بلوچستان کامسئلہ لوگوں کی سوچ سے زیادہ سنجیدہ ہے!

حضرت حسن بصری ؒسے منقول ہے ،ا عمالکم عمالکم، وکما تکونوا یولی علیکم“ یعنی تمہارے حکمران تمہارے اعمال کا عکس ہیں۔ اگر تمہارے اعمال درست ہوں گے تو تمہارے حکمران بھی درست ہوں گے ، اگر تمہارے اعمال خراب ہوں گے تو تمہارے حکام بھی خراب ہوں گے۔ یہ روایت ہمارے سیاستدانوں اور رعایا پر مکمل فٹ بیٹھتی ہے کہ ہم لوگ کسی مسئلے کو ایسے بھولتے ہیں، جیسے کبھی ہوا ہی نہیں ۔ آپ سارے مسائل کو چھوڑیں مسئلہ بلوچستان کو دیکھ لیں، گزشتہ ماہ تک یہ مسئلہ اتنا سنجیدہ لگ رہا تھا لیکن آج یہ اُتنا ہی غیر اہم لگ رہا ہے۔ اور اس وقت سب سے اہم ہمیں ”غزہ“ کا مسئلہ لگ رہا ہے۔ حالانکہ ہمارے احتجاج کرنے یا نہ کرنے سے اُنہیں کوئی فرق بھی نہیں پڑنے والا لیکن ہم ہیں کہ اپنے مسائل کو چھوڑ کرمسئلہ فلسطین کو حل کروانے کی ”کوشش“ کر رہے ہیں۔اور موجودہ حکومت جو عوام کا دھیان Divertکرنے میں مہارت رکھتی ہے ،نے بھی سب کو غزہ جنگ کے پیچھے لگا دیا ہے۔ کبھی مولوی صاحبان جہاد کے فتوے لگا رہے ہیں، کبھی سرکار خود مذمت کر رہی ہے، کبھی اس پر تقریبات کا اہتمام کیا جا رہا ہے، تو کبھی جمعہ کے دن غزہ کے نام کرکے اُن کے ساتھ اظہار یکجہتی کی جارہی ہے۔ ور رہی سہی کسر جماعت اسلامی جیسی سنجیدہ جماعت نکال رہی ہے۔ یعنی جماعت اسلامی وغیرہ جو ایک دم سے غزہ کے حق میں سڑکوں پر نکل رہی ہیں، بادی النظر میں یہ صرف مسئلہ بلوچستان سے نظر ہٹانے کے لیے احتجاج کیا جا رہا ہے، ورنہ 7اکتوبر 2023ءسے یہ جماعتیں خاموش تھیں، اُس وقت سے لے کر گزشتہ ماہ تک فلسطین میں 50ہزارسے زائد ہلاکتیں ہوئیں جن میں بڑی تعداد بچوں اور خواتین کی تھی۔ اور پھر اگر یہ جلسے جلوس اور اتنا جوش و خروش بلوچستان کے مسائل کے حل کے لیے دکھائیں تو یہ مسئلہ کبھی بھی کھٹائی میں نہیں پڑے گا۔ خیر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ان مسائل کو دبانے کے بجائے ان پر بات ہونی چاہیے، انہیں کریدنا چاہیے تاکہ ہم کسی مسئلے کے حل کی طرف جا سکیں۔ لہٰذااسی پر بات کرنے کے لیے گزشتہ روز ہم نے ایک بار پھر ”بلوچستان کے مسائل، ان کا حل اور وفاق کاکردار“کے عنوان سے ایک سیمینار کروایا ۔ جس میں سینیٹر جان محمد بلیدی ، سینئرصحافی امتیاز عالم‘ سینئر صحافی مجیب الرحمن شامی ، سینئرصحافی طاہر ملک ‘رہنماپیپلزپارٹی غلام عباس اور دیگر افراد محققین نے شرکت کی ۔ جس میں بلوچستان کے اہم مسئلے پر روشنی ڈالی گئی۔سیمینار کے انعقاد کے حوالے سے ”غیبی قوتوں“ نے بہت سے رخنے ڈالے کہ یہ نہ ہو، اسے ملتوی کر دیا جائے وغیرہ۔ یعنی یہ دیکھیں کہ اس سیمینار کے انعقاد کو رکوانے کے لیے انتظامیہ کی جانب سے لاہور پریس کلب کی تین گھنٹے تک بجلی بند رکھی گئی، پھر شرکت نہ کرنے کے حوالے سے مہمانان گرامی کو فون بھی کیے گئے۔ مگر لاحاصل ! ۔ جبکہ یہ ایک سادہ سی تقریب تھی جس میں ایک مسئلہ ڈسکس کیا جانا تھا۔ اور ایسا نہیں ہے کہ یہ سیمینار حکومت وقت کے خلاف تھا، بلکہ سیمینار کا مطلب ہوتا ہے، کہ مختلف ماہرین کسی ایک مسئلے پر بحث و مباحثہ کرتے ہیں، اور آخر میں صدر سیمینار کسی ایک بات پر متفق ہو کر اعلامیہ جاری کرتا ہے، اور اس طرح کسی مسئلے کے حل کے آغاز کا ”سرا“ مل جاتا ہے۔ لیکن یہاں پیکا ایکٹ قسم کے قوانین کی مدد سے آپ کی زبان کو باندھ دیا جاتا ہے۔ بہرحال اگر بات کی جائے سیمینار میں خطابات کی تو نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنما سینیٹر جان محمد بلیدی نے کہاکہ ہمیں دہشت گرد بھی مار رہے ہیں، اور حکومت بھی مار رہی ہے۔ بلوچستان کے عوام کی ملک میں جمہوریت کے فروغ کے لئے بہت بڑی جہدوجہد رہی ہے،یہ جہدوجہد آج کی نہیں ہے یہ طویل رہی ہے اورپاکستان میں جو جمہوریت نظر آرہی ہے یہ سیاسی جہدوجہد کا نتیجہ ہے،پاکستان کے وفاقی نظام کی جو بڑی کمزوری ہے وہ یہ ہے کہ یہاں جو قومیں بستی ہیں انہوںنے سیاسی، معاشی اور معاشرتی مفادات کا پاس نہیں رکھا،ایک مخصوص سوچ جو اس ملک میں موجود تھی انہوںنے کوشش کی کہ قوموں کی سوچ کو تسلیم نہ کرے،ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان کو منظم اور مضبوط رکھنا ہے تو ضروری ہے اس میں جو قومیں بستی ہیں ان کے وجود کو تسلیم کیا جائے ان کے وسائل پر ان کے اختیار کو تسلیم کیا جائے۔جان محمد بلیدی نے کہا کہ کسی نہ کسی کی طرف سے یہ کوشش کی جاتی رہی ہے کہ قوموں کے مسئلے کو نظرانداز کرے،ان کی زبان ، کلچر تاریخ کو خراب کیا جائے،لوگوں کو وہ چیز دکھائی جائے جو یہاں نہ ہو،یہاں کے لوگوں کی تاریخ اور جہدوجہد کو الگ کیا جائے اور قوموں کے وجود کو نہ ماناجائے ،اسی وجہ سے 47کا پاکستان 77میں باقی نہ رہا۔ انہوں نے کہا کہ اس ساری سیاسی جہدوجہد میں بلوچ لیڈر شپ نے کوشش کی کہ پاکستان کی جہدوجہد میں اس کا ساتھ دے،جو سوال ایوب خان کے دور میں تھے آج بھی اسی طرح ہیں۔ انہوںنے کہاکہ پاکستان کی سول بیوروکریسی کا اپنا ایک مائنڈ سیٹ ہے،وہ ان معاملات کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں۔ا نہوں نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں پاکستان کو منظم اور مضبوط رکھنا ہے تو ضروری ہے پاکستان میں جو قومیں بستی ہیں ان کے وجود کو تسلیم کیا جائے،ان کے وسائل پر ان کے اختیار کو تسلیم کیا جائے،اس ملک کو قانون اور آئین کے دائرے میں چلایا جائے،آج پارلیمنٹ بھی ہے قانون بھی ہے پارلیمانی نظام بھی ہے ،لیکن نہ پریس اور میڈیا آزاد ہے نہ اس کو بولنے کی آزادی ہے،پی ڈی ایم کے بنانے کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ ملک کی ریاست میں اداروں کی مداخلت بند کی جائے اور آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کروائے جائیں،اس ملک میں جتنے بھی مسائل ہیں بشمول بلوچ کے ان کا حل اسی میں ہے،سیاسی جماعتوں کے لوگ سیاسی عمل میں ہوتے ہیں تو ان کی یہی باتیں ہوتی ہیں جب ان کو موقع ملتا ہے تو وہ کمپرومائز کرجاتے ہیں۔ا نہوںنے کہاکہ بلوچستان کا مسئلہ اتنا پرانا ہوچکا ہے کہ وہ گھمبیر شکل اختیار کرگیا ہے،یہ بلوچستان یہاں تک خود سے نہیں پہنچا ،بلوچ قیادت نے بار بار کوشش کی ہے کہ اسلام آباد کو سمجھائے،بلوچستان کو اس نظر سے نہ دیکھےں کہ وہاں کی اسمبلی میں صرف سولہ نشستیں ہیں،تمام سیاسی جماعتیں ایک ہی نظر سے بلوچستان کو دیکھتی ہیں، دو دن پہلے اسلام آباد میں منڈی لگی اس میں بلوچستان کو بیچا گیا،بلوچستان کے وسائل آپ کو عزیز ہیں لیکن وہاں کے لوگوں کو آپ ماننے کو تیار نہیں ،اٹھارویں ترمیم سے پہلے مائینز اور منرلز صوبوں کی ملکیت تھی،پاکستان کے تمام اداروں میں ٹاپ تیرہ لوگوں میں سے ایک بھی شخصیت بلوچستان سے نہیں ،صوبوں کو یہ اختیار نہیں ہے کہ ان کا بندہ ایس پی تک پروموٹ ہوسکے،ہمارا تقسیم کا فارمولا این ایف سی ہے،پاکستان کے تمام وسائل صوبوں کے ہیں،وسائل کی پہلی تقسیم صوبوں اور فیڈریشن کے درمیان ہے۔ا نہوںنے کہا کہ پہلے قبائلی اور خاندانی لوگوں کو لیا جاتا تھا ،اب لینڈ مافیا اور ڈرگ مافیا آگئے ہیں،2024کا الیکشن فار سیل تھا،بلوچستان کی صوبائی اسمبلی سے امید رکھنا ہے کہ وہاں ڈویلپمنٹ کررہے ہیں تو غلط فہمی ہے،بلوچستان کا پیسہ غائب ہوجاتا ہے،بلوچستان کا ستر فیصد پیسہ کرپشن کی نذر ہوجاتا ہے،بلوچستان کی تمام نوکریاں فار سیل ہیں۔ا نہوںنے کہاکہ بلوچستان کی موجودہ حکومت میں مسلم لیگ (ن)کے 19 اور پیپلزپارٹی کے 18 اراکین ہیں،2013 میں مسلم لیگ (ن)کے 26 اراکین تھے لیکن اپنے ہی وزیراعلیٰ کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائے ،اس وقت باپ پارٹی کا وجود نہیں تھا لیکن انہی26لوگوں نے اس نئی جماعت کے وزیراعلی کو ووٹ دیا،آج بھی موجودہ پیپلزپارٹی کے اراکین کا پیپلزپارٹی سے کوئی تعلق نہیں ،ذاتی مفادات اور اقتدار کی خاطر بلوچستان میں آگ بھڑکائی جا رہی ہے،بلوچستان میں ہر الیکشن میں امیدوار نئی جماعت سے آتے ہیں،بلوچستان میں ہمیشہ حکومت اسلام آباد کی مرضی سے بنتی ہے ،بلوچستان کے نوجوان اس وقت شدید غصے میں ہیں، وہ آج ہماری بات سننے کو بھی تیار نہیں۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں ترقی نہ ہونے میں مقامی قیادت کو بری الذمہ قرار نہیں دیا جا سکتا لیکن وفاق کا بھی اس میں بڑا کردار ہے ،پہلے سردار اور پھر سردار کے بیٹے کو آگے لایا جاتا تھا لیکن اب صورتحال یہ ہے کہ افغانستان کے ڈرگ ڈیلر کو ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کے خلاف الیکشن لڑوایا گیا ،بلوچستان کی گیس بلوچستان کے شہروں میں نہیں پہنچی لیکن وہ آج ختم ہو رہی ہے ،صرف بلوچستان ہی نہیں بلکہ آج پاکستان کی حالت بھی بہت خراب ہو چکی ہے،کھاد کمپنیوں کو گیس پر سبسڈی دی جاتی ہے لیکن اس کھاد کا استعمال بلوچستاں میں نہیں ،آج ملک میں سکیورٹی نہیں، تعلیم و صحت نہیں ہے، دیوالیہ ہونے کے قریب ہیں۔ سینئرصحافی امتیاز عالم نے خطاب میں کہا کہ بلوچستان کے مسئلہ کے دو حل ہیں ‘بلوچستان کے حق میں اگر لاہور میں بڑا جلوس نکلے تو حل ہو سکتا ہے ،ہم اختر مینگل کے جلوس کو کوئٹہ میں داخل نہیں ہونے دے رہے ، بلوچستان کے مسئلہ کا فوجی حل نہیں بلکہ سیاسی حل ہونا چاہئے، بلوچستان میں ملٹری آپریشن حل نہیں ،ا س وقت بلوچستان میں حقیقی بلوچوں کی حکومت نہیں بلکہ چور اچکوں کو اقتدار میں لایا گیا ہے بلوچوں کو کہوں گا اگر آپ پنجابیوں کو مارےں گے تو پنجاب کو اپنے خلاف کررہے ہیں ، بلوچستان میں مسنگ پرسنز کا بہت بڑا مسئلہ جسے حل ہونا چاہیے۔جبکہ سینئر صحافی مجیب الرحمان شامی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سینیٹر جان محمد بلیدی کی باتوں سے تاریخ کے حساب سے اختلاف ہو سکتا ہے لیکن معاملات کو طاقت کے استعمال سے نہ حل کرنے کی بات ان کی درست ہے،بلوچستان میں مسلح جدوجہد کے دوران پنجابیوں اور خیبرپختونخوا ہ کے لوگوں کو مارا جا رہا ہے،اگر مسلح جدوجہد جاری رہی تو پیچیدگیاں بڑھیں گی،بات چیت کا راستہ اختیار کرنا پڑے گا اور گرفتار لوگوں کے لئے نرمی اختیار کرنا ہو گی،گرفتار خواتین کی رہائی بڑا مسئلہ نہیں ہے ،مسنگ پرسنز کا معاملہ بھی حل کرنا ہو گا ،18ویں ترمیم وسیع تر اتفاق رائے سے ہوئی تو آج بلوچستان کے معاملے پر بھی اسی اتفاق رائے کی ضرورت ہے،نواز شریف، آصف زرداری، بانی پی ٹی آئی سمیت سب کو اکٹھا ہونا ہو گا،الیکشن کا معاملہ سب کے ساتھ ایک جیسا ہے۔علاوہ ازیں سینئرصحافی طاہر ملک نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں اس بات کی پرزور مذمت کرتا ہوں کہ جو بلوچستان میں پنجابیوں کو مار رہے ہیں ، سیاست دان ٹھیک کررہا ہے یا غلط کررہا ہے سب کچھ ٹھیک اسے ہی کرنا ہے ، اس وقت جو بلوچستان میں ہو رہا ہے وہ سب کا سب مشرف کا کیا دھرا ہے اس نے نواب اکبر بگٹی سے مذاکرات کرنے کی بجائے طاقت کا استعمال کیا۔بعدازاں پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنماءغلام عباس نے سیمینارسے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یہ پورے پاکستان کا مقدمہ ہے نہ کے بلوچستان کا، پنجاب میں بھی صورت حال کچھ مختلف نہیں ، اپنے حقوق کے لئے یہاں بھی نہیں نکل سکتے ، ہمارے بچوں کو بھی اٹھایا گیا ہماری عورتوں کی بھی تذلیل کی گئی آپکے اور ہمارے حالات ایک جیسے ہیں، ہم بلوچ عوام کے ساتھ ہیں پاکستان کے مسائل کا حل ملٹری آپریشن نہیں۔ راقم نے بھی اس سیر حال گفتگو میں اپنا حصہ ڈالا اور کہا کہ آپ چھوٹے چھوٹے مسائل حل کرکے بڑے مسئلوں سے بچ سکتے ہیں جیسے آپ ماہ رنگ بلوچ کو لے لیں، اُس کا والد 15سال سے مسنگ پرسن ہے، چلیں وہ اگر مر گیا ہے، لیکن اُسے بتا تودیں۔ لوگوں کے لیے کیوں جواز پیدا کرتے ہیں کہ ہر کوئی آپ پر اُنگلی اُٹھائے؟ یہ مسئلہ نہ تو بندوق سے حل ہونے والا ہے،اور نہ ہی اتنا آسان ہے، اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ بلوچستان ایک الگ ریاست تو نہیں بن سکتا، کیوں کہ وہاں کی آبادی نہ تو یکجا ہے، اور نہ ہی زیادہ ہے۔ لیکن پاکستان کے لیے یہ مسئلہ ایک مسلسل درد سر رہے گا۔ اور عوام کی سکیورٹی پرابلم بھی ہمیشہ رہے گی۔ یعنی وہاں اب نہ تو پنجابی مارے جا رہے ہیں، بلکہ سندھی بھی مارے جا رہے ہیں۔ ہماری ریلوے اس وقت انتہائی مشکل حالات میں ہے، کسی ٹرین کو سکیورٹی کلیئرنس مل رہی ہے اور کسی کو نہیں۔کوئٹہ کی انتظامیہ کا یہ حال ہے کہ وہاں ہر سرکاری افسر بھی اپنی ٹرانسفر کروانے کے بارے میں سوچ رہا ہے۔ اور پنجاب وغیرہ سے جن کے ورکر وہاں نوکریاں کر رہے ہیں، وہ یہاں اُن کے لیے صدقے دے رہے ہیں۔ بہرکیف ہم بار بار یہ مسئلہ اس لیے اُجاگر کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ سرکار شاید کہ کبھی اس مسئلے کو لے کر سنجیدہ ہوجائے۔ کیوں کہ ابھی اتنے بڑے سانحات کے بعد یہ مسئلہ ایک بار پھر بیک فٹ پر چلا گیا ہے۔ اور ہم خود اس کو بھول گئے ہیں۔ اور پھر ان کے جلوسوں کی اہمیت کیا ہے؟ ماسوائے اپنے ملک میں توڑ پھوڑ کرنے کے۔ ان سے بڑی ہزار گنا بڑے جلوس دوسرے ملکوں میں نکلے ہیں، کیا تب مسئلہ حل ہوگیا؟ اور پھر یہی نہیں بلکہ دنیا کے بڑے بڑے ممالک ماسوائے امریکا کے اس جنگ کو روکنے اور اسرائیل کو حملے کرنے سے روک رہے ہیں، وہ تب نہیں رکا تو کیا اب رُک جائے گا؟ امریکا ، برطانیہ ، یورپ جیسے بڑے حصوں میں لاکھوں کی تعداد میں لوگ اکٹھے ہوئے، اربوں لوگ فلسطین کوسوشل میڈیا پر جھلستا ہوا دیکھ رہے ہیں،تو کیا اسرائیل رُک گیا؟ لہٰذایہ صرف بلوچستان کے مسئلے سے توجہ ہٹانے کے لیے ایک جماعت کو اس طرف لگا دیا گیا ہے۔بہرحال قصہ مختصر کہ دنیا بھر میں ہر چیز کا مسئلہ صرف ڈائیلاگ ہی ہے۔بہرحال ہم ڈائیلاگ کے ذریعے ہر مسئلے کا حل نکال سکتے ہیں جسے قومی سطح پر شروع کرنے میں حرج ہی کیا ہے؟ ویسے ہم غزہ کے لیے تو ہم کچھ کربھی نہیں سکتے، جس کے لیے کچھ کر سکتے ہیں پہلے اُس کے لیے کچھ کر لیتے ہیں!