سقوط ڈھاکہ : خدارا اپنی غلطی تسلیم کر یں!

”ہم بنگلہ دیش کو 50ویں یوم آزادی پر مبارکباد پیش کرتے ہیں“یہ جملہ ہم میں سے بہت سےconservative لوگوں کو شاید اچھا نہ لگے مگراس کے برعکس بنگلہ دیش کو بھی ہمیں بالکل اسی طرح اُس کے جنم دن پر مبارک باد دینی چاہیے جس طرح ہم اپنے دوست ممالک سعودی عربیہ، یو اے ای، امریکا، برطانیہ یا روس کو دیتے ہیں کیوں کہ وہ ایک آزاد ملک ہے اور اُس نے یہ آزادی اپنی حکمت عملی اور جدوجہد کی وجہ سے لی ہے! اور پھر یہ ہے بھی گولڈن جوبلی اس پر تو 50گنا زیادہ مبارکباد بنتی ہے، لیکن ہم میں اتنا ظرف کہاں؟ ہم تو یہ بات ماننے کے لیے ہی تیار نہیں ہیں کہ بنگلہ دیش بھی کوئی ”ملک “بن سکتا ہے ، ایسا اس لیے بھی ہے کہ ہم 50سال بعد بھی اس خمار سے نہیں نکل سکے کہ شاید بنگلہ دیش ہم سے علیحدہ ہوکر اپنی حفاظت کر بھی پائے گا یا نہیں! مگر آج یہ حقیقت ہے کہ ”بنگلہ دیش“ (ہمارا چھوٹا بھائی) ہم سے بھلے ہی عمر میں چھوٹا ہے مگر وہ قد کاٹھ اور مال و دولت میں ہم سے آگے نکل چکا ہے۔ اُس کی معیشت پاک بھارت دونوں ملکوں سے آگے نکل چکی ہے۔ تمام یورپی ممالک کے بڑے بڑے گاہک بنگلہ دیش کا رُخ کر رہے ہیں، مغربی ممالک یہاں سے لیبر لینا زیادہ پسند کر رہے ہیں۔ حالانکہ میں خود بنگلہ دیش کی موجودہ حکومت کو اتنا اچھا نہیں سمجھتا لیکن وہاں کے تھنک ٹینک نے مجھے بہت متاثر کیا ہے کہ حکومت خواہ بعض جگہوں پر غلط ہے لیکن اُس کی معاشی پالیسیوں میں ایسا تسلسل ہے کہ نہ تو حسینہ واجد کے جانے سے اُس پر اثر پڑا ہے اور نہ ہی خالدہ ضیاءکے آنے سے۔ جبکہ ہم یعنی ”مغربی پاکستان“ ابھی تک اسی مسئلے میں پھنسا ہوئے ہیں کہ ”سقوط ڈھاکہ“ میں غلطی کس کی تھی، دنیا چاند پر چلی گئی، دنیا نے ڈی این اے دریافت کر لیا، دنیا نے آرٹیفیشل انٹیلی جنس بنا لی، دنیا نے مریخ کا سفر شروع کر دیا مگر ہم آج بھی یہ ماننے کو تیار نہیں کہ ملک کو دو لخت کرنے میں کون کون قصور وار تھا۔ ویسے ہم پاکستانیوں کی ایک بات ضرور ہے کہ ہم تعریف کرنے میں بھی کافی کنجوسی دکھاتے ہیںاور بسا اوقات بغض بھی رکھتے ہیں، اور سب سے بڑھ کر کہ اگر ہم نے کوئی غلطی کی ہوتی ہے، یا کسی کے ساتھ غلط کیا ہوتا ہے تو اُسے ہم ماننے کے لیے تیار ہی نہیں ہوتے! یہی مسئلہ ہمارا قومی بھی ہے، علاقائی بھی ہے، لسانی بھی ہے ، خاندانی بھی ہے اور انفرادی بھی۔ ورنہ آپ خود دیکھ لیں کہ جرمنی نے دوسری جنگ عظیم کے بعد سب سے پہلا کام ہی یہ کیا کہ اُس نے اپنی غلطی تسلیم کی کہ ہم دوبارہ ایسی غلطیاں نہیں دہرائیں گے کہ جس سے ہمیں جنگ کی طرف لوٹ کر جانا پڑے۔ اسی طرح اٹلی کو دیکھ لیں، جاپان کی مثال سب کے سامنے ہیں،اس کے علاوہ اُن تمام ممالک کو دیکھ لیں جو دوسری جنگ عظیم میں ملبے کے ڈھیر تھے ۔ لیکن آج وہ دنیا کے لیے سپر پاور کا درجہ رکھتے ہیں۔ خیر اب سوال یہ ہے کہ ہماری غلطی کیا تھی؟ اور غلطی کا پوچھیں بھی کس سے؟ اور پھر قومی سطح پر ہمارا کوئی تھنک ٹینک تو ہے نہیں جو یہ بتا سکے کہ کون غلط تھا اور کون صحیح یا جو اس ملک کے وسیع تر مفاد میں فیصلے کر سکے۔ تھنک ٹینک نہ ہونے کی وجہ سے ہمارے جیسے ممالک کے لیے تبھی ایک انگریز ریسرچر مائیکل سٹانزے نے کہا تھا کہ شکست خوردہ، غریب، نومولود جمہوریت والے اور اُبھرتی معیشت والے ممالک کے لیے” تھنک ٹینک“ ایسے ہی ہے جیسے جسم کے لیے سانس لینا، اُس کا کہنا تھا کہ یہ آپ کی غلطیوں کی تلافی کرواتا، معاشی صورتحال پر درست سمت فراہم کرتا اور اُن موضوعات پر بحث کرواتا ہے جو ملک کے لیے آئندہ خطرے کا باعث بن سکتے ہیں۔ لیکن مائیکل نے اپنی ریسرچ کے آخر میں یہ بھی تنبیہ کر دی کہ تھنک ٹینک کے لیے شرط یہ ہے کہ اُس کی کسی مخصوص خاندان یا پارٹی سے وابستگی نہ ہو ورنہ یہی تھنک ٹینک گلے بھی پڑ سکتا ہے۔ خیر بات سقوط ڈھاکہ کی ہورہی تھی کہ اس دن کی مناسبت سے ہم نے آج تک کوئی کام نہیں کیے، ہم آج بھی وہی غلطیاں دہرا رہے ہیںاورہم آج بھی غدار غدار گیم کھیل رہے ۔ ہم نے آج تک اس بات پر کبھی غور نہیں کیا کہ جو قائداعظم کے سپاہی یا جانشین تھے وہ اُن کی رحلت کے بعد ”غدار“ کیسے ہوگئے ۔ آپ تاریخ اُٹھا کر دیکھ لیں کہ ہم نے کس کس موقع پر کس کس کو غدار قرار دیا۔ ہم نے سابق وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین جن کا تعلق بنگال سے تھا کو نہ صرف برطرف کیا بلکہ انہیں کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر بھی مجبور کیا، پھر ہم نے حسین شہید سہر وردی جو قائد اعظم کے قریبی ساتھ تھے اور بنگالی بھی تھے، کو ہم نے وزیر اعظم بنایا اور ”غدار“ کے خطاب سے نواز کر 1962میں قتل بھی کروا دیا۔پھر قائد دور کے وزیر خارجہ جوگیندر ناتھ منڈل کو ہم نے غدار قرار دیااور اُنہیں بھارت واپس جانے پر مجبور کر دیا۔پھر شیخ مجیب الرحمن کو ہم نے غدار قرار دیااور وہی شخص بنگالی قوم کا ہیرو بن گیا۔ اس کے بعد ایوب دور میں قائداعظم کی ہمشیرہ اور صدارتی امیدوار فاطمہ جناح کو غدار قرار دیا گیا۔ خدائی خدمت گار تحریک کے خان عبدالغفار خان کو بھی غدار کہا گیا۔ بھٹو دور میں نیشنل عوامی پارٹی اور اس کے رہنماو¿ں پر غداری کے مقدمات قائم ہوئے۔ جام صادق اور غلام مصطفیٰ کھر پر بھی غداری کے الزامات لگے اور انھیں انڈین ایجنٹ قرار دیا گیا۔ عبد الصمد خان اچکزئی، عطاءاللہ خان مینگل، غوث بخش بزنجو، خیر بخش مری بھی غداری کا سرٹیفیکیٹ حاصل کرنے والوں میں شامل ہیں۔ لیکن ہم نے یہ کبھی نہیں سوچا کہ اصل ذمہ دار تو اُس وقت کے ڈکٹیٹر تھے جنہوں نے 13سال حکومت کی، اس کے بعد بھی اگر سیاستدان ذمہ دار ہیں تو پھر اللہ ہی حافظ ہے! کیوں کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ آپ ایڈمنسٹریٹر تھے، اور کام کوئی اور دکھا گیا! الغرض قارئین !قوم وہ ہوتی ہے جو دوسروں کے بجائے اپنی غلطیاں درست کرکے آگے بڑھے اور ماضی میں کی جانے والی غلطیوں کو آئندہ سدھارنے کی کوشش کرے، ہم کسی پر الزام نہیں لگانا چاہتے، کہ سانحہ مشرقی پاکستان کس کی وجہ سے ہوا ہے لیکن جو ہماری اجتماعی غلطیاں ہیں، جس کی وجہ سے تاریخ میں پہلی بار اکثریت نے اقلیت سے آزادی حاصل کی، کو کم از کم تسلیم ہی کر لیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ بنگالی سیاستدان دودھ کے دھلے تھے، اور ایسا بھی نہیں ہے کہ انہوں نے متحدہ پاکستان میں رہنے کی سر توڑ کوششیں کیں ، مگر یہ سوال ضرور ذہن میں اُبھرتا ہے کہ آخر ہم سے غلطی کہاں ہوئی؟ کم از کم ہم غلطیاں تسلیم تو کریں۔ چلیں ہوا میں باتیں نہیں کرتے آپ اُس دور کا معاشی ریکارڈ چیک کرلیںکہ بنگالی سیاستدانوں کو حقیر سمجھنے کے ساتھ ساتھ ہم اُن کے بجٹ میںبھی کٹوتی لگانے سے گریز نہیں کرتے تھے، مثلاََ مغربی پاکستان اور مشرقی پاکستا ن میں کیے گئے اخراجات کاپنج سالہ موازنہ جس میں 1950-55، کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ مغربی پاکستان پر 1125 کروڑ روپے خرچ کیے گئے جو کل اخراجا ت کا 65فیصد تھے، اس کے مقابلے میں مشرقی پاکستان پر کل اخراجات کا35فیصد یعنی 500 کروڑ روپے خرچ کیے گئے۔یہی سلسلہ اگلے 15سال تک چلتا رہا اور مشرقی پاکستان کے لیے رقم کم ہوتے ہوتے 24.06فیصد پر آگئی۔ حالانکہ اُس وقت مشرقی پاکستان ”کماﺅ پوت“تھا کیوں کہ 1960ءکی دہائی اور اُس کے بعد بھی وہ متحدہ پاکستان کی کل برآمدات کا 70فیصد برآمد کرتا جبکہ مغربی پاکستان کا ملکی معاشی ترقی میں 30فیصد حصہ تھا۔ اور یہ سب کچھ ایوب دور میں بھی جاری رہا بلکہ اسے یوں بھی کہا جائے کہ ایوب دور میں بنگالیوں میں سب سے زیادہ احساس محرومی پیدا ہوا تو غلط نہ ہوگا،صدرایوب خان کی پالیسیوں اور اقدامات کا خصوصی جائزہ لیا جائے تو پائیں گے کہ اُن کا بنیادی مقصد اپنی حکومت کو بحال رکھنا اور طول دینا ہی تھا، یوں اُن کی حکومت نے بنگلہ دیش کی علیحدگی کے بیج کو مزید پانی دیا اور کھاد فراہم کی۔پھر رہی سہی کسر ہم نے کھیلوں میں بھی انہیں پیچھے کر کے نکال دی تھی جیسے اُن کے کرکٹر ہم سے زیادہ اچھے تھے،جیسے آج بھی اُن کی کرکٹ ٹیم بین الاقوامی سطح پر بہتر کھیل پیش کر رہی ہے، انڈر 19کے ورلڈ چیمپئین ہیں، اُس وقت بھی اچھے کرکٹر تھے، لیکن 1971ءتک کی پاکستانی کرکٹ ٹیم میں ہم کسی ایک کھلاڑی کو بھی نہیں جانتے جو متحدہ پاکستان کی ٹیم میں ہوگا۔ یہی حال ہاکی کا تھا، کوئی کھلاڑی اس کھیل میں مشرقی پاکستان سے نہیں لیا گیا تھا۔ بہرحال مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنے 50 سال بیت چکے ہیں لیکن ہمارا ماتم، سینہ کوبی اور آہ و زاری بدستور جاری و ساری ہے۔ نصف صدی ہوچکی ہے لیکن ہم آج بھی یہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیں کہ ہماری سیاسی اور فوجی قیادت نے بنگالی عوام سے جو غیر انسانی سلوک روا رکھا تھا اس کا منطقی نتیجہ بنگلہ دیش کا قیام ہی تھا۔ہم بنگلہ دیش کی آزادی کو تسلیم کرنے کی بجائے اسے بھارت کی سازش اور جارحیت قرار دیتے ہیں۔لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اُس قوم کی آج تک حالت نہیں بدلی اور نہ وہ ایک قوم بن سکی جس قوم نے اپنی غلطی تسلیم نہیں کی۔ہم آج بھی بلوچستان کے حقوق نہیں دے رہے، اور پھر گوادر جسے ہم پاکستان کی تقدیر بدلنے والا پراجیکٹ کہہ رہے تھے وہاں کے عوام سڑکوں پر آکر اس بات کر ثبوت دے رہے ہیں کہ کہیں نہ کہیں اُن سے زیادتی ہو رہی ہے۔ لہٰذاہم جب تک اس قوم سے کی گئی غلطیوں کو تسلیم نہیں کرتے تب تک اُن کا حل بھی نہیں نکلے گا اور تب تک ہی پاکستان کی ترقی کو ”ریورس“ گیئر لگا رہے گا ! #Pakistan #skoot e dhaka #Talkhiyan #Ali Ahmed Dhillon