عوام کی خاطر بھارت سے بہتر تعلقات بنانے میں حرج کیا ہے؟

آپ نے یہ خبر تو سنی ہوگی کہ سرحد پار چند کلومیٹر کے فاصلے پر چیزیں پاکستان سے آدھی قیمت سے بھی کم نرخ میں مل رہی ہیں۔ اور پھر یہ بھی خبر سنی ہوگی کہ پاکستان میں جو گاڑی 30لاکھ روپے میں دستیاب ہے، وہی گاڑی انڈیا میں 3سے 5لاکھ روپے میں دستیاب ہے۔ ویسے تو ایک انڈین روپیہ 3پاکستانی روپوں کے برابر ہے، اگر اس حساب سے بھی دیکھا جائے تو انڈین گاڑی 10لاکھ سے زیادہ کی نہیں ملے گی۔ لیکن یہاں کئی کئی گنا قیمتیں زیادہ ہونے سے ایک تاثر تو یہ جاتا ہے کہ پاکستان میں بڑے پیمانے پر مافیا بیٹھا ہے جو اپنی مرضی کے نرخ بڑھا کر اُسی کمپنی کی گاڑیاں کئی گناہ زیادہ قیمت پر فروخت کر رہا ہے، جبکہ حکومتوں کو فائدہ یہ ہے کہ ایک تو اُنہیںبھاری بھرکم ٹیکس ملتا ہے دوسرا اچھا خاصا کمیشن ان کی جیبوں میں جاتاہے ۔ خیر ہمارا آج کا موضوع یہ نہیں، بلکہ یہ ہے کہ ہم میں اتنی ”انا“ کیوں کوٹ کوٹ کر بھری ہے کہ ہم اپنے عوام کی سہولت کے لیے انہی ہمسایوں کے ساتھ تعلقات میں بہتری کیوں نہیں لاتے؟ ماہرین کے مطابق اس وقت دبئی کے ذریعے دونوں ممالک کے درمیان سالانہ تجارت 15-20ارب ڈالر ہے۔انڈیا نے اپنی پالیسی کے تحت پاکستان سے درآمدات پر 200 فیصد ڈیوٹی عائد کی ہے لیکن برآمدات پر کوئی پابندی نہیں ہے۔اسے کہتے ہیں ”سیانا پن“ یعنی بھارت نے پاکستان کی ایکسپورٹ کو پروموٹ کرنے کے بجائے اپنی ایکسپورٹ کو ترجیح دی۔ اسے کہتے ہیں اپنے مفادات کو ترجیح دینا۔ اور اسے ہم بھارت کی ہٹ دھرمی نہیں کہیں گے، بلکہ دنیا کی تجارت کا یہی اصول ہے کہ سب سے پہلے اپنے مفادات کو دیکھا جائے۔ اس وقت ہم بھارت سے ادویات سے لے کر مشینری تک کا میٹریل خرید رہے ہیں، یہ ہماری ضرورت ہے، بھارت اپنا سامان دبئی کی منڈی میں لے کر آتا ہے، ہم وہاں سے خرید لیتے ہیں، لیکن اگر یہی مال ہم براہ راست بھارت سے خریدیں جس پر دونوں حکومتوں کی طرف سے پابندی لگا رکھی ہے تو یہ یقینا عوام کے لیے بہترین ہوگا۔ کیوں کہ اُسے یہی چیزیں مزید سستے داموں دستیاب ہوں گی۔ اور اگر ہم اس حوالے سے پاکستان اور بھارت کی بات کریں تو نہ ہی ان دنوں میں کبھی پاکستان نے بھارت کے ساتھ تعلقات بہتر بنا نے کی باقاعدہ بات کی ہے اور نہ ہی کبھی بھارت نے اس خواہش کا اظہار کیا ہے۔ بلکہ بھارتی وزیر خارجہ نے گزشتہ دنوں پاکستان کے ساتھ انسانی ہمدردی کے تحت تعاون کی بات ضرور کی تھی مگر اس حوالے سے اُنہوں نے کسی بھی اعلان سے گریز کیا تھا۔ یعنی انڈیا کے وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے حال ہی میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے پاکستان کے موجودہ بحران پر کہاتھا ،کہ پاکستان کا مستقبل بڑی حد تک پاکستان کے اقدامات اور پاکستان کے آپشنز کے انتخاب پر منحصر ہے۔ایسی مشکل صورتحال میں کوئی بھی اچانک اور بغیر کسی وجہ کے نہیں پھنستا، اب یہ ان پر منحصر ہے کہ آگے کا راستہ کیا ہو گا۔ انڈین وزارت خارجہ کے اندرونی ذرائع کی بات کریں تو اُن کی جانب سے یہ کہا جا رہا ہے کہ اگر پاکستان سے مدد کی درخواست کی گئی تو انڈیا مدد کرے گا تاہم سرکاری سطح پر ایسا کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔ تاہم ایک حلقے میں یہ سوچ ضرور پائی جاتی ہے کہ انڈیا کو پاکستان کی مدد کرنی چاہیے۔ قصہ مختصر کہ بھارت کہتا ہے کہ اگر ہم سری لنکا، شام اور ترکی کو انسانی بنیادوں پر امداد دے سکتے ہیں تو ہمیں پاکستان کے لیے بھی ایسا ہی کرنا چاہیے۔وہاں کے سنجیدہ ماہرین کے مطابق انڈیا ہر سال 60 سے 70 ارب ڈالر کا ریفائنڈ پیٹرول اور ڈیزل دنیا کو برآمد کرتا ہے اور پاکستان اس سے فائدہ اٹھا سکتا ہے جس سے دونوں ممالک کے درمیان تجارت بڑھ سکتی ہے۔ہمیں یہ بھی نہ بھولنا چاہیے کہ بھارت اس وقت جی 20 ممالک کا چیئرمین ہے۔ اور پاکستان کو جی 20ممالک سے اُس وقت تک امداد نہیں مل سکتی جب تک بھارت نہیں چاہے گا۔ جبکہ دوسری جانب پاکستان کے وزیر خارجہ بلاول بھٹو سے جب ایک انٹرویو میں پوچھا گیا کہ کیا انھوں نے سیلاب سے ہونے والی تباہی پر انڈیا سے مدد مانگی ہے یا خراب معیشت کی وجہ سے اُنہیں انڈیا کی مدد درکار ہے یا انڈیا نے مدد کی پیشکش کی ہے تو انھوں نے تینوںسوالوں کا جواب ’نہیں‘ میں دیا۔ میری سمجھ سے یہ بات باہر ہے کہ ہمیں فضول ”انا“ رکھنے کی ضرورت کیا ہے؟ اگر کہیں کوئی مسئلے ہیں تو ہم مل بیٹھ کر حل کر سکتے ہیں؟ دنیا کے کونسے ایسے مسئلے ہیں جو مل بیٹھ کر حل نہیں ہو تے۔ اور پھر اس انا کی وجہ سے ہم پہلے ہی بہت نقصان کر چکے ہیں۔ اگر ہمارے انڈیا کے ساتھ تعلقات بہتر ہوگئے تو وہاں موجود 30کروڑ مسلمانوں کے ساتھ تعلقات بھی اچھے کر سکیں گے۔ عوام کے لیے چیزیں سستی دستیاب ہوں گی۔ دنیا بھر میں ہمسائے آپس میں تجارت کرکے بہت سا زرمبادلہ بچاتے ہیں۔ اگر دنیا میں ہم تجارت کے کامیاب ماڈلز کا جائزہ لیں تو ہمیں علاقائی تجارت یعنی ریجنل ٹریڈ سب سے کامیاب ماڈل نظر آتا ہے۔ ”نافٹا“جو امریکہ، کینیڈا اور میکسیکو کا ریجنل بلاک ہے، میں باہمی تجارت 68فیصد ہے۔ یورپی یونین ،جو یورپ کے 27ممالک کا بلاک ہے، کی باہمی تجارت 53فیصد ہے۔ آسیان ممالک (فلپائن، انڈونیشیا، ملائیشیا، سنگاپور اور تھائی لینڈ ) کی باہمی تجارت 26فیصد ہے جبکہ ہمارے جنوبی ایشیائی ممالک کے ریجنل بلاک سارک کی باہمی تجارت صرف 5 فیصد ہے۔ اور ایسا بھی نہیں ہے کہ جنوبی ایشیا ءخاص طور پر پاک بھارت کی باہمی تجارت شروع سے ہی ایسی تھی ۔ اگر ہم اس حوالے سے تاریخ پر نظر ڈالیں تو پاک بھارت آزاد ہونے کے بعد تجارت بہترین انداز میں چل رہی تھی، حالانکہ ہماری پہلی جنگ 1948ءمیں ہو ئی ، لیکن ہماری تجارت نہ رکی اور 1948-49میں ہماری 56فیصد ایکسپورٹ انڈیا ہی کو ہوتی تھی ۔ پھر اگلے کئی سال تک پاکستان اور بھارت تجارت کے حوالے سے بڑے پارٹنر کے طور پر جانے جاتے تھے، اور ان 17سالوں(1948-1965) میں پاکستان اور بھارت کے درمیان 14تجارتی معاہدے ہوئے ۔ اس دوران انڈیا کے بینکوں کی 6برانچیں پاکستان میں کھل چکی تھیں۔ پھر 1965ءمیں ہماری دوبارہ جنگ ہوگئی جس کے بعد 10جنوری 1966ءکو ایوب خان اور لال بہادر شاستری کے درمیان تاشقند (ازبکستان) میں جو اس وقت سوویت یونین کا حصہ تھا،مذاکرات ہوئے۔ طے پایا کہ دونوں اطراف کی فوجیں اگست سے پہلے والی پوزیشن پر چلی جائیں گی اور سفارتی، تجارتی تعلقات بحال ہو جائیں گے۔ اس معاہدے پر عمل درآمد ہوا، اور دوبارہ تجارت بحال ہوگئی، اُس وقت تجارت کا یہ حجم 6کروڑ روپے تک پہنچا ہی تھا، کہ عوامی سطح پر احتجاج اور 1971ءکی پاک بھارت جنگ کے بعد دونوں ممالک کے درمیان تجارت محدود ہوگئی اور انڈین بینکوں نے اپنی برانچیں بند کر دیں۔ پھر بھٹو نے پاک بھارت تجارت کا آغا ز کرنا چاہا لیکن وہ مذہبی جماعتوں کے دباﺅ میں آگئے اور ایسا نہ کر سکے، پھر جنرل ضیاءالحق کا دور شروع ہوتا ہے۔ 1980ءکی دہائی سے دونوں ممالک کے تعلقات کے درمیان تاریخ ساز بگاڑ محسوس کیا گیا ہے۔ اس بگاڑ کا سبب سیاچن کا تنازع تھا، اس دوران بھی جنرل ضیاءالحق نے 1983ءمیں بھارت کے ساتھ تجارت کھولی ، تب تجارت کا حجم 50کروڑ تک جا پہنچا تھا، لیکن 1989ءمیں کشمیر میں بڑھتی کشیدہ صورت حال کے پیش نظر ایک بار پھر بند کر دی گئی ۔پھر دسمبر 1995ءمیں سارک ممالک، جن میں بھارت اور پاکستان بھی شامل ہیں، نے جنوبی ایشیائی ترجیحی تجارتی معاہدے (SAPTA) پر دستخط کئے جسکے تحت سارک ممالک کے مابین سینکڑوں مصنوعات کی ڈیوٹی فری ایکسپورٹ کی اجازت دی گئی لیکن جنوبی ایشیاکے دو بڑے ممبر ممالک پاکستان اور بھارت میں کشیدہ سفارتی اور سیاسی تعلقات کی وجہ سے ایشیائی ریجنل بلاک دیگر ریجنل بلاکس کی طرح باہمی تجارت کو فروغ نہ دے سکا۔ پھر امریکا میکسیکو کے تعلقات بھی کبھی نارمل نہیں رہے لیکن اُن کے درمیان تجارت کبھی معطل نہیں ہوئی، پھر جرمنی اور فرانس میں نوک جھونک چلتی رہتی ہے، اور یہ نوک جھونک 200سال پرانی ہے، لیکن حالیہ دہائیوں میں کبھی کسی نے نہیں سنا کہ ان دونوں ممالک کی تجارت کبھی معطل ہوئی ہو۔ الغرض سوسو سال تک آپس میں جنگیں لڑنے والے گوروں کو عقل آ گئی تو کیا اس خطہ کے لوگ اتنے ہی گئے گزرے ہیں کہ صدیوں ساتھ رہنے کے باوجود اپنے تنازعات مکالمہ سے طے کرکے ترقی پر فوکس نہ کر سکیں۔دونوں طرف غربت، جہالت، بیروزگاری عروج پر ہے تو کیا ان کروڑہا بدقسمت انسانوں کے نصیب میں یہی کچھ لکھا ہے ؟جدید دنیا کی کوئی جنگ ایسی نہیں جو میدان و آسمان سے نکل کر مذاکرات کی میز اور مکالمہ تک نہ آئی ہو اور یوں بھی محاورتاً نہیں حقیقتاً دنیا بارود کے ڈھیر پر بیٹھی ہے۔دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان محاذ آرائی کسی کے بھی وارے میں نہیں اس لئے اس طرح کے فیصلوں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہئے۔کتنی احمقانہ بات ہے کہ واہگہ بارڈر کےساتھ پیدا ہونے والی اشیاءوہاں سے ممبئی جائیں،ممبئی سے یو اے ای پہنچیں تو قیمت میں اس خاطر خواہ اضافہ کے بعد ہم انہیں یو اے ای سے امپورٹ کریں۔ہاں ایسا ہی ہو رہا ہے۔ ہم بھارتی اشیاءامپورٹ کر رہے ہیں، لیکن وہ براستہ دبئی ہمارے پاس آرہی ہیں۔ جس کی قیمت ہم دوگنا ، تین گناادا کر رہے ہیں۔ لیکن آج اس کے برعکس ہم نے دشمنی میں ماسوائے کشمیری مسلمانوں کو تکلیف دینے کے کچھ نہیں کیا۔ اگر دوستی ہو جائے تو شاید اُن پر بھی ظلم کم ہو جائے۔ کیوں کہ ایک چیز تو بڑی واضح ہے کہ ہم کشمیر آزاد کروانے کی پوزیشن میں ہی نہیں ہیں۔ اور پھر جب جنگ کا راستہ نظر نہ آرہا ہوتو پھر صلح کے راستے پر چلتے ہیں۔ اور اچھے وقت کا انتظار کرتے ہیں، ہمیں ایسی تجارت کو فروغ دینا چاہیے جس میں ہمیں فائدہ ہو۔ نا کہ انڈیا کو فائدہ ہو۔ ایسا بھی نہیں ہونا چاہیے کہ ہمارا کسان بھوکا مرنا شروع ہو جائے۔ کیوں کہ ہمارے کسان کو کھیتوں میں انڈیا کے کسانوں کی نسبت زیادہ خرچ کرنا پڑتا ہے۔ اور پھر ہوتا یہ ہے کہ جو چیزیں پہلے سے ہی ملک میں وافر مقدار میں موجود ہوتی ہیں، ہم اُنہی کو امپورٹ کرکے مزید سستے داموں فروخت کرتے ہیں۔ جس سے ہمارا کسان دیوالیہ ہو جاتا ہے۔ اسی لیے اس حوالے سے ایک ایسا تھنک ٹینک بنایا جائے جو اس پر کام کرے۔ اور یہ سب کچھ فی الوقت میڈیا سے چھپا کر کرنا چاہیے اور پالیسی بنا کر میڈیا اور عوام کو اعتماد میں لیا جانا چاہیے تاکہ ہم عوام کی مشکلات کم ہوں اور ہم بہت سے مسائل سے بچ سکیں!