انتخابات: اپنی حیثیت کھو رہے ہیں!

بالآخر کراچی کا قومی اسمبلی کا ضمنی انتخاب بھی بڑی سیاسی جماعتوں کے اعتراض کے بعد ووٹوں کی دوبارہ گنتی پر ختم ہو گیا، یہ ایک افسوسناک صورتحال ہے کہ ملک میں ہونے والے تقریباً ہر الیکشن کی طرح یہ بھی متنازع ہوگیا ہے۔ جیتنے والی جماعت کے علاوہ انتخابی عمل میں شریک تقریباً تمام دوسری جماعتوں اور امیدواروں نے نتائج کو مسترد کردیااور دھاندلی کی شکایات درج کروائی ہیں،یہاں شفافیت کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ اس ایک حلقے میں جہاں محض ساڑھے تین لاکھ ووٹرز میں سے محض 68ہزار ووٹ کاسٹ ہوئے، وہاں ڈیڑھ سو سے زائد بے ضابطگیاں سامنے آئیں۔ ڈسکہ انتخابات کی نصیحت کے بعد سوچا جا رہا تھا کہ یہ انتخاب الیکشن کمیشن کے لیے بدنامی کا باعث نہیں بنے گا، مگر الیکشن کے دن پولنگ اسٹیشنوں کی ایک بڑی تعداد سے جو نتائج موصول ہوئے ان میں مسلم لیگ (ن) کا پلہ واضح طور پر بھاری تھا لیکن پھر کئی گھنٹوں کے لیے نتائج کی آمد کا سلسلہ رک گیا، جس کے بعد نقشہ بدل گیا اور پیپلز پارٹی کے ووٹ بڑھ گئے۔ یہ بالکل ویسے ہی تھا جیسے جنرل الیکشن میں آر ٹی ایس سسٹم بیٹھ گیا، یا ضمنی انتخابات میں دھند پڑگئی یا ریٹرننگ آفیسر زکے موبائلز کی بیٹری ڈیڈ ہو گئی یا راستے میں تھوڑا ”آرام“ کرنے لگ گئے وغیرہ ۔ ملک میں تقریباً ہر الیکشن کے بعد رونما ہونے والی یہ بدنما صورت حال جس کی وجہ سے ہمارے انتخابات عملاً مذاق بن گئے ہیں، یہ ناقابل برداشت ہے اور اسے جلد از جلدختم ہونا چاہیے، ورنہ عوام کا ووٹنگ سسٹم پر سے اعتبار مزید ختم ہو جائے گا۔ حالیہ ضمنی انتخاب کے حوالے سے ایک اور دلچسپ اور انوکھی واردات یہ ہوئی کہ اس الیکشن کی 90فیصد جماعتیں اس الیکشن کو کورونا وائرس کے سبب ملتوی کرنے کی حامی تھیں لیکن الیکشن کمیشن نے یہاں نہ صرف الیکشن کا انعقاد کروایا بلکہ اُمیدواروں کی جانب سے خوب جلسے جلوس بھی نکالے گئے اور کورونا پھیلانے کی کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی۔ اسی لیے یہاں کا ٹرن آﺅٹ 21فیصد سے بھی کم رہا، اور جیتنے والے اُمیدوار نے پورے حلقے سے محض 5فیصد ووٹ یعنی ساڑھے تین لاکھ ووٹوں میں سے صرف 16ہزار ووٹ حاصل کیے ۔ اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ 5فیصد ووٹ حاصل کرنے والے کو کیا اس حلقے کے 100فیصد عوام کی نمائندگی کا حق دیا جا سکتا ہے؟ اور پھر اس حوالے سے کوئی قانون کیوں نہیں بنایا جاتا کہ جہاں ٹرن آﺅٹ 50فیصد سے کم ہو، وہاں الیکشن کو ہی کالعدم قرار دے دیا جائے۔کیوں کہ ہمارے ہاں الیکشن میں ٹرن آﺅٹ پر ہمیشہ ایک سوالیہ نشان لگا رہا ہے، آپ تاریخ کے اوراق کھنگال کر دیکھ لیں صرف 1977کے انتخابات میں ہمارا ٹرن آﺅٹ 63فیصد تھا، جو کہ بعد ازاں آنے والے اِنتخابات میں بتدریج کم ہوتا رہا۔ 1988ءکے عام اِنتخابات میں ٹرن آو¿ٹ 43.07 فیصد ہوا، 1990ءکے عام اِنتخابات میں 45.46 فیصد تک پہنچ گیا، 1993ءکے عام اِنتخابات میں 40.28 فیصد پر آگیا، 1997ءکے عام اِنتخابات میں 35.42 فیصد کی نچلی سطح پر آگیا جوکہ 2002ءکے عام اِنتخابات میں 41.26 فیصد کی سطح پر پہنچایا گیا۔ بعد ازاں 2005ءمیں ہونے والے بلدیاتی اِنتخابات میں ووٹوں کا ٹرن آو¿ٹ 30 فیصد کی اِنتہائی نچلی سطح تک گر گیا حالانکہ یہ الیکشن لوکل سطح پر منعقد ہوئے اوران میں لوگوں نے زیادہ بڑھ چڑ ھ کر مقامی نمائندوں کو ووٹ دیے۔پھر 2008ءمیں یہ ٹرن آﺅٹ 43فیصد ہوا، اور پھر 2013ءکے الیکشن میں تحریک انصاف کے سونامی کی بدولت ایک بار پھر عوام ووٹ ڈالنے باہر آئے اور ٹرن آﺅٹ 55فیصد ریکارڈ کیا گیا، جو گھٹ کر 2018ءمیں 51فیصد رہ گیا۔ اور گھٹتے گھٹتے اب ڈسکہ ضمنی انتخاب میں 43فیصد اور کراچی حلقہ این اے 249 میں 21فیصد پر آگیا۔ اِس تقابل سے ظاہر ہوتا ہے کہ عوام موجودہ مہنگے اور بدعنوان انتخابی نظام سے مایوس ہوچکے ہیں اور اُنہیں موجودہ نظام انتخابات کے ذریعے ملک میں کوئی مثبت تبدیلی آنے کا کوئی اِمکان دکھائی نہیں دیتا۔ اس لیے میرے خیال میں اس پر مکمل تحقیق ہونی چاہیے کہ ہمارا ٹرن آﺅٹ اوسطاََ 40فیصد کیوں رہتا ہے؟یعنی پاکستان کے 60فیصد عوام الیکشن پراسس میں حصہ ہی نہیں لیتے! حالانکہ ووٹنگ ٹرن آﺅٹ میں ترقی یافتہ ممالک سب سے آگے ہیں، بیلجیم میں ٹرن آﺅٹ 88فیصد، سویڈن میں 84فیصد، جنوبی کوریامیں 80فیصد، نیوزی لینڈ میں 78فیصد، جرمنی میں 71فیصد، فرانس میں 70فیصد اور امریکا میں 60فیصد سے زائد ٹرن آﺅٹ ہوتا ہے۔ وہاں ووٹرز کو پابند کیا جاتا ہے کہ وہ ووٹ کاسٹ کریں اس کے لیے وہاں کی حکومت ووٹ کے بدلے عوام کو سہولیات فراہم کرتی ہیں، مثلاََ بیلجیم، تھائی لینڈ، جنوبی کوریا کی حکومتیں جان بوجھ کر ووٹ نہ ڈالنے والوں کو صحت، تعلیم و دیگر سہولیات نہیں دیتیں، تبھی اُن کا ٹرن آﺅٹ بھی بہتر رہتا ہے اور بہترین قیادت بھی حکومت سنبھالتی ہے۔ جبکہ یہاں ووٹنگ ٹرن آﺅٹ پر نہ تو توجہ دی جاتی ہے اور نہ ہی عوام میں ووٹ ڈالنے کے حوالے سے شعور اُجاگر کیا جاتا ہے، بلکہ یہاں تو بسا اوقات دنیا کی نظروں میں دھول جھونکنے کے لیے حقیقت سے زیادہ ٹرن آﺅٹ شو کروایا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ موجودہ انتخابی نظام میں آپ یہ بھی دیکھیں کہ انتخابات کے بعد جو بھی حکومت بنتی ہے صحیح معنوں میں اقلیتی حکومت ہوتی ہے۔ چونکہ اس نظام کے تحت ایک امیدوار کل رجسٹرڈ ووٹوں کا بہت تھوڑا حصہ لے کر بھی کامیاب ہو سکتا ہے۔فرض کیجئے ایک حلقہ انتخاب میں ایک لاکھ رجسٹرڈ ووٹر ہیں ان میں سے 50,000 افراد نے اپنا حق رائے دہی اپنے پسندیدہ امیدواروں کے حق میں استعمال کیا۔ کل 5 امیدواروں نے انتخاب میں حصہ لیا ایک امیدوار نے 12,000 ووٹ حاصل کئے، دوسرے نے 11,500 ووٹ حاصل کئے، تیسرے نے 11,000، چوتھے نے 9,500 اور پانچویں نے 8,000 ووٹ حاصل کئے۔ اس طرح موجودہ نظام کے تحت 12,000 ووٹ حاصل کرنے والا امیدوار اس حلقے کا نمائندہ قرار دے دیا جائے گا حالانکہ 38,000 افراد اسے نمائندہ نہیں بنانا چاہتے اور 50,000 افراد نے بوجوہ اپنا رائے حق دہی استعمال ہی نہیں کیا مگر وہ صرف اس لئے کامیاب قرار دیا گیا کہ اس نے اپنے حریف امیدوار کے مقابلے میں 500 ووٹ زیادہ لئے ہیں اور اب وہ ایک لاکھ افراد کے حلقہ انتخاب کا نمائندہ تصور کیا جائے گا۔ آپ مجموعی طور پر اگر دیکھیں تو ہمارے ہاں حکومت بھی ایسے ہی وجود میں آتی ہے، پچھلے تمام انتخابات کا جائزہ لیں تو ایسی بہت سی مثالیں ملیں گی جہاں برسر اقتدار آنے والی سیاسی جماعتوں نے بھی بہت کم ووٹ حاصل کئے۔ مثلاً 1970ءکے انتخاب میں برسر اقتدار جماعت کو کل کاسٹ شدہ ووٹوں میں سے صرف 38.9 فیصد ووٹروں کی تائید حاصل تھی۔ 1988ء کے انتخابات میں پیپلز پارٹی نے 37.63 فیصد ووٹ حاصل کئے اور 45 فیصد نشستیں حاصل کیں جبکہ اسلامی جمہوری اتحاد نے 29.56 فیصد ووٹ حاصل کئے اور 28 فیصد نشستیں حاصل کیں۔ اس طرح اس نظام انتخاب کے تحت پیپلز پارٹی نے ووٹوں کے تناسب سے زیادہ نشستیں حاصل کیں اور اسلامی جمہوری اتحاد نے تناسب سے کم نشستیں حاصل کیں۔1990ءکے انتخابات میں اسلامی جمہوری اتحاد کو 37.37 فیصد ووٹ ملے اور نشستیں 106 ملیں یعنی 52.8 فیصد جبکہ پی ڈی اے کو 36.65 فیصد ووٹ ملے اور نشستیں 44 یعنی 22.7 فیصد۔ اس طرح اس نظام انتخاب کے تحت ووٹوں میں صرف ایک فیصد کے فرق سے 62 نشستوں کا فرق پڑ گیا۔ اسی طرح بعد میں آنے والی حکومتیں بھی اسی طرح ہی بنتی رہیں۔ اس کے علاوہ ہمارے ہاں انتخابی نتائج کو بدقسمتی سے ماننے کو کوئی تیار نہیں ہوتا، کوئی انتخابی آڈٹ کروانے کو تیار نہیں ہوتا، 2013ءمیں عمران خان نے شور ڈالا کہ 4حلقے کھول دو، حکومت اُلٹ گئی لیکن حلقے کسی نے نہیں کھولے۔ پھر 2002ءمیں خورشید قصوری 500ووٹوں سے اپنے حلقے میں جیتے، جبکہ اُن کا مخالف اُمیدوار اگلے پانچ سال تک ری کاﺅنٹنگ نہیں کروا سکا۔ پھر حامد ناصر چٹھہ کے حلقے میں بھی ایسے ہی کچھ مسائل نظر آئے۔ ان مذکورہ بالا مسائل کے علاوہ ایک اور بڑا مسئلہ ہمارے ہاں یہ ہے کہ اگر کوئی الیکشن اصلاحات کے لیے کوئی بل اسمبلی میں لے آئے تو اسمبلی اراکین ہی اُس کی مخالفت کرتے نظر آئیں گے، جیسے حال ہی میں تحریک انصاف الیکٹرونک ووٹنگ مشینری کے استعمال کے حوالے سے الیکشن اصلاحات متعارف کروانا چاہتی ہے جبکہ شہباز شریف اس کی کھل کر مخالفت کررہے ہیں، لیکن اگر یہی پراجیکٹ موصوف شہبازشریف یا اُن کی من پسند 56کمپنیوں میں سے کسی ایک کو دے دیا جائے تو شہباز صاحب اسی کام کو دل ، دماغ اور لمبے بوٹوں کے ساتھ تکمیل تک بھی پہنچائیں گے اور اربوں روپے کا کمیشن سمیت ریونیو قرضے کی صورت میں اکٹھا بھی کرلیں گے، جسے پاکستانیوں کی آنے والی سات نسلیں اُتارتی رہیں گی۔ لہٰذاخدارا!ہوش کے ناخن لیجیے !انتخابی اصلاحات کیجیے ، اور انتخابی اصلاحات کا کام حکومت تنہا نہیں کر سکتی اس کے لیے قومی اتفاق رائے نیز الیکشن کمیشن اور دیگر متعلقہ اداروں کی مشاورت اور شرکت لازمی ہے۔ اس لیے تمام شکوک و شبہات اور ہر طرح کی مداخلت سے پاک انتخابات قومی سلامتی کے لیے ناگزیر ہیں لہٰذا مزید کسی تاخیر کے بغیر حکومت اور اپوزیشن دونوں کو متحد ہوکر اس سمت میں نتیجہ خیز پیش رفت کرناہوگی ورنہ ہر آنے والا الیکشن ڈسکہ اور این اے 249 سے بھی برا ہوگا۔