اسحاق ڈار کو وزیر خارجہ بنانا ایک سنگین غلطی!

اس وقت امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ”ٹیرف پالیسی“ کے سبب دنیا میں ایک نئی معاشی جنگ چھڑ چکی ہے، تادم تحریر آنے والی خبروں کے مطابق سعودی عرب سٹاک ایکسچینج کریش کر گئی ہے اور 500ارب ریال کا نقصان ہوا ہے، بھارتی سٹاک ایکسچینج 3ہزار پوائنٹس تک نیچے گر گئی ہے، جاپان، ہانگ کانگ، جرمنی، قطر، کویت، بحرین، مسقط سمیت دیگر کئی ممالک کی اسٹاک مارکیٹس بھی بیٹھ گئی ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ امریکا کی اپنی اسٹاک مارکیٹ بھی کریش کر گئی ہے، اور رہی پاکستانی اسٹاک مارکیٹ کی بات تو یہاں بھی ایسی ہی صورتحال ہے، اور تاریخی گراوٹ کے بعد 33سو پوائنٹ تک گرگئی ہے۔ایک اندازے کے مطابق اس وقت دنیا بھر کے سرمایہ کاروں کو 1ہزار ارب ڈالر تک کا نقصان ہو چکا ہے۔ ہوا کچھ یوں ہے کہ امریکی صدر کی جانب سے پاکستان سمیت 100 کے قریب ممالک کی درآمدات پر اضافی ٹیرف لگانے کے بعد صورتحال کشیدہ ہو گئی ہے۔ ایسا محسوس ہور رہا ہے کہ اس فیصلے سے پہلے ہوم ورک نہیں کیا گیا۔ اگر ہم ٹیرف کی بات کریں تو پاکستان کی جانب سے امریکہ بھیجی جانے والی برآمدات پر 29 فیصد اضافی ٹیکسز لگائے گئے ہیں۔ پاکستان کی جانب سے جو برآمدات امریکی مارکیٹ میں جاتی ہیں، ان میں ٹیکسٹائل سرفہرست ہے۔ امریکی مارکیٹ میں پاکستان کے مد مقابل بنگلہ دیش‘ بھارت‘ چین اور ویتنام ہیں۔ بنگلہ دیش پر ٹیرف 37 فیصد، بھارت پر 26 فیصد،چین پر 34 فیصد اور ویتنام پر 46 فیصد ہو گیا ہے۔ ویسے تو چین نے جواب میں امریکی مصنوعات پر بھی ٹیکس عائد کر دیا ہے، جس کے بعد امریکی صدر چین کو اس پر نظر ثانی کرنے کا کہہ رہے ہیں۔ لیکن پاکستان نے ابھی تک اس حوالے سے کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے کہ آیا پاکستان بھی امریکی مصنوعات پر ٹیکس لگائے گا یا فی الوقت خاموشی اختیار کرے گا۔ کہ تیل دیکھو تیل کی دھار دیکھو کے مترادف جو سب کے ساتھ ہوگا وہی پاکستان کے ساتھ ہوگا۔ لیکن یہ بات تو طے ہے کہ اس وقت پاکستان اور امریکا کے درمیان کم و بیش 12ارب ڈالر کی تجارت ہورہی ہے،،، یعنی پاکستان امریکا کو8ارب ڈالر کی مصنوعات جن میں گھریلو ٹیکسٹائل ، بستر کی چادریں، تولیے، سوتی کپڑے ،ٹی شرٹس، جینز،بُنے ہوئے ریشمی کپڑے،چمڑے کی اشیاء،جیکٹس ،دستانے ،جوتے،سرجیکل آلات ،کھیلوں کا سامان، چاول، قالین، سمندری غذا اور زرعی مصنوعات ،کیمیکلز حتیٰ کہ ادویات تک پاکستان امریکہ کو بھیجتا ہے۔ان اشیا ءپر امریکہ کی طرف سے 29فیصد ٹیکس لگ جانے کے بعدمجھے تو یہ آٹھ بلین ڈالر برباد ہوتے نظر آ رہے ہیں۔کیونکہ یہ چیزیں امریکہ میں بھی بنتی ہیں مگر پاکستان سے آئی ہوئی چیزیں زیادہ سستی تھیں۔اس ٹیرف کے بعد امریکہ کی اپنی بنائی ہوئی چیزیں ان سے سستی ہو گئی ہیں سو اب لوگ یقیناًانہیں خریدیں گے۔اور جیسا کہ میں نے اوپر ذکر کیا کہ پاکستان میں امریکی مصنوعات 4ارب ڈالر تک درآمد کی جاتی ہیں، جن میں مشینری، الیکٹرک آلات، ایوی ایشن، اور دفاعی سامان وغیرہ شامل ہیں،،، ان اشیاءمیں 80فیصد حکومت پاکستان خریدتی ہے، اور 20فیصد عوام۔ اس لیے میرا نہیں خیال کہ پاکستان چین کی طرح امریکا پر بھی جوابی ٹیکس لگائے گا۔ کیوں کہ اس اہم ترین مسئلے پر جہاں بقول امریکی عہدیدار کے ، 50سے زائد ممالک نے ٹیرف میں کمی کرنے کے حوالے سے رابطہ کیا ہے، اس میں کہیں پاکستان نظر نہیں آرہا؟ کیوں کہ شاید ان کو ڈالرز مانگنے کی عادت نے کاروباری ہونے اور کما کر کھانے کا ہنر بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ یعنی ایک فقیر کی ذہنی اختراع ہوتی ہے کہ جب آپ کو بغیر محنت کے کچھ جملے بول کر مل رہا ہے تو آپ کو محنت کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ پاکستان کا بھی میرے خیال میں کچھ ایسا ہی تعلق ہے، کہ جب آپ کو قرضہ مل جاتا ہے، فری کا تیل مل جاتا ہے، دوست ممالک تھوڑی سی منت سماجت کرکے قرضے کو رول اوور کردیا جاتا ہے تو ایسے میں محنت کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ اورپھر مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہم پر اُس نے زیادہ ٹیرف لگایا ہے اور انڈیا پر کم ٹیرف لگا ہے، اس کی وجہ شاید ہے کہ پاکستان کا بیرون دنیا میں کوئی والی وارث نہیں ہے۔ انڈیا کی شاید لابنگ مضبوط ہے اور ہماری ساری کی ساری لابنگ جناب قابل احترام وزیر خارجہ اسحاق ڈار کے نازک کندھوں پر کھڑی ہے، جو شاید وزیر خارجہ بننے کے قابل نہیں تھے، لیکن اُنہیں پھر بھی کہا گیا کہ نہیں! آپ یہ کر سکتے ہیں،،، ظاہر ہے اُن سے وزارت خزانہ لینا تھا، اور آئی ایم ایف کے پسندیدہ میاں اورنگ زیب کو سونپنا تھی تو ایسے میں ”سمدھی“صاحب کی عزت مجروح نہ ہوتی اس لیے اُنہیں نائب وزیر اعظم کا عہدہ مبارک بھی عنایت کیا گیا اور ساتھ وزارت خارجہ کا قلمدان بھی سونپ دیا گیا۔ بندہ پوچھے یہ ملک نہ ہوگیا مذاق ہوگیا کہ یہاں عہدے صرف اس لیے بانٹے جاتے ہیں کہ کہیں کوئی رشتہ دار ناراض نہ ہو جائے۔ لیکن کیا ایسا نہیں ہو سکتا تھا کہ نائب وزیراعظم قسم کا کوئی مزید عہدہ نکال لیا جاتا تاکہ موصوف خوش ہو جاتے۔ اور اتنی اہم سیٹ کسی ذمہ دار اور تجربہ کارشخصیت کو دی جاتی جو پاکستان کے لیے پہلے بھی اس سیٹ پر کام کر چکا ہو۔ کسی وزیر خزانہ کو کیا علم کہ ہمارے خارجی مسائل کیا کیا ہوسکتے ہیں؟ ہم نے افغانستان سے کیسے نمٹنا ہے، ہم نے بھارت کے ساتھ کس ٹون میں بات کرنی ہے، ہم نے ایران کے ساتھ کس حد تک چلنا ہے، ہم نے چین کے ساتھ کس طرح بات کرنی ہے،،، چین سے یاد آیا ابھی کسی کو ایک پچھلا واقعہ نہیں بھولا، جب موصوف نے ایک تقریب میں چین کو مخاطب کرکے کہہ دیا تھا کہ ”دنیا بھر میں کہیں بھی چینی انجینئرز کے ساتھ دہشت گردی ہوتی ہے تو چین وہاں پر اپنا کام بند کر دیتا ہے، مگر پاکستان کے معاملے میں چین نے رعایت دی ہوئی ہے“ اس پر چینی سفیر دوبارہ اسٹیج پرآئے، حاضرین سے بات کرنے کی اجازت طلب کی اور کہا کہ ہمارا پاکستان سے ایسا کوئی معاہدہ یا اندر کھاتے کوئی کمٹمنٹ نہیں ہے ، اس لیے چینی شہری یا چینی سٹاف ہمیں ہر جگہ عزیز ہے اور اس کے لیے ہماری کہیں دوغلی پالیسی نہیں ہے۔ بتانے والے بتاتے ہیں کہ وزیر خارجہ صاحب کی مذکورہ بالا تقریر پر چینی حکام سخت ناراض ہوئے تھے اور بڑی مشکل سے معاملہ رفع دفع کروایا تھا۔ لہٰذاوزارت خارجہ کا عہدہ نہایت اہمیت کا حامل اور سلجھا ہوا ہوتا ہے، اس میں ایک ایک لفظ اور ایک ایک قدم پھونک پھونک کر رکھا جاتا ہے، اور چونکہ آپ ایک ملک کی نمائندگی کر رہے ہوتے ہیں لہٰذاکسی قسم کی کوئی بھی بونگی یا بھڑ آپ کے گلے پڑ جایا کرتی ہے۔ خیر یہ قصور اسحاق ڈار کا نہیں بلکہ اس جرم میں برابر کے شریک جناب وزیر اعظم شہباز شریف ہیں، جنہوں نے اس اہم ترین عہدے کو compensation کی بھینٹ چڑھا دیا ہے۔ اسی ایک دو مہینے میں پاکستان یو اے ای، سعودی عرب، امریکا سمیت متعدد ممالک نے پاکستان پر ویزوں کی پابندیاں لگا دی ہیں۔ اور ہمیں ہمت تک نہیں ہو رہی کہ اپنے اس کیس کا دفاع کر سکیں۔ ہمیں اس سیٹ پر خواہ سیاستدان نہ سہی کوئی ٹیکنوکریٹ ہی لگا دیتے، جسے کچھ سمجھ بوجھ تو ہوتی۔ اگر اتنی ہی سمجھ نہیں تھی تو کم از کم پاکستان کے سابقہ وزرائے خارجہ کو ہی دیکھ لیتے کہ خان لیاقت علی خان، ذوالفقار علی بھٹو،عزیز احمد، آغا شاہی، خورشید قصوری، سردار آصف احمدعلی جیسے لوگ اس منصب پر کمال سروسز فراہم کرتے رہے ہیں۔ لیکن آج صرف پروٹوکول لینے کے لیے عہدے تقسیم کیے جا رہے ہیں،اور اس چیز کی تیاری بالکل نہیں کی جا رہی کہ دنیا معاشی، معاشرتی، ٹیکنالوجی، جنگی حکمت عملی سمیت ہر لحاظ سے بدل رہی ہے۔ بہرکیف عالمی معیشت ایک عرصے سے قواعد و ضوابط پر مبنی تجارت پر استوار رہی ہے، جس کی نگرانی اوررہنمائی ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کرتی ہے۔ ان اقدامات کو بین الاقوامی اصولوں کی خلاف ورزی تصور کیا گیا ہے۔ صدر ٹرمپ نے امریکہ کے قریبی اتحادیوں جیسے کینیڈا، یورپی یونین، جاپان اور جنوبی کوریا وغیرہ کو بھی نہیں بخشا۔یقیناًوہ جانتے ہیں کہ یہ ٹیکس براہ راست غیر ملکی حکومتوں پر نہیں بلکہ درآمد کنندگان اور صارفین پر لاگو ہوتا ہے۔ امریکی کمپنیوں کو خام مال مہنگے داموں خریدنا پڑے گا، جس کا بوجھ آخرکار صارفین پر آئے گا۔ نتیجتاً واشنگ مشینوں، الیکٹرانکس اور روزمرہ کی اشیاءکی قیمتوں میں اضافہ ہوگا، سب سے زیادہ متاثر امریکہ کا وہ طبقہ ہوگا جو پہلے ہی مالی مشکلات کا شکار ہے۔مثال کے طور پر آئی فون کی قیمت میں چوالیس فیصد کا اضافہ ہوجائے گا کیونکہ آئی فون بنانے کی فیکٹری چین میں ہے۔صدر ٹرمپ کو یقین ہے کہ اس ٹیرف کے بعد بہت سے امریکی بزنس اورفیکٹریاں جو چین یا دوسرے ممالک میں شفٹ کردی گئی ہیں ،واپس امریکہ آجائیں گی اورامریکہ اپنی صنعتی عظمت دوبارہ حاصل کر لے گا۔اگرچہ صدر ٹرمپ کی پالیسیوں کا مقصد چین کی صنعتی حکمت عملی اور دانشورانہ املاک کی خلاف ورزیوں کو روکنا ہے،مگر لگتا ہے کہ تجارتی خسارہ کم ہونے کے بجائے بڑھ جائے گا۔اور دنیا کسی نئے مسئلے کی آگ میں جھونک دی جائے گی۔ لیکن سوال پھر وہی پیدا ہوتا ہے ہم پاکستانی اس عالمی معاشی جنگ میں کیا کریں گے۔چین پر کتنا انحصار کیا جاسکتا ہے ؟۔آٹھ بلین ڈالر کےفوری نقصان کا ازالہ ہم کیسے کریں گے ، ہماری معیشت اورکتنی تباہ ہوگی۔،،اس لیے اس معاملے کو سنجیدہ لیں ، امریکی حکام سے جتنی جلدی ممکن ہو سکے بات چیت کریں، کیوں کہ جب تک ہماری طرف سے کوئی نمائندہ (اسحاق ڈار تو بالکل بھی قبول نہیں )امریکی حکام سے رابطہ نہیں کرے گا، وہ ہماری خاموشی کو ہماری آمادگی ہی تصور کریں گے۔ اور بدلے میں ہمارے ملک سرمایہ کار جو امریکا میں اپنی مصنوعات بیچتے ہیں وہ یہاں کاروبار بند کردیں گے، جس سے ہمارے ہاں لاکھوں افراد مزید بے روز گار ہوجائیں گے!