مقصود بٹر کی تقریر: عدلیہ کیلئے لمحہ فکریہ !

کسی بھی ریاست کے بنیادی ڈھانچے میں چار چیزیں اہم ہوتی ہیں۔ ریاست کا بنیادی ڈھانچہ حکومت، مقننہ، عدلیہ اور میڈیا۔ یہ چاروں ریاست کے چار ستون کہے جاتے ہیں کیونکہ اگر ان چار میں سے ایک بھی چیز نہ ہو تو ریاست کا نظم و نسق چلایا ہی نہیں جا سکتا۔ریاست اسلامی جمہوریہ پاکستان میں یہ چار وں چیزیں اپنی لائن سے ہٹ کر چل رہی ہیں۔ مثلاََ پاکستان حکومت چلانے کے حوالے سے یعنی حکومتی رٹ قائم کرنے کے حوالے سے 160ملکوں میں 146ویں نمبر پر ہے، مقننہ یعنی انتظامیہ کے حوالے 180ملکوں میں سے 141ویں، عدلیہ کے حوالے سے 128ملکوں میں سے 120ویں نمبر پر ہے اور میڈیا کے حوالے سے ہم 84ملکوں میں 72ویں نمبر پر آتے ہیں۔ یہ تمام حقائق اس وقت میری ٹیبل پر موجود ہیں، جنہیں میں بار بار اُلٹا سیدھ کر کے دیکھ رہا ہوں کہ شاید اللہ کرے یہ باتیں جھوٹ ہو جائیں، ان سب ”حقائق“ کے ساتھ ساتھ لاہور ہائیکورٹ بار کے صدر چوہدری مقصود بٹر کی گزشتہ دنوں فل کورٹ ریفرنس میں چیف جسٹس محمد قاسم خان کے اعزاز میں دی جانے والی تقریب میں کی گئی اُن کی تقریر بھی موجود ہے۔ تقریر کیا ہے؟ انہوں نے تو سابق چیف جسٹس اور ”پاکستان کے عدالتی نظام“ کے خلاف ہی وائیٹ پیپر جا ری کر دیا ہے، انہوں نے حق گوئی کا ایسا مظاہرہ کیا جس کی نظیر دور دور تک نہیں ملتی انہوں نے کہا، اربوں روپے کھانے والے خاندان کو غیر ضروری ضمانتیں دے کر ادارے کا وقار مجروح کیا۔ راتوں رات ای سی ایل سے نام نکلوایا اُسی خاندان کو ریلیف دی جن کو زندانوں میں روند دینا چاہئے تھا ۔”بٹر ” صاحب نے اپنے سینے پر پتھر رکھ کر اُس کے فئیر ویل ڈنر میں چیخ چیخ کے قوم کو اَس مردود کا گھناو¿نا چہرہ دکھایا کہ بنچ پر بیٹھ کر ایک سابق وزیر اعظم اور اس کے حواریوں کے حواری بنے رہے ۔انہوں نے کہا تم اپنے چیمبر میں بیٹھ کر سیاستدانوں کے حامیوں کے لئے ووٹ مانگتے رہے تم نے اس انسٹیٹیوٹ کی توہین کی ہے۔ مقصود بٹر کی تقریر واقعی میرے لیے حیران کن تھی، کیوں کہ وہ جس بے باکی اور بہادری سے باتیں کر تے جا رہے تھے، یہ واقعی ایک جرات کا کام تھا۔ میرے خیال میں مقصود بٹر کی اس بے باکی ہی نے ہائی کورٹ لاہور کے علاوہ اسلام آباد ہائیکورٹ اور ملک کی دیگر کورٹس میں ایک نئی روح پھونک دی ۔ لہٰذاخوشی اس بات کی ہوئی کہ چلو کسی کو تو اس ادارے کے مسائل کا تدارک ہے،کسی کو تو عدلیہ اور عوام کے درمیان تعلق کو مضبوط بنانے کی فکر ہے، کسی کو تو بار اور بینچ کے مابین فاصلوں کو کم کرنے کی فکر ہے، کسی کو تو فکر ہے کہ ہمارے چند ججز سیاستدانوں کے ہاتھ کا کھلونا بنے رہتے ہیں، کسی کوتو فکر ہے کہ عدلیہ مضبوط ہوگی تو پاکستان ترقی کرے گا اور کسی کو تو ججز کی تقرریوں پر تحفظات ہیں ۔ مثلاََ وہ کہتے ہیں کہ پاکستان بھر کی وکلاءتنظیمیں ہائیکورٹس اور سپریم کورٹس میں ججز کی تعیناتی کے حوالے سے کئی بار اپنے تحفظات کا اظہار کر چکی ہیں، اور بارہا یہ مطالبہ دہرا یا ہے کہ ایسی تعیناتیاں بار کے نمائندوں کی حقیقی اور بامعنی مشاورت سے کی جائیں، وہ کہتے ہیں ججز کی تعیناتی کو شفاف بنایا جائے ورنہ ججز سیاستدانوں کے ہاتھ کا کھلونا بن جائیں گے!اس کے علاو انہوں نے نئے چیف جسٹس کے لیے بھی نیک کلمات کہے اور کہا کہ وہ یقینا سابقہ چیف جسٹس کے تلخ تجربات کو نہیں دہرائیں گے، اور ادارے کی ساکھ کو بہتر بنانے کے لیے ہمیشہ کام کریں گے۔ قارئین تقریر تو خاصی لمبی تھی، مگر یہ تقریر چیخ چیخ کر پاکستان کے عدالتی نظام کو بیان کر رہی تھی، یقینا یہ بات درست ہے کہ اس سسٹم میں ایک زبردست انقلاب کی ضرورت ہے وہاں ہماری بار کونسلز میں بھی ایک انقلاب کی ضرورت ہے چونکہ میں بچپن سے دیکھ رہا ہوں کہ جو بھی حکومت ہوتی ہے وہ بار کونسلز، ججز اور وکلاءمیں اپنا اثر رسوخ قائم کرنے کے لئے ہر ہتھکنڈا استعمال کرتی ہیں، معذرت کے ساتھ عدلیہ کا وقار تو یہاں تک گرا ہوا ہے کہ چند ایک ججز کو دیکھا گیا ہے کہ انہوں نے ”تحائف“ حاصل کرنے کی غرض سے اپنے بچوں کی شادیاں سیاستدانوں کی اولادوں سے کر دیں۔ اب تو حالات یہاں تک پہنچ چکے ہیں کہ وکلاءحضرات کی ججز پر اور عدالتی نظام پر گرفت اس قدر مضبوط ہو چکی ہے کہ اب وکلاءحضرات نے کیسز ”ٹھیکے “ لینے شروع کر دیے ہیں۔ اس کے لیے ججز کو ڈرانا، دھمکانا اور اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرنا معمول کی باتیں بن چکی ہیں۔ اس کی مثال آپ یوں لے لیں کہ جب بھی جج اور وکیل کا جھگڑا ہوتا ہے، تو ہمیشہ جج ہی کو معافی مانگنا پڑتی ہے۔ اسی دباﺅ کے حوالے سے امریکی سپریم کورٹ کے مشہور جج جسٹس اولیور ہومز نے امریکی سپریم کورٹ کے ایک مشہور فیصلے میں اختلافی نوٹ لکھا، اس میں ایک بڑا دل چسپ جملہ لکھا کہ مشکل مقدمات کی طرح بڑے کیسز کے نتیجے میں جو قانون سامنے آتا ہے وہ بہت ب±را ہوتا ہے۔ بڑے کیسز سے مراد وہ جن میں ججز پر بہت زیادہ دباو¿ ہوتا ہے، جو میڈیا پر بہت زیادہ نمایاں ہوئے ہیں جن سے لوگوں کو بہت زیادہ توقعات وابستہ ہوں، جب ان کیسز کا فیصلہ کیا جاتا ہے تو ہومز کے بقول وہ صحیح فیصلہ نہیں ہوتا، ہارورڈ کے ایک پروفیسر کی کتاب کا عنوان یہی ہے کہ بڑے مقدمات برے قانون کو جنم دیتے ہیں، اس کتاب میں انہوں نے امریکا کے چوبیس بڑے بڑے کیسز کو جمع کرکے تجزیہ کیا کہ ان کے نتیجے میں جو قانون بنے وہ صحیح تھے یا غلط۔ انہی تجزیوں اور تبصروں کے نتیجے میں قانون آگے بڑھتا ہے اور اصلاح کا موقع ملتا ہے۔پھر ہمارے ہاںلوئیر ججز کو تحفظ نہیں ملتا اس لیے وہ قبضہ گروپوں کے ہاتھوں یرغمال بن جاتے ہیں، پھر انگریز کے دور میں اور پوری دنیا میں ججز کو عوام سے ملنے ، گھلنے ملنے وغیرہ سے منع کیا جاتا ہے، حتیٰ کہ ججز ٹی وی کے پروگرام بھی نہیں دیکھتے اور نہ ہی اخبار دیکھتے ہیں کہ اُن کی رائے نہ بدل جائے، جبکہ یہاں پر ججز ہر شادی بیاہ، تقریب بلکہ ہر جگہ پر نظر آتے ہیں، یہاں تک کہ کسی ریسٹورینٹ کے افتتاح بھی اکا دکا ججز کو دیکھا گیا ہے۔ پھر جیسے مقصود بٹر نے بات کی کہ عدلیہ کو عوام کے بارے میں بھی سوچنا چاہیے، تو اس حوالے سے عوام کا سب سے بڑا مطالبہ ہے کہ فوری اور صحیح انصاف، جیسے مقدمات کی تاخیر میں پولیس کا بہت اہم کردار ہوتا ہے، جس طرف کسی کی نظر نہیں جاتی، لہٰذااگر ہمیں عدلیہ کے وقار کو بلند کرنا ہے تو ہمیں فوری انصاف مہیا کرنا ہوگا، اگر فوری انصاف ہوگا تو عدالتوں میں موجود 22لاکھ زیر التواءمقدموں کا فیصلہ بھی ہو جائے گا، جن سے کوئی نہیں کم و بیش 50لاکھ خاندان جڑے ہیں۔ الغرض 1956 سے 2017 تک، جسٹس منیر خان سے اب تک عدالتوں میں لوگ شکایت ہی کرتے رہے کہ مولوی تمیزالدّین کو انصاف نہیں ملا، نصرت بھٹو ضیاءکے مارشل لا پر انصاف کی بھیک مانگتی رہیں، بھٹو کا ٹرائل عدالتی قتل ٹھہرا اور تو اور بے نظیر کے مقدمے میں اعلی عدالتی ججز کو ٹرائل کورٹ کے فیصلے میں بغض فائلز کے اُوپر تیرتا ہوا نظرآیا، نوازشریف عدالتوں سے نالاں تھے، رہے اور اب تک ہیں، اب تو ”پانامہ کی بجائے اقامہ پر کیوں نکالا“ بھی ایک دائمی اختلاف کی طرح ان کے ساتھ ساتھ ہے اور عوام ان کو سن بھی رہے ہیں لیکن وہ بھی انصاف کے نظام کے راستے کے مسافر ہیں ۔ لہٰذااگر تمام لوگ اس سسٹم کو ٹھیک کرنا چاہتے ہیں تو خرابی کہاں ہے؟ میرے خیال میں خرابی ہمارے رویوں میں ہے، ہماری سوچ میں ہے، اگر ہر کوئی بٹر صاحب کی طرح سوچ رکھے تو یقینا یہ سسٹم ٹھیک ہو سکتا ہے۔ اور یہ بات بھی درست ہے کہ اس وقت پاکستان میں ججز سب سے زیادہ تنخواہ لینے والا طبقہ ہے، جیسے سپریم کورٹ کے ججز کی تنخواہ لیفٹیننٹ جنرل اور گریڈ 22کے بیوروکریٹ سے زیادہ ہے، کیا اُس کے بعد بھی ان کو شادیوں پر تحائف لینے کی ضرورت ہوتی ہے! لہٰذااس وقت سے پہلے اصلاحات لانا ہوں گی تاکہ عدم انصاف کا احتمال نہ رہے، پارلیمان کو ان قومی آئینی اور قانونی اصلاحات کیلئے اقدامات کرنا ہوں گے، چیف جسٹس لا کمیشن کے زریعے تجاویز اور حل پیش کریں، عوامی نمائندگان، وکلا تنظیمیں بار کونسلز اور بار ایسوسی ایشنز، سول سوسائٹی، ہیومن رائٹس کمیشن، میڈیا اور قانون دان آئین ساز اور ماہرین کو اس سلسلے میں تمام شراکت داروں کیساتھ مل کر نظام میں وہ تبدیلیاں تجویز کرنا ہوں گی جس سے ان لاکھوں کیسوں کو سالوں کی بجائے مہینوں میں نمٹایا جا سکے، لوگ انصاف کے حصول کیلئے در در ٹھوکریں نہ کھائیں اور سستا فوری اور مکمل انصاف انکے گھر کی دہلیز تک پہنچایا جاسکے، اصلاحات کیلئے کسی بھی نظام کو دیکھا جا سکتا ہے، چاہے امریکن نظام یا وولف اصلاحات پر مبنی برطانوی طرز انصاف ہو یا ہندوستانی لوک عدالتوں کا ماڈل اور یا ہمارا تاریخی ثقافتی اور حقیقت پسندانہ پنچایتی ماڈل، بات انصاف کی فراہمی کی ہے،باتوں سے لاکھوں کیسز میں کمی ناممکنات میں سے ہے اور اس کیلئے سیاسی فیصلہ سازی، ٹیم ورک، عدالتی صاحبان اور ان کی سروس استعمال کرنے والے 220 ملین عوام کی رائے اور اسکا احترام اور کام کام اور بس کام کی لگن اور بٹر صاحب جیسا حقیقت پسند رویہ درکار ہے!!! #adalti nazam #Ali Ahmed Dhillon #leader tv hd #Talkhiyan