سینیٹ کا معرکہ ،کس کے نام!

آج سینیٹ میں حلف برادری اور چیئرمین و ڈپٹی چیئرمین منتخب ہونے کا دن ہے، پاکستان کی سیاست میں اس وقت سب سے اہم سوال یہی ہے کہ پاکستان کے ایوان بالا یعنی سینیٹ کا نیا چیئرمین کون ہوگا۔ اس وقت نئے چیئرمین کے انتخاب کے حوالے سے جوڑ توڑ کا سلسلہ عروج پر ہے اور افسوس کے ساتھ مک مکا کی سیاست ہے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی۔ آج صدر مملکت عارف علوی اجلاس کے لیے کسی ایک سینیٹر کو صدر نشین مقرر کریں گے وہ اس اجلاس کی صدارت کریں گے۔ حروف تہجی کے حساب سے ہر سینیٹر آ کر اپنا ووٹ کاسٹ کرے گا۔ نو منتخب چیئرمین سینیٹ سے صدر نشین حلف لیں گے جس کے بعد نو منتخب چیئرمین سینیٹ ایوان بالا کے اجلاس کی صدارت کریں اور اسی ترتیب سے پھر ڈپٹی چیئرمین کا انتخاب عمل میں لایا جائے گا۔اگر یوسف رضا گیلانی اور صادق سنجرانی میں سے کوئی بھی 51 ووٹ حاصل نہ کر سکا تو پھر یہ چناو¿ از سر نو اس وقت تک جاری رہے گا جب تک کہ کوئی امیدوار واضح اکثریت (کم از کم 51 فیصد) حاصل نہ کر لے۔ لیکن صورتحال واضح ہے کہ یوسف رضا گیلانی یا صادق سنجرانی میں سے کوئی ایک سینیٹ کے چیئرمین کی حیثیت سے کرسی پر بیٹھ جائے گا۔ سینیٹ کے چیئرمین کی حیثیت سے ان دونوں میں سے کوئی ایک دنیا بھر کے پارلیمانی وفود سے ملے گا، پاکستان کے سینیٹرز پر مشتمل وفود کا سربراہ ہوگا۔ دستورکے مطابق اگر صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی پاکستان سے باہر جائیں یا کسی بھی وجہ سے اپنے فرائض ادا کرنے سے قاصر ہوں گے تو ان دونوں میں سے کوئی ایک صدر بن کر عارضی طور پر مسلح افواج کا سپریم کمانڈر بھی ہوگا۔ ان دونوں میں سے کوئی ایک سینیٹ کی سب سے اونچی کرسی پر بیٹھ کر اجلاس کی صدارت بھی کیا کرے گا۔ پھر ہم اخبار نویسوں کے منہ چیئرمین سینیٹ چیئرمین سینیٹ لکھتے بولتے سوکھا کریں گے۔ ہم سب یہ بھول چکے ہوں گے کہ سید یوسف رضا گیلانی علی الاعلان اراکین قومی اسمبلی کی وفاداریاں خرید کر اس کرسی پر تشریف رکھتے ہیں یا صادق سنجرانی 2019میں چودہ اراکین سینیٹ کی وفاداریاں بدل کر اپنی کرسی بچا چکے ہیں۔ ان دونوں میں سے کوئی ایک اعلیٰ ترین ریاستی تقریبات میں بطور چیئرمین سینیٹ شریک بھی ہوا کرے گا اور وہاں موجود غیرملکی سفارتکار اسے”عزت مآب“ کہہ کر پکاریں گے اور واپسی پر ان کی وارداتِ انتخاب کے بارے میں لطیفے سنایا کریں گے۔ یہی نہیں اگر یہ کسی ملک کے سرکاری دورے پر جائیں گے تو ان کے مشکوک سیاسی معاملات خفیہ طور پر میزبان ملک کا سفارتخانہ پہلے سے ہی بھیج دیا کرے گا۔ اس طرح پاکستان کی عزت میں جو اضافہ ہوگا، اس کا اندازہ لگانے کے لیے چشم تصور کی ضرورت نہیں بس چند دنوں کی بات ہے سب کچھ سامنے آجائے گا۔ ان دو عزت مآبوں کا یہ کمال بھی ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ ان کے انتخاب نے پاکستانی سیاست میں جو زہر گھول دیا ہے اس کا تریاق اگلی نسل ہی کچھ کرے تو کرے، موجودہ نسل کے بس سے تو یہ کام نکل چکا۔ ایسا نہیں کہ ان سے پہلے کبھی اسمبلیوں میں ضمیروں کی خریدوفروخت نہیں ہوئی، ان کا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے چوری کے ساتھ سینہ زوری کرکے نئی مثال قائم کردی ہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کے پہلے دور سے لے کر جنرل پرویز مشرف تک یہ کام صرف حکومتیں ہی کیا کرتی تھیں۔ یہ اعزاز انہی کی پارٹی کوملا ہے کہ اپوزیشن میں رہ کر بھی وہ ہارس ٹریڈنگ کرسکتی ہے۔ بعض سیاسی حلقوں کا خیال ہے کہ پاکستان پیپلزپارٹی نے انیس سو اٹھاسی سے انیس سو نوے تک یہ کام بڑی تندہی سے کیا۔ اسی زمانے کے پنجاب میں سابق وزیراعظم بطور وزیراعلیٰ اپنے حامیوں کو تحصیلداروں اور پولیس انسپکٹروں کی اسامیاں عطا کیا کرتے تھے۔ پھر یہی کام سندھ میں شروع ہوا تو پیپلزپارٹی نے براہ راست ڈی ایس پی اور اسسٹنٹ کمشنر کے درجے کی ملازمتیں ووٹوں کی خریداری کیلئے استعمال کیں۔ مشیت ایزدی کہیے کہ یہ کام صرف اٹھارہ ماہ چلا، لیکن اس طرح بھرتی ہونے والوں نے ملک کا جو حال کیا وہ سب کے سامنے ہے۔ اتنے معاملات کے باوجود اس زمانے میں ان دونوں پارٹیوں میں سے یہ ہمت کسی کی نہیں تھی کہ عوام میں آکر اسمبلیوں کے ووٹ ادھر ادھر کرنے کا اس طرح اعتراف کرے جیسا بالخصوص یوسف رضا گیلانی کے معاملے میں آصف علی زرداری، بلاول بھٹو زرداری اور مریم نواز نے برسرِ میڈیا کیا ہے۔ ان دونوں عزت مآبوں میں سے یوسف رضا گیلانی کو صادق سنجرانی پر یہ سبقت حاصل ہے کہ ثانی الذکر نے ووٹ چرائے جبکہ اول الذکر کیلئے ووٹوں کا حصول ڈاکا مارکے ممکن بنایا گیا‘ یعنی ان کا صاحبزادہ بنفس نفیس لوگوں کے ساتھ بھاﺅ تاﺅ کرتے پکڑا گیا اور اس نے اسے اپنا جمہوری حق بھی قرار دیا۔ بات یہیں تک رہتی توکچھ بھرم رہ جاتا۔ یوسف رضا گیلانی کی فتح کے بعد حامد میر کے پروگرام میں آصف علی زرداری نے فرمایا 'ہمیں بیس ووٹوں کی اکثریت ملنی تھی مگر صرف پانچ کی ملی‘۔ ان کے بعد مریم نواز نے ارشاد کیا ”ن لیگ کا ٹکٹ چلا ہے ووٹ توڑنے کے لیے“۔ پھر بلاول بھٹو زرداری نے سینے پر ہاتھ مار کر کہا ”ہمیں پتا ہے کون تیر کے نشان پر اور کون شیر کے نشان پر الیکشن لڑنا چاہتا ہے“۔ ان تینوں رہبروں کے بیانات یہ ثابت کرنے کیلئے کافی ہیں کہ مستقبل کے خوف یا لالچ کی بنیاد پر قومی اسمبلی کے اراکین کو خریدا گیا ہے۔ دنیا میں کسی مہذب ملک میں ایسا ہوتا تو اب تک سب کچھ الٹ پلٹ چکا ہوتا مگر یہ پاکستان ہے، یہاں صرف باتیں کی جاتی ہیں۔ جیسے خان صاحب اور الیکشن کمیشن کرتے ہیں۔ عمران خان گزشتہ ڈھائی برسوں میں کچھ نہیں کرپائے۔ میں ہمیشہ سے کہتا آیا ہوں کہ خان صاحب کو ہمیشہ اُن کی ٹیم نے مروایا ہے، یعنی ان کی حکومت میں پائی جانے والی فراواں نالائقی نے کچھ نہیں کرنے دیا اور کچھ مہینوں سے اپوزیشن ان کی جان کا آزار بن چکی ہے۔ ان کی بار بار کی تقریروں کے باوجود عوام مایوس دکھائی دیتے ہیں۔ اس لیے ان سے آخری امید بس یہی رہ گئی تھی کہ اگر حکومت کی ساکھ پر کوئی اخلاقی سوال اٹھ کھڑا ہوا تو وہ اس پر سمجھوتہ نہیں کریں گے، لیکن ان کے بارے میں یہ امید بھی سراب ہی نکلی۔ انہوں نے متعین الزام لگایاکہ ان کی پارٹی کے سولہ ارکان قومی اسمبلی بکے ہیں اور اگلے دن ہی ان سولہ ارکان کو شامل کرکے اسمبلی سے اعتماد کو ووٹ لے لیا۔ اگر خان صاحب اعتماد کا ووٹ لینے سے پہلے اسمبلی کا اجلاس بلاتے اور ان سولہ اراکین کا کچا چٹھا کھول کر اسمبلی توڑ دیتے توپاکستان کی جمہوریت ایک چھلانگ لگا کرآگے بڑھ جاتی۔ اس کے بعد شاید بکنے والے تو رہتے مگر خریدنے والے نہ رہتے۔ نئے الیکشن کا نتیجہ کچھ بھی ہوتا خان صاحب کی اخلاقی حیثیت مثالی ہوجاتی‘ مگر باتوں سے آگے کوئی بڑھے تو۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ صرف پیپلز پارٹی نے خریداری نہیں کی بلکہ پی ٹی آئی نے بھی اپوزیشن کے نصف درجن ممبران توڑے، جن میں ایک جے یو آئی کا ممبر بھی ہے۔ پی ٹی آئی کے جن 16 سے زیادہ ممبران نے گیلانی کو ووٹ ڈالے یا ضائع کئے، ہر ایک کا عمران خان کو علم ہے۔ یہ صرف میرا دعویٰ نہیں بلکہ وزیر داخلہ شیخ رشید احمد کہہ چکے ہیں کہ عمران خان کو سب پتہ ہے۔پھر الیکشن کمیشن کا ماضی بھی صرف باتیں بنانا ہی رہا ہے۔ ڈسکہ کے الیکشن کے بعد محسوس ہوا کہ الیکشن کمیشن میں جان بھی ہے۔ اب اس کے سامنے یوسف رضا گیلانی کا الیکشن ہے۔ ماضی کی طرح چون و چرا کے چکروں میں الجھنا ہے تو پھر ہم سمجھ لیں گے کہ الیکشن کمیشن سے ڈسکہ والا کام اتفاق سے سرزد ہوگیا تھا ورنہ پاکستان کے نصیب میں کوئی مضبوط ادارہ نہیں ہے۔ ڈسکہ کی طرح فیصلہ کرنا ہے تو علی حیدر گیلانی کی ویڈیو، سندھ کے صوبائی وزیر کی آڈیو، سابق صدر آصف علی زرداری، بلاول بھٹو زرداری اور مریم نواز شریف کے اعترافات کافی ہیں۔ اگرالیکشن کا نتیجہ رک جانے کے بعد یوسف رضا گیلانی عدالت جا کر اپنا نتیجہ لینا چاہیں تو لے لیں، مگر عوام کو یہ تو پتا چل جائے گا نا‘ کہ ووٹ کی عزت کیلئے کون ہے جو اپنے قد سے کھڑا ہے۔ جب سے مریم نواز، بلاول بھٹو زرداری اور آصف علی زرداری نے قومی اسمبلی میں ووٹوں کی خریداری کا اعتراف کیا ہے، اسی دن سے اس خاکسار کو یہ سمجھانے والے بہت ہیں کہ سیاست اسی کوتو کہتے ہیں، تمہیں اخلاقیات سے کیا، تم بس آرام سے واقعہ بہ واقعہ حالات کی تشریح کرو اور بس۔ یوسف رضا گیلانی کا جیت جانا ایک سیاسی واقعہ ہی تو ہے، تم اسی تک خود کو محدود رکھو۔ کچھ نے یہ بھی سمجھایاکہ عمران خان کے سولہ ارکان بک گئے تو کیا ان گناہگاروں کو سزا دینے کیلئے بے گناہوں کو بھی نئے الیکشن کی ٹکٹکی پر چڑھا دیا جائے۔ لیکن ہمیں اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ ایسی اسمبلی، جہاں پندرہ لوگ بک جاتے ہوں وہاں پارلیمان کی کیاعزت رہ جاتی ہے، اور پھر ایسا سینیٹ جس کے ووٹ خرید کر کوئی اس کا چیئرمین بن جائے تو اس کے باقی رہنے کا جواز کیا ہے؟لہٰذاہمیں بہتر ین بننے کے لیے سیاست میں بولڈ فیصلوں کی ضرورت ہے، ایسا کرنے کی ضرورت نہیں کہ بقول شبلی فراز ہمیں جہاں تک بھی جانا پڑا جائیں گے، ایسا کرنے سے سیاسی ادارے کمزور ہوں گے اور ملک بحرانی کیفیت سے کبھی نہیں نکل سکے گا۔