امریکا نائن الیون کے بعد مزید کتنا طاقتور ہوا؟

آج نائن الیون (سانحہ نیویارک) کو گزرے 20برس گزر چکے ہیں یعنی دو دہائیاں مکمل ہوگئی ہیں،20سال قبل آج ہی کے دن دنیا بھر میں افراتفری کا عالم تھا، دنیا کی واحد سپر پاور امریکا کے دارلحکومت نیویارک میں ترقی کی علامت سمجھے جانے والے نیویارک کے ماتھے کے جھومر110منزلہ ٹوئن ٹاورز ”ورلڈ ٹریڈ سنٹر“ کو گرایا جا چکا تھا، اس کارروائی میں امریکی ایئرلائن کے 2 مسافر طیارے 18 منٹ کے وقفے سے ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی دونوں عمارتوں سے ٹکرائے گئے۔ان واقعات میں 3 ہزار کے قریب افراد جان سے گئے۔ امریکا نائن الیون کے بعد فوری طور پر فیصلہ کر چکا تھا کہ وہ ”گریٹ امریکا“ کے ساتھ دشمنی کرنے والوں کو نہیں چھوڑے گا، اُس وقت کے امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے چند گھنٹوں میں ہی دہشت گردی کے خلاف جنگ کا عندیہ دیا جس کا آغاز 7 اکتوبر کو افغانستان میں ”آپریشن اینڈیورنگ فریڈم“ کے نام سے کیا گیا۔ ویسے تو اس سانحہ عظیم پر ہر سال لکھتا ہوں ، لیکن اس بار اتفاقیہ طور پر امریکا میں موجود ہونے کی وجہ سے ان دعائیہ تقریبات کو قریب سے دیکھ رہا ہوں جو اس بڑے سانحے کے بعد وہاں ہر سال منعقد ہوتی ہیں، ان دعائیہ تقریبات میں صرف مرنے والوں کی یادیں تازہ نہیں کی جاتیں بلکہ سرکاری و نجی سطح پربلکہ ہر سطح یعنی سکول و کالج سے لے کر آرمی ہیڈ کوارٹر پینٹا گون تک ایک نئے عزم و ہمت کو جوان کرنے اور ایسے سانحات کی روک تھام کے لیے عملی اقدامات اُٹھانے کی مربوط منصوبہ بندی بنائی جاتی ہے اور میرے خیال میں امریکا میں یہ سلسلہ تاقیامت جاری رہے گا۔ جبکہ اس کے برعکس ہمارے ہاں گزشتہ 74سال تو چھوڑیںصرف حالیہ 20سالوں میں ان گنت نائن الیون ہو چکے ہیں مگر مجال ہے کہ اُن سانحات کو یاد کرنے کی تقریبات تو دور کی بات ہمیں اُن کی تاریخیں بھی صحیح طرح سے یاد نہیں ہیں، حالانکہ امریکا نے ان 20سالوں میں جہاں جہاں غلطیاں کیں، انہیں بھی تسلیم کیا کہ ہاں امریکا فلاں جگہ پر غلط تھا، جیسے اس نے دنیا سے معافی مانگی کہ عراق میں کیمیائی ہتھیاروں کی وجہ سے جو جنگ چھیڑی گئی وہاں سے اُسے کوئی کیمیائی ہتھیار نہیں ملے۔ پھر اُس کے ساتھ اُس نے یہ بھی تسلیم کیا کہ نائن الیون کا واقعہ سراسر انٹیلی جنس ناکامی تھی وغیرہ ۔ لیکن ہم آج تک یہ فیصلہ نہیں کر سکے کہ 1971ءکی جنگ ہارنے میں قصور کس کا تھا، یعنی سقوط ڈھاکہ کا اصل ذمہ دار کون ہے؟ ہم آج تک فیصلہ نہیں کر سکے کہ کارگل جنگ میں ہماری غلطی تھی یا نہیں، یا کس کی غلطی تھی؟ ہم آج تک یہ فیصلہ نہیں کر پائے کہ رکوڈک سمیت دنیا بھر سے باہر تمام کیسز ہارنے میں کس کی غلطی ہے؟ ہم آج تک یہ فیصلہ نہیں کر پائے کہ کون غدار تھا اور کون محب وطن، ہم آج تک یہ فیصلہ نہیں کر پائے کہ بھٹو کی پھانسی کے اصل محرکات کیا تھے؟ ہم نے آج تک یہ تسلیم نہیں کیا کہ مشرف نے غلط مارشل لاءلگایا یا صحیح ۔ الغرض ہمیں اپنا احتساب کرنے کی عادت ہی نہیں ہے، دنیا اپنا احتساب کرکے سپر پاور ، اکانومی پاور، سٹریٹجیکل پاور یا ٹیکنالوجی پاور بن گئیں مگر ہم آج بھی وہیں کے وہیں ایک دوسرے کی جانب انگلیاں کرکے کھڑے اور اچھے وقت کا انتظار کر رہے ہیں! خیر آپ کو امریکا سے لاکھ اختلاف سہی مگر یہ حقیقت کیسے جھٹلا سکتے ہیں کہ نائن الیون کے بعد آج تک وہاں کوئی دوسرا چھوٹا یا بڑا ”نائن الیون“ نہیں ہو سکا؟ اسے آپ امریکا کی ناکامی کہیں گے یا کامیابی؟ میرے خیال میں امریکہ 20 برس قبل کی نسبت اب زیادہ محفوظ ہے اور اس کی دفاعی اور اہداف کو نشانہ بنانے کی صلاحیتوں میں کئی گنااضافہ ہوا ہے۔امریکا میں میری بیشتر امریکیوں سے بات ہوئی 99فیصد لوگوں نے یہی کہا کہ ہم پہلے سے زیادہ محفوظ ہیں۔اور ویسے بھی محفوظ کیوں نہ ہو؟ آپ اندازہ لگائیں کہ امریکہ کے ملک سے باہر آٹھ سو فوجی اڈے یا ایکٹو انسٹالیشنز ہیں۔ جبکہ امریکہ کے بعد سب سے طاقتور سمجھے جانے والے ممالک برطانیہ، فرانس اور روس کے کل ملا کر صرف تیس بیرون ملک اڈے ہیں۔ اس سے اندازہ لگائیں کہ امریکہ کے فوجی بازو عملی طور پر کتنے لمبے ہیں۔امریکہ کا سالانہ دفاعی بجٹ چھے سو پچاس ارب ڈالر ہوتا ہے۔ جو امریکہ کے بعد سب سے زیادہ دفاعی بجٹ خرچ کرنے والے ممالک چین، روس، برطانیہ، فرانس، جاپان، سعودی عرب، اور بھارت کے مجموعی دفاعی بجٹ سے بھی زیادہ ہے۔ پھر آج کی دنیا میں ائرکرافٹ کیرئر شپ کو بہت پراثر ہتھیار مانا جاتا ہے۔ امریکا کے پاس دنیا میں سب سے زیادہ گیارہ ائرکرافٹ کیریئرز ہیں۔ جبکہ روس، برطانیہ، فرانس اور چین میں سے کسی کے پاس بھی دو سے زائد ائرکرافٹ کیرئرز نہیں ہیں۔ امریکہ کا سیاسی اثرورسوخ بھی دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ پورا یورپ امریکہ کے اثر میں اس لیے ہے کہ اسے روس جیسی بڑی طاقت کی جارحیت کے مقابلے کیلئے کسی بڑے اتحادی کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ امریکہ کی شکل میں اسے دستیاب ہے۔ عالمی سیاست میں اہم ترین کردار ادا کرنے والے دنیا کے تین بہت بڑے ادارے اقوام متحدہ، ورلڈ بنک اور نیٹو امریکی فنڈنگ کے بغیر قائم ہی نہیں رہ سکتے۔ کیونکہ ان تینوں اداروں کا سب سے بڑا” ڈونر“ امریکا ہے۔علمی اور تحقیقی طور پر امریکہ اس لیے دنیا بھر سے آگے ہے کہ دنیا کی ٹاپ 20 یونیورسٹیز میں سے سترہ امریکہ میں ہیں۔ سیلی کان ویلی جہاں دنیا بھر کی جدید ٹکنالوجی جنم لیتی ہے امریکی ریاست کیلی فورنیا میں ہے اور یہاں دنیا بھر سے بہترین دماغ کام کی تلاش میں آتے ہیں یا انھیں اچھے پیکیج پر بلا لیا جاتا ہے۔امریکہ میں دنیا کا سب سے زیادہ کوئلہ اور دسویں نمبر پر سب سے زیادہ تیل کے ذخائر بھی ہیں۔ اس کے علاوہ ہالی ووڈ کی پروپیگنڈا پاور اور انگلش زبان کا دنیا بھر میں سمجھا جانا اور ڈالر کا پوری دنیا پر اثر و رسوخ ہونا اور ڈیمانڈ بڑھنا بھی امریکہ کی طاقت میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔تو ایسے کیا یہ کہنا ممکن ہے کہ امریکا ان 20سالوں میں کمزور ہوگیا ہے؟ بقول شاعر شہر میں ہیں اس کے دشمن بہت لگتا ہے آدمی کوئی اچھا ہے معذرت کے ساتھ یہاں امریکا کوئی ”اچھا آدمی“ نہیں ہے، لیکن ! ہمارے ہاں طاقتور افراد کو ”معقول آدمی“ سے ہی تشبیہ دی جاتی ہے اس لیے راقم کو بھی امریکا فی الوقت بہتر آدمی لگ رہا ہے۔ اور طاقتور آدمی کی اگر اچھی باتوں کو نوٹس کیا جائے تو میرے خیال میں اُس میں بہت سی ایسی باتیں ہوتی ہیں جو اُسے دوسروں سے ممتاز رکھتی ہیں، یہی حال امریکا کا ہے۔ آج سے 5سو سال قبل جب کولمبس نے امریکا کو دریافت کیا تھا تو کسی کے علم میں بھی نہیں تھا کہ ”ملاح“ کا دریافت کر دہ امریکا دنیا کے تمام ممالک کو آگے لگا کر رکھے گا۔ اگر آپ امریکی تاریخ کا مطالعہ کریں تو سولہویں اور سترہویں صدی میں برطانوی، یورپی اور دیگر اقوام نے یہاں آکر بسیر کرنا شروع کیا، پھر 1775ءمیں برطانیہ امریکا جنگ ہوئی جس نے تمام ریاستوں کو یکجا کر دیا، اس جنگ میں 8سال بعد برطانیہ کو شکست ہوئی، اور پھر برطانیہ نے امریکا کو ایک آزاد ملک تسلیم کر لیا اور 1787ءمیں جارج واشنگٹن متحدہ امریکا کے پہلے صدر منتخب ہوئے۔ یہاں مزے کی بات یہ ہے کہ جارج واشنگٹن سپہ سالار تھے، وہ چاہتے تو تادم مرگ امریکی صدر رہتے، کیوں کہ امریکی عوام بھی یہی چاہتے تھے، لیکن وہ جمہوری طریقے سے منتخب ہوئے۔ 4، 4سال کے دو جمہوری ادوار پورے کیے اور واشنگٹن سے 200کلومیٹر دور اپنے علاقے میں شعبہ زراعت سے منسلک ہوگئے اور ملک کو جمہوری انداز میں نو منتخب عہدیداروں کے سپرد کردیا۔ حیرت کی بات ہے کہ امریکا میںاُس وقت بھی ریاستوں کی خود مختاری کا احترام کیا جاتا تھا، جبکہ آج بھی وہاں صوبائی خودمختاری کا بے حد احترام کیا جاتا ہے، وہاں ہر ریاست کے اصول، قوانین اور قواعد و ضوابط مختلف ہیں۔ بے شمار امریکی ریاستیںفلاحی ہیں، جبکہ کچھ ریاستیں بہت مہنگی بھی ہیں، مثلاََ نیویارک میں تیل بہت مہنگا جبکہ نیو جرسی میں بہت سستا ہے۔اور پھر کئی ریاستیں ٹیکس فری ہیں، جہاں شاپنگ کے لیے کینیڈا تک سے لوگ آتے ہیں۔ لیکن ہر ریاست کے قوانین سخت ترین ہیں، اتنے سخت کہ گزشتہ مہینے نیویارک کے گورنر63 سالہ اینڈریو کومو کو جنسی ہراسمنٹ کیس اپنے عہدے سے الگ ہونا پڑا۔ اتنے سخت کہ بل کلنٹن کو جنسی ہراسمنٹ کیس میں کئی سال تک دوران صدارت کیسز کا سامنا کرنا پڑا اور بالآخر انہوں نے قوم اور اپنی بیوی سے معافی مانگی تب اُن کی جان چھوٹی۔ اتنے سخت کہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنے اوپر دائر کیسز کی وجہ سے نیویارک کا سفر نہیں کرتے کہ کہیں وہ گرفتار نہ کر لیے جائیں۔ بہرکیف یہ زمینی حقائق ہیں، جن سے ہم نظریں نہیں چرا سکتے! کہ امریکا نے نائن الیون کے بعد دنیا کو بتا دیا ہے کہ مجھے نہیں چھیڑنا۔ ورنہ کوئی اور قوم ہوتی تو کب کی تتر بتر ہو چکی ہوتی۔ اندرونی لڑائیوں کا شکار ہوچکی ہوتی، مگر وہاں ایسی کوئی چیز ہم نے نہیں دیکھی۔ حالانکہ جیسے میں پہلے عرض کر چکا ہوں کہ امریکا میں کوئی برطانوی ہے، کوئی کینیڈین ہے، کوئی انڈین ہے، کوئی نیپالی ہے، کوئی جاپانی ہے، کوئی چینی ہے تو کوئی جرمن ہے۔لیکن پھر بھی جو اُس ملک کا شہری بن جاتا ہے وہ پھر اُسی ملک کا ہی ہو کر رہ جاتا ہے، اُسی ملک کی وفاداری کی قسمیں کھاتا ہے، اُسی ملک کے ساتھ مخلص ہو جاتا ہے، اس کے علاوہ سب سے اہم بات یہ ہے کہ جو لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ افغان جنگ کے بعد امریکا کنگال ہو گیا ہے، یا اُس کی طاقت میں کمی آئی ہے تو ایسا کچھ بھی نہیں ہے، نا تو وہ کنگال ہوا ہے اور نہ ہی اُس کی طاقت میں کہیں کمی واقعہ ہوئی ہے۔ حالانکہ افغان جنگ نے روس کو کنگال کر دیا تھا، لیکن امریکی ڈالر آج پوری دنیا میں چھایا ہوا ہے، اور اگلے 50، 60سال تک چھایا رہے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ امریکا کی ایک خوبی یہ ہے کہ وہ اپنے دوستوں کو ساتھ لے کر چلتا ہے، جیسے فرانس، جرمنی، برطانیہ بلکہ پورا یورپ اُس کے فیصلوں پر لبیک کہتا ہے، جبکہ اس کے برعکس چین یا روس کے ساتھ کوئی دوسرا ملک کھڑا نہیں ہوتا، اگر کوئی یہ کہے کہ چین کے ساتھ ترکی یا روس یا کوئی دوسرا ملک کھڑا ہوگا تو ایسا کچھ بھی نہیں ہوگا، آپ یہیں سے اندازہ لگالیں کہ اس وقت دنیا کی 20بڑی معاشی طاقتوں میں سے 90فیصد امریکا کے ساتھ ہیں، اس لیے ہمیں وہ وجوہات تلاش کرنی چاہیےئںجن کی وجہ سے کوئی ملک سپر پاور بنتا ہے، نہ کہ زمینی حقائق کو نظر انداز کرکے دیوانے کے خواب دیکھنے چاہیئں کہ نائن الیون کے بعد امریکا کے بجائے پاکستان سپرپاور بن جائے گا! ہاں ہمارا وطن ضرور سپر پاور بن سکتا ہے، مگر اُس کے لیے سب کو جارج واشنگٹن بننا پڑے گا! #9 11 USA #Ali Ahmed Dhillon #Talkhiyan