”مولاجٹ ٹائپ“ خارجہ پالیسی!

ہماری خارجہ پالیسی کیا ہے؟ اہداف کیا ہیں؟ اور سمت کیا ہے؟ اس بارے میںخاص معلومات دستیاب نہیں مگر ایک بات تو طے ہے کہ ہمارا جھکاو¿ امریکہ کی جانب ہے اور امریکہ کا انڈیا کی جانب۔ ہمارا جھکاﺅ چین کی جانب ہے اور چین سی پیک کے حوالے سے ناراض ہے، ہمارا جھکاﺅ ترکی کی جانب ہے اور ترکی کا جھکاﺅ ایران کی جانب ، اورپھر کبھی ہمارا جھکاﺅ سعودی عرب و متحدہ عرب امارات کی جانب ہوتا ہے تو اُن کا اپنا جھکاﺅ” مفادات“ کی جانب ہو جاتا ہے۔ جبکہ اس ساری صورتحال میں ہم ہماری خارجہ پالیسی ”مولا جٹ ٹائپ “ یعنی ”ایبسولوٹلی ناٹ“ پر اٹکی ہوئی ہے۔یعنی دنیا ففتھ جنریشن وار جیت کر خوشی منا رہی اور سکستھ جنریشن وار فیئر کی تیاری کر رہی اور ہم وہیں ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کر اشک بہانے میں مصروف ہیں۔ وقت اور حالات کہاں لے جائیں گے اس بارے میں خود حکومتی اہلکار بھی پریشان دکھائی دیتے ہیں۔ کمزور معیشت، بظاہر ناکام خارجہ پالیسی اور اندرونی جھگڑے کسی طور حالات کی سنگینی تو سمجھا رہے ہیں مگر نوشتہ دیوار کون پڑھے۔ہم دُنیا سے بھلے بات کریں نہ کریں خود سے تو سوال کر سکتے ہیں۔ ہمیں بحیثیت ریاست خود سے مذاکرات اور بات چیت کی ضرورت ہے۔ حالاکہ ہم اس بات کا ذکر کئی بار کر چکے ہیں کہ پاکستان کو خارجہ پالیسی کے میدان میں ہمیشہ سے حساس اور پیچیدہ مسائل کا سامنا رہا ہے۔ ایک مشکل خطے میں مشکل ترین تنازعات سے نبرد آزما ہونے میں خاص مہارت اور دانشمندی درکار ہوتی ہے۔دوسری طرف خطے میں پاکستان کی پوزیشن اس کے لیے مثبت مواقع بھی فراہم کرتی ہے۔ اب یہ حکومت پر ہوتا ہے کہ وہ خارجہ پالیسی کو کیسے منظم کرتی ہے۔خارجہ پالیسی کا چہرہ اور اکثر محرک وزیر اعظم ہوتا ہے۔ پچھلے تین سال میں وزیر اعظم عمران خان کی خارجہ پالیسی پر اگر کوئی ایک لفظ سامنے آتا ہے تو وہ ہے غیر مستقل مزاجی۔آغاز میں ہماری خارجہ پالیسی کا رُخ قدرے ٹھیک تھا، مگر پھر ہمیں سمجھ آگئی کہ پوری دنیا کی خارجہ پالیسی کا محور صرف اور صرف امریکا یا اُس سے جڑے بین الاقوامی ادارے ہیں۔ لیکن ہم نے تو امریکا ہی کو ”ایبسولوٹلی ناٹ“کہہ دیا ہے تو پھر پیچھے کیا بچتا ہے؟ حکومت نے اپنے دور کے آغاز میں اسلامی ممالک میں اپنا ایک خاص تشخص بنانے کا عزم کیا۔ کئی ممالک کے سربراہ پاکستان بھی آئے خصوصاً سعودی ولی عہد اور وزیراعظم اس کے بعد ترکی، ملائیشیا اور ایران کے دورے پر بھی گئے جہاں بظاہر ان کی بھرپور پذیرائی بھی ہوئی۔ایسے اشارے بھی دیے گئے کہ گویا وزیراعظم عالم اسلام میں کوئی بڑا مفاہمتی کردار ادا کرنے والے ہیں۔ اس مفاہمتی کردار میں تو خاص پیشرفت سامنے نہیں آئی مگر دوروں میں کمی سی آئی گئی ہے۔ پچھلے کچھ عرصے میں وسطی ایشیا میں کثیر فریقی کانفرنس کے علاوہ کوئی دورہ سامنے نہیں آیا اور نہ ہی کسی سربراہ مملکت نے پاکستان کا دورہ کیا ہے۔ جس سے یہ صاف ظاہر ہوا کہ اسلامی ممالک کے ساتھ تعلقات میں وہ گرمجوشی نہیں رہی جو حکومت کے آغاز کے دنوں میں دیکھی جا رہی تھی۔ پھر جب ہم نے بات کی کہ ہم ٹی ٹی پی سے بات چیت کرر ہے ہیں، مذاکرات کر رہے ہیں، صلح کر لیں گے وغیرہ وغیرہ تو امریکا کوشاید یہ بات بھی ہضم نہ ہوئی اور امریکی نائب وزیر خارجہ 7رکنی ٹیم کے ہمراہ پاکستان آگئیں۔ جنہوں نے آتے ہیں کہا ”ہم پاکستان کے ساتھ انسداد دہشت گردی کے حوالے سے مضبوط شراکت چاہتے ہیں اور ہم امید رکھتے ہیں کہ پاکستان بغیر کسی فرق کے تمام عسکریت پسندوں اور دہشت گرد گروپوں کے خلاف کارروائی کرے گا“ امریکی نائب وزیرخارجہ کا یہ بیان ، پاکستان کے حوالے سے امریکہ کے حکمرانوں کی نیت کو واضح کر رہا ہے۔یعنی ہماری مولا جٹ پالیسی کی وجہ سے امریکا کے درمیان خاصی سرد مہری پائی جا رہی ہے، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا امریکہ کے ساتھ تعلقات میں سردمہری ہماری طرف سے قصداََ ہے اور کیا ایسا ہمارے مفاد میں ہے؟ ان دونوں کا جواب شاید نفی میں ہو مگر اس کے ساتھ ساتھ ہماری طرف سے کچھ جذبات اور کچھ جلد بازی پر مبنی اشارے داخلی طور پر تو حکومت کے لیے مقبولیت کا سبب بنے ہیں مگر واشنگٹن ڈی سی میں امریکی سینیٹرز کا ایک بڑا گروہ پاکستان کے بارے میں منفی اقدامات کی تجاویز دے رہا ہے۔ پاکستان کے امریکہ اور اس کے کردار پر اپنے تحفظات ہیں اور بظاہر اس میں دو رائے نہیں کہ امریکہ اپنی ہزیمت کا ایک طرح سے غصہ پاکستان کے طرف مبذول کر رہا ہے مگر اس وقت میں شاید دانش مندی یہ ہو کہ غیر ذمہ دارانہ اور اشتعال انگیز اشاروں کے بجائے نپا تلا رویہ اپنایا جائے۔ ابھی طالبان کی حکومت کے بین الاقوامی مسائل کم ہونے کے بجائے بڑھنے ہیں، ایسے وقت میں مغربی بلاک کے بائیں طرف جانا شاید پاکستان کے مفاد میں نہ ہو چاہے اندرون ملک حکومت کو جتنے بھی واہ واہ ملے۔مغربی طاقتوں کا ایک نمایاں کردار FATFسے متعلقہ پابندیوں سے ہے۔ پاکستان بوجود کوشش اور بھر پور اقدامات کے فیٹف (ایف اے ٹی ایف) سے کلیئر نہیں ہو سکا ہے۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ مناسب سے بھی زیادہ پیشرفت کے باوجود ہمیں مزید آگے کا پلان دے دیا گیا ہے۔ اسی کو نیوزی لینڈ اور انگلینڈ کی ٹیموں کے دوروں کی منسوخی سے ملا کر دیکھیں تو مغربی بلاک کے ساتھ سرد مہری کا اندازہ ہوتا ہے۔ انہی مشکل حالات میں سفارت کاری کا امتحان ہے اور اگر ساری توجہ غصے کے اظہار پر رہی تو صورتحال میں بہتری کی گنجائش کم ہے۔ مغربی بلاک کو بیلینس کرنے کے لیے پاکستان کا مستقل مزاج اور پائیدار حلیف چین کی صورت میں موجود ہے۔ افغانستان میں تو چین اور پاکستان یقینا ایک پیج پر ہیں مگر سی پیک میں پیش رفت کو لے کر چین کی طرف سے تحفظات کے اشارے مل رہے ہیں۔ اس میں کچھ کردار دہشت گرد حملوں کا رہا ہے اور کچھ منصوبوں میں سست رفتاری کا۔ حکومت کی طرف سے تو اس میں ارادے کی حد تک کوئی دو رائے نہیں نظر آئیں مگر عمل درآمد میں بہتری کے گنجائش ضرور ہے۔اور پھر ہم جس منصوبے سے زیادہ اُمیدیں لگا لیتے ہیں، وہی منصوبہ ہمارے لیے درد سر بھی بنا دیا جاتا ہے۔ اور سی پیک کے حوالے سے شاید کسی کو علم نہیں کہ سی پیک معاہدے کے مطابق گوادر بندرگاہ کی آمدن کا 91 فیصد چین کی ملکیت ہے اور بقیہ 9 فیصد پاکستان کے حصے میں آئے گا اور یہ معاہدہ چالیس سال کے لیے ہے۔ چین پاکستان میں سڑکیں بنانے اور بجلی کے منصوبے لگانے میں نسبتاََتیز رفتاری سے کام کر رہا ہے لیکن گوادر بندرگاہ کی تعمیر میں مطلوبہ تیزی دکھائی نہیں دے رہی۔ پاکستانی قوم سمیت پوری دنیا کی نظریں گوادر بندرگاہ پر ہیں لیکن یہ منزل فی الحال دور نظر آتی ہے۔ لیکن ہمیں کسی بڑے منصوبے کے بعد چھوٹے چھوٹے منصوبوں کو بھول جاتے ہیں کیوں کہ حالیہ دنوں میں اس خبر پر نہ تو توجہ دی گئی اور نہ ہی حکومت اسے کیش کروانے میں کامیاب ہو سکی کہ ابھی پچھلے ہفتے اسلام آباد، تہران، استنبول روڈ ٹرانسپورٹ کوریڈور کا افتتاح ہو ا ہے۔ اس منصوبے کی بنیاد 2011ءمیں ترکمانستان میں منعقد ہونے والی اکنامک کارپوریشن آرگنائزیشن ( ای سی او) میں رکھی گئی تھی۔ اس کے تحت ترکی‘ ایران اور پاکستان سے تجارت سڑک کے راستے شروع کی جانا تھی۔ یہ 5320 کلو میٹر کا راستہ ہے۔ 27 ستمبر کو کراچی سے نیشنل لاجسٹکس کمپنی کے ٹرک روانہ ہوئے اور 7 اکتوبر کو بذریعہ ایران استنبول پہنچے جہاں ایک شاندار تقریب منعقد ہوئی۔ ایران، پاکستان اور ترکی کے عہدیداروں کے علاوہ جنیوا سے تعلق رکھنے والے انٹرنیشنل رگبی یونین کے سیکرٹری جنرل نے بھی شرکت کی۔ اس راستے کی اہمیت کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایشیا سے یورپ میں تجارت کے لیے نہر سویز کا راستہ استعمال کیا جاتا ہے۔ مارچ 2021ءمیں نہر سویز بند ہو جانے کے بعد یہ سوال اٹھائے جانے لگے تھے کہ کوئی متبادل اور سستا راستہ بھی تلاش کیا جائے تا کہ ایمرجنسی کی صورت میں دنیا کا نظام رک نہ جائے۔ اس حوالے سے اسرائیل بھی نہر سویز کی طرز پر ایک نئی نہر بنانے کا پرانا منصوبہ سامنے لے کر آیا جس کے لیے عرب ممالک کی حمایت کی ضرورت تھی۔ گو کہ دنیا نے اس منصوبے کی حمایت نہیں کی لیکن ایشیا کو یورپ سے ملانے کے لیے پاکستان، ایران اور ترکی کے راستے کو زیر بحث لایا گیا۔اگرچہ زمینی راستہ سمندری راستے کا متبادل نہیں ہو سکتا لیکن ایمرجنسی صورتحال میں یہ بہترین آپشن کے طور پر ضرور استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس منصوبے کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ترکی یورپ کا حصہ ہے اور پاکستان اس راستے کے ذریعے اپنا سامان سڑک کے ذریعے یورپ بھجوا سکتا ہے۔ اس کی اہمیت صرف پاکستان کے لیے نہیں بلکہ چین بھی اس سے مستفید ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ چین اس وقت دنیا کا سب سے بڑا ایکسپورٹر ہے۔ سی پیک بنانے کا مقصد بھی پاکستان تک رسائی اور یہاں سے یورپ تک سامان کی ترسیل کو کم خرچ میں ممکن بنانا تھا، جو اب زمینی راستے سے بھی ممکن ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ پاکستان چین کے علاوہ ترکی کی دلچسپی بھی بلاوجہ نہیں ہے۔ ترکی چین کے ساتھ دیر پا تجارتی تعلقات قائم کرنے کا خواہاں ہے۔ لیکن حکومت نے اس اس خبر کی تشہیر شاید اس لیے نہیں کی کیوں کہ اس پر سابقہ حکومت کی تختیاں لگنا تھیں، خیر یہ تو ہمارا مجموعی رویہ ہے کہ جس طرح ملکی منصوبے حکومتوں کے ساتھ ہی ختم ہو جاتے ہیں اسی طرح ہر نئی آنے والی حکومتوں کو تمام ممالک کے ساتھ نئے سرے سے تعلقات قائم کرنا پڑتے ہیں، اور دنیا میں ایسا عمل انتہائی جاہلانا ہوتا ہے کہ آپ کبھی اپنی خارجہ پالیسی کو انتہا کا نرم کر لیں اور کبھی مولا جٹ ٹائپ پالیسی اپنا لیں اور گنڈاسا پکڑ کر زبردستی تعلقات ٹھیک کرنے لگ جائیں۔ ایسا کرنے سے آپ امریکا، چین، سعودی عرب یا یورپ سے حالات ٹھیک کرنا تو دور کی بات آپ صومالیہ کو بھی ”لائن“ پر نہیں لا سکتے ۔اس لیے خدارا اندرونی جھگڑوں سے جیسے ہی فراغت پائیں فوری طور پر خارجہ پالیسی پر نظر ثانی کریں اور دنیا کے ساتھ معاملات کا ازسر نو جائزہ لیں! #Kharja policy #Pakistan foreign policy #Talkhiyan #Ali Ahmed Dhillon