بریگیڈئیر ڈاکٹرہیلن: اس مقام تک پہنچنے میں 76سال لگے!

پاکستان میں بہت سی بری خبروں کے درمیان ایک اچھی خبر یہ ہے کہ افواج پاکستان میں پہلی اقلیتی خاتون افسر ہیلن میری رابٹرس کو بریگیڈیئر کے عہدے پر ترقی دے دی گئی ہے۔وہ اس سے پہلے کرنل کے عہدے پر فائز تھیں۔ وہ یہ عہدہ حاصل کرنے والی پہلی کرسچن خاتون ہیں۔ڈاکٹر ہیلن میری رابرٹ پاکستان آرمی کی میڈیکل کور میں 26 سال سے بطور پیتھالوجسٹ خدمات سرانجام دے رہی ہیں۔وہ کہتی ہیں کہ پاکستان آرمی میں رہتے ہوئے ملک و قوم کی خدمت کو اعزاز سمجھتی ہوں،جبکہ ان کی ترقی پاکستانی کرسچن کمیونٹی کے لیے امید کی کرن ہے۔ یقینا یہ خوش آئند پیش رفت ہے، کیوں کہ اس وقت ملک بھر میں گزشتہ کئی دہائیوں سے اقلیتوں کا استحصال ہو رہا ہے۔ اقلتیں چاہتے نہ چاہتے ہوئے ملک چھوڑ کر راہ فرار اختیار کر رہی ہیں۔ وہ کیوں نہ جائیں؟ وہ یہاں عدم تحفظ کا شکار ہیں، جب کسی کا دل کرتا ہے، اُن کی پوری کی پوری بستیاں جلا کر خاکستر کر دیتا ہے۔ اور جب کسی کا دل کرتا ہے، اُن پر جیسا مرضی الزام تھوپ کر اُنہیں جلاد یتا ہے۔ خیر آگے چلنے سے پہلے ایک سادہ سا سوال یہ ہے کہ ہمیں اقلیتوں کو اہمیت دینے میں اور پاک فوج میں اہم ترین عہدہ دینا میں 76سال کیوں لگ گئے؟ ہم بھارت کے بارے میں ہمیشہ یہی رویہ اختیار کرتے ہیں کہ وہاں مسلم دشمنی کو فروغ مل رہا ہے،،، لیکن وہاں کے بارے میں ہم یہ نہیں کہتے کہ اُنہوں نے مسلم شخصیت ابوالکلام کو ملک کا صدر بنا دیا۔ اور پھر ہم یہ بھی کبھی نہیں کہتے اور نہ سوچتے ہیں کہ اگر وہاں پر اقلیتوں (مسلمانوں) کے ساتھ برا سلوک ہو رہا ہے تو ہم کیا کر رہے ہیں؟ اور پھر اپنی شناخت کو دنیا کے سامنے بہتر بنانے کے لیے ہیلن میری رابٹرس کو بریگیڈیئر کے عہدے پر ترقی دینا کافی نہیں ہے،،، بلکہ ہمیں اقلیتوں کو نیچے سے اُٹھانا پڑے گا، اُن کا مورال بلند کرنا ہوگا، پاکستان میں اقلیتیں اس قدر عدم تحفظ کا شکار ہیںکہ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا۔ وہ بات بات پر گھبرا جاتے ہیں کہ کب اُن پر کونسا الزام لگ جائے اور کب اُنہیں ہجوم جلا دے ،،، نہیں یقین تو آپ خود دیکھ لیں کہ پاکستان میں قانون کی موجودگی میں چند سالوں میں درجنوں مسیحیوں کو زندہ جلا دیا گیا، درجنوں مسیحی بستیاں جلا دیں گئیں۔ آپ حال ہی میں یعنی 25مئی کو سرگودھا میں ہونے والے واقعہ کو دیکھ لیں جس میں توہین مذہب کا الزام عائد کرتے ہوئے مسلمانوں کے مشتعل ہجوم نے مسیحیوں کے گھروں پر حملہ کر دیا۔ مشتعل ہجوم نے مجاہد کالونی میں مسیحی افراد کے ایک گروپ پر توہین مذہب کا الزام عائد کرتے ہوئے ان کی رہائش گاہوں پر حملہ کر دیا تھا۔جب پولیس نے بروقت کارروائی کرتے ہوئے مسیحی کمیونٹی کے افراد کو بچانے کی کوشش کی تو مسلمانوں کے مشتعل ہجوم نے پتھراو¿ شروع کر دیا، جس کے نتیجے میں کم ازکم 20 پولیس اہلکار زخمی ہو گئے۔ اس حملے کے دوران مشتعل ہجوم نے ایک گھر اور قریب ہی واقع جوتے بنانے والی ایک فیکٹری کو نذر آتش کر دیاتھا۔الزام عائد کیا گیا تھا کہ کچھ مسیحی افراد نے مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن کی مبینہ طور پر ’بے حرمتی‘ کی ہے۔ جبکہ متاثرہ خاندان والے اس کی سختی سے تردید کر رہے ہیں۔ اور ابھی کی ایک خبر ہے کہ جن پر حملہ کیا گیا تھا اُن افراد میں سے ایک نذیر مسیح انتقال کر گیا ہے۔ خیر پولیس نے اس کیس میں 450افراد پر مقدمہ درج کیا ہے، مگر آپ دیکھیے گا کہ اس کیس میں ماسوائے پولیس کی دیہاڑیوں کے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ خیر اسی قسم کا ایک واقعہ گزشتہ سال بھی پاکستان کے مشرقی شہر جڑانوالہ میں رونما ہوا تھا، جس میں دو مسیحیوں پر توہین مذہب کا الزام عائد کرتے ہوئے مسلمانوں کے مشتعل ہجوم نے متعدد چرچوں اور مسیحیوں کے درجنوں گھروں کو نذر آتش کر دیا تھا۔ نہ تو اس حوالے سے کسی نے ریسرچ کی ہے کہ اس مشتعل ہجوم کا حل کیا ہے؟ اور نہ ہی اس بارے میں کسی نے سوچا ہے کہ اگر کہیں بے حرمتی یا توہین مذہب ہوتا ہے تو لوگ پولیس کو شکایت درج کیوں نہیں کرواتے، بلکہ خود ہی منصف اور خود ہی مدعی بن جاتے ہیں۔ اور پھر اگر لوگ قانون کو اپنے ہاتھ میں لے لیتے ہیں تو اس کے جواب میں کیا ہمارا قانون اتنا ہی کمزور ہے کہ وہ متحرک نہیں ہوتا اور پھر یہ کسی کو سزا بھی نہیں دے سکتا۔ بلکہ اس قانون کے حوالے سے آج تک کسی کو سزانہیں دی گئیں،،، الغرض یہاں کسی مجرم کو نشان عبرت نہیں بنایا جاتا۔ سانحہ سیالکوٹ دیکھ لیں، انصاف ہوتا اگر نظر آتا تو ہم بھی دیکھتے، پھر دنیا بھی دیکھتی اور کہتی کہ نہیں! یہاں واقعی انصاف کا بول بالا ہے۔ اگر سانحہ بادامی باغ میں ملوث افراد کو سزا ہوجاتی تو آج یہ دن دیکھنے نہ پڑتے۔ پھر حالیہ واقعہ میں شرپسندوں کے چہرے ویڈیو کلپس میں نظر آ رہے ہیں، جس طرح کور کمانڈر ہاﺅس کو جلانے والے مجرموں کو گرفتار کیاگیا اور ان کے خلاف آرمی ایکٹ یا عدالتوں میں کیس چلانے کیلئے ہوم ورک کیا جارہا ہے، اس جرم کے منصوبہ سازوں، مسجدوں سے اعلانات کرنے والوں، چرچز اور گھروں کو آگ لگانے، لوٹ مار کرنے والوں کو بھی ایسا سبق سکھانا چاہیے کہ مستقبل میں کسی اندرونی یا بیرونی پاکستان دشمن کو ایسا کرنے کی جرا¿ت نہ ہو۔ ہاں! ایک اور بات کہ ان واقعات کے بعد کیا کوئی جانتا ہے کہ ہمارے بیرون ملک پاکستانیوں کی زندگیوں پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں؟ میرے ذاتی تجربے کی روشنی میں بیرون ملک پاکستانی اس سے جتنا متاثر ہوتے ہیں اُس کا اندازہ بھی نہیں کیا جاسکتا۔ وہاں اُن پر جملے کسے جاتے ہیں کہ اپنے ملک میں تو آپ بہت بڑے شیر بنتے ہیں،،، یہاں کچھ کر کے دکھائیں۔ میں پھر یہی کہوں گا کہ اگر حالات یہی رہنے ہیں تو پھر ہم کس منہ سے مودی کی مسلم دشمن پالیسی کی مخالفت کر رہے ہیں،،، میرے خیال میں اس کے لیے بھی دہشت گردی کی ایک عدالت بننی چاہیے،،، اقلیتوں کے تحفظ کے لیے سپیشل کورٹس کا اہتمام کیا جانا چاہیے۔ تاکہ جو اقلیتیں تین ساڑھے تین فیصد رہ گئی ہیں،،، اُن پر رحم کھایا جائے،،، اُن کو بچایا جائے۔ اور اگر آپ ایسا نہیں کر سکتے تو پھر مہربانی فرما کہ پاکستانی پرچم میں سے سفید رنگ جو اقلیتوں کی نشاندہی کرتا ہے، اُسے نکال دینا چاہیے، اور اُس کی جگہ کالا رنگ یا لال رنگ شامل کرنا چاہیے جس کا مطلب کہ یہاں پر خطرات ہیں۔ لہٰذایہ ملک صرف مسلمانوں کا ہے۔۔۔ خیر انہی خطرات کو بھانپتے ہوئے قائداعظم ؒنے11 اگست 1947 کو پہلی دستور ساز اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ”آپ آزاد ہیں، آپ کا تعلق کسی بھی مذہب، ذات یا عقیدے سے ہو اس کا ریاستی امور سے کوئی تعلق نہیں ہے۔“ ایک اور موقع پر بانی پاکستان نے فرمایاتھا :”اقلیتوں کو بلاامتیاز ذات پات، رنگ، مذہب یا عقیدہ ہر لحاظ سے پاکستان کا شہری سمجھا جائے گااور انہیں ان کے تمام حقوق اور مراعات اور شہریت کے حقوق حاصل ہوں گے“۔ یہ تقاریر اُنہوں نے ایسے ہی نہیں کردی تھیں، بلکہ اُنہوں نے پاکستان بننے کے فوراََ بعد اقلیتوں کے ساتھ رکھے گئے ناروا سلوک کی نشاندہی کر دی تھی۔ پھر یہی نہیں بلکہ پاکستان جب سے بنا ہے، تب سے ایسی ہی صورتحال کا سامنا ہے، تبھی اقلیتیں یہاں سے ہجرت کرنے پر مجبور ہیں، نہیں یقین تو خود دیکھ لیں کہ جب پاکستان بنا اُس وقت یہاں غیر مسلم آبادی کا تناسب 23فیصد تھا، جو کم ہوتے ہوتے آج 3.5فیصد تک رہ گیا ہے۔ ہمیں پاکستان میں رہتے ہوئے شاید یہ بات زیادہ عجیب نہیں لگتی مگر دنیا ہمیں جس زاویے سے دیکھتی ہے وہ بہت خطرناک ہے۔ وہ ہمیں شدت پسند، انتہا پسند، دقیق نظریے کے حامل لوگ، تنگ نظر لوگ، معتصب افراد، کم ہمت و کم حوصلے والے افراد، بیزار لوگ اور ناجانے کن کن القابات سے پکارتے ہیں۔ اور پھر تب انتہا ہو جاتی ہے جب ہمارے ہاں سے کوئی ایسا واقعہ رونما ہو جاتا ہے کہ فلاں مذہب کے افراد کی پوری بستی کو آگ لگا دی گئی، فلاں غیر مسلم شخص کو جلا دیا گیا، فلاںخاتون کو مذہب کے فلاں مقدمے کے تحت گرفتار کر لیا گیا وغیرہ ۔ اور پھر ان افراد پر بغیر کسی سنجیدہ تفتیش کے عوامی دباﺅ کو مدنظر رکھ کر سخت سے سخت سزا کا اعلان کر دیا جاتا ہے۔ بہرکیف اگر کسی گلی محلے میں کسی نے نفرت پھیلانے کے لیے یا کسی سے ذاتی دشمنی نکالنے کے لیے کوئی سازش رچائی ہے تو ہم اُس کی تحقیق نہیں کرتے۔ حالانکہ قرآن پاک کی آیت مبارکہ کا مفہوم ہے کہ اے وہ لوگوں جو ایمان لائے ہو اگر کوئی فاسق آدمی تمہارے پاس کوئی خبر لائے تو تم اس کی اچھی طرح تحقیق کرلیا کرو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تم کوئی نقصان پہنچا بیٹھو کسی قوم کوبے علمی (ونادانی)کی بناءپر تو پھر اس کے نتیجے میں تمہیں خود اپنے کیے پر شرمندگی اٹھانی پڑے۔لہٰذااگر قرآن پاک میں درج ہے کہ ہمیں خبر پھیلنے سے پہلے تحقیق کر لینی چاہیے تو اس میں کوئی دو رائے نہیں ہونی چاہیے، اس پر عوام کو ایجوکیٹ کرنے کی ضرورت ہے، اُنہیں سینس اور کامن سینس کا مطلب سمجھانے کی ضرورت ہے، ہمارے فیصلہ کرنے والوں کو اگر فرصت ملے تو اس پر ضرور سوچیں ، بلکہ یہ بھی سوچیں کہ دنیا میں ہم ایسے واقعات سے جہاں بدنام ہو رہے ہیں،وہی اقلتیں بھی ہم سے متنفر ہو رہی ہیں۔ تبھی کوئی ہمارے ملک میں انویسٹمنٹ کرنے کو تیار نہیں ۔ کوئی معاشی ادارہ لوگوں کو ہمارے ملک میں آنے کی ترغیب نہیں دے رہا۔ جو ملٹی نیشنل کمپنیاں یہاں کا م کر رہی ہیں ۔ وہ بھی یہاں سے بھاگ رہی ہیں۔ لہٰذااقلیتوں کے حوالے سے ہم کشادہ ذہن کے ساتھ کام کرکے یہ داغ دھو سکتے ہیں۔