پرویز الٰہی ایک بار پھر،،،!

ملکی سیاست ایک بار پھر دوراہے پر کھڑی ہے، مرکزی حکومت اقتدار کو طول دینے کے لیے الیکشن ایک سال یا چھ ماہ تک موخر کروانا چاہتی ہے،جبکہ ایک بڑی سیاسی پارٹی (تحریک انصاف) قومی و صوبائی اسمبلیوں سے نکل کر جنرل الیکشن کی طرف جانا چاہتی ہے، اور دیگر چھوٹی سیاسی پارٹیاں بھی جنرل الیکشن کو دیکھ رہی ہیں تاکہ اُنہیں بھی سرکار میں مناسب جگہ مل سکے۔ اس حوالے سے 26نومبر کی شام راولپنڈی میں لانگ مارچ کے شرکاءسے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ انہوں نے تمام اسمبلیوں سے نکلنے کا فیصلہ کیا ہے: ”ہم بجائے اپنے ملک میں توڑ پھوڑ کریں، بجائے اپنے ملک میں تباہی کے، اس سے بہتر ہے کہ ہم اس کرپٹ نظام سے باہر نکلیں اور اس سسٹم کا حصہ نہ بنیں، جدھر یہ چور بیٹھ کر ہر روز اپنے اربوں روپے کے کیسز معاف کروا رہے ہیں۔“ یعنی پنجاب اور خیبر پختونخوا کی صوبائی اسمبلیاں تحلیل کر دی جائیں گی جبکہ سندھ اور بلوچستان کی اسمبلیوں سے پی ٹی آئی ارکان مستعفی ہو جائیں گے۔ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کی اسمبلیاں برقرار رکھی جائیں گی۔ مذکورہ اعلان کے بعد چوہدری برادران خاص طور پر چوہدری پرویز الٰہی اور مونس الٰہی کا ”وقت“ شروع ہوتا ہے!ایک بار پھر تمام نگاہیں ان کی طرف ہیں، ایک طرف چوہدری جو اس وقت پنجاب میں برسراقتدارہیں عمران خان کے ”حکم“ کو سر آنکھوں پر سجائے بیٹھے ہیں جبکہ دوسری جانب وہ مفاہمت کی سیاست کو بھی آگے بڑھا رہے ہیں۔ تبھی انہوں نے خان صاحب کے اعلان پر لبیک کہتے ہوئے کہا تھا کہ جس دن عمران خان نے کہا اسی وقت اگلے ہی لمحے پنجاب اسمبلی توڑ دی جائے گی۔اس حوالے سے وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز اور عمران خان کے درمیان اکا دکا ملاقاتیں بھی ہوئیں لیکن اس حوالے سے کوئی حتمی ٹائم فریم نہیں دیا گیا۔ اب اگرکوئی لاکھ کہے کہ پرویز الٰہی اور عمران خان کے تعلقات 100فیصد ہیں، تو یہ غلط ہے کیوں کہ 20، 30فیصد تعلقات تو اُسی وقت خراب ہوگئے تھے جب گزشتہ ماہ تحریک انصاف کو مرضی کی ایف آئی آر کٹوانے میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تھا، جبکہ راقم کی اس حوالے سے پی ٹی آئی کے چند عہدیداروں سے بات ہوئی تو انہوں نے برملا کہا تھا کہ اُنہیں ایسی صوبائی حکومت رکھنے کا کیا فائدہ جس میں اُن کے پاس کوئی اختیار ہی نہ ہو۔ ان کے بقول اپنے صوبے میں اپنی حکومت اور اپنی پولیس کے ہوتے ہوئے وہ عمران خان پر حملے کی اپنی مرضی سے ایف آئی آر تک درج نہیں کروا سکے۔خیر اس حوالے سے کوئی مانے یا نا مانے پرویز الٰہی نے ”سیانا“ کردار ادا کیا تھا۔ کیوں کہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ تحریک انصاف کی مرضی کے مطابق ایف آئی آرکاٹنے سے پولیس کو کسی نئے امتحان سے گزرنا پڑے۔ اس حوالے سے وہ تحریک انصاف اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان پل کا کردار ادا کرتے رہے، اور کوشش کی کہ عمران خان کے تعلقات دیگر اداروں کے ساتھ بحال ہو جائیں۔انہوں نے اس حوالے سے عمران خان کو بھی سمجھایا کہ ایسا کرنے سے تحریک انصاف مزید بحران کا شکا رہو سکتی ہے۔ اور آج بھی میری ناقص اطلاعات کے مطابق پرویز الٰہی اندر کھاتے عمران خان کو سمجھا رہے ہیں کہ اسمبلیوں سے ”خفائ“ ہونا درست عمل نہیں ہے۔ اُن کے مطابق عمران خان کی طرف سے اسمبلیوں کی تحلیل کے فیصلے نے ملکی سیاست کو بند گلی میں پہنچا دیا ہے اور اس سے ملک میں پہلے سے موجود سیاسی عدم استحکام اور غیریقینی کی صورتحال میں اضافہ ہو گا۔جبکہ اس میںپرویز الٰہی کے فرزند مونس الٰہی بھی پیش پیش نظر آرہے ہیں، اُنہوں نے ایک حالیہ انٹرویو میں سابق آرمی چیف کے خلاف کی جانے والی پراپیگنڈہ مہم کا توڑ نکالتے ہوئے یہ کہا ہے کہ عمران خان کے خلاف کسی نے ڈبل گیم نہیں کی بلکہ سابق آرمی چیف نے چاہتے نہ چاہتے ہوئے بھی تحریک انصاف کو سپورٹ کرنے کے لیے کہا۔ اس لیے اُن کے خلاف جو مہم چلائی جا رہی ہے وہ درست نہیں ہے۔ جبکہ اس کی تصدیق پرویز الٰہی نے بھی کی ہے اور کہا ہے کہ اداروں سے مشاورت ہوئی اور’ہمیں بتایا گیا کہ (عمران خان کے ساتھ جانا) عزت کا راستہ ہے۔‘ لہٰذاپرویز الٰہی نے ایک بار پھر ثابت کیا ہے کہ وہ دوستوں کے دوست ہیں، اور دشمن کے لیے بہترین مقابلہ کرنے والے ہیںتبھی انہوں نے وفاق کو بھی ٹف ٹائم دے رکھا ہے۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے ماضی میں وفاقی حکومت پر تخت لاہور کے ذریعے ”چیک“ رکھنے کا سلسلہ محمد خان جونیجو کے دور میں تھا۔ نواز شریف اس مقصد کے حصول کے لئے جنرل ضیاءکی فضائی حادثے میں رحلت کے بعد بھی 1990سے 1993تک بہت کارآمد ثابت ہوئے۔ اپریل 1993میں انہوں نے ”خودمختار“ ہونے کی جرا¿ت دکھائی تو نئے انتخابات لازمی ہوگئے۔محترمہ بے نظیر بھٹو ان کی بدولت وزیر اعظم کے منصب پر لوٹ آئیں۔پنجاب مگر ان کے حوالے نہ ہوا۔میاں منظور وٹو نے وہی کردار ادا کرنا شروع کردیا جو پرویز الٰہی کو اپریل 2022میں سپرد ہوا تھا۔میرا خیال ہے کہ مونس الٰہی اور پھر پرویز الٰہی کا ”تازہ ترین انکشاف“ مقتدر حلقوں کو یہ پیغام دینے کی کوشش ہے کہ بالآخر وفاق میں جو بھی اقتدار میں آئے،عمران خان صاحب ہوں یا ان کے مخالف ،اسلام آباد کو لاہور کے ذریعے قابو میں رکھنا ہے تو انہیں گجرات کے چودھریوں کی ضرورت رہے گی۔ لہٰذاحالات یہ ہیں کہ کوئی مانے یا نا مانے مگر چوہدری ایک بار پھر پنجاب کے اُفق پر اپنے آپ کو منوانے میں کامیاب ہو ئے ہیں۔ آپ خود دیکھ لیں کہ بزدار حکومت اور پھر حمزہ شہباز کی چند ماہ پر محیط حکومت کے بعد جب سے چوہدری بردران نے پنجاب میں عمران خان کے توسط سے حکومت قائم کی ہے تب سے نا تو بار بار پولیس میں چھیڑ چھاڑ کی گئی ہے، نا ہی بیوروکریسی کے ساتھ کوئی ناروا سلوک ہوا ہے اور نہ ہی افراتفری کا عالم ہے۔ بلکہ جب سے چوہدری پنجاب میں آئے ہیں تب سے بہتر کام ہو رہے ہیں ۔ بادی النظر میں اگر اُن سے پہلے استفادہ کر لیا جاتا تو حالات شاید بہتر سے بہتر ہوتے ۔ کیوں کہ اس وقت پنجاب بلکہ پورے پاکستان کے عوام بے روزگاری، مہنگائی اور غربت میں کمی چاہتے ہیں اور ان مسائل کے حل کے لیے پرویز الٰہی کے پاس بہت زیادہ آپشنز نہیں ہیں،ایسی صورت میں دونوں اتحادی پارٹیوں میں اختلافات پیدا نہ ہونے دینا بھی پرویز الٰہی کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔اب پرویز الٰہی کو اپنی کارکردگی سے عوام کے مسائل میں کمی کے لیے ڈلیور کرنا ہو گا، ان کے لیے یہ بھی ایک چیلنج سے کم نہیں ہو گا۔یہ سب چیلنجز ایک طرف مگر اس وقت اُمید یہی کی جا سکتی ہے کہ چوہدری پرویز الٰہی اپنے تجربے کی بل بوتے پر ان بحرانوں سے نکل رہے ہیں اوروہ سب کو ساتھ لے کر چلنا جانتے ہیں۔ بہرکیف میں آج پھر یہی کہوں گا کہ عمران خان چوہدری پرویز الٰہی کی زیرک اور کائیاں سیاست سے سیکھیں اور ق لیگ کو تحریک انصاف میں ضم کرنے کی کوششوں کو آگے بڑھائیں۔ ورنہ اُنہیں پیپلزپارٹی اور ن لیگ کے تیز ترین سیاستدان کہیں کا نہیں چھوڑیں گے۔ کیوں کہ میرے خیال میں اس وقت جو بحران چل رہے ہیں اگر یہ دونوں پارٹیاں ایک ہوگئیں تو عوام کو بحرانوں سے نکال سکتی ہیں، اور پھر یہ بات تمام حلقے جانتے ہیں کہ تحریک انصاف میں جوش ہے، جذبہ ہے، قیادت ہے، نظریاتی جماعت ہے، موروثی جماعت نہیں، اس جماعت میں پارٹی ڈسپلن ہے، ایسا ہر گز نہیں ہے اس جماعت میں باپ کے بعد بیٹا آئے گا، یا کوئی بھتیجا آئے گا۔ یا خاندان ہی پارٹی کو چلائے گا۔ بلکہ اس کے برعکس یہاں جو محنت کرے گا وہ آگے بڑھ جائے گا۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے بھارتی حکمران پارٹی بی جے پی میں ہے، امریکا کی ڈیموکریٹک اور ری پبلکن میں ہے، برطانیہ کی یوننسٹ پارٹی میں ہے۔ یقین مانیں ہمارا تحریک انصاف کو شروع سے سپورٹ کرنے کا مقصد بھی یہی ہے کہ یہ موروثی پارٹی نہیں ہے۔ اس جماعت میں اعتزاز احسن بلاول کے سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑا نہیں ہوتا، نہ ہی قمرالزمان کائرہ ، نوید قمر جیسے لوگوں کو بلاول کی خوش آمد نہیں کرنی پڑتی ۔ یاپھر خواجہ آصف اور احسن اقبال کو مریم نواز کے سامنے باادب کھڑا ہونا پڑتاہے، بلکہ اس کے برعکس اس جماعت میں جو آﺅٹ پٹ دے گا، پرفارم کرے گا، محنت کرے گا وہ آگے بڑھے گا۔ لہٰذاپرویز الٰہی، یا پھر مونس الٰہی جن کے سامنے ابھی پوری سیاست پڑی ہے، وہ آگے بڑھیں اور تحریک انصاف میں ضم ہوں اور عوا م کی خدمت کریں۔ اُس کے بعد اپوزیشن کو بھی ساتھ ملائیں، تصادم سے بچیں، اس سے سیاسی تناﺅ میں کمی آئے گی۔ اور اگر وہ ایسا کرنے میں کامیاب ہو گئے تو پھر ان کے لیے ڈلیور کرنا کچھ آسان ہو سکتا ہے۔ ویسے بھی نئی پود کے جتنے بھی سیاستدان آئے ہیں، مونس الٰہی ان سب سے میں سے زیادہ ذمہ دار، تیز اور ذہین ہیں۔ اُنہیں زمینی حقائق کے بار ے میں اپنے دور کے سیاستدانوں سے زیادہ علم ہے۔ وہ ہر ایک کو دستیاب ہے، جبکہ اس کے برعکس حمزہ شہباز، مریم نواز اور بلاول عام طور پر دستیاب ہی نہیں ہوتے۔ چودھری مونس الٰہی نے ثابت کیا ہے کہ ان کی آنے والے حالات پر گہری نظر تھی اور ان کا فیصلہ درست تھا۔ آج پنجاب کے اکثر معاملات میں ان کی مشاورت نظر آتی ہے۔ اگر مسلم لیگ ن کاساتھ دیا ہوتا تو وہ چودھری پرویز الٰہی اور مونس الٰہی کو کبھی قبول نہ کرتے۔ جو پنجاب میں فری ہینڈ تحریک انصاف نے چودھری پرویز الٰہی کو دیا ہوا ہے ن لیگ کبھی نہ دیتی۔مونس الٰہی کا جو سیاسی قد کاٹھ تحریک انصاف کے ساتھ کھڑے ہونے سے بنا ہے وہ شاید کئی دہائیوں کی جدوجہد کے بعد بھی حاصل نہ کر پاتے۔ چودھری مونس الٰہی پنجاب کی سیاست کے بڑے کھلاڑی کے طور پر اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ دوسری جانب اگر دیکھا جائے تو چودھری پرویز الٰہی نے پنجاب کا اقتدار سنبھالتے ہی ڈگمگاتی سیاست اور لڑکھڑاتے انتظامی معاملات کو مستحکم کیا آج پنجاب میں مسلم لیگ اس طرح خاموش دکھائی دے رہی ہے جیسے اسے سانپ سونگھ گیا ہو۔ جن لوگوں نے پنجاب حکومت کو ٹف ٹائم دینا تھا وہ اپنی گرفتاریوں سے بچتے پھرتے ہیں عدالتوں سے اپنی ضمانتیں کرواتے دکھائی دیتے ہیں۔