ووٹ کی اہمیت اور ہمارے رویے!

آج کل جنرل الیکشن تو نہیں ،جہاں کروڑوں ووٹوں کا حساب ہوتا ہے، مگر سینیٹ الیکشن، اعتماد کی تحریک اور عدم اعتماد کی تحریکیں ضرور زور و شور سے جاری ہیں جہاں ایک ایک ووٹ کروڑوں کا ہے، فرق صرف اتنا ہے کہ جنرل الیکشن میں ووٹ ہزار پندرہ سو روپے میں بکتا ہے، جبکہ اسمبلیوں کے اندر الیکشن میں یہی ووٹ ہزار گنا زیادہ قیمت کے عوض خریدنا پڑتا ہے۔ خاص طور پر یہ اہمیت اس لیے بھی بڑھ گئی ہے کہ قومی اسمبلی میں کسی جماعت کو اکثریت حاصل نہ ہونے کے سبب حکومتی اتحاد اور اپوزیشن اتحاد میں ووٹوں کا فرق صرف چند سیٹوں کا ہے۔ اسی لیے تو جگہ جگہ علی الاعلان اور چھپ کر ووٹوں کے سودے ہو رہے ہیں،کہیں کی ویڈیو لیک ہو رہی ہے تو کہیں کی آڈیو ، کہیں کسی پر الزامات لگ رہے ہیں تو کہیں ”سٹنگ آپریشنز “کی باتیں ہو رہی ہیں۔ اور پھر جب سامنے والا خریدار تگڑا ہو، مال بھی تگڑا آرہا ہو تو فروخت کنندہ کے دل میں کہیں نہ کہیں سے یہ بات ضرور آجاتی ہے کہ چلو کوئی بات نہیں ”ضمیر“ کی خیر ہے، الیکشن میں ہوئے اخراجات کی وصولی تو کسی طرح کی جائے! پھرہم سب دیکھتے ہیں کہ کیسے بولیاں لگتی ہیں، ووٹ بکتے ہیں، خریدار پانی کی طرح پیسہ بہا دیتے ہیں، اور ”پروموٹرز“ گیلانی جیسے اُمیدواروں کو بھی جتوا دیتے ہیں، جنہیں سپریم کورٹ آف پاکستان نے توہین عدالت کے کیس میں برطرف کیا ہوتا ہے۔ خیر بات کہیں بڑھ نہ جائے اس لیے قارئین ! ووٹ جسے آج ہم نے خرید و فروخت کا ایک جزو بنا کر رکھ دیا ہے، یہ جمہوری ملکوں کا حُسن ہوتا ہے۔ جس کی اہمیت و افادیت سے پورا مغرب مستفید ہو رہا ہے مگر ہم اسے نظریہ ضرورت کے تحت استعمال کر رہے ہیں، اس ووٹ کے بدلے بڑے بڑے برج اُلٹ گئے، بڑی بڑی امپائرز بدل گئیں پھر اسی ووٹ کی اہمیت کے پیش نظر برطانیہ یورپ سے الگ ہوا، جرمنی یورپ میں شامل ہوا، اور سکاٹ لینڈ الگ ملک بنا۔ دنیا بھر میں اگر ایک سنگل ووٹ کی اہمیت جاننی ہو تو چند دہائیاں قبل برطانیہ کی پوری پارلیمنٹ صرف ایک ووٹ پر کئی سال کھڑی رہی یعنی ہاﺅس آف کامن نے صرف ایک ووٹ (4776کے مقابلے میں 4777ووٹوں) پر پانچ سال حکومت کی۔ اسی طرح 2008ءمیں بھارتی صوبے راجستھان میں جی پی جوشی ایک ووٹ سے ہارے انہیں 62216ووٹ کے مقابلے میں 62215ووٹ پڑے، پھر 2013میں فلپائن کے صوبے منڈرو میں دو اُمیدواروںکے درمیان 2013ءمیں مقابلہ ٹائی ہوگیا، جو بعد میں الیکشن کمیشن نے ٹاس پر فیصلہ کر کے ایک اُمیدوار کے حق میں فیصلہ دے دیا۔ پھر کیوبا میں 2013ءاور 2003ءمیں دو بڑی پارٹیاں ایک ایک ووٹ کے مارجن سے جیتیں۔ پھر1994ءمیں صرف 7ووٹوں کی اکثریت سے بھارتی گجرات میں وڈورا سے لوک سبھا کے لئے ایک نوجوان نے جیت حاصل کی اور اسی طرح 1989ءمیں بھی صرف 9ووٹوں سے اُمیدوار کو آندھرا پردیش میں انکا پلی سے لوک سبھا کے لئے منتخب کیا گیا۔ دہلی میں مشہور فلمی اداکار آنجہانی راجیش کھنہ سے مشہور بی جے پی لیڈر لال کرشن اڈوانی نے صرف5ووٹوں سے جیت حاصل کی تھی۔پھر پاکستان میں بھی بہت سے Closeالیکشن ہوئے جن میں تاریخ کا سب سے بڑا اور پیسے والا ضمنی الیکشن یعنی ایاز صادق اور علیم خان کے درمیان ہونے والے الیکشن میں محض چند سو ووٹ کا فرق تھا، پھر بہت سے امریکی الیکشن ایسے ہوئے ہیں جہاں ایک ایک ووٹ کے فرق سے چار چار سال تک حکومتیں قائم رہیں۔ اسی لیے یہ حقیقت ہے کہ جمہوری نظام میں ووٹ کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ جنرل الیکشن ہوں، سینیٹ الیکشن ہوں یا اسمبلیوں کے اندر ووٹنگ ہو، ایک ایک ووٹ بہت زیادہ قیمتی ہوتا ہے اور ایک ووٹ ہی قوم کی تقدیر کا فیصلہ کرنے کےلیے اہم ہے۔ جمہوری نظام میں تو فیصلے فقط اکثریت کی بنا پر ہوتے ہیں۔ یہاں بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے۔ اس لیے گنتی میں جس کا پلڑا بھاری ہوگیا وہی قوم پر مسلط ہوجاتا ہے۔ کسی کی اہلیت، قابلیت، دیانت اور صداقت کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ فقط گنتی میں ووٹ زیادہ ہوجائیں تو انتخابات کے نتائج میں فرق آجاتا ہے۔ لہٰذا ایک ووٹ کی ہیرپھیر پورے انتخابات کے نتائج کو تبدیل کرنے کےلیے کافی ہوسکتی ہے۔ اس لیے اپنے ووٹ کا درست استعمال قوم کے مستقبل کےلیے بہت ضروری ہے۔ اس لیے میرے خیال میں ووٹ کا استعمال بہت سوچ سمجھ کر اور چھان پھٹک کر کرنا چاہیے کہ کہیں ایسے شخص کو ووٹ نہ دے بیٹھیں جو بعد میں ملک و قوم کےلیے نقصان دہ ثابت ہو اور ہم اس کے تمام غلط کاموں میں برابر کے گناہ گار ٹھہریں۔ووٹ دینے کےلئے ذاتی مفادات سے بالاتر ہوکر سوچنا چاہیے۔ اپنے ایک کلو گوشت کے لیے پوری بھینس ذبح نہیں کرنی چاہیے، چھوٹے چھوٹے مفادات کو بڑے بڑے قومی مفادات پر ترجیح دینے سے معاشرے میں تباہی آتی ہے۔فی الوقت تو کسی رکن نے دو چار کروڑ روپے لے کر ووٹ دے دیا لیکن اس کے دورس نتائج اس قدر خطرناک ہوتے ہیں کہ آنے والی کئی نسلیں اس کا خمیازہ بھگتی رہتی ہیں، یقین مانیں جو ابھی حال ہی میں 50سے زائد سینیٹر 6سال بعد ریٹائرہوئے ہیں، اُن میں سے 85فیصد نے پورے 6سال ایک بھی ڈیبیٹ میں حصہ نہیں لیا، 70فیصد سینیٹرز کا قانون سازی میں کوئی عمل دخل نہیں رہا، 65فیصد سینیٹرز نے اسمبلی کی کمیٹیوں کی کارروائی تک نہ سنی، نہ دیکھی اور نہ ہی وہاں اُن کا وجود رہا۔پھر قومی اسمبلی یا صوبائی اسمبلیوں کو دیکھ لیں، ایک رپورٹ کے مطابق 88فیصد ممبران قومی و صوبائی اسمبلی محض ڈیسک بجانے یا حاضری لگانے اسمبلیوں میں آتے ہیں، یہ حضرات تو اپنے حلقے کے عوام کی بات کرنے سے بھی قاصر رہتے ہیں۔ لہٰذا کیا کبھی ہم نے سوچا کہ ایسا کیوں ہے؟ میرے خیال میں ایسا صرف اسی لیے ہے کہ ہم ایک بریانی کی پلیٹ پر ووٹ دے دیتے ہیں۔ ہمیں کوئی امیدوار سائیکل لے دے یا فقط وعدہ ہی کر لے تو ہم ووٹ دے دیتے ہیں۔ ہم ایک ایک ہزار روپے لے کر ووٹ دے دیتے ہیں۔ ہم وڈیروں اور چوہدریوں کے کہنے پر ووٹ دیتے ہیں۔ یہ تو کہیں کہیں ہوتا ہے لیکن گلیاں نالیاں پختہ کرنے پر ووٹ دینے کی وبا تو پورے ملک میں عام ہے۔پھر اگر آپ قومی و صوبائی اسمبلی کے ممبر بن جاتے ہیں تو پھر بات لاکھوں، کروڑوں روپے کی بولی تک پہنچ جاتی ہے، لیکن ووٹ کا احترام، ووٹ کا تقدس، ووٹ کی افادیت، اہمیت اور ووٹ کی جمہوری طاقت کھڈے میں چلی جاتی ہے۔ بہرکیف اگر ہم نظام میں حقیقی تبدیلی چاہتے ہیں تو ہمیں ووٹ کی اہمیت کو ملکی سطح پر اُجاگر کرنا ہوگا، کہ آخر ووٹ ہے کیا؟ کیوں ساری دنیا اس ایک ووٹ کی اہمیت کو لے کر پانچ پانچ سال گزار دیتی ہیں، کیوں یورپ میں ایک ووٹ کے ضائع ہونے پر صف ماتم بچھ جاتی ہے، جبکہ ہمارے جنرل الیکشن میں 17لاکھ ووٹ ضائع ہو جاتے ہیں، جبکہ یہاں تو کشمیر کمیٹی کے چیئرمین کا ووٹ ضائع ہو جاتا ہے تو باقی عوام کے حال کا اندازہ خود لگالیں۔ لہٰذا امیدواروں کو جانچنے کے پیمانے بدلنے ہوں گے۔ اگر ہم اپنے چھوٹے چھوٹے مفادات کو بالائے طاق رکھ کر قومی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے اہل اور دیانتدار امیدواروں کو ووٹ دیں گے تو ہمارا کوئی کام بھی نہیں رکے گا۔ دیانتدار امیدوار ہماری تمام ضروریات کا خیال رکھیں گے۔ وہ کوئی کام کریں گے تو عوام پر احسان نہیں جتائیں گے بلکہ اپنا فرض سمجھ کر کریں گے۔اس لیے خدارا! اپنے اندر سیاسی شعور پیدا کیجئے۔ اپنے ووٹ کی اہمیت کو جانیے اور اتنی معمولی چیزوں پر ووٹ کو فروخت نہ کیجئے۔ کیوں کہ جب یہ لوگ اقتدار میں آتے ہیں تو ان کے کرنے کاکام تو انہیں آتا نہیں ہے لہٰذایہ لوگ سازشیںشروع کردیتے ہیں، مال بنانے کے ہنر سیکھنا شروع کر دیتے ہیں، مقروض ملک میں ایسے ایسے پراجیکٹ کا آغاز کردیتے ہیں کہ ٹکریں مارنے کا جی چاہتا ہے۔ پھر یہ سندھی، پختون کا ڈرامہ رچا کر خود کو بچانے کی کوشش کرتے ہیں یہ جمہوریت نہیں بے ایمانہ نظام ہے ، آج آپ صرف یہ سوچ لیں کہ سیاست کے دو بڑے خاندانوں کے پاس اتنا پیسہ کہاں سے آیا؟ یہ ہمارے سیاستدانوں کی کمزوری ہے تو لہٰذا آج جس طرح ملازمت دینے کے لئے امید وار کا این ٹی ایس ٹیسٹ لیا جاتا ہے با لکل اسی طرح ہر سیاسی امیدوار کو الیکشن سے پہلے پرکھ لیں، خواہ اُمیدوار سینیٹ الیکشن کے لیے کھڑا ہو، خواہ وزارت عظمیٰ کے لیے یا قومی و صوبائی اسمبلی کے لیے یا کونسلر جنرل کونسلر یا ناظم و میئر کے الیکشن کے لیے ان کی مکمل جائیدادیں ،کاروبار، تعلیم،خیالات کا جائزہ لیا جائے، آج امریکا امریکا کیوں ہے صرف اپنے نظام کی وجہ سے ہمیں بھی اپنے موجودہ نظام کو تبدیل کرنا چاہیے تاکہ ملک کی تقدیر بدل سکے۔بقول شاعر یوں تو پتھر کی بھی تقدیر بدل جاتی ہے مگر شرط یہ ہے کہ اپنے آپ کو تھوڑا سا ہی سہی ،مگر بدلا جائے