زندہ آباد !بھارتی الیکشن کمیشن: کہیں دھاندلی کا شور نہیں!

بھارتی الیکشن ہو چکے، ہماری طرح ، بھارت میں کہیں 8فروری یااُس جیسا شور نہیں ہوا۔ دنیا کی سب سے زیادہ آبادی رکھنے والی ریاست میں شفاف انتخابات کرنے وانے کا سہرہ یقینا بھارتی الیکشن کمیشن پر ہے۔ شفاف انتخابات میں اس لیے بھی کہہ رہا ہوں کہ دونوں بڑی پارٹیوں کانگریس اور بی جے پی میں سے کسی نے دھاندلی کا شور نہیں مچایا۔ آگے چلنے سے پہلے الیکشن کے نتائج پر سرسری نظر ڈالیں تو اس بار بھارت کے اٹھارہویں لوک سبھا (قانون ساز اسمبلی) کے انتخابات کے نتائج ایک غیر متوقع اور دلچسپ رہے۔ نریندر مودی کی پارٹی بی جے پی کی قیادت میں قائم ہونے والے انتخابی اتحاد نیشنل ڈیموکریٹک الائنس(این ڈی اے) نے اسمبلی کی543 میں سے 294 نشستوں پر کامیابی حاصل کی ہے اورنریندر مودی کو دوبارہ وزیراعظم کا امیدوار بنا دیا ہے، اس طرح 1962 ءمیں پنڈت نہرو کے بعد نریندر مودی متواترتیسری دفعہ بھارت کے وزیراعظم ہونے کا اعزاز حاصل کر لیں گے۔ مگر نئی دہلی میں بی جے پی ہیڈ کوارٹر میں اس کامیابی کا جشن منانے والے پارٹی کارکنوں اور رہنماﺅں کے چہروں پر خوشی کے بجائے مایوسی اور افسردگی چھائی ہوئی ہے۔ اس کے مقابلے میں انڈین نیشنل کانگرس (اندرا گاندھی) کی رہنمائی میں 27پارٹیوں کے اتحاد ”انڈیا“ نے 231 نشستوں پر کامیابی حاصل کی ہے۔ اگرچہ اپوزیشن جماعتوں کا اتحاد مرکز میں حکومت سازی کیلئے درکار 272 نشستیں حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے‘ مگر اس کے باوجود کانگرس اور اس کی اتحادی جماعتیں ان انتخابی نتائج کو اپنے لیے ایک بڑی فتح اور وزیر اعظم مودی کی شکست قرار دے رہی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انتخابات سے پہلے نریندر مودی نے اپنے انتخابی اتحاد این ڈی اے بالخصوص اپنی پارٹی بی جے پی کی کامیابی کے بارے میں بلند بانگ دعوے کیے تھے۔ گزشتہ یعنی 2019ءکے انتخابات میں حکومتی اتحاد کے ارکان کی تعداد 353تھی اور ان میں بی جے پی کے 303 اراکین تھے لیکن اس دفعہ این ڈی اے 295 نشستیں حاصل کر سکا ہے جن میں بی جے پی کی 240 نشستیں ہیں۔ اس طرح بی جے پی لوک سبھا میں سادہ اکثریت حاصل کرنے میں بھی ناکام رہی ہے۔ اب نریندر مودی کو بھارت کا وزیر اعظم بننے کے لیے این ڈی اے میں شامل اتحادی پارٹیوں کی حمایت کی ضرورت پڑے گی۔ ان اتحادی جماعتوں میں بہار میں لوک سبھا کی 12 نشستیں جیتنے والی نتیش کمار کی پارٹی جنتا دَل (یونائیٹڈ) اور ا?ندھرا پردیش میں 16 نشستیں جیتنے والی تیلگو ڈیسام پارٹی (ٹی ڈی پی) شامل ہیں۔ نریندر مودی ان دونوں اتحادی پارٹیوں کی مدد سے مرکز میں حکومت بنا سکتے ہیں‘ مگر ان پارٹیوں کے رہنما چندرا بابو نائیڈو اور نتیش کمار بار بار پارٹیاں بدلنے کی وجہ سے ناقابلِ اعتبار سمجھے جاتے ہیں۔ اس لیے نریندر مودی اگر وزیراعظم بن بھی جائیں تو وہ ایک کمزور وزیر اعظم ہوں گے کیونکہ ان کی حکومت ہر قدم پر اپنے اتحادیوں کی حمایت کی محتاج ہو گی۔ مودی اور ان کی پارٹی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ انہیں ایسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑے گا۔ انہیں یقین تھا کہ ان کی کامیابی کی گاڑی جس رفتار سے گزشتہ دس برس سے چلی آرہی ہے‘ 2024ءمیں وہ پہلے سے بھی زیادہ تیز رفتاری کے ساتھ فراٹے بھرتی ہوئی آگے نکلے گی اور اپوزیشن کو بہت پیچھے چھوڑ جائے گی۔ نریندر مودی نے انتخابی مہم میں دعویٰ کیا تھا کہ بھارت کو انہوں نے دنیا کی پانچویں بڑی معیشت بنا دیا ہے اور اب آئندہ پانچ برسوں میں وہ اسے دنیا کی تیسری بڑی معیشت بنادیں گے۔ مودی کا خیال تھا کہ انہوں نے ایودھیا میں رام مندر تعمیر کر کے 80 فیصد ہندوﺅں کے ووٹ پکے کر لیے ہیں، اس لیے انہوں نے ”اب کی بار... چار سو پار“ یعنی لوک سبھا کی 543 میں سے 400 نشستیں حاصل کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بھارت کا مین سٹریم میڈیا بھی نریندر مودی کی آواز میں آواز ملا رہا تھا اور پولنگ ختم ہونے کے بعد اور نتائج آنے سے پہلے‘ ایک آدھ کو چھوڑ کر تقریباً تمام پولسٹرز نے جس طرح یک زبان ہو کر این ڈی اے کی 400 سے زائد نشستوں کے ساتھ کامیابی کا اعلان کیا‘ اس سے اپوزیشن کے انتخابی اتحاد”'انڈیا“ میں سراسیمگی کی لہر دوڑ گئی۔ بھارت ہی میں نہیں بلکہ دنیا بھر میں مودی کی بھاری اکثریت کے ساتھ لینڈ سلائیڈ وکٹری کی خبر پھیلا دی گئی مگر جب نتائج آنا شروع ہوئے تو نقشہ ہی بدل گیا اور کانگرس کے بجائے بی جے پی کے کیمپ میں صفِ ماتم بچھ گئی۔ بی جے پی کو ایسے ایسے محاذوں پر سے بھی شکست کی خبریں موصول ہو رہی تھیں جنہیں وہ ناقابلِ تسخیر سمجھ بیٹھے تھے۔ میرے خیال میں ایسا مضبوط الیکشن کمیشن کی وجہ سے ہورہا تھا کہ 10سال سے براجمان حکومتی اُمیدوار شکست کھا رہے تھے، کہیں حکومت کا اثرو رسوخ استعمال کرنے کی شکایات موصول نہیں ہو رہی تھیں، کہیں کسی پر پری پول دھاندلی یا فارم 47، اور فارم 45جیسے مسائل کا سامنا نہیں تھا۔ یہ سب کچھ دیکھ کر خوشی بھی ہوئی ، حیرت بھی ہوئی اور افسردگی بھی ۔ خوشی اس لیے کہ سسٹم میں رہ کر ایک ریاست کو ترقی کرتا دیکھ کر سسٹم پر آپ کا یقین مزید پختہ ہوتا ہے۔ حیرت اس لیے کہ دنیا کی طاقتور ریاست بھارتی حکومت نے الیکشن جیتنے کے لیے کہیں کوئی اثر ور سوخ استعمال نہیں کیا اور افسردگی اس بات پر کہ یہ چیز ہم کیوں نہیں کر سکتے،، اور جو ہم نہیں کر سکتے، اُس کا کون ذمہ دار ہے؟ سپریم کورٹ ذمہ دار ہے، سیاستدان یا مقتدرہ ؟یا کوئی اور ؟ کوئی تو ہے جو ہماری ترقی کے آگے بندھ باندھے ہوئے ہے.... چلیں اور کچھ نہیں تو صرف یہ بتائیں کہ کیا ہم انڈیا سے بدتر قوم ہیں؟ کیوں کہ جب سے پاکستان بنا ہے، ہر الیکشن پر دھاندلی کا شور مچتا ہے، کیا اس کی وجہ یہ تو نہیں ہے کہ مسلم لیگ ہی سلیکٹڈ لوگوں کی بنی تھی، جبکہ کانگریس عوامی لوگوں کے لیے بنائی گئی تھی، ہم نوابوں کی سرزمین میں سے تھے، اور وہ عوامی سرزمین میں سے تھے۔ تبھی وہ اس وقت سسٹم میں بیٹھے ہیں اور ہم آہستہ آہستہ ہر ادارے میں سفارشی کلچر کو فروغ دے کر اپنا سب کچھ کھو رہے ہیں،،، آپ زیادہ دور نہ جائیں، کرکٹ ہی کو دیکھ لیں، کہ جب سے سفارشی کلچر نے کرکٹ کا گھر دیکھ لیا ہے، تب سے ہمارے ہاں ترقی کا بیک گیئر لگ گیا ہے۔ لیکن وہاں پر ہر ادارہ اپنی حدود میں رہ کر کام کر رہا ہے، میں یہ نہیں کہتا کہ وہاں پر سفارشی کلچر نہیں ہوگا، کرپشن نہیں ہوگی، لیکن وہاں حالات اس قدر خراب نہیں ہیں کہ فارم 45اور فارم 47 الیکشن کمیشن کے گلے کا ہار بن کر رہ جائے۔ ہمارے 58ءسے پہلے بھی جو الیکشن ہوئے تھے تو اُن پر بھی دھاندلی کے متعدد الزامات لگے تھے۔ میں یہ چیزیں سوچ سوچ کر افسردگی سے ہی نہیں نکل پارہا کہ اہم ایسے کیوں ہیں؟ ہماری ثقافت ایک ہے، ہمارا رشتہ ایک ہے، ہمارا بلڈ ریلیشن ایک ہے، ہمارے جینز ایک ہیں، لیکن ہمارے ساتھ ہی ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ ہماری اصلاح کیسے ہوگی؟یقین مانیں !وہ ہماری طرح تنگ نظر بھی نہیں ہیں، ہم نے ڈاکٹر عبدالقدیر کو غدار بنا دیا جبکہ انہوں نے ڈاکٹر عبدالکلام کو ملک کا صدر بنا دیا۔ وہاں اے آر رحمان، شاہ رخ خان، دلیپ کمار، اظہر الدین ، من موہن سنگھ جیسے لیجنڈز کی قدر کی جاتی ہے۔ لیکن ہم اتنے کم ظرف کیوں ہیں؟ ہماری تو آج حالت یہ ہے کہ ہم ایک ہاتھ میں ایٹم بم اور دوسرے میں کاسہ لیے پھر رہے ہیں۔ہم نے تو76سال کے بعد اقلیتوں کو میں سے کسی کو بریگیڈئیر کی سیٹ تک رسائی دی۔ آخر ایسا کیوں ہے؟ یہ وجوہات جاننے کے لیے ہمیں ایک تھنک ٹینک بنانا پڑے گا کہ ہم پیچھے کیوں جا رہے ہیں؟ ہمارے ادارے اپنی حدود میں رہ کر کام کرنے سے قاصر کیوں ہیں؟ ورنہ ہم بہت پیچھے دھکیل دیے جائیں گے۔ کبھی ہم پر ایف اے ٹی ایف کی تلوار رہے گی اور کبھی ہم پر آئی ایم ایف اور ورلڈبنک کی تلوار رہے گی اور کبھی ہمیں اندرونی خطرات کا سامنا رہے گا۔ لہٰذاہمیں سب سے پہلے الیکشن کمیشن کو مضبوط کرنا پڑے گا۔ تاکہ عوام دوست قیادت سامنے آسکیں۔ ناکہ گنے چنے اور منتخب کیے گئے لوگ سامنے آئیں! جو ملک کا بیڑہ پار کرنے کے بجائے اُس کی نیا ہی ڈبودیں۔ خیر بات ہورہی تھی بھارتی الیکشن کی تو یہ بات خوش آئند ہے کہ وہاں الیکشن کمیشن مضبوط ہے، تبھی یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ نریندر مودی ناقابل شکست نہیں ہے، نریندر مودی کی قیادت میں بھارت جس طرح ”وَن پارٹی راج“ اور شخصی آمریت کی طرف جا رہا تھا، اس کا بھی اب خاتمہ ہو گیا ہے اور اب وہ ایک دفعہ پھر 1989 کے بعد شروع ہونے والے مخلوط حکومتوں کے دور کی طرف لوٹ گیا ہے۔ ان نتائج نے یہ بھی ثابت کر دیا ہے کہ انتہا پسند ”ہندوتوا“ کے حق میں اور مسلمانوں کے خلاف نعرے لگا کر ہندوﺅں کی اکثریت کی حمایت کو ووٹ کی شکل میں تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ اس ضمن میں ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کی مثال دی جا سکتی ہے۔ رام مندر کی تعمیر پر ہندو خوش ہو سکتے ہیں مگر اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ وہ بدلے میں مودی کے ووٹر بھی بن جائیں۔ ان انتخابی نتائج سے بھارت کی یہ اہم سیاسی حقیقت بھی کھل کر سامنے آگئی ہے کہ80 فیصد کے قریب ہندو آبادی کی بھاری اکثریت بھارت میں مذہب کی بنیاد پر نفاق‘ نفرت اور عدم برداشت پر مبنی سیاست کے خلاف ہے۔ لہٰذامجھے یقین ہے کہ ہمارے عوام بھی اسی قسم کی سوچ رکھتے ہیں لیکن اُنہیں موقع دیا جائے تو اور شفاف انتخابات کروائے جائیں تو یقینا اس ملک کی بھی تقدیر بدل سکتی ہے!