خوش آمدید پرویز الٰہی :ق لیگ اور تحریک انصاف ایک ہو جائےں!

سیاست میں انتظار ہضم نہیں ہوتا، لیکن حالیہ سالوں میں عوام اور سیاست دان دونوں کو اس قدر انتظار کرنا پڑا ہے کہ سیاسی ماہرین بھی خاصے شش و پنج میں مبتلا نظر آئے۔کبھی تحریک انصاف کی حکومت کو ختم کرنے کا انتظار، کبھی ایوان میں ووٹنگ کا انتظار، کبھی الیکشن کے نتائج کا انتظار، کبھی کورٹ آرڈرز کا انتظار تو کبھی ججز کے بنتے ٹوٹتے”بینچوں“ کا انتظار۔ اسی اثنا میں کوئی نہیں جانتا تھا کہ نہ جانے کیا ہوجائے۔ ایک وقت کے لیے تو ایسے لگا جیسے تمام سیاست دان مخالفت برائے مخالفت کی سیاست کررہے ہیں۔کسی کو عوام، صوبے یا ملک کی پرواہ نہیں ہے۔ بلکہ ایک جماعت نے تو محض مخالفت کے لیے اپنی سیاست ہی ختم کر ڈالی۔ اس کو میں اس مثال سے سمجھائے دیتا ہوں کہ ایک صاحب کی راہ چلتے ایک ٹانگ کیچڑ والے گڑھے میں پھنس گئی۔ سوچ رہے تھے کہ کیا کروں۔ اتنے میں ایک اور صاحب پاس سے گزرے جن کی ان صاحب سے مخالفت چل رہی تھی۔ ان صاحب نے مزا لینے کے انداز میں کہا، ارے میاں صاحب ، یہ کیا، ٹانگ گڑھے میں پھنسا لی، جلد باہر آئیے۔ پھنسے ہوئے صاحب کو سخت غصہ آیا اور کہا، میں اور تمہاری بات مان لوں؟۔ جاﺅ اپنا کام کرو، مجھے تو مزہ آ رہا ہے، یہ لو، میں دوسری ٹانگ بھی کیچڑ میں پھنسا رہا ہوں۔ موجودہ حکومت نے تین ماہ پہلے، بڑے شوق سے اپنی ٹانگ کیچڑ میں پھنسائی تھی اور وجہ یہ بتائی تھی کہ کیچڑ صاف کرنے کا چیلنج ہم نے قبول کر لیا ہے۔ ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانا ہے، عوام کو ریلیف دینا ہے اور پھر سے ترقی کی شاہراہ پر ڈالنا ہے۔لہٰذااس وقت حکومت مخالفت برائے مخالفت میں پوری طرح کیچڑ میں دھنس چکی ہے، جسے نکالنے کے لیے اب شاید کوئی ”خدائی قوت“ ہی آئے گی۔ خیر بات ہورہی تھی انتظار کی تو موجودہ حالات میں پھر آخری انتظار اُس وقت ختم ہوا جب اعصاب شکن لمحات کے بعد منگل کی شام سپریم کورٹ نے چودھری پرویز الٰہی کو پنجاب کا جائز بنیادوں پر منتخب ہوا وزیر اعلیٰ قرار دے دیا۔ مذکورہ فیصلے نے شاذہی کسی شخص کو حیران کیا ہوگا۔ فل کورٹ بنائے جانے کی استدعا رد ہوجانے کے بعد ایسا ہی فیصلہ متوقع تھا۔یہ توقع نہ ہوتی تو تحریک انصاف کے چند رہ نما اورکارکن سپریم کورٹ کے احاطے میں امید بھرے جوش کے ساتھ جمع ہونا شروع نہ ہوجاتے۔ اور پھر اتحادی حکمران میں شامل وزراءکی اکثریت کو بھی ایسے ہی فیصلے کی توقع تھی۔اگر توقع نہ ہوتی تو کبھی بھی پیر اور منگل کے روز بار بار پی ڈی ایم والے پریس کانفرنس کرنے نہ آتے۔ بہرحال چوہدری پرویز الٰہی پنجاب کے وزیر اعلیٰ منتخب ہو چکے ہیں، اُن پر ذمہ داریوں کا بوجھ اس قدر ہے کہ آج کے حالات کے مقابلے میں اُن کا پچھلا دور بہت آسان لگتا ہے۔ یعنی آج اُن سے سب سے بڑا سوال یہ پوچھا جا رہا ہے کہ کیا پنجاب اسمبلی میں صرف دس سیٹیں رکھنے والے پرویز الٰہی صوبے کے حالات میں کوئی حقیقی بہتری لانے میں کامیاب ہو سکیں گے؟عوام بے روزگاری، مہنگائی اور غربت میں کمی چاہتے ہیں اور ان مسائل کے حل کے لیے پرویز الٰہی کے پاس بہت زیادہ آپشنز نہیں ہوں گے، انہیں پاکستان ڈیموکریٹک الائنس اور خاص طور پر پاکستان مسلم لیگ نون کی شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ن لیگ کی حامی بیوروکریسی سے کام کیسے لینا ہے؟ یہ بھی پرویز الٰہی کے لیے ایک چیلنج ہو گا۔(لیکن یہاں یہ اندازہ لگانا آسان ہوگا، چونکہ وہ پہلے بھی پنجاب کی بیوروکریسی کو اچھی طرح جانتے ہیں ، اُن سے کام لینا جانتے ہیں اس لیے وہ اس بحران سے جلداز جلد نمٹنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔ )پھر اس کے علاوہ چوہدری پرویز الٰہی چاہیں گے کہ ان کی حکومت طویل ہو جبکہ عمران خان جلد از جلد انتخابات چاہتے ہیں۔ یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ پرویز الٰہی کس طرح عمران خان کو اپنے موقف پر قائل کرتے ہیں؟ جیسا کہ میں پہلے ذکر چکا ہوں کہ پنجاب میں قاف لیگ کے پاس صرف دس نشستیں ہیں باقی نشستوں کی مالک پی ٹی آئی کے رہنما اچھی وزارتیں، اچھے عہدے، اچھی مراعات اور صوبے پر اپنا موثر کنٹرول چاہیں گے لیکن چوہدری پرویز الٰہی صوبے پر اپنی گرفت رکھنا چاہیں گے۔ ایسی صورت میں دونوں اتحادی پارٹیوں میں اختلافات پیدا نہ ہونے دینا بھی پرویز الٰہی کے لیے ایک بڑا چیلنج ہو سکتا ہے۔اور پھر سب سے اہم یہ کہ صوبائی حکومت کو کئی امور میں وفاقی حکومت کی منظوری اور تعاون درکار ہوتا ہے۔ پرویز الٰہی ایک کشیدہ ماحول میں وفاقی حکومت کے ساتھ کیسے ورکنگ ریلیشن شپ قائم کریں گے یہ بھی آ سان کام نہیں ہو گا۔ ان کے نزدیک ضمنی انتخابات میں کی جانے والی بلند بانگ دعوو¿ں پر مبنی تقاریر نے عوامی توقعات کو بہت بڑھا دیا ہے، اب پرویز الٰہی کو اپنی کارکردگی سے عوام کے مسائل میں کمی کے لیے ڈلیور کرنا ہو گا، ان کے لیے یہ بھی ایک چیلنج سے کم نہیں ہو گا۔ یہ سب چیلنجز ایک طرف مگر اس وقت اُمید یہی کی جا سکتی ہے کہ چوہدری پرویز الٰہی اپنے تجربے کی بل بوتے پر ان بحرانوں سے نکل جائیں گے،وہ سب کو ساتھ لے کر چلنا جانتے ہیں۔ اس حوالے سے سب سے پہلے اُنہوں نے عمران خان کو بھی اعتماد میں لے لیا ہے وہ کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی کے چیئر مین عمران خان نے کہا تو ایک منٹ نہیں لگاو¿ں گا پنجاب اسمبلی توڑ دوں گا۔یقینا اتحادی ایسے ہی ہونے چاہیے، کیوں کہ اگر مقصد ایک ہوتو کوئی چیز دور نہیں ہوتی، اور پھر ایک اکیلا اور 2گیارہ ہوتے ہیں ، ق لیگ کو ضم کے لیے میں اس لیے بھی کہہ رہا ہوں کہ یہ دنیا کی چھٹی بڑی سیاسی پارٹی کے ساتھ ملنے جارہی ہے جس کے ممبرز کی ڈھائی کروڑ سے زیادہ ہے۔ اس لیے ہماری یہ خواہش ہے کہ پرویز الٰہی تحریک انصاف میں ضم ہو جائے،میرے خیال میں اگر یہ دونوں پارٹیاں ایک ہوگئیں تو عوام کو بحرانوں سے نکال سکتی ہیں، اور پھر یہ بات تمام حلقے جانتے ہیں کہ تحریک انصاف میں جوش ہے، جذبہ ہے، قیادت ہے، نظریاتی جماعت ہے، موروثی جماعت نہیں، اس جماعت میں پارٹی ڈسپلن ہے، ایسا ہر گز نہیں ہے اس جماعت میں باپ کے بعد بیٹا آئے گا، یا کوئی بھتیجا آئے گا۔ یا خاندان ہی پارٹی کو چلائے گا۔ بلکہ اس کے برعکس یہاں جو محنت کرے گا وہ آگے بڑھ جائے گا۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے بھارتی حکمران پارٹی بی جے پی میں ہے، امریکا کی ڈیموکریٹک اور ری پبلکن میں ہے، برطانیہ کی یوننسٹ پارٹی میں ہے۔ لہٰذااس ملک میں بھی یہ روایت ختم ہونی چاہیے کہ باپ کے بعدبیٹی یا بیٹا آئے گا، یا بیٹے کے بعد اُس کا بیٹا آئے گا،اور یہ صرف تحریک انصاف کے ذریعے ہی ممکن ہے ۔ اگر کوئی یہ سوچتا ہے کہ یہ تبدیلی ن لیگ اور پیپلزپارٹی کے ذریعے آسکتی ہے، یا ان پارٹیوں کے ذریعے کبھی اس ملک سے موروثی سیاست ختم ہو سکتی تو وہ سراسر غلط ہے۔ یقین مانیں ہمارا تحریک انصاف کو شروع سے سپورٹ کرنے کا مقصد بھی یہی ہے کہ یہ موروثی پارٹی نہیں ہے۔ اس جماعت میں اعتزاز احسن بلاول کے سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑا نہیں ہوتا، نہ ہی قمرالزمان کائرہ ، نوید قمر جیسے لوگوں کو بلاول کی خوش آمد نہیں کرنی پڑتی ۔ یاپھر خواجہ آصف اور احسن اقبال کو مریم نواز کے سامنے باادب کھڑا ہونا پڑتاہے، بلکہ اس کے برعکس اس جماعت میں جو آﺅٹ پٹ دے گا، پرفارم کرے گا، محنت کرے گا وہ آگے بڑھے گا۔ بہرکیف چوہدری صاحب حالات کو سمجھیں اور آگے بڑھیں، ق لیگ پر محنت کرنے کے بجائے، اُسے تحریک انصاف کا حصہ بنا لیں۔ بقول شاعر یہ کیا ہے کہ بڑھتے چلو بڑھتے چلو آگے جب بیٹھ کے سوچیں گے تو کچھ بات بنے گی میں ایسا اسی لیے کہہ رہا ہوں کہ حقائق سبھی کے سامنے ہیں کہ ”عوامی قوت“ کسی کے اشاروں پر چل رہی ہے تو وہ عمران خان ہیں۔ کال دیتے ہیں تو پاکستان کے طول و عرض میں عوام باہراُمڈ آتے ہیں۔ سوشل میڈیا کی قوت اور توپیں عمران خان کی حمایت میں ہیں۔ جسے ہم مقتدرہ کہتے ہیں وہ اپنے مسائل میں پھنسی ہوئی ہے۔ مجسم حیرت وہ بھی بنی ہوئی ہے کیونکہ نہ کوئی بات سمجھ میں آ رہی ہے نہ حالات کنٹرول میں ہیں۔پہلے بھی بہت کچھ پاکستانی تاریخ میں ہوتا رہا ہے۔ عوام پر فیصلے مسلط کیے جاتے تھے اور عوام کے پاس کوئی چارہ نہ ہوتا تھا سوائے اُن فیصلوں کو قبول کرنے کے۔ فرق اِس بار یہ ہے کہ میدان میں ایک مرد کھڑا ہو گیا ہے اور ملکی حالات ایسے بن چکے ہیں کہ ملک کے طاقتور عناصر اُس کا کچھ بگاڑ نہیں سکتے۔ ذوالفقار علی بھٹو کم لیڈر نہ تھا لیکن آوازِ مزاحمت اٹھائی تو قتل کا مقدمہ اُن پر دھر دیا گیا۔ وقت وقت کی بات ہے حالات بدل چکے ہیں۔ عمران خان کو دیکھتے طاقتور لوگ لال پیلے ہو رہے ہیں لیکن کچھ کر نہیں سکتے۔ بالکل ویسے ہی جیسے نون لیگ والے سپریم کورٹ کی کارروائی دیکھتے ہوئے اپنے سے باہر ہو رہے تھے لیکن عملی طور پر کچھ کر نہیں سکتے۔ لہٰذاپرویز الٰہی، یا پھر مونس الٰہی جن کے سامنے ابھی پوری سیاست پڑی ہے، وہ آگے بڑھیں اور تحریک انصاف میں ضم ہوں اور عوا م کی خدمت کریں۔ اُس کے بعد اپوزیشن کو بھی ساتھ ملائیں، تصادم سے بچیں، اس سے سیاسی تناﺅ میں کمی آئے گی۔ اور اگر وہ ایسا کرنے میں کامیاب ہو گئے تو پھر ان کے لیے ڈلیور کرنا کچھ آسان ہو سکتا ہے۔ ورنہ پرویز الٰہی بھی اپنے آپ کو موجودہ حالات میں ناکام ہی سمجھیں یا سیاست کا آخری پتہ سمجھیں جو چل گیا تو چل گیا ورنہ سب کچھ ختم!