کیا بانی تحریک انصاف ڈیل کر کے ملک چھوڑ جائیں گے؟

پونے دو برس کے دوران، جب سے بانی تحریک انصاف جیل گئے ہیں، ہر تیسرے روز ان کے باہر آنے اور پس پردہ ڈیل کا چرچا ہوتا ہے۔ خاص طور پر پی ٹی آئی کے ہمدرد یو ٹیوبرز میں سے تو بہت سے، کئی بار باقاعدہ ہیلی کاپٹر تک اڈیالہ جیل پہنچا چکے ہیں، جس نے بانی پی ٹی آئی کو لے کر آنا تھا۔ پھر یہ چرچا کیا گیا کہ ٹرمپ کے آتے ہی ایک فون کال پر عمران خان کے لئے جیل کے دروازے کھل جائیں گے۔ ایسے میں پچھلے ایک ہفتے سے ایک بار پھر عمران خان کے ساتھ اڈیالہ جیل میں پس پردہ مذاکرات کا ایک بار پھر شور ہو رہاہے۔ ان خبروں یا افواہوں میں کتنا سچ ہے، اس پر غور و فکر کریں تو بہت سی کڑیا ں ایک دوسرے سے ملتی ہیں۔ چلیں قارئین کی آسانی کے لیے یہ بات آپ کو آسان لفظوں میں سمجھا دیتا ہوں کہ تحریک انصاف کی موجودہ حکومت کے خلاف سڑکیں گرم یا ٹھنڈی کرنے والی یا اینٹ سے اینٹ بجانے تحریکوں کے کامیابی کے امکانات صفر بٹہ صفر ہیں،،، کیوں کہ پاکستان کی تاریخ یہی بتاتی ہے کہ اپوزیشن کی حکومت کے خلاف وہی تحریک کامیاب ہوئی ہے جسے مقتدرہ کی حمایت حاصل رہی ہے، اور فی الوقت پی ٹی آئی اس ”نعمت“سے محروم ہے۔ خیر اس پر آگے چل کر روشنی ڈالیں گے ،،، لیکن یہاں آپ کو یہ بتاتا چلوں کہ اس وقت جب تمام فریقین کے حلقوں میں تھکاوٹ کے آثار نمایاں ہیں تو راقم نے بھی ان باتوں کی کئی ذرائعوں سے تصدیق کی ہے کہ جلد یا بدیر اندر کھاتے ”حکومت“ اور تحریک انصاف کے درمیان ڈیل ہو جائے گی، اور شاید بانی تحریک انصاف خاموشی اختیار کر لیں، اور حکومت کو مدت پوری کرنے دیں،،، یا دوسری صورت میں وہ بیرون ملک چلے جائیں۔ نہیں یقین تو آپ خود دیکھ لیں کہ اس وقت ”حکمران“ اس حوالے سے بھی کامیابی کا جشن منا رہے ہیں کہ تحریک انصاف کے اندر” ایم کیو ایم“ طرز پر دراڑیں ڈال دی گئی ہیں،،، یعنی ایک وقت تھا جب متحدہ قومی موومنٹ کی اجازت کے بغیر کراچی میں پتہ بھی نہیں ہلتا تھا، لیکن بعد میں اُس کی پوری قیادت پر مقدمات بنا کر جماعت میں سے ”محب وطن“ قیادت کو الگ کیا گیا، اور اس طرح ایم کیو ایم کے تین چار حصے بنا ڈالے۔اور اب اس جماعت کا کراچی میں زور تقریباََ ختم ہو چکا ہے۔(لیکن یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ تحریک انصاف کا کیس اس سے مختلف بھی ہے اور مشکل بھی۔ ، یہ علاقائی، صوبائی یا لسانی جماعت نہیں ہے۔ اس کی بیک وقت تین صوبوں اور مرکز میں حکومت رہی ہے۔ ) پھر وہ اس بات کا بھی کریڈٹ لے رہے ہیں کہ انہوں نے سعودی عرب کے ذریعے امریکا کے ساتھ ”سیٹنگ “ کر لی ہے اور اب امریکا بانی تحریک انصاف کے معاملے کو پاکستان کا اندرونی مسئلہ ہی سمجھے گا۔ پھر وہ اس بات کو بھی جیت سمجھ رہے ہیں کہ انہوں نے بانی تحریک انصاف اور اُن کے ساتھیوں کو مقدمات میں اتنا اُلجھا دیا ہے کہ وہ اب تھک چکے ہیں۔ پھر راقم کے ذرائع یہ بھی بتا رہے ہیں کہ تحریک انصاف کی قیادت کو اس پر بھی راضی کر لیا گیا ہے کہ وہ 9مئی کے واقعات پر معافی مانگیں،،، کیوں کہ مقتدرہ کا موقف ہے کہ یہ بات ایک طرف کہ9مئی والے دن ان لوگوں کو کسی نے نہیں روکا، مگر فوجی املاک کو تو اسی جماعت کے لوگوں نے جلایا۔ حالانکہ تحریک انصاف کی قیادت کہتی رہی ہے کہ ہمیں ٹریپ کرکے وہاں لے جایا گیا۔ لیکن اگر ٹریپ کرکے بھی لے جایا گیا ہے،اور پھر جس سے پھنسا کر غلط کام کروایا جاتا ہے، مرکزی ملزم تو وہی ہوتا ہے۔ اس لیے لگتا یہی ہے کہ مقتدرہ نے اس حوالے سے بھی تحریک انصاف کو اپنے شکنجے میں جکڑ لیا ہے۔ لہٰذامیرے خیال میں یہاں بے نظیر ماڈل لاگو کیا جائے گا۔ جس کا مطلب ہے کہ ”حکمرانوں“ کی تحریک انصاف کے ساتھ ڈیل ہوجائے، اور موجودہ سیٹ اپ دو تین سال مزید کام کرنے دے۔ اور خان صاحب ملک محترمہ بے نظیر کی طرح ملک چھوڑ کر چلے جائیں۔ یعنی 1979ءمیں جب بھٹو کو پھانسی دی گئی تو اُس وقت محترمہ بے نظر بھٹو اور اُن کی والدہ نے ملک چھوڑنے سے انکار کر دیا تھا۔ پھانسی سے قبل ذوالفقار بھٹّو نے نصرت بھٹّو اور بےنظیر دونوں کو ملک سے باہر چلے جانے کو کہا مگر دونوں نے انکار کر دیا۔ اس پھانسی کے بعد بےنظیر اور نصرت بھٹّو کو پھر چھ ماہ کے لیے گرفتار کر لیا گیا۔ رہائی ملی تو دونوں کو مزید چھ ماہ کے لیے گھر پر نظر بند کر دیا گیا اور دونوں اپریل 1980 میں رہا ہوئیں۔ جس کے بعد دونوں ماں بیٹی فروری 1981 میں کئی سیاسی جماعتوں کے ساتھ تحریک بحالی جمہوریت (ایم آر ڈی) نامی اتحاد قائم کرنے میں کامیاب ہو گئیں۔لیکن اگلے ہی ماہ مارچ میں اُنہیں طیارہ اغواءکرنے کے حوالے سے شریک ملزم کے طور پر دوبارہ گرفتار کر لیا گیا۔ پھر جولائی 1981 میں کینسر کے مرض کا شکار ہو جانے پر نصرت بھٹّو کو تو علاج کی غرض سے بیرونِ ملک جانے کے لیے رہا کر دیا گیا مگر بےنظیر قید رہیں۔وہ سکھر اور کراچی کی جیل میں اسیر رہیں اور بعض اوقات انھیں ’قیدِ تنہائی‘ میں بھی رکھا گیا۔ قید و بند کی اِن صعوبتوں سے ا±ن کی صحت شدید متاثر ہوئی۔دسمبر 1981 میں ان کی رہائش گاہ کو ’سب جیل‘ قرار دے کر انھیں گھر پر ہی نظر بند کر دیا گیا ،،، پھر واشنگٹن کی مداخلت پر جنوری 1984 میں حکومتِ پاکستان انھیں رہا کرنے پر تیار ہو گئی مگر رہائی کے بعد انھیں جنیوا بھجوا دیا گیا۔جہاں سے وہ لندن پہنچ گئیں۔ یہاں میں یہ بھی بتاتا چلوں کہ محترمہ 1986ءمیں جب واپس آئیں تو اُن کا فقیدالمثال استقبال کیا گیا، ایسا استقبال کہ دنیا حیران رہ گئی،،، اور پھر محترمہ نے 1988ءکا الیکشن جیتا۔ بالکل اسی طرح اب اگر خان صاحب باہر چلے جاتے ہیں تو یہ بات تمام حلقے جانتے ہیں کہ جب بھی فری اینڈ فیئر الیکشن کروائے گئے تو جیتنا تحریک انصاف نے ہی ہے، اوراس میں تو دوسری رائے ہو ہی نہیں سکتی کہ ن لیگ یا پیپلزپارٹی جتنا مرضی ڈلیور کر لیں، یہ موجودہ صورتحال میں کبھی الیکشن نہیں جیت سکتے۔ خیر بات ہو رہی تھی مقتدرہ کے کامیاب ہونے کے حوالے سے تو قارئین اگر ایک طرف مقتدرہ ”کامیاب“ ہونے کا جشن منا رہی ہے تو دوسری جانب تحریک انصاف بھی یہ بات اچھی طرح جانتی ہے کہ اُن کی حکومت کے خلاف تحریک اس لیے بھی شاید کامیاب نہ ہو، کیوں کہ جیسا کہ میں اوپر ذکر کیا کہ ماضی میں جو بھی تحریکیں کامیاب ہوئی ہیں، اُنہیں فیصلہ کرنے والوں کی سپورٹ حاصل رہی ہے۔ اس وقت فیصلہ کرنے والوں کی سپورٹ چونکہ تحریک انصاف کے ساتھ نہیں ہے، اس لیے پی ٹی آئی سر دھڑ کی بازی بھی لگا دے، پاکستان کے تمام عوام بھی ان کا ساتھ دیں تب بھی یہ ممکن نہیں ہے کہ ان کی تحریک کامیاب ہو۔ نہیں یقین تو آپ خود دیکھ لیں کہ آج تک جس حکومت کے خلاف بھی وائیٹ پیپر آیا ہے، وہ فیصلہ کرنے والوں کی مدد سے ہی آیا ہے۔ آپ زیادہ دور نہ جائیں، تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف ٹرین مارچ لے کر بلاول سندھ سے نکلے تھے،،، جس میں بندہ نہ کوئی بندے کی ذات تھی،،، لیکن اُسے بھی ”کامیاب“ تصور کیا گیا، کیوں کہ اُسے آشیر باد حاصل تھی۔ لہٰذافی الوقت ماضی کی ایم آرڈی کی طرح تحریک انصاف کوبھی سب سے بڑا مسئلہ ہی یہی آرہا ہے کہ اُنہیں اس قسم کی ”سپورٹ“ اور سہولت میسر نہیں ہے۔ حالانکہ اُس وقت پیپلزپارٹی نے ایم آر ڈی کو مشکل ترین حالات میں چلانے کی بھرپور کوشش کی تھی اور جیلیں بھی بھگتیں،،، اگر اُس تحریک کی بات کریں تو اُس وقت مجھے یاد ہے کہ ایم آر ڈی کے جلسے جلوسوں پر ہیلی کاپٹر سے فائرنگ کی جاتی رہی،،، اس لیے اُس وقت کی پیپلزپارٹی کی قربانیاں آج کی تحریک انصاف کا نصف بھی نہیں ہے۔ اور یہ بات تحریک انصاف والے بھی جانتے ہیں کہ اُن کے سپورٹ کے بغیر یہ لوگ کامیاب نہیں ہوسکتے۔ اس لیے آپ سمجھ لیں کہ دونوں جانب سے ڈیل ہونے کے بالکل قریب ہے۔ اس لیے میرا دونوں گھروں کو مشورہ ہے کہ اگر کوئی ڈیل کرنی ہے تو ضرور کریں، سیاست میں کھڑکیہمیشہ کھلی رکھتے ہیں، اور فیصلہ کرنے والے بھی صدق دل کے ساتھ آگے بڑھیں، اور قول کے پکے رہیں،،، اور ایسے لوگوں کے ذریعے تحریک انصاف سے بات کریں جن کی اپنی کوئی اہمیت ہو۔ جن کی کوئی کریڈیبلٹی ہو۔ لیکن دھوکہ نہ دیں، وعدہ خلافی کرنے کی جو آپکی عادت ہے اس کو بھی ترک کردیں۔ اسی عادت کی وجہ سے کوئی بھی اس وقت ثالثی بننے کے لیے تیار نہیں ہے۔ کیوں کہ ہماری تاریخ ایسے ”کارناموں“ سے بھری پڑی ہے۔ اور رہی بات بانی تحریک انصاف اور عوام کے درمیان تعلق کی تو ویسے بھی اس وقت عوام بھی کنفیوژن کا شکار ہیں کہ بانی تحریک انصاف جیل میں بیٹھ کر کیا کہہ رہے ہیں؟جو ملاقات کے لیے جاتا ہے، یا کسی بھی ذرائع سے ہم تک اگر کوئی بات پہنچتی ہے توکسی کو یقین ہی نہیں ہوتا کہ یہ بات خان صاحب نے کہی بھی ہے یا نہیں اُس کا شاید تحریک انصاف کی قیادت کو فائدہ بھی ہوا ہے، کہ وہ اگر کوئی غلط بات کریں گے، تو لوگ اسے ماننے سے ہی انکار کر دیں گے۔۔۔ لہٰذااگر ڈیل ہو رہی ہے تو اسے ہونے دیں،،، یہی جمہوریت کا حُسن ہے،،، کہ تمام کھڑکیاں بند نہ کی جائیں!