تحریک انصاف پر پابندی لگا دی جائے گی؟

آخر وہی ہوا جس کا ڈر تھا، مئی کا مہینہ ہمیں ایک اور ”12مئی“ دینے کا تیار بیٹھا ہے۔ پاکستان کی سب سے بڑی پارٹی تحریک انصاف کے سربراہ کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ خان صاحب کی گرفتاری پر افسوس نہیں، مگر افسوس اس بات کا ضرور ہے کہ پرانے حربے استعمال کرکے گرفتار کیا گیا ہے۔ جس کیس میں اُنہیں گرفتار کیا گیا اُس کے باقی ملزمان کو گرفتار نہیں کیا گیا۔ مختصراََ اس کیس کا اگر احوال بتایا جائے تو اس کیس کا نام القادر ٹرسٹ کیس ہے یہ کیس اس ساڑھے چار سو کنال سے زیادہ زمین کے عطیے سے متعلق ہے جو بحریہ ٹاو¿ن کی جانب سے القادر یونیورسٹی کے لیے دی گئی تھی۔پی ڈی ایم کی حکومت نے یہ الزام عائد کیا تھا کہ یہ معاملہ عطیے کا نہیں بلکہ بحریہ ٹاﺅن کے مالک ملک ریاض (جنہوں نے ریٹائرڈ فوجی افسران، بیورو کریٹ اور سابقہ ججز تک کو ملازمت پر رکھا ہوا ہے)اور عمران خان کی حکومت کے درمیان طے پانے والے ایک خفیہ معاہدے کا نتیجہ ہے اور حکومت کا دعویٰ تھا کہ بحریہ ٹاﺅن کی جو 190ملین پاو¿نڈ یا 60 ارب روپے کی رقم برطانیہ میں منجمد ہونے کے بعد پاکستانی حکومت کے حوالے کی گئی وہ بحریہ ٹاو¿ن کراچی کے کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ملک ریاض کے ذمے واجب الادا 460 ارب روپے کی رقم میں ایڈجسٹ کر دی گئی تھی۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس کے عوض بحریہ ٹاو¿ن نے مارچ 2021 میں القادر یونیورسٹی ٹرسٹ کو ضلع جہلم کے علاقے سوہاوہ میں 458 کنال اراضی عطیہ کی اور یہ معاہدہ بحریہ ٹاﺅن اور عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے درمیان ہوا تھا۔جس ٹرسٹ کو یہ زمین دی گئی تھی اس کے ٹرسٹیز میں عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے علاوہ تحریکِ انصاف کے رہنما زلفی بخاری اور بابر اعوان شامل تھے تاہم بعدازاں یہ دونوں رہنما اس ٹرسٹ سے علیحدہ ہو گئے تھے۔جون 2022 میں پاکستان کی اتحادی حکومت نے یہ الزام بھی عائد کیا کہ تحریک انصاف کی حکومت نے بحریہ ٹاﺅن کے ساتھ معاہدے کے بدلے اربوں روپے کی اراضی سابق وزیراعظم عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے نام منتقل کی۔خیر اس کیس کی تفصیلات خاصی لمبی ہیں اس کا ذکر بعد میں کسی کالم میں کروں گا مگر افسوس کھربوں روپے کے کیس ایک طرف مگر شک و شبہات سے بھرپور کیس ایک طرف رکھ کر ملک کا جو حال کیا جا رہا ہے ، کوئی بھی اُس سے بری الذمہ نہیں ہو سکتا۔ ایسی ایسی دل دہلا دینے والی تصاویر و ویڈیوز سامنے آرہی ہیں کہ ہمیں سوڈان، روانڈا اور شام افغانستان جیسے ملکوں کے ساتھ جوڑ دیا گیا ہے۔ یہ تصویریں ہماری اصلیت بتاتی ہیں کہ ہمارا معاشرہ کتنا مہذب ہے۔ یہاں یہ دستور بن چکا ہے کہ محض گرفتاری کافی نہیں‘ ساتھ بے عزتی بھی ضروری ہے۔ لیکن سمجھنے کی بات ہے کہ ایسی حرکتوں سے بے عزتی کسی شخصِ واحد کی کیا ہونی ہے‘ بے عزتی بطور قوم ہماری ہو جاتی ہے۔ حالانکہ اگر عمران خان کو گرفتار کرنا ہی تھا تو پھر آئی ایس پی آر کی جانب سے پریس ریلیز جاری کرنے کا واحد مقصد میرے خیال میں یہی تھا کہ اس جماعت کے کارکنوں کو اشتعال دلایا جائے اور پھر نہلے پر دہلا یہ کہ اُس کے اگلے روز خان صاحب کو گرفتار بھی کر لیا گیا۔ اور گرفتاری کے بعد جو ردعمل آیا وہ یقینا فطری عمل تھا۔ اور رہی بات فوجی املاک کو نقصان پہنچانے کی تو میرے خیال میں اس میں کسی تیسری قوت کے شامل ہونے کے امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا۔ بطور ثبوت آپ کو بتاتا چلوں کہ میرا گھر لاہور میں ایک ایسی جگہ پر ہے، جہاں کور کمانڈر لاہور کے گھر سے مجھے روزانہ گزرنا پڑتا ہے۔ کینٹ کے تمام فوجی افسران کے گھروں کی طرح اس گھر کی بھی خاص بات یہ ہے کہ یہاں بغیر اجازت پرندہ بھی پر نہیں مار سکتا۔ پھر کینٹ کو چاروں طرف سے بیئرئیر لگے ہوئے ہیں۔ اسی طرح باقی بھی ہر شہر میں کورکمانڈرکا گھر اتنا ہی محفوظ ہے ۔ پھر یہ کیسے ممکن ہوگیا ہے کہ عوام کینٹ میں داخل بھی ہوئے، توڑ پھوڑ بھی کی ، لوٹ مارکرنے کی اجازت بھی دی گئی، سرکاری عمارتوں کا جلاﺅ گھیراﺅ بھی کیا گیاخاص طور پر کورکمانڈر ہاﺅس لاہور میں توڑ پھوڑ کی گئی ۔ اور پھر چونکہ کینٹ کے رہائشی اس قسم کے ہیں نہیں کہ وہ احتجاجی سیاست میں شریک ہوں۔ اس لیے جان بوجھ کر باہر سے آنے والوں کو اجازت دی گئی کہ وہ آجائیں۔ آپ مزید دیکھ لیں کہ گزشتہ روز 2ڈھائی بجے عمران خان کی گرفتاری ہوئی، تحریک انصاف کے کارکن 3بجے لبرٹی چوک پہنچنا شروع ہوئے، اور 6بجے کے قریب شیرپاﺅ برج کے راستے سے کینٹ لاہور میں داخل ہوئے۔ ان تین چار گھنٹوں میں ہمارے اداروں کو معلوم ہو چکا تھا کہ مظاہرین کا موڈ کیا ہے؟ اور اُن کی حکمت عملی کیا ہے؟ یعنی انہیں کیسے ممکن ہے کہ علم ہی نہ ہو کہ تین چار ہزار افراد کینٹ میں اکٹھے داخل ہونے والے ہیں،حالانکہ ان بیرئیر پر موجود جوانوں کے پاس وائرلیس کا نظام بھی موجود ہے جو پل پل کی خبر افسران تک پہنچا رہے ہوتے ہیں۔ ایسے میں کسی نے بھی ان جگہوں کو محفوظ بنانے یا کینٹ کے داخلی راستوں کو محفوظ بنانے کی حکمت عملی کیوں نہیں بنائی؟ بادی النظر میں کیا ریاست اسی توڑ پھوڑ کو جواز بنا کر ملک کی سب سے بڑی جماعت پر پابندی لگانا چاہتی ہے؟ پھر دنیا کو دکھایا جا رہا ہے کہ تحریک انصاف ایک دہشت گرد قسم کی جماعت ہے جو پرامن احتجاج پر یقین رکھنے کے بجائے توڑ پھوڑ کی سیاست کا عمل اپناتی ہے۔ یہی چیزیں دنیا کو دکھا کر میرے خیال میں تحریک انصاف پر پابندی لگائی جا رہی ہے۔ لیکن یہ سب چیزیں بہت پرانی ہو چکی ہیں۔ لوگوں میں اب شعور آچکا ہے، لوگ اب ان چیزوں کو سمجھنا شروع ہو چکے ہیں۔ لہٰذاحفظ ماتقدم کے طور پر تحریک انصاف کو چاہیے کہ وہ نئے ملتے جلتے نام سے اپنی ایک مزید پارٹی رجسٹرڈ کروا لے۔ بالکل اسی طرح جس طرح پاکستان پیپلزپارٹی کو تلوار کے نشان سے پاکستان پیپلزپارٹی پارلیمنٹرین میں بدلنا پڑا ۔ یعنی پاکستان میں اس وقت پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو اور پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمینٹرین سابق صدر آصف علی زرداری کی سربراہی میں موجود ہیں اور دونوں کے تنظیمی ڈھانچے الگ الگ ہیں۔ 1999 میں نواز شریف کے دور حکومت میں بینظیر بھٹو کو جسٹس ملک محمد قیوم کی سربراہی میں احتساب عدالت نے نااہل قرار دیا جس کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمینٹرین کا قیام عمل میں لایا گیا۔اسی طرح ایم کیو ایم پر پابندی کے بعد ایم کیوایم پاکستان تشکیل دی گئی ۔ لہٰذااس ملک کی سیاست کو دیکھتے ہوئے تحریک انصاف کو بھی نئے نام سے رجسٹرڈ کروانے کی ضرورت ہے تاکہ اس جماعت کو توڑ پھوڑ کے عمل سے بچایا جاسکے۔ بہرکیف گزشتہ 75سالوں سے فیصلے کرنے والے یہ بھول جائیں کہ اب بھی وہ جو چاہیں گے وہی ہوگا۔ اب حالات یکسر بدل چکے ہیں۔ اب 1977نہیں ہے، یہ 2023ہے۔ جدید سوشل میڈیا کا دور ہے۔ اب لوگ اصل نقل کی پہچان کر چکے ہیں، اب لوگ اسد عمر جسے آج گرفتار کر لیا گیا ہے، کو بھی جانتے ہیں اور رانا ثناءاللہ کی” بدتمیز سیاست “ کو بھی خوب جانتے ہیں۔ رانا ثناءکا ذکر آیا ہے تو بتاتا چلوں کہ ن لیگ کو اس شخص نے جتنا نقصان پہنچایا ہے اُتنا شاید ہی کسی نے پہنچایا ہو۔ اُن کی زبان، باڈی لینگوئج اور طریقہ کار کسی صورت بھی عوام کے لیے قابل قبول نہیں ہے۔ وہ بجائے اس چیز کے کہ عوام کو رام کریں وہ ہمیشہ جلتی پر تیل ڈالنے کا کام کرتے نظر آتے ہیں۔ میرے خیال میں اس وقت پوری ن لیگ اسی وزیر داخلہ کے گرد گھوم رہی ہے۔ اور پاکستان کے 90فیصد عوام اسی وزیر کی وجہ سے ن لیگ سے متنفر ہو رہے ہیں۔ اور رہی بات شہبازشریف کی تو وہ گرفتاری کے وقت لندن میں تھے، جبکہ اب پاکستان میں آچکے ہیں۔ اور اُن کی بھی اخلاقیات کا یہ عالم ہے کہ موصوف ایک اشتہاری سے مل کر پاکستان کے فیصلے کر رہے ہیں۔ چلیں مان لیا کہ نواز شریف پر جھوٹے مقدمات قائم کیے گئے، مگر وہ فی الوقت انہی عدالتوں کے مفرور ہیں ، اور پھر ایسی صورتحال میں بتایا جائے کہ قانون کہاں ہے؟ اور پھر ہمارے سسٹم کا حال دیکھ لیں کہ جس شخص نے جھوٹی گارنٹی دی کہ وہ چیک اپ کے بعد ملک واپس آجائیں گے اُسی شخص کو ہم نے وزیر اعظم بنا دیا۔ مطلب! کوئی ادارہ اُس سے یہ بھی نہیں پوچھ رہا کہ آپ کی گارنٹی پر سابق وزیر اعظم عدالتوں اور اداروں کو چکمہ دے کر بیرون ملک گئے تھے، وہ دو ڈھائی سال گزرنے کے باوجود ابھی تک واپس کیوں نہیں آئے۔ لہٰذاخدارا اس ملک پر رحم کریں ، یہ ملک اس وقت تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے، امریکی ادارے بلوم برگ کی رپورٹ کے مطابق بیل آﺅٹ قرضوں کے بغیر ڈیفالٹ ہو سکتا ہے، جون کے بعد پاکستان کے قرض ادائیگی کے فنانسنگ آپشن غیر یقینی ہیں۔ورنہ حالات قابو سے باہر ہو جائیں گے۔اگر عمران خان نے اداروں کے افسران کانام لے کر غلطی کی ہے تو میرے خیال میں پاکستان کی سیاست میں یہ کوئی نئی بات نہیں ہے، اور پھر آرمی چیف یا فوجی افسران کے خلاف باتیں کیا پاکستان کی سیاسی تاریخ میں نئی ہیں؟ اس حوالے سے ایک لمبی فہرست موجود ہے۔ آپ زیادہ دور نہ جائیں نوازشریف کی 2017-18ءمیں اپنی ہی حکومت کے دوران ”ووٹ کو عزت دو“ مہم کیا تھی؟ کیا اُس لانگ مارچ کے دوران نواز شریف نے انہی افسران کو نت نئے ناموں سے نہیں پکارا تھا؟ کیا مریم نواز ابھی تک فوجی افسران خاص طور پر سابق چیف آئی ایس آئی فیض حمید کا نام نہیں لیتی؟ کیا زرداری اینٹ سے اینٹ بجانے کا نہیں کہتے؟ کیا وہ یہ الفاظ نواز شریف کے لیے استعمال کرتے تھے؟پھر خواجہ آصف کی اسمبلی کی تقریر ریکارڈ پر موجود ہے، جس میں انہوں نے پورے ادارے کو بدنام کرنے کی کوشش کی ، کیا کوئی اس سے بھی انکاری ہے؟ لیکن ہم نے اُسے آج بھی وزیر دفاع بنایا ہوا ہے۔یعنی اگر کوئی اور کرے تو درست مگر عمران خان کرے تو اُس پر مقدمہ ہوگا، گرفتاری بھی ہوگی اور نئے نئے کیسز بھی بنائے جائیں گے۔ لہٰذاہوش کے ناخن لیے جائیں اور پاکستان پر رحم کھایا جائے ، اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے!