محترم وزیر اعظم عمل کرکے دکھائیں!

تاریخ میں ایسے وزرائے اعظم بہت کم دیکھنے کو ملے ہیں جو اپنی غلطیوں کو اعتراف کرتے ہیں، بلکہ یہ ”خوبی“ تو مغربی ممالک کے حکمرانوں میں پائی جاتی ہے کہ وہ بسا اوقات اپنی غلطیوں کا اعتراف کرتے نظر آتے ہیں، جیسے امریکا نے عراق پر جنگ مسلط کرنے کے حوالے سے تاریخ کی بڑی غلطی کا اعتراف کیا۔ صدر اوباما نے لیبیا میں کرنل قذافی کو معزول کرنے کی غلطی کا اعتراف کیا۔پھر برطانیہ میں 6برس کے دوران 4وزرائے اعظم اپنی غلطیوں کا اعتراف کرکے گھروں کو جا چکے ہیں، پھر جرمن چانسلر انجیلا مرکل نے کورونا کے حوالے سے ہوئی غفلت پر سنگین غلطیوں کا اعتراف کیا۔ پھر سابق انڈونیشن صدر میگاوتی اپنے عہدے سے اس لیے مستعفی ہوگئیں کہ وہ صحیح طرح ڈلیور نہیں کر پار رہی تھیں۔ جبکہ حال ہی میں ہمارے وزیر اعظم شہباز شریف نے ایک اعتراف کیا ہے کہ وطن عزیز میں 60ہزار میگاواٹ بجلی نہ بنانے کے ذمہ دار ہم سب ہیں،اگر ہم نے ڈیمز کی تعمیر پر توجہ دی ہوتی توآج پاکستان بڑے نقصان سے بچ جاتا، کون سے عناصر تھے جنہوں نے ہمیں پن بجلی ،ونڈ پاور اورشمسی توانائی منصوبوں پر کام سے روکا۔اب جی چاہتا ہے کہ خوب روئیں اور اتنا روئیں کہ ہمیں بنانے والے کو بھی ہم پر ترس آجائے۔ کیوں کہ گزشتہ 35سال سے تو یہی لوگ برسر اقتدار رہے ہیں اور پھر یہ بات کیسے کہہ سکتے ہیں کہ اُنہیں کسی نے روکا ہوا تھابقول شاعر آپ ہی اپنی اداو¿ں پہ ذرا غور کریں ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہوگی حیرت اس بات کی ہے کہ ان تین چار دہائیوں میں سب سے طاقتور حکومت بھی ن لیگ ہی کے حصے میں 1997ءمیں آئی تھی جب اسے دو تہائی اکثریت حاصل ہوئی تھی۔ یہ حکومت بھٹو کے بعد سب سے مضبوط حکومت تھی۔ یہ اتنی مضبوط حکومت تھی کہ اُس وقت کے وزیر اعظم میاں نوازشریف نے آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت سے بھی استعفیٰ لے لیا تھا۔ یہ ”کارنامہ “ آج تک کوئی سیاستدان نہیں دکھا سکا تھا۔ حالانکہ یہ اُن کی بڑی سیاسی غلطی تھی جو اُنہیں پرویز مشرف کی ایمرجنسی کی صورت میں اور اپنی حکومت کے خاتمے کی شکل میں ملی ۔ لیکن وہ آج بھی اسے اپنا ایک بڑا کارنامہ ہی بتاتے اور گردانتے ہیں۔ لہٰذااگر اُس وقت نوازشریف بقول اُن کے اتنا بڑا اقدام کر سکتے تھے تو ڈیم بنانے کے لیے انہوں نے اپنے اختیارات کو استعمال کیوں نہ کیا؟ اس پر کیوں نہ قومی سطح پر کوئی کمیٹی قائم کی گئی، کیوں نہ کوئی اس حوالے سے تھنک ٹینک بنایا گیا کہ کالاباغ ڈیم کے مسئلے کو ہی حل کر لیا جائے۔ حالانکہ اگر یہ سیاستدان چاہتے تو یہ عظیم منصوبہ بن سکتا تھا۔ کالاباغ ڈیم کی بات چل نکلی ہے تو اس پر بھی سن لیں کہ یہ مسئلہ جنرل ضیاءالحق کے دور کا اٹکا ہوا ہے۔ یہ منصوبہ حکومت پاکستان کا پانی کو ذخیرہ کر کے بجلی کی پیداوار و زرعی زمینوں کو سیراب کرنے کے لیے ایک بڑا منصوبہ تھا جو تاحال متنازع ہونے کی وجہ سے قابل عمل نہیں ہو سکا۔ اس منصوبہ کے لیے منتخب کیا گیا مقام کالا باغ تھا جو ضلع میانوالی میں واقع ہے۔ ضلع میانوالی صوبہ پنجاب کے شمال مغربی حصے میں واقع ہے۔ بلکہ ضلع میانوالی پہلے صوبہ خیبر پختونخوا کا حصہ تھا جسے ایک تنازع کے بعد پنجاب میں شامل کر دیا گیا۔کالاباغ بند کا منصوبہ اس کی تیاری کے مراحل سے ہی متنازع رہا ہے۔ دسمبر 2005ءمیں اس وقت کے صدر جنرل پرویز مشرف نے اعلان کیا کہ، “وہ پاکستان کے وسیع تر مفاد میں کالاباغ بند تعمیر کر کے رہیں گے“۔ جبکہ 26 مئی 2008ءکو وفاقی وزیر برائے پانی و بجلی راجہ پرویز اشرف نے کہا، ”کالاباغ بند کبھی تعمیر نہ کیا جائے گا“۔ مطلب! ہم آج تک جب ان مسائل سے نکلنے سے قاصر ہیں تو یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم آئندہ کبھی اس معاملے پر سنجیدہ ہوں گے۔ آج آپ کچھ بھی کہہ لیں مگر یہ بات تو حتمی ہے کہ ڈیمز نہ بننا ایک قومی جرم ہے! اور اس کے مجرم سبھی سابق سیاستدان ہیں۔ اور پھر جو حکومت ان منصوبوں پر توجہ دے رہی تھی اُسے لامحالہ طور پر نکال باہر کر دیا گیا، خیر یہ الگ بحث ہے، اس پر جتنی Debateہو چکی ہے، شاید ہی کسی بات پر ہوئی ہو۔ مگر مجال ہے کہ مقتدر حلقوں کو اس درد کا احساس ہو۔ لیکن یہ بات تو تاریخ میں لکھی جائے گی کہ پاکستان میں 1947 سے2022 کے75 سالوں میں 15 بڑے اور بہت بڑے سیلاب آئے یعنی تاریخی لحاظ سے اوسطاً پانچ سال فی سیلاب۔ جن میں جولائی‘ اگست2010 کا سیلاب اور رواں سال کا سیلاب بھی ہے جو تاریخی لحاظ سے Super Mega Flood تھے۔ بعض دفعہ تو ایسا ہوتا ہے کہ تواتر سے ہر سال بڑا سیلاب آجاتا ہے، جیسے1976، 1977 اور 1978 میں یا1995، 1996، 1998 میں ہوا۔ ہر سیلاب میں نقصان ہوتا ہے جس میں انسانی ہلاکت‘ مویشیوں کی ہلاکت‘ سڑکوں‘ پلوں کے ساتھ گھر‘ سکول‘ ہسپتال‘ مارکیٹ‘ بازار‘ بجلی کی ٹرانسمیشن لائنز‘ گرڈاسٹیشن‘ فصلیں ‘ باغات‘ آبپاشی کا نظام شامل ہیں۔ جولائی‘ اگست2010 کے نقصان کا تخمینہ کوئی1,200 ارب روپے رہا جبکہ حالیہ سیلاب سے نقصان کا تخمینہ 4000ارب روپے رہا۔ یہ پانی اگر ڈیمز میں محفوظ ہوتا تو ہم اس سے پورا سال بجلی بنا سکتے تھے۔ مطلب !یہ نقصان پاکستان کن کی وجہ سے برداشت کر رہا ہے؟ ان سابق سیاستدانوں کی وجہ سے؟ تو اب ہم کیسے مان لیں کہ اب بھی آپ ڈیمز بنانے میں سنجیدہ دکھائی دے رہے ہیں؟ جبکہ اس کے برعکس فی الوقت تو جب سے موجودہ حکومت آئی ہے عوام کو دنیا کی مہنگی ترین بجلی سے نوازا جا رہا ہے؟مہنگی ترین پٹرولیم مصنوعات سے نوازا جا رہا ہے؟ کونسا ملک ہے جو اس وقت عوام کو مہنگائی کی شرح 32فیصد سے زیادہ دے رہا ہے؟ قصہ مختصر کہ جب ان کی حکومت آتی ہے تو اُس وقت ان کے بیانات کچھ اور ہوتے ہیں اور جب یہ اپوزیشن میں ہوتے ہیں تو ان کے بیانات دیکھنے اور سننے کے قابل ہوتے ہیں۔ بہرکیف وزیراعظم کا حالیہ اعتراف قابل تعریف ہے لیکن اب اس بدترین نااہلی پر رجوع کرنے کا وقت ہے اور سیاستدانوں کو اپنے رویئے تبدیل کرنے ہوں گے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ڈکٹیٹرز نے تو پھر بھی ڈیم، نہریں اور دریاو¿ں پر پل بنائے اور ملک میں کئی بڑے کام ہوئے‘ لیکن بدقسمتی سے سیاستدانوں نے ملک کے ساتھ کھلواڑ کی۔ سیاستدان قوم کے بہترین مفاد کے کسی بھی منصوبے پر اتفاق رائے پیدا نہ کرسکے اور ہمیشہ ایک دوسرے کی کردار کشی کرکے ملک کو بحران در بحران کا شکار کئے رکھا۔ آج حالت یہ ہے کہ دنیا بھر میں بہترین قدرتی آبی وسائل رکھنے والا ملک پانی کے بدترین بحران سے دوچار ہے اور خوراک میں خودکفالت خواب بن گئی ہے حالانکہ ہم اپنے ملک کے قدرتی آبی وسائل سے استفادہ کرتے تو دنیا بھر کو خوراک برآمد کرتے لیکن آج ہم دنیا کی غیر معیاری گندم مہنگے داموں درآمد کرنے پر مجبور ہیں۔بروقت بڑے ڈیموں کی تعمیر سے ہم بجلی کی پیداوار میں بھی دوسرے ملکوں کو بجلی فروخت کرنے کی پوزیشن میں ہوتے لیکن بدقسمتی سے ہم بجلی کی پیداوار کے لئے سالانہ بھاری نقصانات کا شکار ہونے کے باوجود ملک بھر میں بلاتعطل بجلی کی فراہمی میں یکسر ناکام ہیں اور خطے میں مہنگی ترین بجلی بھی ضروریات کے مطابق پیدا کرنے اور زراعت کے لئے وافر پانی کی فراہمی سے عاری ہیں جبکہ مون سون میں آدھا ملک دریا برد کردیا جاتا ہے لیکن بدقسمتی سے ہم اپنے ماضی کی حماقتوں سے سبق سیکھنے کے لئے قطعی تیار نہیں ہیں اور ملک کو ایسے حالات سے دوچار کردیا گیا ہے کہ آج محب وطن تمام پاکستانی جھولیاں پھیلا کر بد دعائیں مانگنے پر مجبور ہوچکے ہیں۔ جب تربیلا ڈیم بنا تھا اس کے فوری بعد انتہائی سستا دور تھا جب کالا باغ ڈیم کی تعمیری لاگت 7ارب ڈالر کے لگ بھگ تھی تو فوری طور پر منڈا ڈیم‘ اکھوڑی ڈیم‘ کالا باغ ڈیم اور مختلف ڈیم بنائے جاتے۔ میرے خیال سے یہ سارے ڈیم ملاکر اس وقت 15ارب ڈالرز میں تعمیر ہوجاتے اور پاکستان پانی و بجلی کی ضرورت میں خودکفیل ہوجاتا۔اب بھی وقت ہے کہ بی او ٹی کی بنیاد پرعالمی معاہدے کرکے زیادہ سے زیادہ آبی ذخائر اور ہائیڈل پاور پروجیکٹس کی تعمیر ہنگامی بنیادوں پر شروع کردی جائے۔ سب سے پہلے قومی اسمبلی میں بین الصوبائی دریائی پانی کی تقسیم کا نیا فارمولا طے کرکے اسے آئینی شکل دی جائے اور صوبوں کے اس آئینی حق پر ہر صورت عملدرآمد ہونا چاہئے۔ خصوصاً سندھ صوبے کی نہری پانی کی سال بھر کی ضرورت کی بروقت بلاتعطل فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔ بے نظیر بھٹوشہید نے کالا باغ ڈیم کا نام تبدیل کرکے ”انڈس ڈیم“ رکھ کر تعمیر پر آمادگی ظاہر کردی تھی۔ اب بھی میرا دل کہتا ہے کہ اس طرح کا دلیرانہ فیصلہ پیپلزپارٹی ہی کرسکتی ہے ۔ پیپلزپارٹی کی ایک سیاسی اور دلیرانہ فیصلے کرنے کی تاریخ ہے۔مگر افسوس اس بات کا ہے کہ یہ جماعت بھی اپنے نظریات کو بھلا چکی ہے۔ اس جماعت میں موروثیت نے جگہ بنا لی ہے۔ سب کچھ اکٹھا کرنے کی فکر نے اس جماعت کو بھی ادھ منوا کر دیا ہے۔ اور رہی بات ن لیگ کی تو معذرت کے ساتھ اگر محترم وزیر اعظم اس حوالے سے نئے اعلانات کررہے ہیں تو اس میں مجھے ذرہ برابر بھی شک نہیں کہ یہ پورے بھی ہوں گے ؟ کیوں کہ ماضی گواہ ہے کہ یہ سب روایتی سیاستدان ہیں جو صرف باتوں سے دل بہلانا جانتے ہیں، ان کا حقیقت یا عملی کام سے دور کا بھی تعلق نہیں! اگر ایسا نہیں ہے تو وزیر اعظم سے دست بستہ درخواست ہے کہ وہ اپنی باتوں پر عمل کرکے دکھائیں ورنہ ہمیں باتوں سے نہ بہلائیں!