مسئلہ بلوچستان! وعدہ خلافیوں کی طویل داستان !

بلوچستان میں حالیہ دہشت گردی جس میں کم و بیش 100افراد اور سکیورٹی آفیسرز جاں بحق ہوئے ہیں نے جہاں تمام حلقوں کو جھنجوڑ کر رکھ دیا ہے وہیں ملک بھر میں یہ بحث بھی زبان زد عام ہے کہ آیا حالات کو درست کیوں نہ کیا جاتا رہا اور کیوں بلوچ سرداروں نے پاکستان کے بجائے بھارت سے مدد مانگنے کو ترجیح دی۔ اس لڑائی کے دو پہلو ہیں، اس وقت ہر کوئی ایک زاویے سے دیکھ رہا ہے کہ بلوچوں نے معصوم لوگوں کونشانہ بنا کرظلم کیااور اپنے پاﺅں پر کلہاڑی ماری ہے۔ جب اس کا دوسرا زاویہ ہے بلوچوں علیحدگی پسند اس نہج تک کیسے پہنچے اور اب یہ کن کن کو اپنا ”مسیحا“ سمجھ رہے ہیں۔ خیرحالیہ دہشت گرد حملوں کی جتنی بھی مذمت کی جائے وہ کم ہے، کیوں کہ اس اقدام کے بعد بظاہر تو یہی لگ رہا ہے کہ بلوچستان میں سرگرم تشدد پسند تنظیمیں عالمی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی ہیں مگر دوسری جانب ان جنگجوﺅں نے ظلم کی انتہا کرنے میں دنیا کی بڑی بڑی دہشت گرد تنظیموں کو بھی پیچھے چھوڑ دیاہے۔ خیر !اللہ خیر کرے گا اور پاکستان کبھی صوبائی تقسیم کی طرف نہیں بڑھ سکتا، یہ پاکستان دشمنوں کی خام خیالی ہے اور رہے گی، انشاءاللہ ! اگر ہم ان بلوچ تنظیموں، قوموں اور قبیلوں اور پاکستان میں ان کے کردار حوالے سے سرسری جائزہ لیں تو یہ سلسلہ خان آف قلات کے ساتھ شروع ہوتا ہے ، یہ تو سب جانتے ہیں کہ قائد اعظم کے ساتھ خان آف قلات میر احمد یار خان کے ساتھ ذاتی مراسم کی وجہ سے انہوں نے پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کیا، لیکن بانی پاکستان کی رحلت کے بعد انہیں وہ حقوق نہ دیے گئے جن کا اُن سے وعدہ کیا گیا تھا،یہیں سے وعدوں وعیدوں کی طویل داستان کا آغاز ہوتا ہے،اور پھر یہی نہیں بلکہ ہم نے اُن کے مزاج کو بھی نہیں سمجھا اور چڑھائی کردی، بلکہ حالات یہاں تک پہنچ گئے اور پھر آج سے ٹھیک 66 برس قبل یعنی 6 اکتوبر 1958 کو خان آف قلات میر احمد یار خان کو بغاوت کے الزام کے تحت گرفتار کرنے کی غرض سے بلوچستان میں واقع قلعہ میری میں فوجی آپریشن کا آغاز کیا گیا ، قلات کے گلی کوچے اجنبی لوگوں کی چلت پھرت سے اُس روز کچھ جلد ہی جاگے، فوج کی بھاری گاڑیوں کے شور اور زنجیر کی کڑیوں پر دھیمی رفتار سے رینگنے والے ٹینکوں کی دھمک سے ماحول بوجھل ہو گیا۔منھ اندھیرے نمازِ فجر کے لیے مسجد کو جانے والے حیران تھے کہ آج اس شہر پر جانے کیا افتاد آن پڑی ہے کیوںکہ فوج صرف شہر کے اندر ہی نہیں بلکہ ارد گرد کے پہاڑوں اور آنے جانے کے راستے پر بھی قابض تھی۔بعد میں معلوم ہوا کہ فوج صرف شہر کے اندر اور گردونواح میں ہی نہیں تھی بلکہ قلات تا کوئٹہ ایئرپورٹ 96 میل طویل شاہراہ کے علاوہ گرد وپیش کی پہاڑیوں پر بھی تعینات تھی۔ علاقے کے لوگ اس طرح کا کوئی واقعہ اپنی زندگی میں پہلی بار دیکھ رہے تھے۔ خیر اسی اثنا میں خان آف قلات نے خود کو فوج کے حوالے کر دیا، خان آف قلات دعویٰ کرتے ہیں کہ ’اسکندر مرزا سمجھتے تھے کہ ان کے منصوبے کی ناکامی کا واحد ذمہ دار میں ہوں‘ جس کا انتقام لینے کے لیے قلات آپریشن کا منصوبہ بنایا گیا۔ اس کے برعکس سرکاری ذرائع نے دعویٰ کیا کہ خان نے بغاوت کے لیے بڑے پیمانے پر تیاری کر رکھی تھی جس وقت فوج کے قلعہ میری کا محاصرہ کیا، اس وقت بھی باغی قبائلی سرداروں اور ان کے لشکریوں کی ایک بڑی تعداد قلعے میں موجود تھی۔یہ آپریشن حکومت کے دعوے کے مطابق چاہے بغاوت سے نمٹنے کے لیے کیا گیا ہو یا اس کا سبب اسکندر مرزا کی آتش انتقام رہی ہو لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ اس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر جانی نقصان ہوا۔یعنی آپ کہہ سکتے ہیں کہ حالات بگڑنے کا آغاز یہیں سے ہوا۔ یہ اس لیے بھی ہوا تھا کہ ہم نے خان آف قلات سے وعدہ کیا تھا کہ اُنہیں صوبائی خود مختاری دی جائے گی، لیکن بدلے میں پاکستان کی حکومت نے اُنہیں کچھ نہ دیا۔ اُس وقت تو معاملے کو اتفاقاََ یا پہلی غلطی سمجھ کر بھلا دیا گیا، مگر بعد میں یہ حکمرانوں نے یہ وطیرہ ہی پکڑ لیا، جیسے جب 1958ءمیں پہلا مارشل لاءلگا ، تو اُس کے بعد بھی حالات ایسے ہی رہے، اور اُس وقت تو ویسے بھی ملک ”ون یونٹ“ بن چکا تھا،اور مری کے علاقے میں وہاں کے سرداروں نے مطالبہ کیا کہ انہیں ریاست میں حصے دار بنایا جائے، اُنہیں بنیادی حقوق دیے جائیں۔ اُس وقت بھی فوج بھیج کر ایک زبردستی کا معاہدہ سائن کر لیا گیا۔ کہ آپ پہاڑوں سے نیچے اُتر آئیں وغیرہ پھر ایوب گئے تو اُس کے بعد بھی فیڈرل کا بہت زیادہ عمل دخل رہا۔ پھر بھٹو کا دور شروع ہوا تو بھٹو کے دور میں ہم نے اُن کے ساتھ دھوکہ کیا، ذو الفقار علی بھٹو نے 1971کے بعد کی داخلی سیاست میں بھی فوج پر انحصار جاری رکھا۔ انہوں نے 1973سے 1976ءتک پچاس لاکھ سے بھی کم اور بکھری ہوئی آبادی والے صوبے میں 80 ہزار فوجی جوانوں کو قبائلی اور صوبائی خود مختاری کا مطالبہ کرنے والے باغیوں سے نمٹنے کے لیے رکھا گیا۔ قوت کا یہ استعمال جائز مطالبات کو وحشیانہ طریقے سے دبانے کا عمل تھا جس نے علاقائی مخالفت کو جنم دیا اور قومی یک جہتی کو نقصان پہنچایا۔ بلوچستان میں پنجابیوں اور پختونوں کی آمد نے مقامی لوگوں کے احساس تشخص کو مجروح کیا۔ بلوچی دانش ور پاکستانی ریاست میں بلوچوں کی کم تر نمائندگی پر انگشت نمائی کرتے تھے۔ ان کا استدلال یہ تھا کہ ان کے قدرتی وسائل مثلاً گیس وغیرہ سے استفادہ کرتے ہوئے ان کو استحصال کا نشانہ بنایا جا رہا ہے جبکہ ترقیاتی کام نہ ہونے کے برابر ہیں۔ سڑکوں کی تعمیر مقامی آبادی کو سہولت پہنچانے اور بلوچوں کے مفادات کے تحفظ کے بجائے فوجی نقطہ نظر سے کی جاتی ہے۔ 10 فروری 1973کے بعد بلوچستان میں قبائلی بغاوت ایک بڑے عسکری تصادم میں تبدیل ہو گئی۔ بلوچستان پیپلز لبریشن فرنٹ میں 60 ہزار کے قریب عسکریت پسند شامل ہو گئے۔ محاذ آرائی کے عروج کے دور میں پاکستان ایئر فورس کی مدد شاہ ایران نے کی جو خود بھی اپنے بلوچ مسئلے پر پریشان تھے۔ بلوچ قبائل ایران کی آبادی کا 2 فی صد ہیں، لیکن چار باہر کے بحری اور فضائی اڈوں کی تعمیر کے علاوہ ہرمز کے علاقے سے خلیج عمان کو تیل کی ترسیل نے بلوچ قبائل کو اہم بنا رکھا ہے۔ بہرحال یہ سب کچھ بھٹو کے دور میں ہوا، اسی دور میں سردار اختر مینگل کے بیٹے کا قتل ہوا، لیکن انہوں نے ضیاءالحق کے پرزور اسرار پر بھی بھٹو پر اس کا الزام نہ لگایا۔ پھر اسی دور میں بھٹو خیر بخش مری سے ناراض ہوئے ۔ کیوں کہ وہ مطالبات کے لیے آنکھیں دکھا رہے تھے، جواب میں بھٹو نے نیشنل عوام پارٹی (نیپ) پر 1975ءمیں پابندی لگا دی، اُس وقت بھٹو نے ولی خان ، عطاءاللہ مینگل، خیر بخش مری، غوث بخش بزنجو، اور دیگر رہنماﺅں کو قید کیا ، ان پر پابندیاں لگائیں اور ساتھ یہ بھی الزام لگا دیا کہ آپ بلوچستان کو الگ کرنا چاہتے ہیں۔ جب یہ اقدامات ہوئے تو اُس وقت بلوچستان میں ایک بار پھر شورش پیدا ہوگئی، اور تمام قبائل بندوقیں لے کر کھڑے ہوگئے۔ پھر انہوں نے وہاں 50ہزار کی نفری بھیجی، اور ایران سے ہیلی کاپٹر منگوا کر ایک بار پھر آپریشن شروع کیا۔حالانکہ اُس وقت مٹھی بھر بلوچی باغی موجود تھے، پھر ضیاءالحق آگئے، انہوں نے ان سب رہنماﺅں کو آزاد کر دیا۔ جنرل ضیاءنے سب کو آس لگا دی کہ آپ کو یہ دیا جائے گا، وہ دیا جائے گا، وغیرہ۔ پھر ان میں سے کچھ کو وہ سب کچھ دیا بھی جس کا اُن سے وعدہ کیا تھا۔ یعنی 80کے بعد کے عشروں میں صوبے کے زخم بھرنے کے لیے مرہم رکھے گئے اور حالات معمول پر آ گئے۔جنرل ضیاءنے سب کو واپس بلایا ، پہاڑوں سے بھی باغیوں کو واپس بلایا۔ سب کو مراعات دیں،جس سے یہ مسئلہ کچھ دیر کے لیے حل ہوتا ہوا نظر آیا۔ پھر بے نظیر اور نواز شریف کی حکومتیں رہیں، ان بلوچوں کے ساتھ وعدے وعید کرتے وقت گزارا گیا، لیکن پھر مشرف آئے تو انہوں نے ایک بار پھر بلوچوں پر سختی شروع کردی۔ اور اسی سختی کی زد میں نواب اکبر خان بگٹی بھی مارے گئے جس کے بعد حالات آج تک نہیں سنور سکے۔ اکبر بگٹی کی کہانی کا باب تو ختم ہو گیا لیکن ڈیرہ بگٹی کی صورتحال جوں کی توں ہے۔ بظاہر وہاں امن نظر آیا ہے اور حکومتی کنٹرول بھی لیکن بگٹی قبائل کی اکثریت کے دل اور دماغ ابھی تک جیتے نہیں جا سکے۔ یہ کام سب سے اہم ہے، پاکستان کے اتحاد، یک جہتی اور سالمیت کے لیے لوگوں کی سوچ اور فکر کو پاکستانی بنانا ضروری ہے۔ اس منزل کو حاصل کرنے کے لیے حکومت کو اپنا انداز نظر اور حکمت عملی تبدیل کرنا ہو گی۔ سوچنا یہ ہے کہ کیا ہم یہ کرنے کوتیارہیں یا صرف سیکیورٹی کے نام پر اپنے دماغ کاتالا بند ہی رکھنا چاہتے ہیں۔اگر ایسا ہے تو آج بگٹی کی 18ویں برسی پر ہی ہمیں سینکڑوں ہلاکتیں تحفہ میں ملی ہیں۔ تو ایسی دہشت گردی کارروائیاں ہوتی رہیں گی۔ بہرحال قصور بلوچیوں کا نہیں، حکمرانوں کو ہے، اس میں فوجی ڈکٹیٹر بھی شامل ہے، اور عام سیاستدان بھی۔ کہ انہوں نے اس معاملے کو ایک پالیسی پر نہیں چلایا، جو سیاستدان یا ڈکٹیٹر بھی آیا اُس نے ان بلوچوں کے لیے ایک نئی پالیسی دی۔ جس کی وجہ سے حالات بگڑتے گئے، اور اب حالات یہ ہیں کہ بلوچستان کی آدھی سے زائد قیادت لندن میں سیاسی پناہ لیے بیٹھی ہے اور مبینہ طور پر بھارت کے ساتھ گٹھ جوڑ کیے ہوئے ہے تاکہ پاکستانی اداروں سے حقیقی جنگ لڑ کر حقیقی آزادی حاصل کی جاسکے! لہٰذاضرورت اس امر کی ہے کہ ہمیں ابھی بھی ایک پالیسی بنانی چاہیے اور اسی پر عمل کرنا چاہیے تاکہ مسئلہ بلوچستان کا کوئی مستقل حل نکلے!