پاکستان کو محنت ،لگن اور ایماندای کی اشد ضرورت ہے!

جشن آزادی سے مراد وہ نہیں جو ہم لیتے ہیں، دنیا میں جشن آزادی کو ”نیاعزم“ اور نیا جوش و ولولہ سمجھا جاتا ہے، اور” جشن آزادی “کے دن آئندہ کی حکمت عملی بیان کیا جاتی ہے یا نیا پلان پیش کیا جاتا ہے، جیسے پہلی جولائی کو کینیڈین برطانیہ سے آزادی کا دن مناتے ہیں،اوراسی دن حکومت اگلے سال کا لائحہ عمل بناتی ہے کہ وہ کیا نیا کرنے جا رہے ہیں۔ پھر برطانوی بھی پہلی جولائی کو ہی قومی دن مناتے ہیں اور حکومت یعنی ہاﺅس آف لارڈ میں نئے قوانین پیش کیے جاتے ہیں، پھر جرمن 3اکتوبر کو قومی دن مناتے ہیں اور جرمن چانسلر اس دن نیا ایجنڈا پیش کرتی ہیں کہ وہ دنیا کو تسخیر کرنے کے لیے کیا کرنے جا رہی ہیں، پھر 2جون کو اٹلی میں قومی دن منایا جاتا ہے، جب حکومت دنیا کے سامنے اپنے عزائم رکھتی ہے ،کہ وہ اپنی قوم کے لیے کیا کریں گے۔ الغرض اسی طرح کئی دوسرے ممالک بھی یہی عزم دہراتے ہیںکہ وہ اپنی اقوام کے لیے کیا کرنے جا رہے ہیں، جبکہ اس کے برعکس ہم جشن آزادی کو بغیر کسی ایجنڈے، بغیر کسی نئی منصوبہ بندی اور بغیر کسی گول کے سیٹ کیے یا بغیر کسی نئے عزم کے اظہار کے مناتے ہیں۔ پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ ٹارگٹ سیٹ کیے بغیر آگے بڑھ سکتے ہیں، یہ اتفاق کی بات کہہ لیں کہ پرانے اور نئے پاکستان کی بنیاد اگست میں ہی رکھی گئی ،آج موجودہ حکومت کو آئے تین سال ہوگئے لیکن افسوس کے ساتھ آج غریب آدمی کی قسمت نہیں بدل سکی۔ آج بھی کسی کو انصاف نہیں مل رہا، آج بھی کرپشن ختم نہیں ہوسکی، آج بھی تعلیمی نظام فرسودہ ہے، آج بھی پاکستان کی خارجہ پالیسی بس نام کی ہے۔ آج بھی تمام محکموںکا حال مثالی نہیں ہے، آج بھی سیاستدان آپ میں گتھم گتھا ہیں، آج اقلیتوں کی قسمت نہیں بدل سکی،اآج بھی اقلیتوں کے ساتھ ناروا سلوک رکھا جا رہا ہے، آج بھی مندروں پر دہاوا بولا جا رہا ہے، عظیم رہنما قائد اعظم محمد علی جناح ؒ نے گیارہ اگست 1947ءکو پاکستان کے شہریوں کو روشن مستقبل کی بشارت دی تھی۔ ابھی دو روز پہلے ہم نے بابائے قوم کے اسی فرمان کی یاد میں مذہبی اقلیتوں کا دن منایا ہے۔بابائے قوم لفظوں کے استعمال میں بہت محتاط تھے اور گیارہ اگست کی اس مختصر تقریر پر تو، ہیکٹر بولائتھو کی روایت کے مطابق، انہوں نے کئی گھنٹے محنت کی تھی۔ ان کی اس تقریر کا بنیادی پیغام شہریوں کی مساوات تھا۔ قائد اعظم کے جانشین کیسے گریز پا نکلے کہ جس تاریخ ساز تقریر میں یہ نوید دی گئی تھی کہ پاکستان میں ہندو اور مسلم اپنے مذہب پہ قائم رہتے ہوئے سیاسی اعتبار سے ایک جیسے حقوق، رتبے اور اختیار کے مالک ہوں گے، ہم نے اس تقریر کی یاد میں گیارہ اگست کو مذہبی اقلیتوں کا دن قرار دے ڈالا۔ خیر یہ ایک لمبی بحث ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ 22کروڑ کے اس ملک میں بہت سی آنکھوں میں امید کے دئیے جھلملا رہے ہیں۔ آوازوں میں اعتماد ہے، وعدوں پہ اعتبار ہے۔ کسی کی خوشی میں کھنڈت ڈالنا وضع داری کے منافی ہے۔ جو لوگ نئے پاکستان کی پذیرائی میں سرشار ہیں، خدا کرے کہ ان کے خواب پورے ہوں۔ کیوں کہ ماضی گواہ ہے کہ ہم نے 1958میں ”انقلاب“ برپا کیا۔ 1971ءمیں ”نیا پاکستان“ بنایا۔ 1977ءمیں اپنا قبلہ درست کیا۔ 1988میں” سلطانی جمہور“ کا اعلان کیا۔ 1999 میں ”شفاف احتساب“ کیا۔ 2008ءمیں ریاستی اداروں کے سیاسی عمل سے لاتعلق ہونے کا اعلان کیا اور اب پھر2018ءمیں کرپشن سے پاک پاکستان کی بنیاد رکھنے کا اعلان کیا۔ لیکن نتائج سب کے سامنے ہیں۔ کیا کبھی کسی نے سوچا کہ ہر بار ہمارے ساتھ ہی ایسا کیوں ہوتا ہے؟ میرے خیال میں یہاں سب اپنا ذاتی مفاد دیکھتے ہیں، ایک بار سابق برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کے پاس ایک جاننے والا آیا، اُس نے کیمرون کوآفر دی کہ وہ مل کر کمپنی بناتے ہیں، جس میںانویسٹمنٹ وہ خود کرے گا، کیمرون صرف اُس کے لیے گاہکوں کا انتظام کریں گے جبکہ منافع آدھا آدھا۔ کیمرون مسکرائے اور کہا میں کسی کے میرٹ کو اپنے ذاتی مفاد کے لیے استعمال نہیں کر سکتا۔ یعنی اپنی سیٹ کا غلط استعمال نہیں کر سکتا۔ جبکہ یہاں ایسی آفرز کے انتظار میں لوگ بیٹھے ہوتے ہیں، خود آفرز دیتے ہیںکہ کوئی ”کام“ لاﺅ، خود بھی کھاﺅ۔ ہمیں بھی کھلاﺅ۔ اور یہ کام کسی ایک ادارے میں نہیں، ہر ادارے میں ہے، حتیٰ کہ ہر محکمہ اپنے مفاد کو ترجیح دیتا ہے۔ پولیس اپنا مفاد دیکھتی ہے، بیوروکریسی اپنا مفاد دیکھتی ہے، کسی جگہ پر مفاد پرستی ہے تو کسی جگہ پر چوربازاری ہے ۔ ہمیں ان سے نکلنے کے لیے اپنے آپ کو طاقت ور کرنا پڑے گا، ہر پاکستانی کو خود اُٹھنا پڑے گا،سب سے پہلے اداروں میں کرپشن کو ”ناں“ کہنا ہوگا۔ جب تک عوام اپنے حقوق کے لیے خود نہیں اُٹھ کھڑے ہوں گے، خود زیادتی کرنے والے کے راستے میں نہیں رکیں گے، زیادتی کا راستہ خود نہیں روکیں گے، ظلم کے آگے خود دیوار نہیں بنیں گے تو اُس وقت ہم اور ہماری اولاد یونہی تڑپتے رہیں گے۔معذرت کے ساتھ تقریباً تین چوتھائی صدی گزرنے کے بعد بھی ہم میں سے کوئی ایسا نہیں جو یقینی طور پر تسلیم کرسکے کہ بحثیت قوم ہم اور ہمارے ادارے آزاد ہیں، ہم اتنے آزاد ہیں کہ ہماری عدلیہ آج بھی برٹش انڈین ایکٹ 1935ءپر انحصار کر رہی ہے۔ ہماری معاشی پالیسیاں آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی بیساکھیوں پر کھڑی ہیں جبکہ یو ایس ایڈ اور یو این چارٹر کے سہارے ہمارا تعلیمی نظام ہمیں دن بدن نظریہ پاکستان اور مقصد پاکستان سے دور کرتا چلا جارہا ہے۔ چند سال قبل انڈونیشیا ، بنگلہ دیش اور ملائشیا کے حالات بھی پاکستان سے مختلف نہیں تھے، وہاں کے عوام نے حکومت کے شانہ بشانہ محنت، لگن اور ایمانداری سے اپنی پراڈکٹ دنیا کے سامنے رکھیں، دنیا نے اُنہیں پسند کیا اور خریدنا شروع کردیا، آج یہ ممالک دنیا کے لیے ایک مارکیٹ کی حیثیت رکھتے ہیں، جبکہ میں نے پچھلے کالم میں بھی ذکر کیا تھا کہ چین بھی اب پاکستان کے چاول یا کپاس خریدنے سے گریزاں نظر آرہا ہے۔ پھر یہاں صنعتوں کا حال ِ زار کس سے پوشیدہ ہے؟ کون نہیں جانتا کہ جب کاروباری طبقات برسراقتدار آئے تو کس طرح ملک پستی کی جانب چلا گیا، جبکہ یہ لوگ خود پاکستان کے دوسرے اور تیسرے امیر ترین افراد میں شامل ہونے لگے۔ جب عوام کے حصے میں جو کچھ آیا وہ بے روزگاری، لوٹ مار، کرپشن اور دہشت گردی ہے۔ خیر ہمیں آزادی کا مقصد سمجھ آنادور کی بات ہمیں دو وقت کی روٹی کا محتاج بنا دیا گیا۔ لیکن پھر جس سونامی نے ہمیں اُمید دلائی اُس سے یہی لگا کہ شاید یہ تکلیف ہمارے لیے عارضی ہے بقول شاعر کب ڈرا سکتا ہے غم کا عارضی منظر مجھے ہے بھروسا اپنی ملت کے مقدر پر مجھے قارئین! قدرت نے پاکستان کو معدنی دولت سے مالا مال کیا ہے۔جیولوجیکل سروے کے مطابق ہمارے ملک میں 6 لاکھ مربع کلومیٹر کے رقبے میں معدنی ذخائر موجود ہیں جن میں کوئلے، تانبے، سونے، قدرتی گیس، تیل، ماربل، قیمتی پتھر، گرنائیڈ، نمک اور چونے کے ذخائر قابل ذکر ہیں۔ بلوچستان کے علاقے ریکوڈیک میں دنیا کے پانچویں بڑے تانبے کے 22 ارب پاﺅنڈ اور سونے کے 13 ملین اونس کے ذخائر پائے جاتے ہیں جن کی مجموعی مالیت 500 ارب ڈالر ہے۔ حالانکہ رکو ڈک کیس پر عالمی عدالت نے پاکستان کو 6ارب ڈالر جرمانہ عاید کیا ہے، لیکن پاکستان ابھی بھی نہایت دانشمندانہ حکمت عملی سے اس پراجیکٹ کو پاکستان کے لیے پراُمید بنا سکتا ہے۔ اُمید ہے عمران خان انہی منصوبوں پر کام کریں گے اور کوشش کریں گے کہ انہی ذخائر پر کام کریں اور انہی ذخائر سے استفادہ اُٹھانے کی بات کریں گے۔ پھر پاکستان دنیا بھر میں کینو کی پیداوار میں پہلے، چنے کی پیداوار میں دوسرے، کپاس، چاول، کھجور اور خوبانی کی پیداوار میں چوتھا بڑا ملک ہے۔ اسی طرح پاکستان مچھلی، دودھ اور گنے کی پیداوار میں پانچویں، گندم کی پیداوار میں چھٹے، خشک میوہ جات، پیاز اور آم کی پیداوار میں ساتویں، قیمتی پتھروں اور سنگ مرمر کی پیداوار میں آٹھویں، چینی اور حلال گوشت کی پیداوار میں نویں جبکہ سیمنٹ اور چاول کی پیداوار میں بارہویں نمبر پر ہے۔اقوام متحدہ کی فوڈ اور ایگری کلچر آرگنائزیشن کے مطابق پاکستان دنیا میں سب سے زیادہ گھی پیدا کرنیوالا ملک ہے جبکہ ملک میں دنیا کے سب سے بڑے نمک کے ذخائر پائے جاتے ہیں۔ پاکستان دنیا میں معدنی ذخائر رکھنے والا امیر ترین لیکن اسے استعمال کرنے میں غریب ترین ملک ہے۔ ملک میں دنیا کے کوئلے کے چوتھے بڑے جبکہ سونے (100ارب ڈالر) اور تانبے (27ارب ڈالر) کے پانچویں بڑے ذخائر موجود ہیں لیکن 6دہائیاں گزرنے کے باوجود بدقسمتی سے ہم ان قدرتی نعمتوں کو زمین سے نکال کر فائدہ نہیں اٹھاسکے۔ لیکن ضرورت ہے تو صرف محنت لگن اور ایمانداری کی۔ لہٰذاہمیں سوچنا ہے تو صرف یہ کہ کیا ہم خود سے اس پاکستان کے لیے کچھ کر سکتے ہیں ؟ اس ملک کے بنانے کا بنیادی مقصد ہی یہ تھا کہ ہم ایک ایسی Nationکی تخلیق کریں جو اس دنیا میں اپنی ایک پہچان رکھتی ہے، جس کے لوگوں کا اپنا ایک وژن ہوتا ہے۔ کم از کم ہم آزادی کے مقصد کو جان کر ملک و ملت کے لیے بنائے گئے قوانین کو فالو کر سکتے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اس وقت صدق دل سے اس وطن کے لیے کچھ کریں جسے ہماری محنت، لگن اور ایمانداری کی اشد ضرورت ہے....! #14th aug #Pakistan #Ali Ahmed Dhillon #Talkhiyan