فرعون اور اسرائیلی حکمران!

انسانی تاریخ کم و بیش 28لاکھ سال پرانی ہے، لیکن اُس وقت کے انسان کو ”وحشی“ انسان کہا جا تا تھا،جبکہ آج سے تین لاکھ سال پہلے کا انسان (جن میں بہت سی انسانی انواع شامل تھیں) چھوٹے چھوٹے سماجی گروہ بنا کر رہنے لگا جو شکار کر کے اور اشیاءخوردونوش اکٹھی کر کے گزر بسر کرتا تھا۔ ان کے پاس جلانے کے لیے آگ تھی، پتھر کے اوزار تھے ، رہنے کے لیے خیمے اور وہ مردوں کو دفنانے بھی لگے تھے لیکن سب سے زیادہ اہم یہ کہ وہ بولنے کے لیے زبان ایجاد کر چکے تھے، لیکن رہنے کےلئے کوئی قانون وضع نہ کر سکے تھے۔ لگ بھگ پچاس ہزار سال پہلے انسانی ایجادات میں بھاری مقدار میں اضافہ ہوا۔ اوزار اور ہتھیار زیادہ نفیس ہو گئے اور تمدن مزید پیچیدہ ہو گیا ، پھر 10ہزار سال قبل انسان نے باقاعدہ قواعد و ضوابط کے ساتھ رہنا سیکھ لیا تھا، کیوں کہ بغیر کسی ضابطے کے رہنے سے بہت سی خرابیاں پیدا ہو رہی تھیں۔ قوانین بننے شروع ہوئے اور انسان کو رہنے کا ڈھنگ بھی آگیا اور پھر 4ہزار سال قبل کا باقاعدہ لکھا ہوا قانون جو ابھی تک سائنسدانوں نے دریافت کیا ہے جسے حمورابی کا قانون کہا جاتا ہے، یہ قوانین آٹھ فٹ لمبے پتھر کی بارہ سلوں پر کندہ کروائے گئے تھے۔پتھر کی ان سلوں کو 1901 میں فرانسیسی ماہرین نے دوبارہ دریافت کیا ۔ ان قوانین کو اب تک دنیا کا سب سے قدیم قوانین کا مجموعہ سمجھا جاتا ہے۔ یہ تمہید باندھنے کا مقصد آئین کے حوالے سے Celebration کرنا نہیں ہے،بلکہ بتانا ہے کہ قوانین یا ضابطہ اخلاق نے ہی انسان کو ”وحشی“ سے پرامن انسان بنایا ہے،اسی لیے آج ہر ملک کا اپنا آئین ہے، جو ملک آئین کا جتنا پابند ہے وہ اُتنا ہی سکون میں ہے، اور جس ملک میں آئین نہیں ہے، یا آئین پر عمل درآمد نہ ہونے کے برابر ہے وہ ملک جنگل کے قوانین سے بھی بدتر زندگی گزار رہے ہیں۔اوراسی وجہ سے نت نئے تنازعات جنم لے رہے ہیں،،، انہی تنازعات میں سے اس وقت کا سب سے بڑا مسئلہ اسرائیل اور فلسطین کا ہے،،، جن کے درمیان 7اکتوبر سے شروع ہونے والا خون ریز تنازع ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ راقم نے اس تنازعے کے آغاز میں ہی کالم لکھا تھا کہ”فلسطین اسرائیل جنگ: کیا کچھ برا ہونے والا ہے“۔ اور پھر برا تو واقعی ہو چکا ہے،،، فلسطین میں 10ہزار سے زائد بچوں اور خواتین سمیت 15سے 20ہزار افراد شہید ہو چکے ہیں، (یہ وہ اعدادو شمار ہیں جو عالمی سطح پر جاری کیے جا رہے ہیں،،، جبکہ مقامی میڈیا کے مطابق اتنے ہی افراد ملبے تلے دبے ہیں)غزہ کھنڈر بن چکا ہے، اور اسرائیل فوجیں غزہ کے اندر تک آچکی ہیں۔ جبکہ کسی بھی صورت اسرائیل جنگ بندی کی طرف آمادہ نہیں ہو رہا۔ اور دنیا بھر میں جو ملک ، گروہ، شخصیت یا فرد واحد فلسطین کی حمایت کا اعلان کرتا ہے،،، اُس ملک کا عالمی سطح پر یا تو بائیکاٹ کر دیا جاتا ہے، یا اُسے بھی سنگین نتائج کی دھمکیاں دے کر خاموش کروا دیا جاتا ہے۔ رہی بات اقوام متحدہ یا دیگر اداروں کی تو وہ ترلے منتوں پر آئے ہوئے ہیں، جب کہ امریکا دو دفعہ اقوام متحد ہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوترس کو استعفیٰ دینے کے لیے کہہ چکا ہے، جس کے بعد وہ منظر عام سے ہی غائب ہو چکے ہیں۔ جبکہ اُس کے ذیلی ادارے وقتاََ فوقتاََ سہمے سہمے انداز میں چند ایک بیانات داغ دیتے ہیں،،، جیسے اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونائیٹڈ نیشنز ڈیولپمنٹ پروگرام (یو این ڈی پی) نے کہا ہے کہ غزہ میں جاری جنگ کے باعث فلسطینی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہا ہے، اور اگر یہ جنگ رواں سال کے اختتام تک جاری رہی تو 50ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ڈوب سکتی ہے، جبکہ غزہ انسانی ترقی میں 19 سال پیچھے چلا جائے گا۔جبکہ دوسری جانب اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی پراسرار طور پر خاموش ہے،،، اُس میں بڑے بڑے ممالک کے اسرائیل، امریکا، یورپ سمیت مغربی دنیا کے ساتھ مفادات جڑے ہیں۔ اس لیے وہ بھی خاموش ہے،،، جبکہ اسلامی دنیا کی واحد اعلانیہ ایٹمی قوت پاکستان کے نگران وزیرا عظم اسرائیلی حکمرانوں کو فرعون کے ساتھ تشبیہ دے رہے ہیں (فرعون کسی خاص شخص کا نام نہیں ہے بلکہ شاہان مصر کا لقب تھا۔ جس طرح چین کے بادشاہ کو خاقان اور روس کے بادشاہ کو زار اور روم کے بادشاہ کو قیصر اور ایران کے بادشاہ کو کسریٰ کہتے تھے اسی طرح مصر کے بادشاہ کو فرعون کہتے تھے۔)اور وہ بھی امریکا کے بجائے اسلامی ممالک کو مخاطب کر کے گزارش کر رہے ہیں کہ جناب! بس کریں! قصہ مختصر کہ کوئی بھی ٹس سے مس ہونے کو تیار نہیں ہے۔ ہاں البتہ ایک بات ہے کہ اسرائیل نے تھوڑی بہت گنجائش نکالی ضرور ہے ،،،اور وہ گنجائش یہ ہے کہ روزانہ بمباری میں 4گھنٹے کا وفقہ کرنے پر رضامند ضرور ہوا ہے۔۔۔ خیر ان تمام حالات کو دیکھتے ہوئے راقم نے عرض کی تھی کہ حماس سے کہیں نہ کہیں غلطی ضرور ہوئی ہے،،، یہ غلطی اُس کے اپنے لوگوں سے ہوئی ہے یا اُس سے کروائی گئی ہے اس حوالے سے تو بعد میں بحث ہو گی مگر یہاں یہ بات تو ماننا پڑے گی کہ جو بھی ہوا،،، اسرائیل کو نائن الیون کی طرح فلسطین پر چڑھائی کرنے کا بہانہ مل گیا۔ تو سوال یہ ہے کہ کیا حماس کے اس اقدام سے اسرائیل کمزور ہو جائے گا؟ نہیں وہ مزید مضبو ط ہوگا۔۔ بالکل اُسی طرح جس طرح امریکا نائن الیون کے بعد مضبوط ہو اہے۔ نہیں یقین تو آپ خود دیکھ لیں کہ نائن الیون کے بعد آج تک وہاں کوئی دوسرا چھوٹا یا بڑا ”نائن الیون“ نہیں ہو سکا؟ اسے آپ امریکا کی ناکامی کہیں گے یا کامیابی؟ میرے خیال میں امریکہ 20 برس قبل کی نسبت اب زیادہ محفوظ ہے اور اس کی دفاعی اور اہداف کو نشانہ بنانے کی صلاحیتوں میں کئی گنااضافہ ہوا ہے۔امریکا میں میری بیشتر امریکی دوستوں سے بات ہوئی 99فیصد لوگوں نے یہی کہا کہ ہم پہلے سے زیادہ محفوظ ہیں۔اور ویسے بھی محفوظ کیوں نہ ہو؟ آپ اندازہ لگائیں کہ امریکہ کے ملک سے باہر آٹھ سو فوجی اڈے یا ایکٹو انسٹالیشنز ہیں۔ جبکہ امریکہ کے بعد سب سے طاقتور سمجھے جانے والے ممالک برطانیہ، فرانس اور روس کے کل ملا کر صرف تیس بیرون ملک اڈے ہیں۔ اس سے اندازہ لگائیں کہ امریکہ کے فوجی بازو عملی طور پر کتنے لمبے ہیں۔امریکہ کا سالانہ دفاعی بجٹ چھے سو پچاس ارب ڈالر ہوتا ہے۔ جو امریکہ کے بعد سب سے زیادہ دفاعی بجٹ خرچ کرنے والے ممالک چین، روس، برطانیہ، فرانس، جاپان، سعودی عرب، اور بھارت کے مجموعی دفاعی بجٹ سے بھی زیادہ ہے۔ پھر آج کی دنیا میں ائیرکرافٹ کیرئر شپ کو بہت پراثر ہتھیار مانا جاتا ہے۔ امریکا کے پاس دنیا میں سب سے زیادہ گیارہ ائیرکرافٹ کیریئرز ہیں۔ جبکہ روس، برطانیہ، فرانس اور چین میں سے کسی کے پاس بھی دو سے زائد ائرکرافٹ کیرئرز نہیں ہیں۔ امریکہ کا سیاسی اثرورسوخ بھی دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ پورا یورپ امریکہ کے اثر میں اس لیے ہے کہ اسے روس جیسی بڑی طاقت کی جارحیت کے مقابلے کیلئے کسی بڑے اتحادی کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ امریکہ کی شکل میں اسے دستیاب ہے۔ عالمی سیاست میں اہم ترین کردار ادا کرنے والے دنیا کے تین بہت بڑے ادارے اقوام متحدہ، ورلڈ بنک اور نیٹو امریکی فنڈنگ کے بغیر قائم ہی نہیں رہ سکتے۔ کیونکہ ان تینوں اداروں کا سب سے بڑا” ڈونر“ امریکا ہے۔علمی اور تحقیقی طور پر امریکہ اس لیے دنیا بھر سے آگے ہے کہ دنیا کی ٹاپ 20 یونیورسٹیز میں سے سترہ امریکہ میں ہیں۔ سیلی کان ویلی جہاں دنیا بھر کی جدید ٹیکنالوجی جنم لیتی ہے ،امریکی ریاست کیلی فورنیا میں ہے اور یہاں دنیا بھر سے بہترین دماغ کام کی تلاش میں آتے ہیں یا انھیں اچھے پیکیج پر بلا لیا جاتا ہے۔امریکہ میں دنیا کا سب سے زیادہ کوئلہ اور دسویں نمبر پر سب سے زیادہ تیل کے ذخائر بھی ہیں۔ اس کے علاوہ ہالی ووڈ کی پروپیگنڈا پاور اور انگلش زبان کا دنیا بھر میں سمجھا جانا اور ڈالر کا پوری دنیا پر اثر و رسوخ ہونا اور ڈیمانڈ بڑھنا بھی امریکہ کی طاقت میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔تو ایسے کیا یہ کہنا ممکن ہے کہ امریکا ان 20سالوں میں کمزور ہوگیا ہے؟ بقول شاعر شہر میں ہیں اس کے دشمن بہت لگتا ہے آدمی کوئی اچھا ہے معذرت کے ساتھ یہاں امریکا کوئی ”اچھا آدمی“ نہیں ہے، لیکن ! ہمارے ہاں طاقتور افراد کو ”معقول آدمی“ سے ہی تشبیہ دی جاتی ہے۔ بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ امریکہ پولیٹکل سائنس کی ہر تعریف کے مطابق ایک سپرپاور اور طاقتور ”ایمپائر“ ہے۔ ایک سپر پاور ہے۔ اس حیثیت میں یہ ناصرف اپنے ملک کے اندر بلکہ عالمی سطح پر گونا گوں مفادات کا حامل ہے۔ کئی ایک تنازعوں میں ملوث ہے۔ دنیا کے کئی ممالک کے دفاع کی ذمہ داری اس نے اپنے سر لے رکھی ہے۔ اور اس وقت دنیا کے چپے چپے پر اس کے مفادات پھیلے ہوئے ہیں جن کی اس کو حفاظت کرنا پڑتی ہے۔ یہ دنیا کی بڑی معیشت ہے اور اس کے پاس طاقت ور ترین افواج ہیں۔ امریکہ کے موجودہ صدرجو بائیڈن کی کابینہ کے ممبران کی تعداد 16 ہے۔ اس کابینہ میں نائب صدر کملا ہیرس اور 15 ایگزیکٹو محکموں کے سربراہان شامل ہیں۔ ان سولہ لوگوں کی مدد سے جو بائیڈن ناصرف ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے معاملات چلا رہا ہے بلکہ دنیا کے ہر ملک کے اندرونی معاملات سے لے کر خارجہ پالیسی تک کے امور پر اثر انداز ہو رہا ہے۔ بہرکیف معقول آدمی ایسے طاقتور سے پنگالینے سے پہلے دس مرتبہ سوچے گا،،، اور پوری منصوبہ بندی کے ساتھ جنگ کا آغاز کرے گا۔ لیکن اس بار کہیں نہ کہیں ”گیم“ ہوئی ہے،،، لہٰذااس وقت ہمیں ہر صورت اسرائیل و امریکا کی جانب وفود بھیجنے کی ضرورت ہے،،، اس سلسلے میں پاکستان کی آرمی کلیدی کردار ادا کر سکتی ہے،،، وہ یقینا سعودی عرب میں اپنا اثر ورسوخ رکھتی ہے،،، تو ایسے میں سعودی عرب کو قائل کرے کہ وہ دورہ امریکا میں جوبائیڈن سے ملاقات کرے ورنہ ”فرعون“ اسرائیل طاقت کے نشے میں سب کو روندتا چلا جائے گا اور ہم مسلمان ملک صرف شہادت کے نوحے پڑھتے رہیںگے!