امداد کی صحیح تقسیم ہی پی ڈی ایم کو بچا سکتی ہے!

2005ءمیں زلزلہ آیا تو اُس وقت دنیا نے 5ارب ڈالر امداد دی، کینیڈا، امریکا،برطانیہ ، کیوبا، ترکی اور متحدہ عرب امارات کے ڈاکٹرز، انجینئرز اور دیگر ماہرین نے اپنی خدمات سرانجام دیں۔حکومتیں بدل گئیں، سرکاری چہرے بدل گئے، بیوروکریسی بدل گئی مگر زلزلہ زدگان کی بحالی کا کام آج بھی ”زیر تعمیر“ ہے۔ پھر 2010کا سیلاب آیا تو اُس وقت 4.5ارب ڈالر کی بیرونی و اندرونی امداد اکٹھی ہوئی، بہت سے وعدے کیے گئے کہ سیلاب زدگان کی بحالی پہلی ترجیح ہوگی، مگر پھر حکومتیں بدل گئیں، چہرے تبدیل ہوگئے ،بیورو کریسی بھی ادھر اُدھر کر دی گئی اور امداد بھی ہڑپ کر دی گئی۔ اب تادم تحریر ڈیڑھ کھرب روپے کے قریب رقوم آچکی ہیں جن میں ورلڈ بینک نے 82 ارب روپے، اقوام متحدہ نے ساڑھے 35 ارب ، امریکا ساڑھے چھ ارب روپے ، ایشین ڈولپمنٹ بینک ساڑھے پانچ ارب روپے، یو ایس ایڈ 24 کروڑ 42 لاکھ روپے، چین چھ کروڑ 66 لاکھ روپے، چین کے امدادی ادارے چھ کروڑ 66 لاکھ روپے، یورپی یونین نے 30 کروڑ روپے، برطانیہ نے 33 کروڑ 30 لاکھ روپے اور یونیسف، عالمی ادارہ صحت، یونائیٹڈ نیشن پاپولیشن فنڈ نے 66 کروڑ 60 لاکھ روپے وغیرہ شامل ہیں۔ جبکہ اقوام متحدہ مزید رقوم اکٹھی کرنے میں مصروف عمل دکھائی دے رہا ہے۔ بادی النظر میں اگر یہ پیسے واقعی غریبوں پر لگ گئے تو ان کی قسمت و حالت بدل جائے گی لیکن ایسی اُمید ہم رکھتے ہی نہیں! کیوں کہ ہمارا اس حوالے سے ماضی داغدار ہے۔ حد تو یہ ہے کہ یہ ابھی بھی کریڈٹ لینے سے باز نہیں آرہے کہ ہم نے یہ کردیا ہم نے وہ کردیا جیسے، پی ڈی ایم شور مچا رہی ہے کہ دیکھو! بلاول نے کتنا پیسہ اکٹھا کر لیا ہے۔ لہٰذاایک بات یاد رکھیں کہ یہ رقوم ”پاکستان“ کو ملی ہیں، میرے خیال میں یہ سیاسی شعبدہ ان علاقوں میں ہی کام آئے گا جہاں شعوری سطح ابھی اتنی بلند نہیں ہوئی کہ وہ اس واردات کو سمجھ سکے اور جان سکے کہ عالمی برادری جو امداد دے رہی ہے وہ ریاست پاکستان کو دے رہی ہے کسی وزیر خارجہ کے انگریزیائی لہجے سے متاثر ہو کر نہیں دے رہی۔مقبولیت کا اتنا ہی زعم ہے تو ذرا آصف زرداری اور بلاول صاحب مل کر ایک ٹرانسمیشن کر لیں دیکھتے ہیں کتنے لوگ رقم دینے کا وعدہ کرتے ہیں۔ خیریہ الگ بحث ہے جس پر پھر کسی دن بات ہوگی مگر یہ خوش آئند بات ہے کہ دنیا درد دل رکھتے ہوئے پاکستان کی دل کھول کر مدد کررہی ہے، بیرون ملک پاکستانی بھی وطن سے محبت کی خاطر بھرپور مدد کر رہے ہیں، اندرون ملک پاکستانی بھی دل کھول مدد کر رہے ہیں۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم ایک بار پھر بند گلی میں جا رہے ہیں جہاں امداد صرف اشرافیہ کی جیبوں میں چلی جائے گی اور غریبوں کو کچھ نہیں ملے گا؟ اگر ایسا ہے تو دنیا میں ہم سے بڑا حرام کھانے والا نہیں ہے! اور اگر اس سے بچنا ہے تو اسے شفاف بنانے کے لیے سرکار کوفوری طور پر ویب سائیٹ بنانی چاہیے، سوشل میڈیا پیجز بنانے چاہیے یا دیگر ذرائع استعمال کرتے ہوئے عوام کو اس حوالے سے آگاہ کرنا چاہیے کہ کس ملک سے سرکاری سطح پر کتنا پیسہ آیا ہے؟ عوامی سطح پر کتنا پیسہ آیا ہے اور وہاں کی این جی اوز نے کتنا پیسہ بھیجا ہے، تاکہ دنیا میں بیٹھا ہوا ہر شخص اُس ویب سائیٹ، یا ذرائع کو چیک کر سکے کہ اُس کا پیسہ کہاں کہاں اور کتنا استعمال ہو چکا ہے۔ دوسرے ممالک میں جب بھی کوئی آفت آتی ہے۔تو اُس کے لیے حاصل ہونے والی رقم کو حکام اپنے اوپر خرچ کرنا حرام سمجھتے ہیں، اُس کا باقائدہ ریکارڈ مرتب کیا جاتا ہے۔ جاپان میں 2011ءکے زلزلے اور سونامی کو کون بھول سکتا ہے، جس میں 3سو ارب یورو کا نقصان ہوا تھا، حالانکہ جاپان کو امداد کی ضرورت نہیں تھی مگر دنیا جہان سے اُسے امداد اکٹھی ہوئی اور جاپان نے اُس وقت Courtesy میں ایک رپورٹ شائع کی کہ کس ملک، شخصیت، فرم یا ادارے سے اُنہیں کتنے پیسے ملے، اور انہوں نے اسے کہا ں کہاں خرچ کیا۔ تبھی دنیا میں تیسرا سب سے زیادہ کھرا اور سچ بولنے والا ملک ہے، بہترین اکانومی ہے۔ اور اس ملک پر لوگوں کا اعتماد بھی خاصا ہے۔ حتیٰ کہ بھارت میں گزشتہ سال کورونا سے ہوئی ہلاکتوں اور اکانومی کے حوالے سے سخت نقصان کے بعد اُنہیں عالمی امداد حاصل ہوئی جو اُن کی سرکاری ویب سائیٹس پر موجود ہے۔ اور کوئی ملک یا ادارہ اسے چیلنج نہیں کر سکتا کہ کہاں خرچ ہوئی ہے اور کہاں سے آئی ہے۔ لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ یہاں ہمارے رہنما زکوٰة کے پیسے نہیں چھوڑتے یہ تو پھر بھی ڈالرز ہیں، انہی ڈالرز سے وہ اپنے بچوں کی بیرون ملک پڑھائیاں کرواتے ہیں، انہی ڈالرز سے وہ کاروبار کرتے اور منافع کماتے ہیں لیکن مجال ہے کہ شرم ان کے پاس سے بھی گزرتی ہو۔حتیٰ کہ آپ یقین مانیں میرے ایک دوست نے بتایا کہ اُس نے زلزلہ زدگان کے لیے جو ہو سکا سرکار کے ہاتھوں بھجوایا حتیٰ کہ اپنے استعمال کا ایک کمبل بھی بھجوا دیا۔ لیکن چند ماہ بعد وہی کمبل میں نے مارکیٹ میں فروخت کے لیے دستیاب دیکھا! مطلب جس ملک کے کرتا دھرتا کمبل نہیں چھوڑتے وہ ڈالر کیسے چھوڑیں گے؟ لہٰذاضرورت اس امر کی ہے کہ ابھی ہم پہلے مرحلے میں ہیں، جس میں امداد اکٹھی کرنی ہے، اس کے بعد فیصلہ کرنا چاہیے کہ یہ کہاں لگنی چاہیے ، اس کے لیے لائحہ عمل طے کرنا چاہیے کہ سب سے زیادہ کون سے لوگ مستحق ہیں، جنہیں فوری ریلیف دیا جانا ضروری ہے۔ اس حوالے سے جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ حکومت فوری طور پر 2022ءکے زلزلہ زدگان کی بحالی کے لیے ویب سائیٹ لانچ کرے، جہاں ہر قسم کی انفارمیشن ڈالی جائے اور ایک ایک روپے کا حساب وہاں ڈالا جائے تاکہ دینے والے کو بھی علم ہو اور خرچ کرنے والے کو بھی علم ہو کہ اُس کا پیسہ کہاں لگایا جا رہاہے۔ ایسا کرنے سے موجودہ وفاقی حکومت کو سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ وہ اپنی کھوئی ہوئی ساکھ بحال کر سکتے ہیں، وزیر اعظم شہباز شریف جن پر برطانوی اخبار نے 2005کے زلزلہ زدگان کے ملین پاﺅنڈز کھانے کا الزام ہے، اُنہیں بھی سرخرو ہونے اور اپنے اوپر لگے داغ دھونے کا موقع ملے گا۔ میرے خیال میں اگر پی ڈی ایم اس سیلاب فنڈ کو ہی صحیح انداز میں لوگوں تک پہنچا دیتی ہے تو یہی سبب اُنہیں اگلے الیکشن میں جتوانے کا بھی بنے گا ورنہ اگلے الیکشن میں ان کی ضمانتیں بھی ضبط ہو جائیں گی۔ لہٰذاہمیں اس میں کوئی عار نہیں ہونی چاہیے کہ عام آدمی بھی ہمارا ریکارڈ چیک کر سکے۔ چھپانے کا مطلب ہے کہ آپ بے ایمانی کر رہے ہیں ۔ یقین مانیں سیلاب نے سندھ اور بلوچستان میں کم از کم دس لاکھ جانوروں کو دریا برد کردیا ہے۔جو بچ گیا اسے سیلاب کی زد میں آیا مالک چارہ فراہم کر نہیں سکتا۔وہ خود سرکار اور امدادی تنظیموں کی جانب سے فراہم کردہ خوراک کا بے بسی سے منتظر ہے۔بہرکیف میں اس وقت امریکا میں ہوں ، بہت سے اوورسیز پاکستانی عمران خان کو یا تو امداد دے رہے ہیں یا دے چکے ہیں، وہ عمران خان کے علاوہ کسی کو امداد دینے کو تیار ہی نہیں ہیں، اس لیے حکومت سب سے پہلے اپنا اعتماد بحال کرے اُس کے لیے سب سے پہلے ”حساب کتاب“ پبلک کرے تاکہ عام آدمی بھی اپنا حصہ ڈال سکے ورنہ ان غریبوں کی بددعائیں ہم سب کو لے ڈوبیں گی!