افغانستان میں سب کچھ کیسے ہوا؟

افغانستان کے 34صوبوں اور ملک بھر کے 400اضلاع پر طالبان کا بالواسطہ یا بلاواسطہ قبضہ ہو چکا ہے، افغان صدر اشرف غنی ملک چھوڑ کر تاجکستان جا چکے ہیں، جسکی تصدیق تاجکستان حکومت بھی کر چکی ہے۔ یہاں امریکا سمیت تمام ملکوں کی انٹیلی جنس ایجنسیاں بظاہر ناکام ہو چکی ہیں، کسی نے کہا کہ 6ماہ میں طالبان افغانستان پر قابض ہو جائیں گے، کسی نے 4ماہ کا وقت دیا اور کسی نے تین ماہ کا ۔ مگر وہ آئے، انہوں نے مہینوں نہیں، دنوں نہیں بلکہ چند گھنٹے میں پورے افغانستان پر قبضہ کر لیا۔ اور آج ایک بار پھر ہم اُسی پوزیشن پر آگئے ہیں جب 2001ءمیںطالبان کے ترجمانوں کو گھنٹوں گھنٹوں سنا کر تے تھے، آج بھی پوری دنیا کے میڈیا کا اہم ترین موضوع طالبان کے ترجمانوں کو بھرپور کوریج دے رہا ہے،بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ یہ سب کے لیے ایک ”ٹرینڈ“ سیٹ کی جا رہا ہے۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ طالبان کو 2001 میں افغانستان پر امریکی جارحیت کے نتیجے میں چھ سالہ مختصر دور اقتدار کے خاتمے کے بعد انہیں دوبارہ اس مقام تک پہنچنے کیلئے 20 سال تک مسلسل اور خونریز جدوجہد کرنا پڑی ،2001 میں جب 9/11 کے واقعہ کے بعد امریکہ نے اپنے اتحادیوں کے ہمراہ افغان طالبان کے خلاف بدترین جارحیت کا آغاز کیا تو بظاہر طالبان حکومت تنکوں کی مانند بکھر کررہ گئی، لیکن آنے والے سالوں کے دوران پیش آنے والے واقعات سے ظاہر ہوا کہ ممکنہ طور پر طالبان قیادت نے اپنی قوت کو بچانے کیلئے منتشر ہو کر دشمن کو فتح کے نشے سے سرشار کردیاہے ۔ لیکن حقیقت میں یہی اس کی بھول ثابت ہوئی کیوں کہ طالبان کی گوریلا حکمت عملی نے اگلے بیس سالوں تک مسلسل حریف کو کہیں ٹک کر نہ بیٹھنے دیا اور پھر ایک وقت ایسا آیا کہ حریف کو میدان چھوڑ کر پیچھے ہٹنا پڑا۔ اس عرصہ کے دوران اگرچہ طالبان کیلئے کئی مشکلات درپیش رہیں ،بھاری شہری و جانی مالی نقصانات ہوتے رہے ،بین الاقوامی سطح پر ان کا مقاطعہ رہا اور ان کے چند گنے چنے دوست ممالک نے بھی ان سے قطع تعلق کرلیا۔اگرچہ دوحہ میں طالبان کا سیاسی دفتر 2013 میں قائم ہوالیکن امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اقتدار میں آنے کے بعد ان کی عالمی سیاسی منظر نامے میں واپسی کا عمل شروع ہوا۔جب پہلی بار طالبان اور امریکہ کے مابین دو بدو مذاکرات کا آغاز ہوا۔ جبکہ جوبائیڈن کے برسراقتدار آنے کے بعد طالبان سے معاہدے کے بعد انہیں افغان معاملے کا فریق بھی تسلیم کرلیا گیا، یہ بلاشبہ طالبان کی عسکری کامیابی کے بعد ایک بڑی سیاسی کامیابی قرار دی جاسکتی ہے کیوں کہ جن طالبان کا نام لینا بھی ممنوع قرار دیا گیا تھا اب وہ عالمی میڈیا پر سرعام افغان طالبان کی ترجمانی کرتے نظر آنے لگے ہیں، اگرچہ دوحہ معاہدے کے تحت طالبان کی جانب سے افغانستان میں امریکی مفادات پر حملوں کا سلسلہ عملاً رک گیا ،لیکن دوسری جانب مغرب اور امریکہ کی حمایت یافتہ کابل انتظامیہ اور سرکاری فوج کے خلاف طالبان کی کاروائیوں میں ہرگزرتے دن کے ساتھ تیزی دیکھنے میں آئی۔اور 20 سال میں امریکی و غیرملکی امداد کے سہارے کھڑی ہونے والی افغان فوج طالبان پیش قدمی کے سامنے ریت کی دیوار ثابت ہورہی ہے اس وقت صورتحال یہ ہے کہ افغانستان کی کم و بیش پانچ عالمی سرحدی راہداریاں جن میں ازبکستان ،پاکستان ،تاجکستان اور ایران کیساتھ لگنے والی گزرگاہیں بھی طالبان کے زیرکنٹرول ہیں۔اگرچہ طالبان کی حقیقی تعداد کا اندازہ لگانا مشکل ہے تاہم بعض بین الاقوامی اداروں کے تخمینوں کے مطابق طالبان جنگجوﺅں کی تعداد 85 ہزار کے قریب ہے جن کی مدد سے وہ افغانستان کے 4 سو سے اضلاع کو قابو کررہے ہیں۔طالبان کی تعداد کے حوالے سے امریکی صدر جوبائیڈن کے خیالات کو دہرائیں جن کا اظہار انہوں نے امریکی فوج کے افغانستان سے انخلاءکے وقت کیا تھا، انہوں نے کہا تھا کہ اس وقت افغان فورسز کی تعداد 3لاکھ کے قریب اور طالبان کی تعداد محض 80ہزار ہے۔ جوبائیڈن نے ایک صحافی کے جواب میں کہا تھا کہ ہم افغانستان کو اکیلا نہیں چھوڑرہے بلکہ 3لاکھ افواج انتہائی تربیت یافتہ اور انتہائی جدید اسلحہ سے لیس ہے جبکہ اس کے مقابلے میں افغان طالبان کمزور دکھائی دیتے ہیں جو افغانستان پر دوبارہ قبضہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ سپر پاور امریکی صدر کے تمام دعوے ہوا میں کیوں اُڑ گئے؟ اس سوال کے جواب کے لیے ہمیں کہیں دور جانے کی ضرورت نہیں بلکہ یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ کسی بھی تحریک کی کامیابی کی سو فیصد ضمانت اُس وقت دی جا سکتی ہے جب اُس تحریک میں مقامی افراد بھی شامل ہو جائیں، جیسے صدام حسین کے خلاف امریکا نے جارحیت شروع کی تو مقامی افراد بھی صدام حسین کے خلاف سینہ تان کر کھڑے ہوگئے اور امریکا نے چند دنوں میں عراق پر ناصرف قبضہ کیا بلکہ طاقت ور صدام حسین کو بھی تختہ دار پر لٹکانے میں اہم کردار ادا کیا۔ اسی طرح لیبیا کے صدر کرنل قذافی کا عبرت ناک انجام سب کے سامنے ہے، انہوں نے اپنے ملک پر 3دہائیاں حکومت کی۔ لیکن آخر میں مقامی افراد کی بدولت کرنل قذافی کے انجام سے کون واقف نہیں۔ یہی حال آج افغانستان میں ہو رہا ہے، طالبان جس شہر میں جاتے ہیں، بغیر خونریزی مقامی افراد اُنہیں ویلکم کر رہے ہیں، جبکہ کئی علاقوں میں افغان فوجیوں کے سرنڈر کرنے کی بھی ویڈیوز وائرل ہو چکی ہیں۔ لیکن ایک بات جو اس وقت منفرد نظر آرہی ہے وہ یہ ہے کہ اس وقت طالبان ، دولت اسلامیہ، القاعدہ جیسی پر تشدد تنظیموں کے بالکل برعکس اپنی دہشت دکھانے اور عام شہریوں یا افغان فوجیوں پر تشدد کرنے سے گریزاں نظر آرہے ہیں، کہیں لوٹ مار کی ویڈیوز بھی نہیں دیکھی گئیں، بلکہ اگر طالبان کی تعداد پہلے 80یا 85ہزار تھی تو یہ اب کم و بیش 2لاکھ کے قریب پہنچ چکی ہے۔ اور لوگ جوق در جوق طالبان کے ساتھ شامل ہو رہے ہیں۔ اب یہاں سوال یہ بھی بنتا ہے کہ 20سالوں میں امریکا یا کٹھ پتلی حکومتیں مقامی افراد کی سوچ کو کیوں نہ بدل سکیں، اس کے لیے ہمیں 20سال پیچھے جانا پڑے گا جب امریکی صدر بش نے 2001میں افغانستان پر حملہ کیا تو محض چند روز میں امریکا اور اس کے اتحادیوں بشمول پاکستان نے چند روز میں افغانستان پر قبضہ کر لیا تھا، جس کے بعد امریکا اور اُس کے اتحادیوں کے ایک لاکھ سے زائد فوجی، اربوں ڈالر کا ساز وسامان و اسلحہ اور فوجی اڈے افغانستان میں موجود تھے، امریکا یہاں عراق کی طرز پر تیل اور معدنیات کے ذخائر تلاش کرتا رہا، جبکہ اس دوران طالبان قیادت کو بھی چن چن کر مارتا رہا، لیکن طالبان کے ساتھ عام عام کی ہلاکت زیادہ ہوتی، کبھی مدرسے پر ڈرون حملہ کیا گیا، تو کبھی کسی شادی کی تقریب پر۔ ہزاروں افغان امریکی و اتحادی افواج کی غلطیوں کی بھینٹ چڑھ گئے، اس معاملے میں افغان حکومت امریکا سے جواب طلب کرنا تو دور کی بات مذمتی بیان بھی جاری نہیں کر سکتی تھی، جس کا غم و غصہ عوام میں بڑھتا گیا۔ جبکہ دوسری جانب طالبان کسی ایک جگہ پر اکٹھے نہیں ہوئے بلکہ پورے ملک میں بکھر گئے جو شاید اُن کی حکمت عملی تھی....اس دوران امریکی کٹھ پتلی حکومت وجود میں آئی، جس نے ملک بھر میں سیاسی اصلاحات بھی کیں، لڑکیوں کی تعلیم پر توجہ دی، اور اس کے ساتھ اعلیٰ تعلیم کے ادارے بھی کھولے، مگر سب بے سود رہا۔ اسی دوران 2009ءمیں امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کے ہنگامہ خیز 8سالہ دور کے اختتام پر جب باراک اوبامہ نے اقتدار سنبھالا تو اُنہوں نے امریکی فوج کے کھربوں ڈالر کے اخراجات کو کم کرنے کی بات کی اور اسی لمحے افغانستان کے حوالے سے اپنی پالیسی کو تبدیل کرنے کا اعلان بھی کیا۔ پھر 2010ءکے اوائل میںاوباما نے اسی سال کے آخر میں، طالبان کے ساتھ خفیہ امن مذاکرات کا اختیار دے دیا تھا، اور تب سے ہی امریکہ گوربا چوف کی تجویز پر عمل کر رہا ہے؛ اگرچہ اس نے یہ کام بہت سست روی سے بھاری اخراجات اور انسانی زندگیوں کی قیمت پر کیا ہے۔ اگست 2010میں افغانستان میں امریکی موجودگی تقریباً ایک لاکھ فوجیوں کے قریب پہنچ گئی تھی، اور اوباما کے دورِ صدارت کے اختتام تک وہ 10ہزار سے بھی کم رہ گئے تھے، اس دوران کسی نے افغان عوام کی بحالی کا کوئی پروگرام شروع نہ کیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ صدر بنے تو انہوں نے مذاکرات کو دوبارہ زندہ کر دیا(چونکہ ٹرمپ کاروباری شخصیت تھے، اس لیے کاروباری لوگ کم سے کم جنگ یا وائلینس کوترجیح دیتے ہیں) 2020کے اوائل میں ٹرمپ کے ایلچی زلمے خلیل زاد نے طالبان کے ساتھ ایک معاہدہ کیا، جس میں یکم مئی 2021تک تمام امریکی فوجیوں کی واپسی کا عہد بھی شامل تھا۔اس طرح آگے چل کر موجودہ صدر جو بائیڈن کو وراثت میں جو کچھ ملا، اس کا بوجھ اٹھانا کافی مشکل تھا۔ اب اگر جوبائیڈن مزید فوجی بھیجتے تو مزید کھربوں ڈالر کے اخراجات بڑھ جاتے، جو ففتھ جنریشن وار کے لیے سخت نقصان دہ ثابت ہو سکتے تھے، اس لیے امریکا نے جہاں ہے، جیسا ہے، کی بنیاد پر افغانستان کو چھوڑا اور فیس سیونگ کرکے نکل گیا، اور پھر یوں ہوا کہ طالبان واپس آگئے اور بظاہر وہ 20سالہ جنگ جیت گئے!!! #Afghan Taliban #Ali Ahmed Dhillon #Talkhiyan #Leadernews