی ہے اور نہ ہی یہاں کوئی امریکی فوجی اڈہ موجود ہے۔ اس ملک کے پاس تو تیل کے وسیع تر ذخائر بھی نہیں ہیں اور نہ ہی امریکہ اور یوکرین کے مابین بڑے پیمانے پر تجارت ہوتی ہے۔اس لیے میرے خیال میں امریکا نے یوکرین کو گھاس بنا کر مینڈھے کے سامنے رکھ دیا اور مینڈھے کو ذبح کرنے کی کوشش کی ہے۔ یعنی امریکا نے روس پر پابندیاں لگانے کے لیے یوکرین کو استعمال کیا ہے، کہ اگر روس یوکرین پر حملہ کرتا ہے تو وہ دنیا کی نظروں میں گندہ ہوگا اور مغربی ممالک روس پر اقتصادی پابندیاں لگا دیں گے۔ جبکہ دوسری جانب روس کبھی نہیں چاہے گا کہ یوکرین نیٹو ممالک کا حصہ بنے کیوں کہ جو ملک نیٹو کا حصہ بن جاتا ہے پھر وہاں امریکی اڈے بھی بنتے ہیں، اور امریکی مفادات بھی استعمال ہوتے ہیں۔ لہٰذاروس کبھی نہیں چاہے گا کہ اُس کے پڑوس میں امریکا آکر بیٹھ جائے۔ اس لیے وہ یوکرین کے نیٹو کا حصہ بننے کے سخت مخالف رہا ہے۔ حالانکہ اس سے پہلے 1961ءمیں روس بھی کیوبا میں میزائل لے کر گیا تھا، لیکن امریکا نے روس کو ایسا کرنے سے منع کر دیا تھا، اور روس امریکا کے درمیان جنگ شروع ہونے کے خدشات بھی بڑھ گئے تھے، یعنی امریکا نے روس کا اثرو رسوخ بڑھنے سے روک دیا تھا۔ لیکن امریکا خود طاقتور سے طاقتور ہونے کو ترجیح دے رہا ہے۔ اور پھر امریکا یہ بات بارہا کہہ چکا ہے کہ جہاں جہاں اُسے اپنی سالمیت کا خطرہ نظر آئے گا وہاں وہاں وہ کارروائی کریں گے۔ تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ حق صرف اور صرف امریکا کو حاصل ہے؟ پھر آپ برطانیہ کی بات کرلیں ، جب برطانیہ نے روس کی جانب سے اتنی بڑی تعداد میں فوجیوں کو یوکرین کی سرحد پر لانے کا عمل دیکھا تو اس پر مایوسی ظاہر کی اور برطانیہ نے یوکرین میں موجود اپنے فوجی تربیت کاروں اور مشیروں کو فوراً وہاں سے نکال لیا۔اور کہا کہ عالمی جنگ تب ہوگی جب روسی فوجی برطانوی یا امریکی فوجیوں پر براہ راست گولی چلائیں گے۔ مطلب وہ بھی بہانہ بنا کر پتلی گلی سے نکل گیا۔ پھر آپ نیٹو ممالک کو دیکھ لیں، نیٹو معاہدے کے آرٹیکل پانچ کے تحت اگر کسی رکن ریاست پر کوئی حملہ ہوتا ہے تو نیٹو کے تمام ممالک کو اس کے دفاع کے لیے آنا ہو گا۔اگرچہ جیسا کہ میں پہلے کہا کہ یوکرین نیٹو کا حصہ بننا چاہتا ہے لیکن وہ ابھی تک نیٹو اتحاد کا حصہ نہیں ہے اور صدر پوتن یوکرین کی نیٹو اتحاد میں شمولیت کے سخت مخالف ہیں۔ قصہ مختصر کہ امریکا نے شرارت کی ہے کہ وہ یوکرین پر حملے کی غلطی کرے، اور اسی کی آڑ میں اُسے معاشی و اقتصادی طور پر نقصان پہنچایا جائے اور یورپ سے اُس پر پابندیاں لگوائی جائیں اور پھر اقوام متحدہ کی قرارداد وں کے ذریعے روس کی بڑھتی ہوئی ترقی کو روکا جائے لہٰذایہاں یہ کہنا مناسب ہوگا کہ کسی کو یوکرین سے کوئی غرض نہیں کہ وہاں پر کتنی اموات ہو رہی ہیں اور نہ ہی یہ غرض ہے کہ دنیا کیا کہے گی؟ اور یوکرینی کیا کہیں گے؟ لہٰذا یوکرین کے صدر ولادیمیر زانہی مفادات کو سامنے رکھ کر دنیا بھر کے رہنماﺅں سے شکوہ کرتے نظر آرہے ہیںاور کہہ رہے ہیں کہ اُن کے ملک کو روس سے لڑنے کے لیے تنہا چھوڑ دیا گیا ہے،وہ مزید کہتے ہیں کہ یورپ کے 27 رہنماو¿ں سے پوچھا کہ یوکرین نیٹو میں شامل ہو گا؟ ہر کوئی ڈرتا ہے اور جواب نہیں دیتا لیکن ہم ڈرنے والے نہیں ہیں۔ یعنی بقول شاعر وہ خفاہیں اور کہہ رہے ہیں کہ خواب کی طرح بکھر جانے کو جی چاہتا ہے ایسی تنہائی کہ مر جانے کو جی چاہتا ہے خیر آگے چلنے سے پہلے اگر روس یوکرین کی آپسی لڑائی کی تاریخ کے حوالے سے بات کریں تو یہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے سخت روایتی حریف رہے ہیں، ایک وقت تھا جب یوکرین کا دارالحکومت کیف ایک تاریخی اور قدیم شہر ہے جو کبھی روس کا دارالحکومت ہوا کرتا تھا۔ماضی قریب میں یوکرین تنازع کی جڑیں تلاش کرنے کے لیے سو سال پہلے 1920 کے حالات و واقعات کا جائزہ لینا ہوگا جب انقلاب روس کے بعد یوکرین کو سویت یونین کا حصہ بنایا گیا تھا۔مشرقی یورپ میں واقع یوکرین رقبے کے اعتبار سے روس کے بعد سب سے بڑا یورپی ملک ہے۔چند ماہ سے یوکرین روس کے ساتھ فوجی اور جغرافیائی تنازع کی وجہ سے عالمی مرکز نگاہ بنا ہوا ہے۔دراصل 21 فروری 2022کو روسی صدر ولادی میر پوتن نے یوکرین سے خود ساختہ علیحدگی اختیار کرنے والے دو علاقوں دونیتسک اور لوہانسک کو خود مختار اور آزاد ریاستوں کے طور پر تسلیم کرلیا تھا۔آج مغرب کے ساتھ مل کر روس کے ساتھ لڑتا یوکرین 1920 سے 1991 تک سوویت یونین کا حصہ رہا ہے۔90 کی دہائی میں جب سوویت یونین کا عروج ڈگمگانے لگا تو یوکرین ان پہلے ممالک میں سے تھا، جس نے 16 جولائی 1990 کو یونین سے علیحدگی کا اعلان کیا۔ تقریباً ایک سال بعد 24 اگست 1991 کو یوکرین نے خودمختاری اور مکمل آزادی کا اعلان بھی کر دیا۔ یوکرین نے آزادی تو حاصل کرلی لیکن وہاں موجود 17 فیصد روسی النسل آبادی سمیت روس کے لیے نرم گوشہ رکھنے والے دیگر پریشر گروپس اور مغرب کی حمایت کرنے والے گروہوں میں تنازعات کا آغاز ہو گیا۔اسی عرصے میں روس اور امریکہ کے درمیان سرد جنگ بھی جاری رہی۔ روس کو یورپ میں قابو کرنے کے لیے امریکہ نے نیٹو کے ساتھ مل کر لیتھیوانیا، پولینڈ اور رومانیہ میں فوج رکھ لی اور ہتھیار نصب کر دیے۔ ان میں سے تین ممالک کی سرحدیں یوکرین سے جڑی ہوئی ہیں۔ 2014 آنے تک یوکرین کی سرحد کے ساتھ صرف بیلاروس ایک ایسا ملک تھا، جس کے تعلقات روس کے ساتھ مثالی تھے۔ 2014 روس اور یوکرین تنازع کا عروج تھا، یاد رہے کہ 2014 میں یوکرین کے صدر وکٹر ینوکووچ تھے، جن کا جھکاﺅ روس کی طرف تھا۔ انہوں نے روس کی حمایت حاصل کرنے کے لیے یورپی یونین سے منسلک ہونے کا معاہدہ مسترد کر دیا، جس کے بعد بڑے پیمانے پر احتجاج شروع ہوگئے۔ اس احتجاجی لہر کے نتیجے میں وکٹوریا نوکووچ کو اقتدار چھوڑنا پڑا۔ اسی دوران یوکرین کے مشرقی علاقوں سے روس کی سرحد پر مامور سکیورٹی افواج پر حملے ہوئے۔ اسے بنیاد بنا کر روس نے کرائیمیا پر چڑھائی کر دی جو تب سے روس کے کنٹرول میں ہے۔پھر 2015 میں فرانس کے تعاون سے یوکرین کے تمام متعلقہ گروہوں میں معاہدہ تو ہوگیا لیکن جھڑپیں جاری رہیں۔ ایسی ہی جھڑپوں میں 2021 کے اواخر میں شدت آ گئی، حالات پر نظر رکھے امریکہ نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ روس ایک مرتبہ پھر یوکرین پر حملہ کرنے کے لیے پر تول رہا ہے۔ مغربی میڈیا کی جانب سے جنگ کے نقطہ آغاز کی تاریخیں بھی دی جانے لگیں۔امریکہ، روس اور مغربی ممالک کے درمیان اعلیٰ سطح پر رابطے جاری رہے لیکن 22 فروری کو روسی صدر ولادی میر پوتن نے یوکرین سے علیحدگی اختیار کرنے والے دو علاقوں کو آزاد ریاستوں کے طور پر تسلیم کرلیا۔ روسی صدر نے اپنے خطاب میں یوکرین کی موجودہ حکومت کو مغرب کی کٹھ پتلی قرار دیا اور اپنی وزارت دفاع سے ڈونیسک اور لوہانسک کی آزاد ریاستوں میں امن قائم رکھنے کے لیے فوجیں بھجوانے کا حکم دیا۔اور پھر 24فروری کو وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔روس نے جو کہا وہ کردیا۔ روس کی فوج مشرقی یوکرین میں داخل ہوگئیں۔اور آج صورتحال یہ ہے کہ دنیا اپنے اپنے مفادات کو لے کر خاموش کھڑی ہیں۔ بہرکیف اس سارے معاملے میں جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو اس معاملے میں جہاں روس یوکرین کے صدور دنیا بھر میں موضوع بحث بنے ہوئے ہیں وہیں پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کو ڈسکس کیا جارہا ہے، کیوں کہ روس کے یوکرین پر حملے کے آغاز کے وقت عمران خان بھی روس میں موجود تھے، حالانکہ یہ دورہ جنگ سے پہلے کا شیڈول تھا مگر دنیا اس دورے کو روس، چین، ترکی اور پاکستان کے بلاک کی صورت میں دیکھ رہی ہے۔ اگر یہ حقیقت ہے تو ہمیں دوسری طرف یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ امریکی بلاک کا حصہ نہ بننے کا مطلب یہ ہے کہ کم ازکم امریکہ کے بلاک کے ممالک جن میں یورپ، مشرقِ وسطیٰ کے عرب ممالک، جاپان سمیت کئی اور درجنوں ممالک کے ساتھ بھی پاکستان کے سیاسی و معاشی تعلقات سرد مہری کا شکار ہو سکتے ہیں جس کا نقصان ہو سکتا ہے، جبکہ سیاسی طور پر ہم تو آج تک یہی سنتے آئے ہیں کہ پاکستان میں حکومتوں کے بننے اور ختم ہونے میں بھی امریکہ کا ہی ہاتھ ہوتا ہے۔ حقیقت مگر یہ ہے کہ متوازن اور غیر جانب دار خارجہ پالیسی وقت کا تقاضا ہے جس میں ملک کا مفاد پہناں ہو۔