ہم کس منہ سے فلسطین فلسطین کر رہے ہیں؟

دنیا میں اس وقت ہر سال 900ارب ڈالر کاسگریٹ کا کاروبار ہو رہا ہے، اور ہر سال 80سے 90لاکھ افراد سگریٹ نوشی سے مر رہے ہیں، لیکن کسی کی جرا¿ت نہیں کہ اس کاروبار کو ختم کر سکے۔ اسی طرح دنیا بھر میں ہر سال 870ارب ڈالر کا مشروبات(کولڈ ڈرنکس) کا کاروبار ہو رہا ہے، اور ہر سال انہی مشروبات کی بدولت 4کروڑ افراد گردے کے مرض میں مبتلا ہو جاتے ہیں، جن میں 60لاکھ افراد موت کے منہ چلے جاتے ہیں، لیکن کسی کی جرا¿ت نہیں کہ اس کاروبار کو ختم کر سکے۔ پھر دنیا بھر میں ہر سال لاکھوں افراد اسلحے کی وجہ سے مرتے ہیں مگر مجال ہے کہ ان کمپنیوں کے بارے میں عدالت یا کسی اور عالمی فورم کا دروازہ کھٹکھٹاتا ہو۔ پھر اسی طرح کئی کمپنیاں ایسی ہیں جن سے انسانی زندگیوں کو خطرات لاحق ہیں مگر وہ کام کر رہی ہیں اور ڈنکے کی چوٹ پر کر رہی ہیں۔ کسی جج کی جرا¿ت نہیں کہ وہ ان کمپنیوں کے خلاف سوموٹو لے سکیں۔ یا کسی صدر، وزیر اعظم یا آرمی چیف کی جرا¿ت نہیں کہ وہ ان کمپنیوں کو اپنے ملک میں کام کرنے سے روک سکیں۔قارئین !آج کے جدید دور میں درحقیقت یہ پرائیویٹ کمپنیاں ہی ہوتی ہیں، جو طاقت کے بل بوتے پر ان ملکوں کی تقدیر کے فیصلے کرتی ہیں۔ اور اُس دور کو بھول جائیے جب کاروباری شخصیات اپنے ملک سے مخلص ہوا کرتی تھیں۔ لہٰذاجب آپ ان بزنس پراڈکٹس کو نہیں روک سکتے جو انسانی جان کی دشمن ہیں تو کسی جنگ کو کیسے روک سکتے ہیں، جو شاید نجی کمپنیوں کی جانب سے شروع کی گئی ہو؟ یہ کمپنیاں بیشتر ممالک میں نجی سطح پر چلائی جا تی ہیں، جن کا کسی نہ کسی سطح پر حکومت چلانے میں بھی ہاتھ ہوتا ہے، تبھی تو امریکا جیسے ملک میں بھی ہیلری کلنٹن جیسی سیاستدان پر نجی کمپنیوں سے الیکشن مہم کے دوران فنڈز لینے کے الزامات لگ چکے ہیں اور پھر یہ کمپنیاں جس ملک میں کاروبار کر رہی ہوتی ہیں تو وہاں کی حکومتوں میں اپنے بندے بھی منتخب کرواتی ہیںتاکہ وہ مضبوطی سے اپنے فیصلوں پر عمل کروا سکیں ۔ اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے اسرائیل جب بھی فلسطین یا کسی بھی عرب ملک کے خلاف جارحیت کرتا ہے تو امریکا پراسرار خاموشی اختیار کر لیتا ہے ۔ یا اگر اُسے کبھی کبھار اسرائیل کے خلاف بیان دینے کی نوبت آبھی جائے تو اسرائیل اُسے اپنا پیسہ امریکا سے نکالنے کی دھمکی دے ڈالتا ہے۔ جس پر سپرپاور امریکا دوبارہ خاموش ہو جاتا ہے۔ اور اب حالیہ کشیدگی میں بھی کئی ممالک نے اسرائیلی جارحیت کے خلاف اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس بلانے کے لیے کہا مگر امریکا نے یہ کہہ کر ویٹو کر دیا کہ ابھی اس کی ضرورت نہیں! قارئین! بتائیے کہ دنیا کے اس ماحول میں جب ہر کوئی اپنے مفادات کے لیے کام کر رہا ہے تو ہم کس باغ کی مولی ہیں؟ کیا ایسا نہیں ہے کہ پرائیویٹ کاروباری صنعتوں یا شخصیات کے سامنے حکومتیں بے بس ہو چکی ہیں، کیا کوئی ملک رہ گیا ہے، یا کوئی مذہب رہ گیا ہے؟ جہاں نجی کاروباری کمپنیوں کے مفادات پنہاں نہ ہوں؟اور پھر دنیا بھر میں سالانہ 450ارب ڈالر کے اسلحے کی خریدو فروخت کی جاتی ہے، سرمایہ دار ممالک میں اسلحہ ساز ادارے نجی ملکیت میں ہوتے ہیں، حکومتیں بھی ان سے مال خریدتی ہیں۔اس وقت چین ، روس،فرانس، امریکا، اسرائیل، برطانیہ، جرمنی اسلحہ سازی کے حوالے سے دنیا بھر میں اپنا ایک مقام رکھتے ہیں۔ ان ممالک میں تمام اسلحہ نجی کمپنیاں بناتی ہیں۔ ایک امریکی اسلحہ سازکمپنی کی سالانہ فروخت 44.9 ارب ڈالر ہے۔ یہ دنیا میں پہلے نمبر پر ہے۔ دوسرے نمبر پر بھی ایک امریکی ادارہ ہے‘ اس کے اسلحہ کی فروخت 26.9 ارب ڈالر ہے۔ تیسرے نمبر پرناروے کی کمپنی ہے ‘اس کے اسلحے کی فروخت 23.9 ارب ڈالر ہے۔ چوتھے نمبر پر برطانوی کمپنی ہے ، اس کمپنی کی کل فروخت 22.9 ارب ڈالر سالانہ ہے۔پانچویں نمبر پر پھر ایک امریکی کمپنی ہے اور اس کے تیار کردہ اسلحے اور پرزہ جات کی سالانہ فروخت 22.4 ارب ڈالر سالانہ ہے۔ جب دنیا بھر میں اس قدر اسلحہ فروخت ہو رہا ہو تو سوچنے کی بات ہے کہ جنگ کو روکنے کی باتیں کون کرے گا؟ یعنی جو کرے گا پھر وہ سارا نقصان اُسی پر ڈال دیا جائے گا۔ اس لیے ہمیں ہوش کے ناخن لینے چاہیے، ہمیں جذبات سے نکل کرحقیقت پسند بننا چاہیے۔ اور حقیقت پسندی یہی ہے کہ دنیا بھر میں کہیں مذہب کی بنیاد پر جنگ نہیں ہو رہی، ہر طرف مفادات کی جنگیں ہو رہی ہیں۔ اور رہی بات مسلمان ملکوں کی تو یہ ملک میرے خیال میں امیر ممالک کے لیے اسلحے کی ”ٹیسٹنگ کٹ“ بن چکے ہیں۔ جیسے حالیہ بیس سالوں کی جنگوں کی تاریخ کو اُٹھا کر دیکھ لیں، امریکا نے افغانستان پر جنگ مسلط کی تو ٹیسٹنگ کے طور پر وہاں کلسٹر بم پھینک کر پوری دنیا کو حیران کر دیا، یہ ایک بم سے سینکڑوں بم نکلنے والی خطرناک ٹیکنالوجی تھی۔ پھر اسی جنگ میں برطانیہ نے بی بمبار 52کے تجربات کیے ۔ پھر عراق امریکا جنگ ہوئی تو امریکا نے اس جنگ کی آڑ میں جدید ترین میزائل ٹیکنالوجی کو متعارف کروایا۔ پھر شام جنگ کا آغاز ہوا جس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی اور پھر دنیا نے دیکھا کہ اس چھوٹے سے ملک کو کسی نے نہیں بچایا بلکہ امریکا، اسرائیل، روس، ایران اور برطانیہ سمیت ہر ملک نے اپنے ہتھیار بطور ”ٹیسٹنگ“ یہاں بھیجے۔ پھر یہاں پر دیکھا گیا کہ بشرالاسد کی جانب سے مبینہ طور پر کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال ہوا ۔ جسے کسی بڑے ملک نے بطور ٹیسٹ مہیا کیا تھا۔ پھر چند سال قبل افغانستان کے پہاڑوں پر امریکا اور اُس کے اتحادیوں نے ”تمام بموں کی ماں“ کے نام سے افغانستان کے صوبہ ننگر ہار کے پہاڑوں پر بم برسائے جہاں50کلومیٹر بلندی تک شعلے دیکھے گئے۔ اور تباہی کے مناظر کچھ ایسے تھے کہ روس بھی ”تعریف“ کیے بغیر نہ رہ سکا۔ اور قارئین اب حال ہی میں اسرائیل نے حماس کے ساتھ جنگ چھیڑ دی ہے اور دنیا نے دیکھا ہے کہ جدید ترین اسلحے سے لیس اسرائیل کس طرح فلسطین پر بمباری کر رہا ہے اور ساتھ ہی نئے اور جدید ڈیفنس سسٹم ”آئرن ڈوم“ کی عملی نمائش کر رہا ہے جس سے حماس کی جانب سے آنے والے راکٹ حملوں کو فضاءمیں ہی تباہ ہوتے دکھایا گیا ہے۔ اسرائیل دکھا رہا ہے کہ آﺅ اور دیکھو کہ ہم جدید ٹیکنالوجی میں کس قدر آگے نکل چکے ہیں۔ آﺅ ہم سے یہ سسٹم خریدواور اپنے ملک میں اسے نافذ کرو تاکہ تم بھی محفوظ ہو جاﺅ۔ اب یہ جنگ چند ایک دنوں میں ختم ہو جائے گی لیکن اسرائیل جس نے عملی طور پر جدید ٹیکنالوجی کو دنیا کے سامنے رکھا اُس کے ”گاہکوں“ میں بھی خاصا اضافہ ہو جائے گا اور اُمید واثق ہے کہ اس کے سب سے پہلے گاہک بھی اسلامی ممالک اور خاص طور پر بڑے بڑے اسلامی ممالک ہی ہوں گے! بہرکیف ہمیں یہ بات سمجھ آجانی چاہیے کہ اگر دنیا میں امن ہو جائے گا تو روس، امریکا، چین، فرانس، جرمنی ، برطانیہ کس کو اسلحہ بیچیں گے؟ ان ممالک کا ایسی چھوٹی موٹی جنگوں میں انسانی جذبات و احساسات سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا۔یا ایسی جنگوں میں لوگوں کے مرنے سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ وہ تو چاہتے ہیں کہ جنگ عروج پکڑے تبھی تو دیکھنے کا مزا بھی آئے گا! اور صلح کروانے کی قیمت بھی ادا ہوگی۔اس لیے ہمیں موجودہ حالات میں فلسطین فلسطین کرنے کے بجائے حقیقت پسند بننا چاہیے، حقیقت پسند اس قدر کہ ہمیں علم ہونا چاہیے کہ ہمیں ”بلیک ستمبر“ کوبھی یاد رکھنا چاہیے جب بریگیڈئیر (اُس وقت کی پوسٹ) ضیا الحق نے اردن میں25000 فلسطینیوں کا قتل عام کیا تاکہ فلسطینیوں کا اردن سے صفایا کیا جا سکے۔ ضیاءالحق 1967 ءسے 1970 ءتک اردن میں موجود رہے۔ اس وقت وہ بریگیڈیئر تھا۔ اردن میں قیام کے دوران ان کو اردن کے سرکاری اعزاز سے نوازا گیا۔ جنرل ضیاءالحق نے اردن کی آرمی کو تربیت دی۔ اردن نے 1970 میں اسرائیل مخالف فلسطینی فدائیان کو ملک سے نکالنے کا فیصلہ کیا تو یہی ضیاءالحق تھے جنہوں نے مشن ٹریننگ اور فلسطینیوں کے خلاف جنگی پلان مرتب کیا اور فلسطینیوں کے خلاف ہونے والے آپریشن میں اردن کے سپاہیوں کی قیادت کی۔اس آپریشن کو ”بلیک ستمبر“ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اور اس میں 25000 کے قریب معصوم فلسطینی مارے گئے تھے۔ پھر ہمیں اس حقیقت سے بھی آشنا ہو چاہیے کہ ترک آسٹریا جنگ میں جسے ترکوں نے جیتا تھا، اُس میں ہمارا (ہندی مسلمانوں ) کا کوئی کردار نہیں تھا۔ پھر جبرالٹر کی فتح میں بھی عرب مسلمان ہندی مسلمانوں کو شامل نہیں کرتے۔ بلکہ وہ تو یہ کہتے ہیں کہ آپ نے ہمیں پہلی جنگ عظیم میں انگریز کے ساتھ مل کرمارا ہے۔ اور تاریخ گواہ ہے کہ ایسا ہوا بھی ہے۔اور پھر تاریخ اس بات کی بھی گواہ ہے کہ ہم آج تک کتنے ہاتھوں میں استعمال ہوئے ہیں، کبھی ملک چھوڑ دو تحریک میں، تو کبھی ریشمی رومال تحریک میں وغیرہ لہٰذاآج ہم کس منہ سے فلسطینی فلسطینی کر رہے ہیں؟ ہم صرف غریب عوام کو بے وقوف بنا کر اپنے دل کو تسلی دے رہے ہیں؟ ہمارا تو اپنا قبلہ ہی درست نہیں ہے ہم کیسے کسی ملک کو بچاسکتے ہیں۔ اس لیے اگر ہم واقعی فلسطین کے معاملے میں سنجیدہ ہیں تو دنیا کے تمام مسلم ممالک کو اسرائیل سے تعلقات کا بائیکاٹ کرنا ہوگا، پاکستان کو اس معاملے میں بہترین سفارتکاری سے کام لینا ہوگا ۔ پھر اسرائیل کے ساتھ کاروباری مراسم کو ختم کرنا ہوگا، یعنی اگر 50سے زائد اسلامی ملک اسرائیل کے ساتھ تجارت بند کردیں تو اسرائیل زندہ نہیں رہ سکتا ، یہی 50ملک اگر فرانس کے ساتھ تجارت ختم کردیں،تو فرانس زمین پر آجائے گا۔ اگر یہ سب کچھ بند نہیں ہوتا تو پھر عام آدمی کے جذبات کے ساتھ کھیلنا بھی بند کیا جائے، ڈرامے بازی بند کی جائے ۔ اور اسی تناظر میں ہمیں بھی یہ بات سمجھ آجانی چاہیے کہ ہمارے جذبات سے کس طرح اور کس قدر کھیلا جا رہا ہے، اور یہ کیوں کھیلا جا رہا ہے یہ بھی جنریشن وار گیم کا حصہ ہے، جس میں شاید ہم ہار چکے ہیں!