جنرل الیکشن ہوتے نظر نہیں آرہے !

جنرل الیکشن ہوںیا صوبائی اسمبلیوں کی بحالی.... صورتحال فی الوقت الیکشن کی بنتی نظر نہیں آرہی۔ جیسے الیکشن قریب آنے کے دنوں میں سیاسی پارٹیاں عوامی ریلیف کی بات کرتی ہیں، عوامی فیصلے کرتی ہیںاور مختلف پیکج متعارف کروائے جاتے ہیں.... مگر حکومت کے تو ایسے ”لچھن“ ہی نظر نہیں آرہے۔ بلکہ صاف وجہ نظر آرہی ہے کہ آئی ایم ایف کی تمام شرائط مانی جا رہی ہیں، ڈالر کی مصنوعی قیمت کو ختم کرکے اسے آزاد چھوڑ دیا گیا ہے، پٹرول خاطر خواہ مہنگا کر دیا گیا ہے، بجلی مہنگی ہو رہی ہے، ریلوے کے کرائے بڑھائے جا رہے ہیں، 250ارب سے زائد کا منی بجٹ لایا جا رہا ہے، امن و امان کی صورتحال کو کھلا چھوڑ دیا گیا ہے، سیاسی عدم استحکام کو بڑھاوا دیا جا رہا ہے، ملک کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی کے ساتھ مذاکرات سے اجتناب کیا جارہا ہے۔ پنجاب اور کے پی کے الیکشن آگے بڑھانے کا جواز تلاش کیے جا رہے ہیں، پھر عام انتخابات بھی ایک سال کیلئے ملتوی کرنے کے بارے میں غور و فکر ہو رہا ہے۔ اور پھر دلچسپ بات یہ ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف کو اب یقین سا ہوچلا ہے کہ وہ آئندہ اس منصب پر شاید نہ آسکیں اور وزارت اعلیٰ ”تخت پنجاب“ بھی مشکل میں ہے تو کیوں نہ ”ریاست بچاﺅ سیاست مکاﺅ“مہم کے تحت ایسے اقدامات کئے جائیں کہ اگر وہ نہیں تو پھر کم از کم آئندہ حکومت کسی کے نصیب میں نہ آئے۔ وہ جو کہتے ہیں نہ”ہم تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے، کے فلسفے پر اب وہ عمل پیرا ہیں۔ لہٰذاایسی صورتحال میں پی ڈی ایم عوام کے پاس کیسے جائے گی؟ اگر الیکشن ہونے ہوتے تو کبھی ن لیگ، پیپلزپارٹی غیر مقبول فیصلے نہ کرتی۔ بلکہ ان کا بس چلتا تو یہ لوگ اپنی جیب سے پیسے لگا کر ”انویسٹمنٹ“ کرتے اور اگلے پانچ سال تک کئی گنا زیادہ کماتے۔اور پھر ایک پہلو یہ ہے کہ الیکشن کس نے کروانے ہیں؟ اسٹیبلشمنٹ کی آشیرباد تو اس وقت موجودہ حکومت کے ساتھ ہے۔ اور صحیح معنوں میں سول اور ملٹری قیادت ایک پیج پر نظر آرہی ہے۔ بہرحال لگ یہی رہا ہے کہ معاشی ایمرجنسی ڈکلیئر کی جا سکتی ہے، ہنگامی کیفیت کا سماں باندھا جا سکتا ہے، مردم شماری یا حلقہ بندیوں کا بہانہ بنایا جا سکتا ہے۔ نگران سیٹ اپ کو Extendکیا جا سکتا ہے۔ اور پھر سب سے اہم کہ اسی کار خیر کے لیے عدالتوں کا استعمال بھی کیا جا سکتا ہے؟ نہیں یقین تو ماضی کے اووراق اُلٹا کر دیکھ لیں، آپ کے سامنے سب کچھ آجائے گا۔ تاریخ گواہ ہے کہ عدالتوں کو سیاستدانوں نے سیاست کا مرکز بنا دیا ہے۔سیاستدان ہی معزز ججوں کو فون کر کے بتاتے رہے کہ ان کے مخالفین کو کتنے سال کی سزا دینی ہے۔ اس مقصد کے لیے ماضی میں اپنے جج لگانے کی حکمت عملی بنائی جا تی رہی۔اپنے جج ہوں گے تومطلوبہ فیصلے کریں گے۔ جج اگر ایک فریق کی مرضی کے فیصلے نہیں دے گا تو اس کے خلاف مہم چلائی جائے گی۔ اس کی کردار کشی کی جائے گی ، اسے دباﺅ میں لایا جائے گا، سیاست اب یہی شکل اختیار کر چکی ہے۔ ذرا سا اختلاف ہوتا ہے تو ایک فریق کہتاسنائی دیتا ہے ، جاﺅ عدالتوں کے پاس۔ کراچی انتخابات میں دھاندلی کی شکایت ہو تو دوسرا فریق کہتا ہے جاﺅ جا کے عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹاﺅ۔جب ہر کام عدالت میں جا پہنچے گا تو عدالتیں سیاسی کیوں نہ ہوں گی۔ فواد چودھری کو گرفتار کیا گیا۔ منصوبہ بنانے والوں نے سوچا اسے ایک دفعہ عدالت تک لے جاﺅ پھر ہم دیکھ لیں گے۔ فواد چودھری انصاف کے لیے عدالت پہنچے تو ٹی وی اسکرینوں پر سیاست کی بھرمار ہوگئی، ریمانڈ پر سیاست ہونے لگی۔ اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات پر اختلاف ہوا تو فریقین عدالت کے پاس جا پہنچے۔ ایک عدالت اندر لگی تھی دوسری باہر۔ اندر دلائل دیے جارہے تھے کہ فوری انتخابات ممکن نہیں۔ باہر رانا ثنا اللہ فرما رہے تھے ،انتخابات تو ہو ہی نہیں سکتے۔ عدالت نے فیصلہ دیا ہر صورت 31 دسمبر کو انتخابات کرائے جائیں، عدالت اس مرتبہ ہار گئی، سیاست جیت گئی۔ انتخابات نہیں ہوئے، حکومت پھر عدالت کے پاس گئی،اب مہینہ بیت گیا ہے ،چار مرتبہ تاریخ پڑ چکی ہے اور اسلام آباد کے بلدیاتی انتخابات قصہ پارینہ بن چکے ہیں۔ دو روز پہلے تحریک انصاف لاہور ہائیکورٹ کے پاس چلی گئی، استدعا کی کہ الیکشن کی تاریخ دے دی جائے۔تاریخ دینا تو حالانکہ عدالت کا نہیں گورنر کا کام ہے مگر چونکہ سیاست اب عدالت میں ہو رہی ہے تو یہ کام بھی اسے ہی سر انجام دینا پڑ رہا ہے۔ اب تین فروری کو سماعت ہو گی اور ایک بار پھر سیاست دانوں کے فیصلے عدالت کرے گی۔ عدالت بتائے گی کہ عمران خان سیاست کرنے کے لیے اہل ہیں یا نا اہل، عدالت بتائے گی کہ 2023 کے انتخابات میں کون کون حصہ لے گا ، کون کون باہر بیٹھ کے تماشا دیکھے گا۔ حد تو یہ ہے کہ مارچ 2022 یعنی تحریک عدم اعتماد کے وقت سے شاید ایک بھی فیصلہ سیاستدانوں ، پارلیمان، الیکشن کمیشن اور دیگر اداروں نے نہ کیا ہو گاکہ جو عدالتوں تک نہ پہنچا۔ قاسم سوری نے رولنگ دی تو عدالت میں چیلنج ہو گئی۔عدالت سے فیصلہ آیا تو عمران خان کو گھر جانا پڑا۔ عمران خان نے مئی میں لانگ مارچ کا فیصلہ کیا تو عدالت میں چیلنج ہو گیا۔ عدالت نے مشروط اجازت دی تو بھی معاملہ عدالت تک ہی جا پہنچا۔ توہین عدالت کی باتیں ہوئیں ، عدالت نے بڑی مشکل سے پہلو بچایا۔ منحرف اراکین کے ووٹ کی بات ہوئی تو ایک بارپھر عدالت کو شریک کرنا پڑا۔ عدالت نے فیصلہ دیا تو منحرفین فارغ ہو گئے۔ پنجاب میں حمزہ حلف نہ اٹھا پاتے تھے ، عدالت نے وقت ، تاریخ اور مقام مقرر کیا تو حمزہ شہباز وزیر اعلی بنے۔ منحرفین فارغ ہوئے تو پنجاب میں ضمنی الیکشن کا اعلان ہوا۔ تحریک انصاف کو اکثریت حاصل ہوئی تو پرویز الٰہی پھر عدالتی مداخلت سے وزیر اعلی کا حلف اٹھانے کے قابل ہوئے۔ وفاق میں پی ڈی ایم کی حکومت بنی تو دھڑا دھڑ قانون سازی شروع ہوئی انہی میں نیب ترامیم بھی شامل تھیں۔ نیب ترامیم بظاہر چند افراد کو فائدہ پہنچانے کے لیے تھیں۔ حسب توقع انہیں چیلنج کر دیا گیا، معاملہ ایک بار پھر عدالت میں جا پہنچا جہاں یہ اب تک زیر سماعت ہے۔ اسی اثنامیں عمران خان نے دوبارہ لانگ مارچ کا منصوبہ بنایا۔اسے روکنے کے لیے مخالف فریق نے پھر عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ لانگ مارچ عدالت کے ذریعے تو نہ روکا جا سکا مگر عمران خان پر حملہ ہو گیا۔ عمران خان بال بال بچے۔مگر کوئی ان کی ایف آئی آر درج کرنے والا نہ تھا۔ عمران خان صحت یاب ہوئے تو پنجاب اسمبلی کی تحلیل کی کہانی شروع ہو گئی۔ اسمبلی کی تحلیل روکنے کے لیے گورنر پنجاب نے اعتماد کا ووٹ لینے کے لیے کہا تو فریقین ایک بار پھر عدالت جا پہنچے۔ ایک فریق نے دوسرے کو برطرف کر دیا تھا۔ وزیر اعلی برطرف کیے جانے کا حکم ماننے سے انکاری تھے۔ بات پھر عدالت کے پاس جا پہنچی۔عدالت اعتمادکا ووٹ لینے کا حکم دینے ہی والی تھی کہ پہلے ہی اعتماد کا ووٹ لے لیا گیا۔ پھر اسمبلی تحلیل ہوئی مگر اب الیکشن کی تاریخ نہیں دی جا رہی۔ تحریک انصاف انتخابات کی تاریخ لینے کے لیے ایک بار پھر عدالت میں ہے۔ معلوم نہیں عدالت سے کیا فیصلہ آتا ہے مگر اب عدالتوں کی حکم عدولی کا چلن بھی عام ہو گیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ عدالتیں اس کا برا بھی نہیں مانتیں۔ اب لاہور ہائیکورٹ کا حکم نہ مانا گیا تو شاید بات سپریم کورٹ تک جائے۔ کچھ بھی ہو ، یہ مگر طے ہے کہ پاکستان کی سیاست اب عدالت میں ہی ہو رہی ہے۔ ایک فریق جائے یا دوسرا،جانا سب نے عدالت ہی ہوتا ہے۔ سیاستدانوں نے عدالتوں کو سیاسی فیصلہ گا ہ بنا لیا ہے۔اپنی داڑھی عدالتوں کے ہاتھ میں دے دی ہے۔ جانے سیاست دان خود اپنے فیصلے کرنے کے قابل کب ہوں گے۔ قصہ مختصر کہ اب انہی عدالتوں کا استعمال کرتے ہوئے ”نظریہ ضرورت“ کو استعمال کیا جائے گا۔ اور پھر بادی النظر میں ان حالات کو دیکھتے ہوئے تو لگ یہی رہا ہے کہ جلدی الیکشن کروانا تو درکنار، اپنے صحیح وقت پر بھی الیکشن ہوتے نظر نہیں آرہے۔ اور پھر یہ بات بھی عیاں ہو رہی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ تحریک عدم اعتماد لا کر جو غلطی کر چکی ہے، اب وہ اس غلطی پر سرنڈر کرنے کے بجائے اسے چھپانے اور اسے ٹھیک کرنے کی بھرپور کوشش کرے گی۔ کیوں کہ ان کے پاس اس سے آگے شاید کوئی چوائس نہیں ہے۔پہلے تو یہ ہوتا تھا کہ اگر ن لیگ ٹھیک نہیں تو پیپلزپارٹی کو اقتدار مل جا تا تھا اور اگر پیپلزپارٹی ٹھیک نہیں تو ن لیگ کو اقتدار مل جاتا تھا مگراب مصیبت یہ ہے کہ دونوں پارٹیاں ہی اقتدار میں ہیں۔ یا یوں کہیں کہ ”بڑوں“ کے لیے ”آگے کنواں اورپیچھے کھائی ہے“۔ الغرض چاروں اطراف سے مسائل میں گھری اسٹبلشمنٹ کو ماہرین کے مطابق اب فیس سیونگ کی ضرورت رہے گی۔ لیکن ہمیں یہ بھی آئیڈیا ہے کہ وہ ہار ماننے والے نہیں۔ آخری فیصلہ بہرحال وہی کرتے ہیں جو کرتے آئے ہیں، ویسے ہم ’دل پشوری‘ کیلئے کہہ سکتے ہیں ’عوام‘ فیصلہ کریں گے۔ آپ لوگ اپنے اپنے حساب سے پوائنٹس دیتے جائیں نتائج کا اعلان بہرحال الیکشن کمیشن آف پاکستان کرے گا جیسا کہ کراچی میں 18 سے 20 فیصد ٹرن آﺅٹ کے بعد نتائج کی تاخیر کے نتیجے میں ہوا۔ بہرکیف جنرل الیکشن کے نہ ہونے کے حوالے سے ایک اور گواہی دیتا چلوں کہ الیکشن کے سال میں آئی ایم ایف کا پاکستان آنا ایسے ہی ہے جیسے ’موت کا فرشتہ‘آچکا ہو۔بہرحال عوام اپنے لئے ریلیف چاہتے ہیں، حکمراں اپنے لئے ریلیف چاہتے ہیں۔ لیکن جب بھی الیکشن ہوں بس ایک التجا ہے کہ خدارا اس مرتبہ RTS بند نہ ہو اور خالص عوامی حکومت آجائے، پھر چاہے جو بھی ہو ہمیں دکھ نہیں ہوگا۔