90دن میں الیکشن : پرویز الٰہی کی شمولیت کے بعدPTIمزید مضبوط !

فی الوقت تو یہی لگتا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد آئین کی فتح ہوئی ہے۔ پنجاب، خیبرپختونخوا (کے پی) الیکشن ازخود نوٹس کیس میں سپریم کورٹ نے دونوں صوبوں میں انتخابات 90 دنوں میں کرانے کا حکم دیاہے۔سپریم کورٹ نے فیصلہ دو کے مقابلے میں تین کی اکثریت سے دیا ہے، بینچ کی اکثریت نے درخواست گزاروں کو ریلیف دیا ہے۔فیصلے میں5 رکنی بینچ کے دو ممبران نے درخواستوں کے قابل سماعت ہونے پر اعتراض کیا، جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال مندوخیل نے فیصلے سے اختلاف کیا۔فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ گورنرکو آئین کے تحت تین صورتوں میں اختیارات دیے گئے، گورنر آرٹیکل 112 کے تحت، دوسرا وزیراعلیٰ کی ایڈوائس پر اسمبلی تحلیل کرتے ہیں، آئین کا آرٹیکل 222 کہتا ہے کہ انتخابات وفاق کا سبجیکٹ ہے، الیکشن ایکٹ گورنر اور صدر کو انتخابات کی تاریخ کے اعلان کا اختیار دیتا ہے، اگر اسمبلی گورنر نے تحلیل کی تو تاریخ کا اعلان بھی گورنرکرےگا، اگر گورنر اسمبلی تحلیل نہیں کرتا تو صدر مملکت سیکشن 57 کے تحت اسمبلی تحلیل کریں گے۔ سپریم کورٹ نے یہ بھی حکم دیا ہے کہ تمام وفاقی اور صوبائی ادارے انتخابات کے لیے الیکشن کمیشن کی معاونت کریں، وفاق الیکشن کمیشن کو انتخابات کے لیے تمام سہولیات فراہم کرے، عدالت انتخابات سے متعلق یہ درخواستیں قابل سماعت قرار دے کر نمٹاتی ہے۔عدالت عظمیٰ کے اس فیصلے کے بعد الیکشن کمیشن آف پاکستان، مرکزی حکومت اور مختلف اداروں نے اپنے اپنے اجلاس طلب کر لیے ہیں جس کے بعد مزید اعلانات متوقع ہیں۔ یقینا یہ ایک خوش آئند فیصلہ ہے کہ جس کے بعد یہی اُمید کی جا سکتی ہے کہ ملک میں موجود سیاسی بحران ختم ہو جائے گا۔ اور جمہوریت جسے گزشتہ سال سبوتاژ کر دیا گیا تھا، دوبارہ اپنی پٹری پر چڑھ جائے گی۔ اس کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ اپنی ”دیگر“ سرگرمیوں کو چھوڑ کر نئے انتخابات کی تیاریاں کرنی چاہییں، بلکہ مرکزی حکومت کو بھی چاہیے کہ وقت سے پہلے انتخابات کا اعلان کرکے سیٹ نگران حکومت کے حوالے کریں اور جنرل انتخابات کا اعلان کردیں۔ ایسا کرنے جمہوری عمل مزید ہموار ہو جائے گا۔ لہٰذااب سوال یہ ہے کہ کس جماعت کی الیکشن کے لیے کتنی تیاری ہے تو اس میں سب سے بہترین پوزیشن پر تحریک انصاف ہی ہے جس نے کے پی کے اور پنجاب اسمبلی چھوڑی جبکہ مرکزی حکومت اس سے بزور قوت چھینی گئی۔ اس کے برعکس پی ڈی ایم میں موجود سیاسی جماعتیں اس وقت قطعی طور پر الیکشن کے موڈ میں نہیں ہیں، خاص طور پر ن لیگ کا مہنگائی کے طوفان کے بعد جو تشخص خراب ہوا ہے وہ کبھی نہیں چاہے گی کہ الیکشن ہوں۔ پھر آپ نے حالیہ ضمنی الیکشن کے نتائج بھی دیکھ لیے ہوں گے کہ تحریک انصاف کی جیل بھرو تحریک ناکام ہونے ، اسمبلیوں سے استعفوں کی سیاست ناکام ہونے اور دیگر حکمت عملیوں کے بظاہر ناکام ہونے کے باوجود ضمنی الیکشن میں پی ٹی آئی کا پلڑا ہی بھاری نظر آرہا ہے۔ جبکہ تحریک انصاف اس لیے بھی جلد الیکشن چاہتی ہے کہ وہ خاص طور پر پنجاب میں پہلے سے زیادہ مضبوط ہو چکی ہے۔ اس کی وجہ آپ یہ بھی سمجھ لیں کہ پرویز الٰہی تحریک انصاف میں شمولیت کے بعد پارٹی کے صدر بننے جا رہی ہیں اور پھر تحریک انصاف کو بھی ایک زیرک سیاستدان کی ضرورت تھی جو پارٹی اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان بہترین روابط قائم کر سکے اور چوہدری پرویز الٰہی کو بھی کم از کم پنجاب میں خدمت کرنے کے لیے کسی بڑی پارٹی کی ضرورت تھی۔ چوہدری پرویز الٰہی کا یہ فیصلہ یقینا بہترین فیصلہ ہے، اور اس حوالے سے راقم نے چند ماہ قبل اپنے ایک کالم میں بھی اپنی رائے کا اظہار کیا تھا کہ ”عمران خان چوہدری پرویز الٰہی کی زیرک اور کائیاں سیاست سے سیکھیں اور ق لیگ کو تحریک انصاف میں ضم کرنے کی کوششوں کو آگے بڑھائیں۔ ورنہ اُنہیں پیپلزپارٹی اور ن لیگ کے تیز ترین سیاستدان کہیں کا نہیں چھوڑیں گے۔ کیوں کہ میرے خیال میں اس وقت جو بحران چل رہے ہیں اگر یہ دونوں پارٹیاں ایک ہوگئیں تو عوام کو بحرانوں سے نکال سکتی ہیں، اور پھر یہ بات تمام حلقے جانتے ہیں کہ تحریک انصاف میں جوش ہے، جذبہ ہے، قیادت ہے، نظریاتی جماعت ہے، موروثی جماعت نہیں، اس جماعت میں پارٹی ڈسپلن ہے، ایسا ہر گز نہیں ہے اس جماعت میں باپ کے بعد بیٹا آئے گا، یا کوئی بھتیجا آئے گا۔ یا خاندان ہی پارٹی کو چلائے گا۔ بلکہ اس کے برعکس یہاں جو محنت کرے گا وہ آگے بڑھ جائے گا۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے بھارتی حکمران پارٹی بی جے پی میں ہے، امریکا کی ڈیموکریٹک اور ری پبلکن میں ہے، برطانیہ کی یوننسٹ پارٹی میں ہے۔ یقین مانیں ہمارا تحریک انصاف کو شروع سے سپورٹ کرنے کا مقصد بھی یہی ہے کہ یہ موروثی پارٹی نہیں ہے۔ اس جماعت میں اعتزاز احسن بلاول کے سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑا نہیں ہوتا، نہ ہی قمرالزمان کائرہ ، نوید قمر جیسے لوگوں کو بلاول کی خوش آمد نہیں کرنی پڑتی ۔ یاپھر خواجہ آصف اور احسن اقبال کو مریم نواز کے سامنے باادب کھڑا ہونا پڑتاہے، بلکہ اس کے برعکس اس جماعت میں جو آﺅٹ پٹ دے گا، پرفارم کرے گا، محنت کرے گا وہ آگے بڑھے گا۔ لہٰذاپرویز الٰہی، یا خاص طور پر مونس الٰہی کے سامنے ابھی پوری سیاست پڑی ہے، وہ آگے بڑھیں اور تحریک انصاف میں ضم ہوں اور عوا م کی خدمت کریں۔ اُس کے بعد اپوزیشن کو بھی ساتھ ملائیں، تصادم سے بچیں، اس سے سیاسی تناﺅ میں کمی آئے گی۔ اور اگر وہ ایسا کرنے میں کامیاب ہو گئے تو پھر ان کے لیے ڈلیور کرنا کچھ آسان ہو سکتا ہے۔ ویسے بھی نئی پود کے جتنے بھی سیاستدان آئے ہیں، مونس الٰہی ان سب سے میں سے زیادہ ذمہ دار، تیز اور ذہین ہیں۔ اُنہیں زمینی حقائق کے بار ے میں اپنے دور کے سیاستدانوں سے زیادہ علم ہے۔ وہ ہر ایک کو دستیاب ہے، جبکہ اس کے برعکس حمزہ شہباز، مریم نواز اور بلاول عام طور پر دستیاب ہی نہیں ہوتے۔ “ اب چونکہ ق لیگ کے صدر چوہدری شجاعت حسین کی وجہ سے ق لیگ تحریک انصاف میں ضم تو نہیں ہوئی مگر پرویز الٰہی ساتھیوں سمیت تحریک انصاف میں ضرور شامل ہوگئے ہیں اور انہیں عمران خان نے تحریک انصاف کا مرکزی صدر بھی بنا دیا ہے۔ یہ یقینا بہترین حکمت عملی ہے، اس کا فائدہ تحریک انصاف کو ہوگا، وہ کارکنوں، سیاسی رہنماﺅں اور مرکزی قائدین کو آپس میں جوڑے رکھنے کے لیے بہترین معاون خصوصی برائے عمران خان ثابت ہوں گے، کیوں کہ بادی النظر میں پارٹی کے اندرونی اختلافات کو روکنے کے حوالے سے عمران خان گزشتہ ایک دہائی سے مسلسل ناکام رہے ہیں جس کی وجہ سے کئی ایک دیرینہ کارکنوں، رہنماﺅں اور دیگر دوست احباب تحریک انصاف کو خیر آباد کہہ کر چلے گئے۔ لیکن چوہدری پرویز الٰہی نے اتحادی پارٹی ہونے کے باوجود کئی جگہوں پر ماضی میں بھی عمران خان کا ساتھ دیا۔ جیسے نومبر 2022میں تحریک انصاف کو مرضی کی ایف آئی آر کٹوانے میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تھا، اس حوالے سے کوئی مانے یا نا مانے پرویز الٰہی نے ”سیانا“ کردار ادا کیا تھا۔ کیوں کہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ تحریک انصاف کی مرضی کے مطابق ایف آئی آرکاٹنے سے پولیس کو کسی نئے امتحان سے گزرنا پڑے۔ اس حوالے سے وہ تحریک انصاف اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان پل کا کردار ادا کرتے رہے، اور کوشش کی کہ عمران خان کے تعلقات دیگر اداروں کے ساتھ بحال ہو جائیں۔انہوں نے اس حوالے سے عمران خان کو بھی سمجھایا کہ ایسا کرنے سے تحریک انصاف مزید بحران کا شکا رہو سکتی ہے۔ جبکہ دوسری جانب خان صاحب کو ان بڑھتے ہوئے مسائل کا تدارک ہے یا نہیں لیکن وہ اتنا ضرور جان گئے ہیں کہ اُن کے پاس پنجاب میں چوہدری برادران کے بعد کوئی دوسری آپشن نہیں ہے۔ ایسا اس لیے بھی ہے کہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ چوہدری پرویز الٰہی گراس روٹ لیول سے ملک کی قومی سیاست تک انتخابات کی باریکیوں اور نزاکتوں سے خوب آگاہی رکھتے ہیں،اور پھرچوہدری صاحب کے صاحبزادے مونس الٰہی نے بھی ثابت کیا ہے کہ وہ سیاسی طور پر خاصے میچور ہو چکے ہیں۔ انہوں نے محدود ق لیگ کو اپنے والد پر اثرانداز ہو کر نہ صرف پنجاب میں اسٹیٹس کو پالیٹکس کو توڑ کر تازگی اور جدت اختیار کرنے کی ٹھان لی، ملک بھر کے جوانوں کے بدلتے تیور سے آخر مونس الٰہی کیسے متاثر نہ ہوتے۔تحریک انصاف شکر کرے اسے ن لیگ کی حربہ سیاست اور انتظامی تجربے کے مقابل، باپ بیٹے کی مشترکہ اپروچ سے بننے والا پنجاب سیاست کے تازہ ماڈل کی معاونت مل گئی۔ رہی بات اسٹیبلشمنٹ کی تو بظاہر یہی لگتا ہے کہ ان تمام حالیہ معاملات میں اسٹیبلشمنٹ تقسیم ہوئی۔ لیکن یہ سمجھ نہیں لگ رہی کہ کون کس طرف کھڑا ہے اور کون کس طرف۔ اعلیٰ عدلیہ بھی، بادی النظر میں، تقسیم نظر آتی ہے آئین پاکستان تو ویسے بھی ناجانے کب اسے دستک دے رہا ہے۔ خیر پہلے دن سے یہ بات کی ہے کہ عدم اعتماد کی تحریک ایک غلط فیصلہ تھانہ ریاست کیلئے درست تھانہ سیاست کیلئے۔ اس کے بعد دوسرا غلط فیصلہ پی ڈی ایم کا حکومت بنانا اور شہباز شریف کو وزیر اعظم بنانا۔ تیسرا غلط فیصلہ پنجاب میں حمزہ شہباز کا تجربہ، پھر چوہدری پرویز الٰہی کے خلاف پہلے عدم اعتماد پھر اعتماد کا ووٹ۔ اس تمام عرصہ میں عمران خان اپنے ووٹر اور سپوٹر کے ساتھ منسلک نظر آتا ہے۔ بقول ہمارے دوست مشاہد حسین ،غلطی کرنی ہے تو نئی غلطیاں کریں پرانی غلطیاں کیوں دہراتے ہیں۔ بہرکیف تمام سیاسی جماعتوں کو الیکشن کی بھرپور تیاری کرنی چاہیے، اور سپریم کورٹ کے فیصلے کو کسی کی شکست نہیں سمجھنا چاہئے۔ الیکشن کمیشن کو اب ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔ گورنر کے پی کے خلاف عدالت کے کمنٹس آئے ہیں، انہیں تو فوری طور پرانتخابات کی تاریخ دے دینی چاہیے، اور اس کے ساتھ ساتھ پی ڈی حکومت اور الیکشن کمیشن پر بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ بحران ختم کرکے تمام جماعتیں عوام کی طرف جائیں۔ عوامی مینڈیٹ کو اہمیت دیں اور اسے ہی تسلیم کریں۔