5جولائی1977ءاور آج کی پیپلزپارٹی !

ہماری زندگی میں یاد رکھنے کو یا 7اکتوبر(پہلا مارشل لائ)، 5جولائی (دوسرا مارشل لائ)، 12اکتوبر (تیسرا مارشل لاء)،3نومبر کی ایمرجنسی ، 9مئی یا 8فروری جیسی تواریخ رہ گئی ہیں ۔ جیسے کل 5جولائی ہے۔ ہم سبھی ماتم کدا ہوں گے کہ بھٹو کے ساتھ زیادتی ہوئی، اور پھر اگلے ہی دن ہم سب کچھ بھول چکے ہوں گے اور ایک نئے مارشل لاءکا جواز پیدا کر رہے ہوں گے۔ یعنی نہ ہم نے کبھی اس جانب بڑھتے قدموں کو روکنے کے لیے اقدامات کیے اور نہ ہی کبھی اس طرف ذہن گیا کہ سیاسی جماعتیں آپس میں اختلافات کو ختم کرکے ملکی بقا کے بارے میں سوچیںاور بیرونی قوتوں کو درمیان میں نہ آنے دیں۔ویسے! ایسا ہونا تو ایک خواب ہے مگر جس پارٹی کو سب سے زیادہ محتاط ہونا چاہیے تھا وہ ہی سب سے زیادہ ”سہولت کار“ بنی ہوئی ہے۔جی ہاں! ہم پیپلزپارٹی کا ذکر کر رہے ہیں، یعنی جنہوں نے 5جولائی کیا، آج پیپلزپارٹی اُن کی سب سے بڑی محافظ ہے، میرے خیال میں یہ بھولے ہوئے ہیں کہ یہ پیپلزپارٹی شہید ذوالفقار علی بھٹوکی پیپلزپارٹی ہے جنہوں نے شہادت کو گلے لگایا مگر آمریت کے سامنے سر نہیں جھکایا۔ تبھی میں اکثر کہا کرتا ہوں کہ آج کی پیپلزپارٹی تو محترمہ کی شہادت کے بعد یکسر ہی بدل گئی ہے، انہیں یاد نہیں ہے کہ جن کے سامنے آج یہ گھٹنے ٹیکے ہوئے ہیں، انہی لوگوں نے پیپلزپارٹی کے ورکروں پر کوڑے برسائے، انہی لوگوں نے قلعوں میں بند کیا، انہی لوگوں نے قیادت کو مفلوج کیا، اور تو اور ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کے تختہ پر لٹکایا۔ پھر جنرل ضیاءالحق نے دس سالہ دور آمریت میں پیپلز پارٹی اور اس کے کارکنوں کے ساتھ ہر اُس شخص پر عرصہ حیات تنگ کردیا ، جس نے کسی بھی شکل میں یا تو آمریت کی مزاحمت کی، یا کسی بھی سطح پر پیپلز پارٹی اور بھٹو شہید کا مقدمہ لڑنے کی کوشش کی۔راقم بھی انہی جیالوں میں سے ایک تھا جنہیں لاہور کے شاہی قلعہ میں قید و بند کی صعوبتیں جھیلنا پڑیں، اُس وقت ہم بھی صف اول کے جیالوں میں شامل رہتے تھے، سیاسی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے اور آمریت کے خلاف خوب زہر اُگلتے تھے۔ الغرض یہ وہ سیاہ ترین دور تھا کہ بھٹو صاحب کو جسمانی طور پر ختم کرنے سمیت پیپلز پارٹی کا جسمانی و نظریاتی وجود ختم کرنے کی پوری کوششیں کی گئیں، لیکن 1988 کے انتخابات کے نتائج نے واضح کردیا کہ نہ تو لوگوں کے دلوں سے بھٹو کو نکالا جاسکا اور نہ پیپلزپارٹی کی عوامی مقبولیت ختم کی جاسکی۔ لیکن اُس کے بعد پیپلزپارٹی اُنہی کے ساتھ کھڑی ہوگئی جنہوں نے پیسے لے کر پیپلزپارٹی کا دھڑن تختہ کیا،،، نہیں یقین تو اصغر خان کیس پڑھ لیں جس میں پیپلزپارٹی کو 1990ءکے انتخابات میں شکست دینے کیلئے خفیہ اداروں کی طرف سے نواز شریف اور دیگر سیاستدانوں کو رقم دینے کے شواہد سامنے آئے۔پھر آج ہی کی پیپلزپارٹی نے کئی مرتبہ اقتدار حاصل کرنے کے لیے خفیہ اداروں کے ساتھ مل کر کام کیا۔ پھر یہی پی پی پی 2019ءمیں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو ایکسٹینشن دینے میں پیش پیش رہی۔ اگر اُس وقت پیپلزپارٹی ایسا نہ کرتی تو یقینا ملک کے حالات مختلف ہوتے۔ یعنی بادی النظر میں جو جماعتیں اپنے چھوٹے چھوٹے مفادات کی خاطر اسٹیبلشمنٹ کا آلہ کار بنتی رہیں اُن میں پیپلزپارٹی سرفہرست رہی۔ پھر یہ پیپلزپارٹی ہی کی ”کاوش“ تھی کہ ملک میں ایک منتخب حکومت کو گھر بھیجا گیا جس سے سیاسی ادارہ مزید کمزور ہوا۔ اوراسی کمزوری کا فائدہ اٹھا کر 8فروری 2024ء کے انتخابات سے قبل تحریک انصاف کو بلے کے انتخابی نشان سے محروم کیا گیا حالانکہ باقی جماعتوں میں بھی بلامقابلہ انتخاب کی روایت موجود ہے۔ میں معذرت کے ساتھ یہی کہوں گا کہ یہ آج کی پیپلزپارٹی ہی ہے جس کی شہہ پر ہمارے سیاستدان عوام کی طاقت سے اقتدار حاصل کرنے کے بجائے خفیہ اداروں کے کندھوں پر بیٹھ کر اقتدار حاصل کرنے کے عادی ہو چکے ہیں لہٰذا یہ سیاستدان آپس میں بات کرنے کی بجائے خفیہ اداروں سے بات کرنا زیادہ اہم سمجھتے ہیں۔ اس پر بلاول بھٹو زرداری اور مریم نواز کو سوچنا چاہیے کہ انہوں نے اپنے سیاسی ہاتھوں کو کیسے مضبوط بنانا ہے۔ اُنہیں یہ تاثر ختم کرنے کی بھی ضرورت ہے کہ ملک میں جب بھی مارشل لاءآیا آدھی سے زائد جماعتوں نے اُسے خوش آمدید کہا۔ نہیں یقین تو آپ خود دیکھ لیںکہ 1977ءکے مارشل لاءمیں تمام اتحادی جماعتوں نے پیپلزپارٹی کو خیر آباد کہہ دیا تھا، حتیٰ کہ بھٹو صاحب کو ان کے قریبی ساتھیوں کوثر نیازی، پیر زادہ، غلام مصطفی کھر، حنیف رامے وغیرہ بھی چھوڑ کے چلے گئے۔ مشرف کے مارشل لاءمیں کئی جماعتوں نے اُنہیں سپورٹ کیا اور مٹھائیاں تقسیم کیں۔ ویسے اس پر افسوس تو نہیں بننا چاہیے کیوں کہ یہ ہماری اور ہمارے سیاستدانوں کی عادت رہی ہے کہ وہ مزاحمت کے بجائے ہمیشہ طاقت کی طرف جھکاﺅ رکھتے ہیں ۔ بلکہ یہ عادت برصغیر میں پنہاں ہے۔ یا اسے یوں کہہ لیں کہ یہ ہمارے جینز میں بھی ہے کہ جس طرف طاقت ہوگی، ہمارا جھکاﺅ بھی اُسی طرف ہوگا۔مثال کے طور پر آج سے کم و بیش 10ہزار سال پہلے یہاں سبھی ہندو تھے، پھر اشوک کے زمانے میں سبھی نے بدھ مت مذہب اختیار کر لیا۔ اور پھر بدھ مت کا زور ٹوٹنے کے بعد یہ دوبارہ ہندو ہوگئے۔ اور اگر آج کی مثال لینا چاہیں تحریک انصاف ہی کو دیکھ لیں، 9مئی سے پہلے حالات کچھ اور تھے، لیکن جیسے ہی تحریک انصاف کمزور ہوئی لوگ اسے چھوڑ کر ”طاقت“ کی طرف بھاگنا شروع ہوگئے۔ خیر بات 5جولائی 1977ءکے مارشل لاءاور آج کی پیپلزپارٹی کی ہو رہی تھی.... تو اس کا جنازہ اُسی وقت نکل گیا تھا جب 2008ءکا الیکشن جیتنے کے بعد پیپلزپارٹی نے ن لیگ کے ساتھ اشتراک کر لیا، بادی النظر میں تو اسی دن پنجاب سے پیپلزپارٹی کا صفایا ہو گیا تھا۔ اور پھر اگر محترمہ کی شہادت کے بعد بلاول زرداری یا آصف زرداری کے بجائے کوئی سینئر ممبر اس کا صدر یا چیئرمین بن جاتا تو پیپلزپارٹی بچ سکتی تھی۔کیوں کہ یہ کسی مذاق سے کم نہیں تھا کہ رضا ربانی، اعتزاز احسن، قمر الزمان کائرہ، فاروق ایچ نائیک، جہانگیر بدر جیسے سینئر سیاستدانوں کے ہوتے ہوئے خاندانی سیاست کو آگے بڑھایا جاتا۔ یعنی جس گاڑی کا ڈرائیور ہی اچھا نہیں ہوگا وہ گاڑی کیا سفر کرے گی؟ ایسا شاید اس لیے بھی ہے کہ ہماری سیاسی پارٹیوں خاندانوں میں بچوں کی تربیت کرنے کا رواج ہی نہیںہے اب بندہ پوچھے کہ بلاول کو کیا علم کہ لاڑکانہ کی سڑکوں کا کیا حال ہے؟ یا کراچی کی گلیوں میں رہنے والوں کے کیا مسائل ہیں؟ اُسے کیا علم کی سندھ کے دیگر اضلاع کے زمینی حقائق کیا ہیں؟ اسی طرح راہول کو کیا علم کے دہلی کی گلیوں میں کیا ہورہا ہے؟ یعنی یہ بچے سونے کا چمچ لے کر پیدا ہوتے ہیں اُنہیں کیا علم کہ عام آدمی کے مسائل کیا ہیں؟ یا انہیں کیا علم کہ دنیا کا مقابلہ کیسے کرنا ہے؟ بہرکیف پیپلزپارٹی نے اپنے لیڈر ، کارکنان اور اُس کے جیالوں کو ناراض کر دیا ہے، حالانکہ ہمیں اس چیز سے سبق لینا چاہیے تھا کہ معزول وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی پر بھی لٹکانے کے پیچھے عالمی طاقتیں اور اندرونی سازشیں کارفرما تھیں، درحقیقت ذوالفقار علی بھٹو بھی نڈر، بے باک اور کچھ کر گزرنے والے سیاستدان ضرور تھے مگر اقتدار کا طول اور شخصی آمریت اُنہیں بھی لے ڈوبی تھی۔ یہ اُنہی دنوں کی بات ہے جب پورے کے پورے کالجز بھٹو کی ایک آواز پر باہر آجاتے تھے ،لیکن آج یہ سب کچھ ایک خواب لگتا ہے۔ پیپلزپارٹی نے ان سب چیزوں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے، انہوں نے 1977ءکے مارشل لاءسے آج بھی کوئی سبق حاصل نہیں کیا، آج بھی زرداری صاحب ایک سیاسی جماعت کے خلاف مقتدرہ طاقتوں کا مہرہ بنے ہوئے ہیں، اور پاکستان کی سب سے بڑی پارٹی میں دراڑیں ڈالنے میں پیش پیش ہیں، لیکن مجال ہے کہ ان سب چیزوں سے کوئی سبق سیکھ رہے ہوں۔ لہٰذاضرورت اس امر کی ہے کہ سیاستدانوں کو ان ”تواریخ“ کے آگے بند باندھنا ہوں گے ، انہیں ایک نئے آپسی معاہدے کی ضرورت ہے کہ یہ کبھی کسی کا مہرہ نہیں بنیں گے، یہ کبھی مارشل لاءیا اُس جیسے حالات کو جواز نہیں بنیں گے اور سب سے بڑھ کر ایک دوسرے کے خلاف انتقامی کارروائیوں کا نا تو سبب بنیں گے اور نہ ہی کوئی بیرونی طاقت انہیں ایک دوسرے کے خلاف استعمال کریں گی۔ اور خدانخواستہ اگر ان پر عمل درآمد نہ ہوا تو پھر اس ملک کا کچھ نہیں ہوسکتا، پھر یہاں کوئی گارنٹی نہیں کہ 9مئی جیسے واقعات دوبارہ ہوں، یا ہماری مضبوط فوج کو توڑنے کی کوئی کوشش نہ کرے! اللہ اس ملک کی حفاظت فرمائے (آمین)