مہنگائی اور کرپشن کا گہرا”تعلق“: نجات کیسے!

آج پاکستان کرپشن کے حوالے سے دنیا بھر میں 126ویں نمبر پر ہے، چند سال قبل یعنی 2010ءمیں اس کا نمبر144واں تھا، اُس وقت بھی عالمی سطح پر مہنگائی عروج پر تھی اور آج بھی دنیا بھر میں مہنگائی اپنے عروج پر ہے، اُس وقت بھی کرپشن اپنے عروج پر ہو چکی تھی اور آج بھی ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ پاکستان میں کرپشن کے حوالے سے کوئی اچھی خبر نہیں دے رہی۔ اور ویسے بھی مدت ہوگئی مہنگائی اور کرپشن کے حوالے سے کوئی اچھی خبر سنے ہوئے! یہ دونوں ”ڈیپارٹمنٹ “ ایسے ہیں کہ جن میں بہتری کے حوالے سے حکومت جتنی کوششیں کرتی ہے، اتنا ہی پیچھے چلی جاتی ہے، ابھی حال ہی میں جاری ہونے والی ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ میرے سامنے پڑی ہے، جس کے مطابق پاکستان میں کرپشن میں خاطر خواہ اضافہ دیکھنے میں آیا۔ اگر ہم اس ادارے کی کریڈبیلٹی کی بات کریں تو بدعنوانی پر نظر رکھنے والا بین الاقوامی ادارہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل دنیا میں ایک معتبر اور بڑا نام تصور کیا جاتا ہے جو عالمی سطح پر کرپٹ ممالک کو کرپشن سے پاک کرنے کی جدوجہد میں سرگرم عمل ہے اور ایسے اقدامات بروئے کار لاتا ہے جن سے کرپشن کی حوصلہ شکنی ہوسکے۔اگر پاکستان کے حوالے سے رپورٹ کی بات کریں تو ملک کے چاروں صوبوں میں کرائے گئے سروے میں یہ ہوشربا انکشاف سامنے آیا کہ گزشتہ 3 برس میں پاکستان میں کرپشن میں کمی کے بجائے اضافہ ہوا ہے اور سرکاری شعبوں میں کرپشن عروج پر ہے اور کرپٹ ترین اداروں میں پولیس پہلے جبکہ عدلیہ دوسرے نمبر پر ہے۔ اِسی طرح کرپشن میں سرکاری ٹینڈرنگ اور ٹھیکے داری تیسرے اور صحت کا شعبہ چوتھے نمبر پر ہے۔ اگر ہم سب سے پہلے کرپشن اور مہنگائی کا تعلق تلاش کرنے کی کوشش کریں تو اُس کے لیے ہمیں تاریخ کے اوراق کو ٹٹولنے کی ضرورت ہے، جیسے پاکستان کی تاریخ کی سب سے زیادہ مہنگائی 1973 میں ہوئی جو ذوالفقار علی بھٹو کے دورِ حکومت میں ہوا۔ مہنگائی 37.81 فیصد تک جا پہنچی۔مہنگائی کے اس دور میں سیاسی لوگوں نے عوام کو امید دلائی کہ آپ کو اس مصیبت سے نکالا جائے گا اور روٹی، کپڑا اور مکان دیا جائے گا اوریہ بھی کہا گیا کہ دنیا بھر میں حالات خراب ہیں جس کی وجہ سے پاکستان میں مہنگائی ہو رہی ہے اور ہماری مہنگائی کی وجہ ہمارے دشمن ملک بھارت کی سازشیں ہیں، اُس وقت مہنگائی کیا ہوئی ہماری کرپشن بھی بڑھ گئی، اُس وقت رینکنگ کا چکر تو نہیں تھا مگر ہر طرف کرپشن کرپشن کی صدائیں اُٹھنے لگیں۔پھر جنرل ضیاءالحق کے دور میں مہنگائی نارمل یعنی کنٹرول میں رہی تو کرپشن کا میٹر بھی رکا رہا۔ جنرل ضیاء الحق کا رجیم 1988ءمیں ان کی وفات کے بعد ختم ہوا، اُس کے بعد مہنگائی اپنے عروج پر پہنچتے ہوئے 4.86فیصد پر چلی گئی۔ 1988ءکے بعد 1990ءسے 1993ءتک نواز شریف کا دور آیا اور مہنگائی کی شرح 9.5سے شروع ہوئی اور 1991ءمیں 12.63فیصد ہوگئی۔ نواز شریف نے بے حد کوشش کی کہ مہنگائی کو کم کیا جائے اور 1993ءمیں 9.83تک لے آئے۔ اُس وقت پاکستان کرپشن کے حوالے سے 28ویں نمبر پر تھا۔ نواز شریف کی حکومت جاتے ہی بے نظیر بھٹو نے حکومت سنبھالی اور مہنگائی کی شرح کو 9.83فیصد سے لے کر 1995ءمیں 13.2مہنگائی کو پہنچا دیا۔آپ یقین مانیں کہ پاکستان کرپشن میں بھی تین سالوں میں 28ویں نمبر سے 53ویں نمبر پر چلا گیا ۔ پھر دیکھتا جا شرماتا جا، سنتا جا شرماتا جا، پڑھتا جا شرماتا جا کے مترادف .... دوبارہ 1997ءمیں نواز شریف کا دور آیا اور مہنگائی 10.78سے لے کر 11.81فیصد پر لے کر چلے گئے۔ عوام کی پریشانی اور دباو¿ کے مد نظر رکھتے ہوئے نواز شریف مہنگائی کی شرح کو 1999ءمیں 5.74فیصد تک نیچے لے آئے۔مطلب کرپشن بھی بڑھ کر 53ویں پوزیشن سے 87ویں پوزیشن پر آن پہنچی۔ اس کے بعد جنرل پرویز مشرف نے نواز شریف کی حکومت کو ختم کرکے ایک غیر سیاسی حکمرانی کی اور مہنگائی کی سطح کو 2000ءمیں 3.59فیصد تک لے کر چلے گئے۔مشرف نے شروع کے سالوں میں اچھا پرفارم کیا اور مہنگائی کو کنٹرول کیے رکھا مگر یہ 2005 میں عروج کو پہنچی جب پاکستان مسلم (ق) کی حکومت نے مہنگائی کی شرح کو3.1سے 9.28تک لے کر چلے گئے۔اور پھر کرپشن نے بھی جمپ کیا اور ہم 129ویں نمبر چلے گئے۔ اسی طرح مہنگائی بڑھتی گئی اور ہم 2010ءمیں کرپشن کے کھاتوں میں دنیا کے 180ممالک کی فہرست میں 143ویں نمبر پر آگئے۔ پھر آئی ایم ایف کی بدولت ملک میں قدرے استحکام آیا اور مہنگائی کم ہوئی تو ہم دوبارہ کرپشن میں 120نمبر پر آگئے، اور اب حالیہ سالوں میں کرپشن بڑھنے کی بڑی وجہ بھی یہی مہنگائی ہے۔ اب یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے تو اس کی مثال ہم سی ایس پی افسران کی تنخواہوں سے لیتے ہیں، سی ایس پی والوں سے اس لیے شروع کیا کیوں کہ پاکستان میں یہی پوسٹس سب سے بہترین اور پرکشش ہوتی ہیں اب سی ایس ایس کا امتحان پاس کرنے کے بعد ایک نئے اسسٹنٹ کمشنر کی تنخواہ صرف 70ہزار لگتی ہے لیکن اُس کے اخراجات ڈھائی تین لاکھ سے زیادہ کے ہوتے ہیں اور پھر اندازہ لگائیں کہ کیا وہ 70ہزار میں زندہ رہ سکتا ہے؟ نہیں! پھر وہ کرپشن کا راستہ اختیار کرے گا۔ یعنی ہم اُسے خود ہی کرپشن کرنے کی دعوت دے رہے ہیں ۔ اور پھر جب کسی اسسٹنٹ کمشنر کا ماہانہ خرچ ڈھائی تین لاکھ روپیہ ہوگا تو وہ باقی کہاں سے پورے کرے گا؟ یقینا جب مہنگائی ہوگی تو اُسے ڈھائی تین لاکھ کے بجائے 4لاکھ کی ضرورت ہوگی تو وہ اپنا کرپشن کا تناسب اُسی طرح بڑھا لے گا۔ اسی طرح ڈی سی یعنی گریڈ 19کے افسران کی تنخواہ محض سوا لاکھ روپے ہے، لیکن ہر کوئی جانتا ہے کہ اس تنخواہ میں ناتو اُس کے بچوں کی فیس جمع ہوگی، نہ گھر کا کچن چل سکتا ہے اور نہ دیگر اخراجات۔ لہٰذااُسے یہ اخراجات پورے کرنے کے لیے کرپشن کا سہارا لینا پڑے گا۔ الغرض اسی طرح ایک عام پولیس اہلکار جو ناکے پر کھڑا ہے وہ پہلے 10، 20روپے بھی لے لیتا تھا، مگر اب اُس کا ریٹ 2، سے 3سو روپے چل رہا ہے۔ مطلب جب ہر ایک نے مہنگائی کی وجہ سے اپنے ریٹ بڑھا لیے ہیں تو کرپشن میں اضافہ ہونا بھی ایک فطری عمل ہے۔ اور پھر آپ اندازہ لگائیں کہ آج پاکستان میں ہر کوئی مہنگائی کا رونا رو رہا ہے، لیکن کیا ریسٹورنٹس میں رش کم ہو گیا ہے؟ کیا مارکیٹس میں رش کم ہوگیا ہے؟ کیا لوگوں کی گراسری میں کوئی فرق آیا ہے؟ کیا ہوٹلنگ میں کہیں فرق آیا ہے؟ کیا سیاحت میں فرق آیا ہے؟ اب اگر مہنگائی ہوئی ہے تو ریسٹورنٹس والوں نے چند روپے اپنے مینو میں اضافہ کر لیا ہے، ہوٹل والوں نے کرائے بڑھا لیے ہیں، یا مارکیٹس والوں نے اپنی اپنی اشیاءمہنگی کر لی ہیں ۔ لہٰذاہمارا پورا معاشرہ ہی اسی ڈگر پر چل رہا ہے۔ لہٰذااب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کرپشن کیسے ختم ہوگی۔ تو میری نظر میں جس دن آپ کا چیک اینڈ بیلنس مضبوط ہوگا اُس دن کرپشن بھی رک جائے گی۔ اس کے علاوہ کرپشن ایک ”فارم“ کے ذریعے بھی رک سکتی ہے، مگرکیسے ؟ مثلاََ جس شخص کا بچہ مہنگے سکول میں داخل ہو،تو اُس کے باپ سے ایک فارم پر کروایا جائے، جس میں اُس کی ذریعہ آمدنی کے حوالے سے پوچھا جائے، یا جب وہ کوئی الیکٹرانک یا پرتعیش اشیاءیا 50ہزار سے زائد کی اشیاءخریدے تو وہ دوبارہ فارم فل کرے، اور کمپنیاں یا ادارے یہ فارم ایف بی آر کو آن لائن ٹرانسفر کر تی رہے۔ اسی طرح اگر کسی کا بچہ پڑھنے کی غرض سے بیرون ملک جائے، یا وہ خود بیرون ملک کی سیر و تفریح کے لیے جائے تو وہ دوبارہ فارم فل کرے۔ تو یقینا ایسا کرنے سے لوگ لگژری آئیٹم سے ہاتھ اُٹھا لیں گے اور اس طرح خود بخود کئی ایک اشیاءکے دام نیچے آ جائیں گے۔ اور پھر یہاں چیک اینڈ بیلنس کو اس قدر بڑھا دیا جائے کہ اس حوالے سے اگر ایمرجنسی بھی لگانی پڑے تو لگا دی جائے۔ کیوں کہ پاکستان میں بعض جگہوں پر پرافٹ مارجن 10، 20فیصد نہیں بلکہ 1000فیصد پر پہنچ چکا ہے۔ جس پر چیک اینڈ بیلنس کا کانسپٹ ہی نہیں ہے، اور پھر یہ بات بھی بہت زیادہ عام ہے کہ سکولوں ، کالجوں، یا دیگر اداروں میں اگر آپ صارفین سے 10ہزار وصول کر رہے ہیں تو آپ کاغذات میں صرف 2ہزارروپے دکھاتے ہیں اور وہیں اگر ملازمین کو 10ہزار روپے تنخواہ دے رہے ہیں تو کاغذات میں اُسے 20ہزار روپے دکھاتے ہیں تاکہ اخراجات اور آمدات کو بیلنس کرکے ٹیکس کی مدد کو کم سے کم کیا جا سکے۔ مطلب یہاں بھی ٹیکس چوری اور کرپشن کی انتہا ہے کہ ملک کو اربوں روپے کا نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے جائز منافع کمانے والوں کو دوست اور ہیرا پھیری کرنے والوں کے لیے سخت عذاب کا حکم دیا ہے۔ اور پھر یہاں غیر فطری مہنگائی کو کوئی کنٹرول نہیں کرتا، حتیٰ کہ ڈالر کو جان بوجھ کر اوپر کیا جاتا ہے تاکہ انفرادی لوگ طاقتور لوگ پیسہ بنا سکیں ۔ الغرض یہاں تو اوپر سے لے کر نیچے تک آوے کا آوا ہی بگڑا پڑا ہے، یہاں تو قانون پر عمل درآمد اور کفایت شعاری کا حال یہ ہے کہ جس خاندان کے دور حکومت میں شادیوں پر ون ڈش کا قانون لایا گیا تھا، اُس خاندان کی آج دسویں روز بھی شادی کی تقاریب جاری ہیں، جس پر کروڑوں روپے خرچ کرکے عوام کی حرمت کا مذاق اُڑایا جارہا ہے۔ لہٰذااگر یہی صورتحال رہتی ہے تو کسی قسم کی اُمید نہ رکھیں کہ ہم کرپشن میں 124ویں نمبر سے نیچے آئیں گے بلکہ یہ مزید بڑھے گا اور اُس وقت تک بڑھے گا جب تک چیک اینڈ بیلنس نہ رکھا جائے! #Pakistan #Ali Ahmed Dhillon #Talkhiyan